حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا شوقِ نماز

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2 جون 2010ء میں مکرم محمد افضل متین صاحب کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے شوقِ نماز کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

ایک خطبہ میں حضورؒ نے خود بیان فرمایا کہ مجھے وہ لمحہ بڑا پیارا لگتا ہے کہ ایک مرتبہ لندن میں نئے سال کے وقت جب سارے لوگ دنیا جہان کی بے حیائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں ، اس وقت اتفاق سے وہ رات مجھے بوسٹن سٹیشن پر آئی۔ جیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے کہ اُس رات کے بارہ بجے نفل پڑھتے ہیں تو مجھے یہ خیال آیا اور میں بھی وہاں اخبار کے کاغذ بچھاکر دو نفل پڑھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا ہے اور مجھے سسکیوں کی آواز آئی۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا انگریز ہے جو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا ہے۔ میں گھبرا گیا۔ میں نے کہا پتہ نہیں یہ سمجھا ہے کہ میں پاگل ہو گیا ہوں اس لئے بیچارہ میری ہمدردی میں رو رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا۔ میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے، ساری قوم اس وقت نئے سا ل کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے ربّ کو یاد کر رہا ہے اس موازنہ نے میرے دل پر اس قدر اثر کیا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکا۔ چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا God bless you, God bless you,۔
محترم سید محمود احمد شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں: حضورؒ نے کبھی یہ سوچ کر مسجد میں جانے کا ارادہ ترک نہیں فرمایا کہ اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے جائیں گے تو نماز باجماعت نہیں ملے گی۔ آپؒ فرماتے تھے کہ کچھ حصہ تو ملے گا چاہے ایک رکعت یا ایک سجدہ ہی سہی، اصل اجر تو نیت کا ہے۔ اور حضورؒجب ربوہ سے باہر کے کئی روزہ دورہ سے واپس آتے تو پہلا سوال ہی یہ ہوتا کہ آجکل مسجد مبارک میں نمازوں کے اوقات کیا ہیں اور یہ احتیاط اور تحقیق اس لئے ہوتی کہ نماز باجماعت سے محروم نہ رہ جائیں۔
محترم پیر افتخارالدین صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام آباد کے ایک احمدی رانارفیق احمد صاحب اپنے ایک دوست کو مجلس عرفان میںلے کر آئے جنہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ نمازیں تو مَیں پہلے سے پڑھتا ہوں لیکن جو آج آپ کے خلیفہ صاحب کے پیچھے پڑھی ہے اس کے دوران تو مجھے یہ محسوس ہوتا رہا جیسے میں فضا میں اوپر اوپر اٹھتا جا رہا ہوں اور خدا سے میرا تعلق قائم ہو گیا ہے۔ ایک سرور تھا جس میں میرا سارا وجود ڈوبا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
حضورؒ کی ہمشیرہ صاحبزادی محترمہ امۃالباسط صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضورؒ کو نمازوں کا بچپن ہی سے بیحد شو ق تھا۔ ہمیشہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار جب دیر ہو جاتی اور مسجد میں نماز ہو چکی ہوتی تو میرے گھر آ جاتے اور سب کو اکٹھا کرکے باجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔

مکرم میجر محمود احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضورؒ کی ہدایت تھی کہ سفر میں جائے نماز ساتھ رکھا کریں چنانچہ ہم ایک بڑی جائے نماز ساتھ رکھ لیتے اور جہاں کہیں بھی نماز کا وقت ہوتا وہیں نماز پڑھ لیتے۔ سفر میں نمازیں اکثر جمع ہوتیں اور حضور عموماً اوّل وقت میں نماز جمع کرنے کی کوشش کرتے۔ پٹرول پمپ پر،سروس اسٹیشن پر، سڑک پر، جہاں بھی نماز کا وقت ہوا نماز باجماعت پڑھی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے ایک دفعہ باقاعدہ حساب لگا کر دیکھا تھا کہ گزشتہ تینوں خلفاء سے زیادہ باجماعت نمازیں مَیں نے پڑھائی ہیں اور یہ حسابی بات ہے اس میںکوئی شک کی بات نہیں۔ انتہائی بیماری کے وقت بھی بعض دفعہ نزلہ سے آواز نہیں آ رہی ہوتی تھی مگر نماز باجماعت کی مجھے اتنی عادت بچپن سے تھی اور اس ذمہ داری کے بعد تو بہت زیادہ بڑھ گئی‘‘۔
محترم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب لکھتے ہیں کہ حضورؒ ہسپتا ل میں بار بار یہی فرماتے تھے کہ میں کتنی دیر میں ہسپتال سے واپس جاؤں گا اور جب مسجد جاکر نمازیں پڑھا سکوں گا۔ بیماری میں کمزوری بھی تھی اور اس عمل کے بعد آرام ضروری تھا۔ لیکن آپؒ کی خواہش یہی تھی کہ آپ جلد سے جلد واپس جائیں اور نمازوں کی امامت کروائیں۔
حضورؒ کی صاحبزادی محترمہ فائزہ صاحبہ لکھتی ہیں: نماز تو خیراُن کی روح کی غذا تھی ہی، کسی اَور کو بھی نماز پڑھتے دیکھ لیتے تو چہرہ خوشی سے چمکنے لگتا۔ا سی وجہ سے بچپن میں ہی یہ احساس ہم میں پیدا ہو گیا تھا کہ اگر ہم نماز پڑھ لیں تو باقی بچپن کی نادانیاں اور شرارتیں قابل معافی ہیں۔ باہر سے آکر پہلا سوال یہی کرتے کیا نماز پڑھ لی؟ اگر جواب ہاں میں ہوتا تو وہ دن ہمارا ہوتا … ابا کا پیار ہمارے لئے چمکنے لگتا۔ میری شادی ہونے تک صبح کی نماز کے لئے آپ نے ہمیشہ خود مجھے اٹھایا۔ بعض دفعہ نیند کا غلبہ ہوتا اور دوبارہ سو جاتی تو حضورؒ پھر آتے اور دوبارہ اسی پیار اور نرمی سے اٹھاتے یہاںتک کہ ہم اٹھ کر نماز ادا کر لیتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں