حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا دورۂ انڈونیشیا

جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’سیدنا طاہرؒ سووینئر‘‘ میں مکرم بشیر احمد صاحب کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے تاریخی دورۂ انڈونیشیا کا حال رقم ہے جو کہ کسی بڑے مسلمان ملک کا کسی خلیفہ وقت کا پہلا دورہ تھا۔
مؤرخہ 19 جون 2000ء کو حضور انوررحمہ اللہ مع قافلہ براستہ ہالینڈ، انڈونیشیا کے لئے روانہ ہوئے ۔ ہالینڈ سے تقریباً بارہ گھنٹے کی مسلسل فلائٹ کے بعدجہاز سنگا پور پہنچا۔ وہاں ایک گھنٹہ کا stay تھا۔ پھر سوا گھنٹہ کی فلائٹ کے بعد جہاز انڈونیشیا میں اترا۔ جہاز کے دروازہ پر مکرم امیر صاحب انڈونیشیا و دیگر سرکردہ احباب نے حضور ؒ کا استقبال کیا۔ حضورؒ کو VIPگاڑیوں میںVIP لاؤنج میں لے جایا گیاجہاںپروفیسر دوام صاحب نے حضور انور کا استقبال کیا۔ انہوں نے ہی لندن آکر حضور انور کو انڈونیشیا آنے کی دعوت دی تھی جو حضورؒ نے قبول فرمائی۔

ایئرپورٹ سے باہر ہزاروں احمدی مردوزن موجود تھے۔ حضورؒ کا قافلہ پولیس کاروں کی Escortمیں حضور کی قیام گاہ تک پہنچا۔ حضور ؒ کا قیام برادرم قیوم صاحب کے ہاں تھا۔ جماعت نے ہوٹل میں قیام کی تجویز دی تھی لیکن حضورؒ نے پسند نہ فرمایا کہ اِس طرح جماعت پر مالی بوجھ پڑتا ہے۔حضور ؒ میں مَیں نے یہ بات دیکھی ہے کہ و ہ شان وشوکت کی بجائے سادگی پسند کرتے اوربے جا اخراجات سے ہمیشہ پرہیز کرتے تھے۔ چنانچہ اگر کسی ملک میں جماعتی رہائش ممکن نہ ہو تو Huts وغیرہ میں رہنا پسند کرتے تھے نہ کہLuxry ہوٹل میں۔
21؍جون کی صبح حضور ؒپارلیمنٹ ہاؤس تشریف لے گئے جہاں چیئرمین نیشنل اسمبلی جناب امین الرئیس صاحب سے ملاقات کی جو 35 منٹ جاری رہی۔ اس ملاقات کی خبر نیشنل اخبار اور نیشنل TV نے بھی دی۔ پارلیمنٹ ہاؤس سے حضورؒ انڈونیشیا کی جماعت کے مرکز Parung تشر یف لے گئے جو جکارتہ سے 50 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ یہاں مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگ میں حضورؒ نے فرمایا کہ جماعت انڈونیشیا کے لمبے صبر ، حوصلہ اور دعاؤں کے بعد آج خلیفۃ المسیح آپ میں موجود ہے۔ نیز فرمایا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انشاء ﷲ نئی صدی کے اختتام سے قبل انڈونیشیا سب سے بڑا احمدی مسلم ملک ہوگا۔
22؍جون کو حضورؒ یوگ یکارتہ تشریف لے گئے جو یونیورسٹیوں کا شہر کہلاتا ہے۔ یہاں 900 سے زائد احباب نے بیعت کی توفیق پائی جن میں ایک صوبائی ممبر پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔وہ اپنے ساتھ 220آدمی لائے تھے۔ 24جون کوحضور ؒ نے ایک یونیورسٹی میں خطاب فرمایا جس کے بعد مجلس سوال و جواب ہو ئی۔

25جون کو حضورؒ بذریعہ ٹرین Manislor اورCeribon کیلئے روانہ ہوئے۔ ٹرین کی رفتار زیادہ نہ تھی ۔ پہاڑی علاقہ ، دلکش مناظر، حسین وادیاں ، پھلدار درخت۔ حضور اس کی تعریف کرتے کہ انڈونیشین لوگ کھیتی باڑی کرتے عام نظر آتے تھے اور انہوں نے ذرا سی زمین بھی خالی نہیں چھوڑی ہوئی تھی۔ پہاڑی علاقہ میں ایک دوفٹ جگہ ملی تو وہاں پر بھی کاشتکاری کی ہوئی تھی۔ زیادہ تر چاول ہی ہے۔ پانی مختلف مقامات سے لے کر آتے ہیں ،ٹیوب ویل سسٹم نہیں ہے، بس قدرتی پہاڑوں سے نکلتا ہے اور وہ ایک کیاری سے دوسری کیاری اور اسی طرح گزرتے ہوئے آگے چلتا رہتا ہے۔ جہاں فصل میں فاصلہ آتا ہے وہاں مٹی میں کدو کرکے چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ڈال دی جاتی ہیں اور اس طرح دو تین ماہ میں مچھلی کی فصل بھی مل جاتی ہے۔ کیلا اتنی وافر مقدار میں ہے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ ناریل بھی بہت ہے۔ کھانے کے ساتھ ناریل کا پانی جو کہ حضورؒ کو بہت پسند تھا ،پیتے تھے۔
نمک ،مرچ اور گرم مصالحہ کا استعمال بہت کم ہوتا ہے ۔جب پہلی مرتبہ کھانا حضورؒ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو بالکل پھیکا تھا۔ حضورؒ نے مجھے فرمایا کہ ان کو کہو کہ مرچیں ڈالیں۔ ضیافت ٹیم کو پیغام دیا تو انہوں نے اَور مرچیں ڈالیں مگر کھانا پھر بھی پھیکا تھا۔ فرمایا اَور ڈلواؤ۔ جب ان سے مزید مرچیں ڈالنے کو کہا تو وہ عورتیں کانوں کو ہاتھ لگاتیں کہ اتنی مرچیں !!۔
ٹرین چربون اسٹیشن پر رُکی جہاں ایک بہت بڑی تعداد نے حضور کا استقبال کیا۔ مشن ہاؤس میں نئے تعمیر شدہ مبارک ہال کی تختی کی نقاب کشائی فرمائی۔ پھر مانسلور تشریف لے گئے ۔ یہ ایک بہت بڑا قصبہ ہے، اس کی 80 فیصد آبادی احمدی ہے۔ راستہ میں غیر احمدیوں نے سڑک کو بلاک کرکے ٹائروں کو آگ لگائی ہوئی تھی۔ مگر خدام نے راستہ بدل لیا۔ یہاں تقریباً چھ سات ہزار لوگ تھے، حضور سفر سے تھکے ماندے تھے لیکن اس کے باوجود ہر ایک سے مصافحہ کیا۔ عورتوں سے ملے بچوں کو پیار کیا۔ پھر نماز مغرب و عشاء ادا کی۔ بعد میں مجلس عرفان ہوئی جو کئی گھنٹہ جاری رہی۔ 26 جون کو حضورؒ نے فجر کی نماز پڑھائی تو تین ہزار کے قریب حاضری تھی۔
یہاں سے روانہ ہوکر تاسک ملایا پہنچے اور راستہ میں سنگاپور میں بھی احمدیوں کو شرف مصافحہ بخشا۔ یہاں حضورؒ مسجد مبارک کے محراب میں تشریف لے گئے جو 1939ء میں حضرت مولوی رحمت علی صاحب نے بنوائی تھی۔ حضورؒنے محراب میں کھڑے ہو کر دعا کروائی۔ دعا سے قبل فرمایا کہ اس دعا میں ان شہیدان احمدیت کو بھی شامل رکھیں جو اس علاقہ میں شہید ہوئے ہیں۔ پھر Wuanasigara کیلئے روانگی ہوئی۔ یہاں 4 ہزار سے زائد احباب نے حضورؒ کا پُرجوش استقبال کیا۔ یہ سارے کا سارا علاقہ بفضل تعالیٰ احمدی ہے۔ قدرتی نظارے بھی بہت دلکش ہیں۔ یہاں سب سے اوپر والی چوٹی پر بھی گئے۔ پہلے پروگرام تھاکہ حضورؒکو سڑک کی بجائے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ لائیں گے اور چوٹی پر ہیلی کاپٹر کو اتارنے کے لیے جگہ بھی ہموار کی گئی تھی۔ لیکن ہیلی کاپٹر پر بہت اخراجات آتے تھے اس لئے حضور ؒ نے فرمایا کہ خدا پر توکل کرکے سڑک کے ذریعہ ہی چلیں۔ یہاں کے احمدی بھی اپنے اخلاص، محبت اور ایمان میں اپنی ایک مثال تھے۔ اس علاقہ میں 1940ء سے جماعتیں قائم ہیں۔ یہاں پر حضور ؒنے ایک سیکنڈری سکول کی اینٹ پر دعا کی اور سکول کا نام مولانا عبدالواحد صاحب کے نام پر رکھا جو اس علاقہ کے سب سے پہلے مبلغ تھے۔ایک مسجد کی تختی پر بھی حضورؒ نے اپنا نام لکھا اور دستخط فرمائے جو کہ نئی تعمیر ہونے والی مسجد میں لگائی گئی۔
وہاں ایک نمائش کا معائنہ بھی فرمایا۔اس علاقہ میں ایک احمدی کی فیکٹری ہے جو ریشم کا دھاگہ اور کپڑا تیار کرتے ہیں۔ نمائش میں ریشم کے دھاگے سے لے کر کپڑا تیار ہونے تک کاProcessدکھایا گیا۔ اس Process میں استعمال ہونے والی مشینری ایک احمدی انجینئر نے خود ڈیزائن اور تیار کی ہے۔ پھر حضورؒ نے مسجد میں نمازیں پڑھائیں اور مردوں سے مصافحہ کیا۔ جب باہر تشریف لائے تو سڑک کے دونوں طرف بچیاں نغمے گارہی تھیں۔ سب کی نظریں جھکی ہوئیں اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ کبھی حضور دائیں طرف والوں سے پیار کرتے، سر پر ہاتھ پھیرتے، کبھی بائیں طرف والے بچے بچیوں سے پیار کرتے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں جو کہ تین سال کے ہوں گے، حضور انور کا ہاتھ چومتے اور رو پڑتے ۔ پھر حضورؒ عورتوں کی طرف تشریف لے گئے۔ سب خلیفہ وقت کی آواز سننے کو ترستی نگاہوں سے گم سم بیٹھی تھیں۔
پھر حضور ؒ Garut تشریف لے گئے جہاں ایک احمدی مکرم اُکن صاحب کے ہوٹل میں قیام فرمایا۔ یہ پہاڑی علاقہ تھا، یہاں سوئمنگ پول بھی تھا جس میں پہاڑوں سے گرم پانی آتا تھا۔ پہاڑ آتش فشاں تھے۔ اس پانی میں بہت سلفر تھی جو جلد کیلئے بہت موزوں ہوتی ہے۔
27 جون کو نماز فجر حضور نے مسجد محمود میں پڑھائی جو انڈونیشیا میں پہلی احمدیہ مسجد ہے۔ یہ حضرت مولوی رحمت علی صاحب مرحوم نے 1937ء میں تعمیر کروائی تھی۔ اگلے روز حضورؒ جکارتہ پہنچے جہاں صدارتی محل میںصدر مملکت انڈونیشیا سے ملاقات کی جو 20 منٹ جاری رہی۔ پھر محل کے پریس روم میں پریس کانفرس ہوئی۔ پھر حضور ؒنے جکارتہ کی مرکزی مسجد میں ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں۔ یہاں تین ہزار سے زائد افراد کو شرف مصافحہ بخشا اور خواتین کے ساتھ مجلس سوال وجواب ہوئی اور پھر نماز مغرب وعشاء کی ادا ئیگی کے بعد واپسی ہوئی۔
29 جون کو ریجنٹ ہوٹل میں”Indonesian Muslim Intellectuals Dialogue” کے تحت ایک پروگرام کی صدارت مکرم پروفیسر دوام صاحب نے کی۔ حضور ؒ نے انگریزی میں خطاب فرمایا۔ پھر مجلس سوال و جواب ہوئی۔ پھر حضور ؒجماعت کے مرکز تشریف لے گئے اور جلسہ سالانہ کے انتظامات کا معائنہ فرمایا۔ جلسہ سالانہ میں سترہ ہزار کی حاضری تھی۔ اس روز شام ساڑھے چار بجے سے لے کرساڑھے چھ بجے تک موسلادھار بارش ہوئی۔ نماز مغرب پر مکرم امیر صاحب نے حضورؒسے بارش بند ہو نے کیلئے دعا کی درخواست کی۔ حضورؒ نے دعا کی اور خدا کے فضل سے بارش اسی لمحے رک گئی ۔ حضورؒ نے اگلے روز خواتین کے جلسہ میں اس معجزہ کا ذکر بھی فرمایا۔
حضور انور نے جزیرہ Sulawasi کے چیف بونے (Bone) سے بھی ملاقات فرمائی۔ یہ صاحب دوہزار کلومیٹر کا سفر کر کے حضور سے ملاقات کے لئے آئے تھے اور انہوں نے حضور انور کے ساتھ تصویر بھی بنوائی کہ میں یہ تصویر اپنے محل میں رکھوں گا۔ یہاں اجتماعی بیعت کی تقریب میں1754 ؍افراد نے شرکت کی۔

جلسہ کے آخری اجلاس میں اختتامی دعا سے قبل حضورؒ نے فرمایا کہ میں نے جو خلوص ،جذبہ ، پیار اور محبت انڈونیشیا کی جماعت میں دیکھا ہے، کہیں کسی جماعت میں ایسا خلوص ، پیار اور محبت نہیں دیکھا ۔ حضورؒ نے مزید فرمایا کہ باہر سے آنے والو یہ پیغام سن لواور یاد رکھو کہ واپس جاکر اپنے ملکوں میں یہ پیغام دو کہ انڈونیشیا جیسا خلوص اور پیار اپنے اندر پیدا کرو اور ان جیسا بنو۔
2؍جولائی کو حضورانور جکارتہ سے بذریعہ جہاز Padang (سماٹرا) تشریف لائے۔ ظہر وعصر مسجد مبارک میں پڑھائی اور ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد کو شرف مصافحہ بخشا ۔ لوگ حضورؒکے ہاتھوں کو چومتے اور سسکیاں لے کر روتے۔ پھر عورتوں میں تشریف لے گئے۔ جیسے ہی عورتوں کی نظر حضورؒ پر پڑی تو فوراًشدتِ جذبات سے روپڑیں۔ان غریب لوگوں کے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے کہ وہ جلسہ انڈونیشیاپر جا سکتے۔ حضورؒ نے بچوں کو پیار کیا، اپنے ساتھ لگایا۔ گود میں بٹھایا اور ان سے باتیں کرتے رہے۔ نماز مغرب اور عشاء کے بعد مجلس عرفان ہوئی جو رات نو بجے تک جاری رہی۔
4جولائی کو حضورانور فجر کی نماز کے بعد اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں حضرت مولوی رحمت علی صاحب مر حوم کا مکان تھاجوکہ ایک معجزانہ نشان کے طور پر آگ سے محفوظ رہا تھا۔ مولوی صاحب کو لوگوں نے کہا کہ آگ لگی ہوئی ہے آپ نکل آئیں مگر انہوں نے کہا کہ میرے مکان کو کچھ نہیں ہو گا کیونکہ آگ مسیح کے غلاموں کی غلام ہے۔ آجکل یہاں بازار ہے اور مارکیٹ بن چکی ہے۔ حضور ؒ نے اُس جگہ پر کھڑے ہو کر بڑی پُرسوز دعا کی۔
Padang میں گورنر سماٹرا سے ملاقات بھی فرمائی، واقفینِ نو بچوں کے ساتھ پروگرام بھی ہوا۔ اجتماعی بیعت میں ساٹھ افراد نے بیعت کی۔ بیعت کے بعد سب کو حضورؒ نے مصافحہ کا شرف بخشا۔ شام کو Sadona Hotel میں معززین اور علماء کے ساتھ ڈنر اور مجلس سوال و جواب ہوئی۔ یہ مجلس 10بجے اختتام پذیر ہوئی۔
6جولائی کی صبح ہوٹل Sari Pan Pacific Jakarta میں حضورؒ نے ہومیوپیتھی کے عنوان پر خطاب فرمایا۔ اخبار اور ٹی وی کے نمائندے بھی موجود تھے۔ خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ سامعین میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، یونیورسٹی کے طلباء و طالبات اور دیگر احباب شامل تھے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کئی لوگ کھڑے تھے۔ مجلس سوال و جواب میں ایک مولوی قسم کے شخص نے بلاوجہ اعتراض پر اعتراض کرنے شروع کردیئے۔ حضورؒ اگرچہ شائستگی سے جواب دیتے رہے لیکن اُس شخص کا انداز بہت جارحانہ تھا۔ آخر سپیکر اسمبلی جناب امین رئیس صاحب جو وہاں تشریف فرما تھے، انہوں نے اُس شخص کو کہا کہ حضورؒ صحیح کہہ رہے ہیں، آپ اب تشریف رکھیں اور اپنا باغیانہ رویہ نہ دکھائیں۔ پھر ایک اَور اُسی حلیہ کا شخص کھڑا ہوگیا لیکن وہ کہنے لگا کہ جو کچھ احمدیہ جماعت کرتی ہے میں بالکل متفق ہوں کہ ایسی جماعت دنیا میں اگر ہے تو صرف جماعت احمدیہ ہے جس کا TV چینل بالکل اسلامی، افریقہ اورغریب ممالک میں ہسپتال، سکول… یہ ہے اسلام۔ یہ چھوٹی سی جماعت ہو کر اتنے بھلائی کے کام کر رہے ہیں۔ حضور ؒ نے اس شخص کو اپنے پاس بلایا اور مصافحہ کیا۔ یہ شخص آسٹریلین تھا لیکن لمبے عرصہ سے انڈونیشیا میں مقیم تھا اور مسلمان تھا۔
اس دورہ کے دوران انڈونیشین احباب کا خلوص، محبت، جماعت سے پیار، خلیفہ وقت کو دیکھنے کی تڑپ ، بے قراری اور جس طرح وہ لوگ اپنی آنکھیں بچھاتے تھے۔ یہ سب کچھ ایسا تھا جو مجھے کبھی پہلے کسی جگہ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں