حضرت داؤد جان شہید اور ان کا خاندان

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جون 2006ء میں مکرم دا ؤد جان صاحب شہید کابل کے حالات واقعات اور ان کے اہل خانہ پر مصائب کا بیان اُن کے بیٹے محترم ابراہیم جان صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ اس بارہ میں ایک مختصر مضمون قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 5؍جون 1998ء کے اسی کالم میں شائع ہوچکا ہے۔
حضرت داؤد جان کاگاؤں ہاشم خیل تھا، والد کا نام میرا جان اور والدہ کا نام سید بانو تھا۔ بارھویں پاس کرنے کے کچھ عرصہ بعد آپ کی شادی بی بی حُورا سے ہو گئی جو آپ کے چچا خان جان کی بیٹی تھی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد آپ کی بیوی کی وفات ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے احمدیت قبول کر لی۔ اس پر آپ کا چچا (سابقہ سُسر) آپ کی جان کا دشمن بن گیا۔ آپ افغان فوج میں صوبیدار بھرتی ہوگئے اور جلسہ سالانہ ربوہ میں شرکت کے لئے رخصت لینے لگے۔ افسران بالا نے آپ کو اس سے روکنا چاہا تو آپ ملازمت کو خیر باد کہہ کر اپنے گاؤں ہاشم خیل میں ہی قیام پذیر ہو گئے۔ وہاں دعوت الی اللہ بھی شروع کردی۔ آپ سے اعتراضات کا جواب سن کر آپ کے دوسرے سسر محترم محمد شاہ صاحب نے احمدیت کی مخالفت ترک کر دی اور ایک سخت مخالف نذیراحمد نے احمدیت قبول کرلی۔ پھر آپ کی اہلیہ بھی احمدی ہوگئیں تو آپ کو خیال آیا کہ اپنی جائیداد فروخت کرکے پاکستان منتقل ہوجائیں جہاں ایک لڑکے کو جامعہ میں بھی داخل کروائیں۔ لیکن اسی دوران آپ کے سابقہ سسر خان جان کی شکایت پر افغان حکام نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی پاداش میں گرفتار کرلیا۔ جب آپ کو سرکاری اہلکار لے جانے لگے تو آپ نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ اس قوم نے جو سلوک محترم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کیا تھا میرا راستہ بھی وہی ہے ۔ تم سب دُعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ مجھے صداقت پر قائم رکھے اور ثبات قدم نصیب ہو۔
پھر آپ کو گورنر کے روبرو پیش کیا گیا جہاں علماء اور مشائخ بھی موجود تھے۔ گورنر کی اجازت سے اُن لوگوں نے آپ پر بے شمار اعتراضات کئے۔ آپ کے جواب سن کر قاضی صاحب نے خدا کو حاضر وناظر جان کر قرار دیا کہ داؤد جان کا عقیدہ بالکل درست ہے اور داؤد جان کا ایمان کامل ہے۔ اس پر مولوی صاحبان مشتعل ہوگئے۔ خان جان نے غصہ سے کہا کہ مجھے قاضی صاحب کا فیصلہ نامنظور ہے۔ میں داؤد جان کو واپس گاؤں لے جاؤں گا اور میں خود اسے ملک بدر کروں گا مگر گورنر نے آپ کو اُس کے حوالے نہیں کیا اور وقتی طور پر اس مشتعل ہجوم سے آپ کو بچانے کی خاطر جیل بھجو ا دیا۔ لیکن اُسی شام مولویوں نے ایک ہجوم کے ساتھ حوالات پر حملہ کیا اور سرکاری اہلکاروں کو زخمی کرکے آپ کو باہر نکال لیا۔ پھر وقفہ وقفہ سے تین بار آپ کو توبہ کرنے کو کہا لیکن آپ نے ہر بار یہی جواب دیا کہ میں نے صداقت حضرت مسیح موعودؑ کی پہچان کر لی ہے اور اس صداقت کے لئے اگر مجھے جان کی قربانی بھی دینا پڑی تو میں ہر قربانی کے لئے تیار ہوں۔ اس پر کچھ مولوی مشتعل ہو کر آگے بڑھے اور آپ کو ہاتھوں پیروں سے پکڑ کر تین چار بار اوندھے منہ زمین پر زور زور سے پٹخا مگر آپ کا پھر بھی وہی جواب رہا۔ اس پر پہلے تو مشتعل ہجوم نے پتھراؤ کیا اور پھر بعض نے بندوقیں داغ دیں اور آپ کو شہید کردیا۔
شہادت کے بعد آپ کی بیڑیاں اور ہتھکڑی کھولی گئی تو لوگوں نے دوبارہ سنگباری کی اور گولیاں داغیں اس پر بھی صبر نہ آیا تو بعض نے اُن کے جسم پر مٹی کا تیل چھڑک کرآگ لگا دی مگر خدا تعالیٰ کی شان کہ آپ کے جسم کو آگ نے نہیں چھوا۔ اس نشان کو دیکھ کر بھی عقل کے اندھوںنے فائدہ نہ اُٹھایا بلکہ الٹا یہ کہنا شروع کر دیا کہ داؤد جان کفر کی اس حد تک جا پہنچا تھا کہ اب آگ بھی اسے قبول نہیں کرتی۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ بعض لوگ ہمارے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے بھی تھے اُنہی میں سے ایک جا کر گاؤں سے چارپائی لے آیا اور مجمع میں موجود ہمدردوں میں سے ایک ہمارا ہمسایہ میرا گل نامی بھی تھا۔ سب میت کو قریباً ایک میل دُور گاؤں کے باہر تک لے آئے۔ پھر میرا گل نے میری والدہ صاحبہ کو اطلاع دی کہ آ کر اُن کا دیدار کرلیں۔ میری والدہ نے بتایا کہ اُن کے چہرہ کے سوا باقی تمام جسم زخموں سے چور تھا۔ دیدار کے ساتھ میری والدہ بے ہوش ہو گئیں اور اُنہیں گھر پہنچا دیا گیا۔ پھر آپ کو قبرستان میں دفن کرنے کے لئے لے گئے۔ لیکن خان جان نے مزاحمت کی جس کی وجہ سے آپ کو دفن کرنے کے لئے کچھ فاصلہ پر ایک اَور قبر کھودی گئی۔ خان جان نے پھر مزاحمت کی تو تیسری قبر قریباً آدھ میل دُور کھودی گئی اور خان جان کی مخالفت کے باوجود وہاں گاؤں والوں نے دفن کردیا۔
تدفین کے دوران ہی خان جان آپ کے گھر کا سارا سامان، تمام جانور، غلہ نقدی زیور برتن غرض سب کچھ اٹھاکر اپنے ہاں لے گیا۔ پھر گھرانہ کی بندربانٹ شروع ہوئی اور خان جان کے حصہ میں میرے والد کی آدھی زمین، بیوہ، بیٹی امینہ اور سب سے چھوٹا بیٹا گل جان آئے اور بقیہ آدھی زمین اور ہم دو بھائی خان جان کے بھتیجے نادر جان کے حصہ میں آئے۔ میری والدہ نے حاکم وقت سے فریاد کی کہ اُن کے خاوند کی جائیداد واپس دلوادی جائے تاکہ ہماری گزراوقات کا باعزت سامان ہوسکے لیکن حاکم نے جواب دیا کہ تمہارے خاوند نے اچھے گھرانے کا فرد ہوتے ہوئے احمدیت کو قبول کیا اور کفر اختیار کیا اور میری ناک کٹوائی اس لئے میں تمہاری مدد کرنے سے قاصر ہوں بلکہ جو کچھ بھی ہوا ہے یا ہو رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب میرے علم میں ہے اور میرے ہی کہنے پر ہوا ہے۔ اس پر آپ نے اُسے جواب دیا کہ اگر صداقت کو قبول کرنے سے تم لوگوں کی ناک کٹتی ہے تو سن لو کہ وہی صداقت میں نے بھی قبول کی ہوئی ہے۔
حضرت داؤد جان کی شہادت کے بعد بعض اہم لوگوں نے یہ اظہار کیا کہ انہوں نے آپ کو ایسی حالت میں خواب میں دیکھا ہے جس سے اظہار ہوتا تھا کہ آپ کو ناحق مارا گیا ہے۔ اسی طرح کچھ عرصہ بعد شدید زلزلہ آیا جس کے جھٹکے تین دن محسوس ہوتے رہے اور اس سے بہت سارے مکانات منہدم ہو گئے اور کئی لوگ مارے گئے۔ اُس وقت لوگوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم نے داؤد جان پر ظلم کیا ہے اس وجہ سے آج اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہیں۔
جب ہم خان جان کے گھر پر اُس کے اہل و عیال کی خدمت پر مامور تھے تو ایک روز اُس کی بیوی بابکہ نے پہاڑی سے لکڑیاں کاٹ کر لانے کے لئے ہمیں بھیجا، پھر زمین سے چارا لانے کے لئے بھیجا۔ جب میری والدہ واپس آئیں تو اُس نے اس بات پر اُنہیں مارنا شروع کیا کہ وہ کم چارا کیوں لائی ہیں۔ میری بہن کے شور مچانے پر دوسری عورتوں نے آکر اُنہیں بابکہ سے نجات دلائی۔ اپنی بے بسی اور بیکسی کو بیان کرنے کے لئے میری والدہ گاؤں میں اپنے ایک رشتہ دار شین گل کے گھر گئیں تو اُس نے بتایا کہ خان جان نے زامو نامی شخص کے ہاتھ تم ماں بیٹی کا سودا کر دیا ہے، اگر اپنی اور بچی کی عزت بچا سکتی ہو تو آج رات ہی یہاں سے چلی جاؤ۔ میری والدہ کے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ شین گل اور خان جان کے ایک داماد حاجی اقبال نے آپ کی مدد کرنے کی حامی بھری تو میری والدہ صاحبہ نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے وطن اور اپنی اولاد کو خیرباد کہنے کی ٹھان لی مگر ان کو اولاد کا غم کھائے جا رہا تھا۔ آخر وہ اللہ تعالیٰ کے آسرے پر اپنی محبوب ترین نرینہ اولاد کو افغانستان میں اپنے گاؤں کے درندہ نما انسانوں کے سپرد کر کے اپنے عزیز و اقارب ، اپنا سب مال و متاع، گھر بار چھوڑ کر نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئیں تا کہ اپنی اور اپنی بیٹی کی عزت بچا سکیں۔
شام ہونے کو تھی۔ دونوں ماں بیٹی ابھی ایک قریبی پہاڑی جنگل تک ہی گئی ہوں گی کہ انہیں گاؤںکی طرف سے بہت سے لوگ اپنی طرف آتے نظر آئے۔ اس پر انہوں نے درختوں کے پتوں میں میری بہن کو اور خود کو چھپا لیا۔ گاؤں کے لوگ ان کے قریب سے گزر گئے۔ میری والدہ اور میری بہن گاؤں کے لوگوں کی باتیں سن رہی تھیں۔ وہ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے بڑے جنگل میں وہ اکیلی نہیں آ سکتیں۔ وہ گاؤں کے قریب ہی کسی دوسرے گاؤں میںچھپ گئی ہوں گی یہی گفتگو کرتے ہوئے وہ واپس گاؤں کی طرف چلے گئے۔ وہ ساری رات دونوں وہیں چھپی رہیں اور اگلی صبح اذان سے قبل آگے چل پڑیں۔ راستہ میں ایک جگہ دریا آڑے آیا اور میری والدہ صاحبہ اللہ اکبر کہہ کر میری بہن کو کندھوں پر بٹھا کر دریا عبور کرنے کے لئے دریا میںداخل ہوگئیں۔ دریا میں طغیانی تھی اور عبور کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا مگر اپنی اور اپنی بیٹی کی عزت بچانے کے لئے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا پڑیں۔ پیدل سفر کرتے ہوئے راستہ میں دوسری رات بھی آ ئی۔ سردی کا موسم تھا، جسم پر لباس نامکمل اور ننگے پاؤں ہر تکلیف کا دونوں نے بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ سفر کے دوران ایک تیسری رات بھی آئی جو راستہ میں آنے والے ایک مزار پر گزاری۔ یہاں آپ نے خواب میں ایک وجیہہ صورت انسان کو سفید رنگ کی داڑھی اور سفید ہی پگڑی باندھے کھڑے دیکھا۔ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ بیٹی کہاں جارہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ بابا جی میری منزل کا ابھی تک کوئی علم نہیں۔ میں ایک غیرمعلوم منزل کی طرف جارہی ہوں ۔ اس پر اُس بزرگ نے کہا جہاں تم جا رہی ہو وہاں دونوں کو اللہ خیر و عافیت سے پہنچا دے گا، فکر کرنے او رگھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُس بزرگ نے مزید کہا کہ صبح یہاں مزار سے روانہ ہوتے وقت دو چادریں بھی ساتھ لے لینا تا کہ اُن چادروں میں تم اپنے آپ کو اور اپنی بیٹی کو چھپا سکو۔ اس کے بعد میری والدہ صاحبہ کی آنکھ کھل گئی۔ صبح سحری کے وقت مزار سے روانگی سے قبل میری والدہ صاحبہ نے مزار سے صرف ایک چادر اٹھالی اور اُسے میری بہن کے سر پر اس طریقہ سے باندھا کہ میری بہن لڑکی کی بجائے اُس پگڑی کی وجہ سے لڑکا نظر آئے اور اس کے بعد اس مزار سے مزید سفر کے لئے روانہ ہو گئیں۔ کچھ ہی دیر بعد پاک افغان سرحد آگئی اور دونوں وہاں پر ایک احمدی کے گھر تک پہنچ گئیں۔ ناشتہ کیا اور ایک دن اور ایک رات وہاں گزار کر پاراچنار میں ایک احمدی ڈاکٹر صاحب کے ہاں آگئیں۔ جنہوں نے ایک احمدی صوفی غلام محمد صاحب کے پاس ڈاک بنگلہ میں دونوں کے قیام کا انتظام کردیا۔ قریباً نو ماہ بعد جب صوفی صاحب ترقی پاکر بنوں آگئے تو دونوں اُن کے ساتھ ہی بنوں آگئیں۔ کچھ عرصہ بعد صوفی صاحب دونوں کو ربوہ لے آئے۔ جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؒ سے حضرت چھوٹی آپا کے ہاں ملاقات ہوئی۔ محترمہ چھوٹی آپا نے دونوں کو لجنہ بیرک میں رہائش دلوادی اور حضورؓ نے ماہانہ گزارہ کے لئے پانچ روپے فی کس ادا کرنے کا ارشاد فرمایا نیز لنگرخانہ حضرت مسیح موعودؑ سے دو وقت کا کھانا بھی مہیا فرمادیا۔ میری والدہ صاحبہ اور بہن اس تنگدستی کی حالت میں بھی اخلاص سے بھری ہوئی تھیں چنانچہ انہی ایام میں وہ وصیت کے نظام میں شامل ہو گئیں اور پانچ روپے امداد میں سے ہی چندہ وصیت ادا کرنا شروع کردیا۔ میری بہن کو سکول میں داخل کروادیا گیا اور اُس کی پڑھائی کا خرچ مکرم سید میر داؤد احمد صاحب نے اپنے ذمہ لے لیا۔
پھر میرے بڑے بھائی غازی جان افغانستان سے ربوہ آ گئے اور یہاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور گھڑیوں کی معمولی مرمت کا کام بھی شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا مکان بنانے کی توفیق بھی دیدی۔ میری بہن کی شادی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؓ نے کروادی اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ اٹلی میں مقیم ہے۔
جب میری والدہ صاحبہ اور بہن پاکستان چلے آئے تو اس کے بعد مجھ پر خان جان اور اُن کے گھر والوں نے اڑھائی سال کی عمر میں ہی ظلم کرنا شروع کردیئے۔ ہم بھائی دو گھروں میں بانٹے گئے تھے۔ جب تک میں افغانستان میں تھا میری اپنے بڑے بھائی غازی جان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی گل جان، خان جان کے گھر پر تھا اور ہم دونوں اُس کے زرخرید غلاموں کی طرح تھے۔ وہ ہم سے جو چاہتے جب چاہتے، جہاں چاہتے کام کرواتے مثلاً لکڑیاں لانا، مویشیوں کے لئے چارہ لانا، مویشی چرانا، مویشیوں کا گوبر اٹھانا اور کھیتوں تک لے کر جانا، کھیتوں کو پانی لگانا۔ الغرض ہم دونوں اُن کا حکم بجا لاتے اور معمولی سی غفلت پر ہم دونوں پر بہت سخت ظلم کیا جاتا، مارا جاتا، بھوکا رکھا جاتا اور اگلے روز دگنا کام لیا جاتا۔ ان تمام مشکلات سے تنگ آکر میرے چھوٹے بھائی گل جان نے گھر سے راہ فرار اختیار کی یعنی وہ گھر سے بھاگ گیا اور پھر تقریباً ایک ماہ بعد واپس آ گیا ۔
ایک روز بابکہ نے ہم دونوں کو چوزوں کی نگرانی کے لئے گھر سے باہر بٹھایا ہوا تھا کہ اس دوران ایک کوا ایک چوزے کو اُچک کر لے گیا۔ اس پر بابکہ سخت ناراض ہوئی اور ہم دونوں کو سخت مارا۔ اس ناروا ظلم سے تنگ آ کر ہم دونوں بھائی گھر سے بھاگ نکلے اور پانچ میل دُور ایک گاؤں چریان کی مسجد میں چلے گئے۔ وہاں سے ایک ٹرک میں پاراچنار آنے کے لئے ہم ٹرک کے اگلے چھجے پر سوار ہو گئے اور خود کو ٹرک کی ترپال میں چھپا لیا۔ ابھی وہ ٹرک وہیں کھڑا تھا کہ خان جان کا بیٹا رفیق وہاں آ نکلا۔ چونکہ ہم دونوں بچے ہی تھے رفیق کو دیکھ کر میرے چھوٹے بھائی گل جان نے باوجود میرے منع کرنے کے سر نکال کر رفیق کو آواز لگائی۔ رفیق نے جب ہمیں دیکھا تو ٹرک سے نیچے اتار لیا اور واپس گھر بھجوا دیا جہاں بابکہ ہاتھ میں کلہاڑی لئے ہمارا استقبال کررہی تھی۔ اس نے مجھ پر کلہاڑی سے وار کیا لیکن وار ضائع گیا۔ ایک بار پھر ظلموں کا آغاز زیادہ شدت کے ساتھ ہوا۔ اس دوران ایک بار پھر گل جان گھر سے فرار ہو گیا۔ یعنی گھر سے بھاگ جانے کا اُس کا تیسرا واقعہ تھا۔
ایک دن خان جان فوت ہو گیا۔ اس کی موت بھی بڑی عبرتناک موت تھی۔ بالکل پاگل ہو چکا تھا دیواروں سے ٹکریں مار مار کر وہ اپنے آخری ایام کو پہنچا۔ اُس کی موت کے بعد بابکہ نے مجھے کہا میں تمہیں ہلاک کرکے جانوروں والے کمرے میں دفن کر دوں گی۔ ایک دن اُس نے مٹی کے برتن میں دہی اور روٹی کے ٹکڑے ملا کر مجھے دیئے اور اس میں زہر ملا دیا۔ میں نے روٹی کھا لی تو بابکہ نے مجھے کہا کہ اب جا کر جانوروں کے کمرہ کی صفائی کرو۔ میں ابھی دس سیڑھیاں نیچے اترا ہوں گا کہ میرے پیٹ میں سخت درد اٹھا۔ بابکہ نے مجھے کچھ دوائی دے کر کمرے میں لیٹ جانے کو کہا۔ کچھ دیر بعد میں بے ہوش ہوچکا تھا۔ میری بے ہوشی میں بابکہ نے اذیت دے دے کر مجھے جسمانی طور پر معذور کردیا جس کی تفصیل بعد میں ایک شخص نے بتائی۔
پھر خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا میں اپنے بعض عزیزوں کی کوشش سے کسی طرح پاکستان پہنچ گیا اور اپنے گھر والوں کے پاس آ گیا۔ جسمانی معذوری کے باعث میرا دھڑ صرف ڈیڑھ فٹ کا رہ گیا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ مَیں پورے طور پر معذور ہونے سے بچ گیا ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں