حضرت خواجہ حسن بصریؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍نومبر 2006ء میں حضرت خواجہ حسن بصریؒ کے بارہ میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس حوالہ سے ایک مضمون قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 3؍مارچ 2006ء کے اسی کالم کی زینت بن چکا ہے۔
حضرت حسن بصریؓ ایک نامور صوفی، تابعی، مستجاب الدعوات، صاحب کرامت اور ظاہری و باطنی علوم میں یگانہ روزگار بزرگ تھے۔ آپ کے کلام میں بے حد تاثیر و قبولیت تھی۔ چنانچہ ہزارہا افراد نے آپ کی مجلس سے ہدایت پائی۔
آپ کی کنیت ابو سعید ابو محمد اور ابی بصر ہے۔ آپ کے والد موسیٰ راعی حضرت زیدؓ بن ثابت انصاری کے آزاد کردہ غلام تھے اور والدہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی لونڈی تھیں۔ جب آپ پیدا ہوئے تو حضرت عمرؓ کی خدمت میں لائے گئے جنہوں نے آپؒ کا نام حسن رکھا۔
ابتداء میں آپ جواہرات کی تجارت کرتے تھے اور حسن لولوئی کے نام سے مشہور تھے۔ جب عشق الٰہی کا غلبہ ہوا تو آپ نے سارا مال و اسباب راہ خدا میں لٹا دیا اور دنیا سے کنارہ کش ہوکر عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ آپؒ سنت نبویﷺ کے بہت پابند تھے۔
حضرت علی مرتضیٰؓ جب بصرہ تشریف لائے تو آپؓ نے تمام واعظین اور ذاکرین کو منع کردیا مگر حضرت حسن بصریؒ کا منبر باقی رہنے دیا۔ آپؒ نے 89 سال کی عمر میں 110 ہجری میں وفات پائی۔ مزار مبارک بصرہ میں ہے۔
حضرت حسن بصریؒ کا معمول تھا کہ ہفتے میں ایک بار مجمع عام میں وعظ فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مالک بن دینارؓ کے پوچھنے پر فرمایا کہ لوگوں کی خرابی دل کے مرنے میں ہے یعنی دنیا کی محبت میں۔ حضرت جبیرؓ کو یہ نصیحت فرمائی کہ بادشاہوں کی بساط پر قدم نہ رکھنا اگرچہ وہ شفقت کریں اور کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھنا خواہ تُو اُسے کتاب اللہ کی تعلیم دیتا ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ امام حسن بصری کے اجداد عیسائی تھے۔ آپؒ بدظنّی کے مرض کا علاج یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دریائے دجلہ کے کنارے پر ایک نوجوان کو ایک بڑی حسین عورت کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ اُن کے درمیان شراب کا مشکیزہ پڑا تھا اور وہ اُسے پی رہے تھے۔ بعض وقت وہ عورت اس نوجوان کو چوم بھی لیتی۔ میں نے کہا کہ یہ لوگ کیسے بدکار ہیں جو سرمیدان بدذاتی کررہے ہیں۔ اتنے میں ایک کشتی ڈوب گئی تو عورت کے اشارہ کرنے پر وہ نوجوان کودا اور چھ آدمیوں کو باہر نکال لایا۔ پھر آواز دی کہ اوحسن! تُو بھی ایک کو تو نکال۔ نادان! یہ تو میری ماں ہے اور مشکیزہ میں دریا کا پانی ہے۔ ہم تو تیری آزمائش کو یہاں بیٹھے ہیں کہ دیکھیں تم میں سوء ظنی کا مرض گیا ہے یا نہیں؟۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں اس دن میں ایسا شرمندہ ہوا کہ کبھی سوء ظن نہیں کیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل نے ایک بار فرمایا کہ کہتے ہیں امام حسن بصریؒ اور حبیب عجمیؒ ایک دفعہ سیر کو نکلے۔ راستہ میں دریا آگیا۔ حبیبؒ نے کہا چلو۔ حسنؒ نے جواب دیا ٹھہرو، کشتی آلے۔ اس پر حبیبؒ نے کہا حسن! ابھی تک تم مشرک ہی ہو۔ یہ کہہ کر وہ تو چلتے ہوئے (اس زمانے کے نیچری تو نہیں مانتے مگر میں مانتا ہوں کہ وہ) کنارے پہنچ گئے۔ حسنؒ کشتی میں سوار ہوکر دیر کے بعد پہنچے تو حبیبؒ بولے کہ تمہیں کشتی لائی اور مجھے خدا لایا۔ حسنؒ نے فرمایا: دونوں کو خدا ہی لایا۔ کشتی کو خداتعالیٰ چاہتا تو غرق کردیتا، تُو نے صرف اپنا بچاؤ ڈھونڈا مگر میرے ساتھ کئی اَور آدمی بھی آئے۔ بڑا ایمان ناقص ہے۔ تُو خدا کی صفت ستاری کا عالم نہیں۔
حضرت حسن بصریؒ کا ہمسایہ شمعون ایک آتش پرست تھا۔ وہ قریب المرگ ہوا تو آپؒ کی تبلیغ کی وجہ سے اِس شرط پر مسلمان ہوا کہ آپؒ اُسے جنت کا پروانہ لکھ دیں اور اُس پر اپنے اور اپنے بزرگان بصرہ کے دستخط ثبت کرکے قبر میں اتارتے ہوئے شمعون کے ہاتھ میں دیدیں۔ چنانچہ حسنؒ نے ایسا ہی کیا مگر بعد میں خیال آیا کہ میں نے جنت کا پروانہ کیونکر لکھ دیا۔ آپؒ اِسی خیال میں سوگئے اور شمعون کو دیکھا کہ تاج سر پر اور مکلف لباس بدن میں پہنے ہوئے بہشت کے باغوں میں ٹہل رہا ہے۔ اس نے کہا حق تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اپنے محل میں اتارا ہے اور اپنے کرم سے اپنا دیدار دکھایا، اب آپ کے ذمہ کچھ بوجھ نہیں رہا اور آپ سبکدوش ہوگئے۔ لیجئے یہ اپنا قرار نامہ۔ کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں۔ جب حضرت حسنؒ خواب سے بیدار ہوئے تو خط آپ کے ہاتھ میں تھا۔(تذکرۃالاولیاء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں