حضرت خواجہ غلام فرید ؒ چاچڑاں شریف

حضرت خواجہ غلام فرید صاحب ؒ قریشی النسل اور حضرت عمرؓ بن خطاب کی اولاد میں سے تھے۔ آپؒ کے جدامجد (یحییٰ بن مالک) عرب سے ہجرت کرکے سندھ آئے تھے اور اُن کے بیٹے منصور کو سندھ میں موجود عربوں نے اپنا سردار بنالیا۔ ان کی اولاد اگرچہ حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہی لیکن انہوں نے روحانیت سے بھی بہت شغف رکھا، کئی بادشاہ ان کے ارادتمندوں میں شامل تھے۔
حضرت خواجہ غلام فرید صاحبؓ کے والد حضرت خواجہ خدا بخش صاحب کے ہاں پہلے بیٹے خواجہ غلام فخرالدین صاحب کے بعد بہت عرصہ کوئی اولاد نہیں ہوئی تو دعائے خاص کے نتیجہ میں 1846ء میں چاچڑاں شریف میں اُن کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت خواجہ فریدالدین صاحب گنج شکر کی مناسبت سے ’’غلام فرید‘‘ رکھا گیا۔ ابھی بچہ صرف چار سال کا تھا کہ والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ 9 سال کا ہوا تو والدہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ماموں جناب میاں غلام محمد صاحب نے آپکی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھایا۔ بڑے بھائی خواجہ غلام فخرالدین صاحب جو اپنے والد کی وفات کے بعد اُن کی مسند خلافت پر بیٹھے تھے بھی آپکی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
13 سال کی عمر میں حضرت غلام فریدؒ نے اپنے بھائی خواجہ غلام فخرالدین سے تعلق ارادت باندھا اور اس میں دن رات بڑھتے چلے گئے۔ آپؒ نے قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد درس نظامی مکمل کیا۔ تفسیر، حدیث اور فقہ کا باقاعدہ علم حاصل کیا اور متعدد علمی کتب کا مطالعہ کیا۔ کئی دیگر علوم (جغرافیہ، اسماء الرجال، علم الانساب وغیرہ) میں بھی شغف رکھتے تھے۔ قادرالکلام شاعر تھے، علم موسیقی کے رازوں سے واقف تھے اور تحصیل علم کے معاملہ میں تعصبات سے آزاد تھے۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی اور سندھی زبانیں سیکھی تھیں، انگریزی اور رومن سیکھنے کی بھی کوشش کی تھی۔
بڑے بھائی کی وفات پر آپؒ 28 سال کی عمر میں مسند ارشاد پر متمکن ہوئے۔ نواب محمد صادق خان رابع نے چاچڑاں پہنچ کر آپؒ کی دستار بندی کی اور خلعت فاخرہ پیش کی۔ خود بھی بیعت کے طلبگار ہوئے اور ایک گرانقدر جاگیر چاچڑاں شریف کی خانقاہ کے لئے وقف کی۔
32 سال کی عمر میں آپؒ نے حج بیت اللہ کا عزم کیا۔ معتقدین اور مریدین کی ایک بڑی جماعت ساتھ تھی جن کے تمام اخراجات آپؒ نے برداشت کئے۔ راستہ میں کئی مقامات مقدسہ اور مزارات کی زیارت کی اور علماء و صوفیاء سے ملاقات کی۔ نیز کثرت سے خیرات بھی تقسیم کی۔
آپؒ نے مجاہدہ نفس کی خاطر روہیؔ ریگستان میں اٹھارہ سال یکسوئی کے ساتھ کامل عبادت میں صرف کئے۔
آپؒ کا سارا کلام آمد ہے۔ فی البدیہہ کافیاں فرمایا کرتے تھے۔ سرائیکی زبان میں خاتم الشعراء سمجھے جاتے ہیں۔ آپؒ کا کلام عشق و محبت، سوز و گداز کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ آپؒ نے ملتانی زبان میں کافیاں لکھنے کے علاوہ سندھی، ہندی، سنسکرت، اردو اور فارسی میں بھی کلام کہا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ آپؒ بہت اخلاص و محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ 27؍جولائی 1896ء کو پادری عبداللہ آتھم کی وفات کے بعد حضورؑ نے 58 مولوی صاحبان اور 46 سجادہ نشینوں کو بذریعہ رجسٹری دعوت مباہلہ دی اور انہیں اپنا ایک عربی رسالہ بھی بھجوایا۔ حضرت خواجہ غلام فرید صاحبؒ کا نام سجادہ نشینوں میں تیسرے نمبر پر درج ہے۔ آپؒ نے جواباً عربی زبان میں ایک عریضہ تحریر کیا جس میں لکھا:
’’اے ہر یک حبیب سے عزیز! تجھے معلوم ہو کہ مَیں ابتدا سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا۔ اور اب مَیں مطلع کرتا ہوں کہ مَیں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ تُو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عنداللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے۔ میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور مَیں آپ کے لئے انجام خیروخوبی کی دعا کرتا ہوں‘‘۔
اس کے علاوہ بھی دو خطوط آپؒ نے لکھے۔ جب یہ خط حضورؑ نے طبع فرمائے تو مولوی محمد حسین بٹالوی خود حضرت خواجہ صاحبؒ کے پاس گئے اور کفر کے فتویٰ پر دستخط کرنے کو کہا لیکن آپؒ نے انکار کردیا اور بتایا کہ مولوی عبدالجار غزنوی اور مولوی عبدالحق غزنوی نے بھی مجھے خطوط لکھے ہیں کہ مَیں نے مرزا صاحب قادیانی کو کیوں من عبادہ الصالحین لکھا ہے۔ مَیں نے اس کے جواب میں لکھا کہ مَیں مرزا صاحب کو عبادالصالحین میں سے قرار دیتا ہوں۔
حضورؑ نے آپؒ کے نام جواب لکھتے ہوئے آپؒ کو الشیخ الکریم السعید حبّی فی اللہ غلام فرید کے الفاظ سے یاد فرمایا ہے۔
اپنے ایک خط میں آپؒ نے حضورؑ کے بارہ میں علماء کرام کے بدظنی کرنے میں جلدی کو ناپسند کرتے ہوئے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ بھجوانے کا مطالبہ کیا۔ آپؒ نے حضورؑ کی صداقت کے لئے ظہور میں آنے والے نشانات کی تصدیق بھی فرمائی۔
حضور علیہ السلام نے بھی حضرت غلام فرید صاحبؓ کی کئی جگہ تعریف فرمائی ہے اور لکھا :’’میاں غلام فرید چاچڑاں شریف والوں نے پرہیز گاری کا نور دکھلایا۔ … اب جب تک یہ تحریریں دنیا میں رہیں گی میاں صاحب موصوف کا ذکر باخیر بھی اس کے ساتھ دنیا میں کیا جائے گا…‘‘
حضورؑ نے آپؒ کے بارہ میں فارسی اشعار میں یوں فرمایا: ’’اے صدق و وفا میں اس زمانہ کے فرید! تیرے ساتھ وہ ذات ہو جس کا نام خدا ہے۔ تجھ پر اس یار قدیم کی رحمتوں کی بارش ہو اور تجھ میںاس محبوب ازلی کا نُور چمکتا رہے‘‘۔
حضرت خواجہ صاحبؒ کے بارہ میں یہ مضمون ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جولائی 2002ء میں مکرم جمال الدین شمس صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں