حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ذکر خیر

ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ اگست 2008ء میں ’’ایک مردِ حق کی چند یادیں‘‘ کے عنوان سے مکرم سید ساجد احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ میں ضلع گجرات کی مجلس خدام الاحمدیہ کا معتمد تھا کہ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ مجلس کے صدر کے عہدہ فائز ہوئے۔ آپ نے رپورٹوں کے انداز میں یہ نمایاں تبدیلی فرمائی کہ دنوں، ہفتوں، مہینوں کی کارکردگی کی تفصیلات سے صفحے بھرنے کی بجائے عملی نتائج کو اختصار سے پیش کیا جائے۔ یہ لکھنے کی بجائے کہ دعوت الی اللہ کے لئے اتنے میل سفر کیا اور اتنے پمفلٹ تقسیم کئے، بس صرف یہ لکھا جائے کہ کتنی سعید روحوں کو قبول حق کی توفیق ملی۔ اس تبدیلی سے کارکنوں کی توجہ نتائج کی طرف مبذول ہوئی اور آہستہ آہستہ جیسے جیسے یہ مطمح نظر کارکنوں کے دل و دماغ میں بیٹھتا گیا، دنیا بھر میں بیعتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور آپ کے دور خلافت میں ایک سال میں احمدیت کو قبول کرنے والوں کی تعداد لاکھوں افراد فی سال سے بڑھتے بڑھتے کروڑوں افراد فی سال تک جا پہنچی۔
آپؒ نے ہومیوپیتھی کا فیض ساری دنیا میں جاری فرمایا۔ چنانچہ ہم بھی کئی عام بیماریوں کا مقابلہ معمولی قیمت کی ادویہ سے کر رہے ہیں۔ ایک بار ایک ڈاکٹر نے مجھے ناک کے ایک آپریشن کا اندازہ ہزاروں امریکی ڈالر کا بتایا تو میں نے حضورؒ کے لیکچروں اور کتاب سے راہنمائی لے کر ایک دوا شروع کی اور دعا کی۔ جب کچھ عرصہ بعد اسی ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو بہت حیران ہوا کہ سب Polyps مفقود ہو چکے تھے۔ اُسے دوا کی قیمت سن کر مزید حیرت ہوئی۔
حضورؒ اپنے خلیفہ بننے سے پہلے امریکہ تشریف لائے۔ آپؒ کے سان فرانسسکو میں قیام کے دوران مجھے آپؒ کو اپنی کار میں مختلف مقامات پر لے جانے کا موقع میسر آیا۔ میں تھوڑا عرصہ پہلے ہی افریقہ سے آیا تھا۔ ایک روز مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے اور بتایا کہ انہیں ایسی باتوں کے جاننے کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں کبھی کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تحریک جدید کے کام بھی دیدیتے ہیں۔
آپ کی چند روزہ معیت میں جو ایک اہم بات میں نے آپ سے سیکھی وہ یہ تھی کہ آپ سفر و حضر میں نماز کو دوسرے کاموں پر ترجیح کا یہ طریق کار اختیار نہ فرماتے کہ پہلے جلدی سے نماز پڑھ لی اور پھر دوسرے کاموں کی طرف آرام سے توجہ کی۔ بلکہ پہلے اُن کاموں سے فارغ ہو لیتے جو نماز کو پوری توجہ دینے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہوں اور پھر ذہن کو آزاد کر کے پوری لگن اور محویت کے ساتھ حضرت احدیت میں پیش ہوتے اور آپ کو نماز میں دیکھنے والے کو بھی آپؒ کی اپنے پیارے خدا سے محبت کا لطف محسوس ہوتا۔
ابھی آپ خلیفہ کے منصب پر سرفراز نہیں ہوئے تھے کہ میرا ربوہ جانا ہوا۔ آپؒ سے وقف جدید کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو آپ نے جن معاملات پر گفتگو فرمائی، اُن میں یہ بھی تھا کہ ایران میں پیغام حق پہنچانے کے لئے کیا ذرائع مفید ہو سکتے ہیں۔ آڈیو کیسٹس سے تعلیم و تربیت کا ذریعہ بھی آپؒ کے پیش نظر تھا۔ احمدی دوستوں کی فلاح و بہبود کا بھی بہت خیال تھا، چنانچہ اس ملاقات میں آپؒ نے اس بات کو بھی چھیڑا کہ بیرونی ملکوں کی گھریلو اور صنعتی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملکی احمدیوں کو ایسا علم کیسے مہیا کیا جا سکتا ہے کہ وہ کم از کم سرمایہ لگا کر، ایسی مصنوعات تیار کرسکیں جو انہیں معاشی اور اقتصادی لحاظ سے استحکام اور استقلال بخشیں۔ چنانچہ اسی وقت ہم نے ایسی چیزوں کی ایک فہرست بھی بنانا شروع کی اور امریکہ واپس آکر بھی معلومات کا آپس میں تبادلہ ہوتا رہا۔
میں نے ایک خط میں بوسنین مہاجرین سے رابطے کا ذکر کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے نامہ ملا: ’’ان لوگوں سے رابطے بڑھائیں اور تعلق قائم کریں لیکن ان کو کھل کر بتا دیں کہ ہم کون لوگ ہیں اور دوسرے ہمارے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں اور جھوٹے پراپیگنڈے کرتے ہیں‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں