حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا سالانہ اجتماع انصاراللہ برطانیہ 2004ء کے موقع پر خطاب

آج انصاراللہ کا یہ کام ہے کہ وہ اپنی عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں
اپنے لئے، اپنی اولادوں کے لئے،اپنے معاشرہ کے لئے، دکھی انسانیت کے لئے،غلبہ ٔ اسلام کے لئے ایک تڑپ سے دعا مانگیں۔ قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کی طرف توجہ بھی کریں۔
نیشنل عاملہ سے لے کر نچلی سے نچلی سطح تک عاملہ کے تمام عہدیداران کو وصیت کے بابر کت نظام میں شامل ہونے کی تاکیدی نصیحت
(خطاب سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ یوکے، مؤرخہ 26 ستمبر2004ء بمقام بیت الفتوح مورڈن)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمدللہ کہ آج آپ کواپنا بائیسواں سالانہ اجتماع بخیروخوبی اختتام تک پہنچانے کی توفیق مل رہی ہے۔ اﷲ تعالٰے کے فضل سے اس دفعہ حاضری بھی پچھلے سال کی نسبت زیادہ بہتر ہے اور دوسرے پروگرام بھی،تربیتی پروگرام بھی شامل کئے گئے۔ ذکرِ حبیب اور آنحضرتﷺ کی سیرت پر تقاریر بھی ہوئیں۔ بہرحال وہ آپ لوگوں کے علم میں اضافے اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنی ہونگی۔ اﷲ تعالٰے توفیق دے کہ ہر کوئی ان باتوں کو جو سنی گئی ہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرے۔
اس مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے، جہاں ہر قسم کی آزادی ہے، انصاراﷲ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ جہاں آپ کو اپنے بچوں کی طرف، اپنے گھروں کی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے، بیوی کی طرف بھی توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ بیوی سے اگر حسنِ سلوک ہوگا تو وہ یکسوئی سے آپ کے بچوں کی صحیح تربیت کی طرف توجہ کرے گی۔ ورنہ تو وہ بچوں کی تربیت کی بجائے گھر میں ہر وقت ان بچوں کے سامنے ایسے خاوند، ایسے باپ جو صحیح طرح اپنے بیوی بچوں کی طرف توجہ نہیں دیتے، ان کے رویّوں کا ذکر ہی ہوتا رہے گا، ان کی شکائتیں ہی ہوتی رہیں گی۔ بچے اور ماں ایک دوسرے سے اپنے باپوں کے بارے میں رونے ہی روتے رہیں گے۔ اور پھر ایسی صورت کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپکے بچے آپ سے پیچھے ہٹتے چلے جائیں گے۔ چالیس سال کی عمر کے انصار جو ہیں ان کے بچے ابھی چھوٹی عمرکے ہوتے ہیں،اس سے بڑی عمر کے انصار ہیں ان کے بچوں کی نوجوانی میں شادیاں ہو گئیں، ان کے آگے بچے ہیں، تو ہر عمر کے انصار کے گھر کا جو ماحول ہے، اس میں اگر اس کا روّیہ اپنے گھر والوں سے ٹھیک نہیں تو وہ بعض دفعہ ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے۔ اورپھر آپ سے جب پرے ہٹیں گے توپھر دین سے بھی پرے ہٹتے چلے جائیں گے۔
اگر بچوں میں یہ احساس پیدا ہو گیاکہ ہمارا باپ یا ہمارا دادا یا ہمارا نانا دین کے بڑے خدمت گاروں میں شمار ہوتا ہے لیکن گھر کے اندر وہ اعلیٰ اخلاق جو ایک دیندار کے اندر ہونے چاہیں ان کا اظہار نہیں کرتا،اﷲ تعالٰے کی عبادت کے جو نظارے ان بزرگوں میں نظر آنے چاہئیں وہ نظر نہیں آتے، تلاوتِ قرآن کریم کی طرف توجہ جس طرح ہونی چاہئے وہ توجہ نہیں ہوتی۔ پھر بچے یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہماری ماں کے ساتھ جو حسنِ سلوک اس گھر میں ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا تو باہر جا کر جس دین کی خدمت کا ایسا شخص نعرہ لگاتا ہے بچے کے ذہن میں یہی رہے گا کہ وہ سب ڈھکوسلا ہے۔ تو پھر جیسا کہ میں نے کہا ایسے بچے دین سے بھی دُور ہو جاتے ہیں۔ اور معاشرے میں اس ماحول میں شیطان تو پہلے ہی اس تاک میں بیٹھاہوا ہے کہ کب کوئی ایسی ذہنی کیفیت والانظر آئے اور کب میں اس کو اپنے جال میں پھنساؤں۔ پھرایسے بگڑتے ہوئے بچے جب شیطان اپنے جالوں میں ان کو پھنسا لیتا ہے تو بعض اوقات خدا کی ذات کے بھی انکاری ہو جاتے ہیں، ان کو اﷲتعالٰے کی ذات پہ بھی یقین نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے خدا کے نام پر اپنے باپوں کو اپنے بزرگوں کو دوہرے معیار قائم کرتے دیکھا ہوتا ہے،دوعملی کرتے ہوئے دیکھا ہوتا ہے۔ جب ان کے بچوں کے ذہن میں شیطان یہ بات ڈال دے کہ اگر خدا ہوتا تو تمہارا باپ جو یہ دوعملیاں کر رہا ہے اس کو پکڑ نہ لیتا۔ تو دیکھیں اس کے بڑے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں اگر انسان سوچے تو خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ اسلئے ہر احمدی کو اور خاص طور پر انصاراﷲ کو جو عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اب صحت مزید کمزور ہونی ہے، قویٰ جو ہیں مزید کمزور ہونے ہیں اورکچھ ایسی عمر کو بھی ہیں، پتہ تو نہ جوان کا ہے نہ بچے کا،لیکن کسی وقت بھی خدا کی طرف سے بلاوا آسکتا ہے۔ تو اگر ہم نے اب بھی اپنے رویّوں کو بدلنے کی کوشش نہ کی، اگر اب بھی ہم نے اپنے گھر کے رَاعِیِ بننے کا حق ادا نہ کیا،اگر اب بھی ہم نے ان کی نگرانی اور حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو مرنے کے بعد خداتعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جب حاضر ہوں گے توخداتعالیٰ پوچھے گا نہیں کہ تم نے دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ

نَحْنُ اَنْصَارُاللہِ،

ہم اللہ کے انصار ہیں۔ کیا اللہ کے انصار ایسے ہوتے ہیں۔ تم اللہ تعالٰے کے کاموں میں مددگار بننے کی بجائے اپنی اولادوں کو بھی اللہ تعالٰے سے دور ہٹانے والے بن رہے ہو۔ جب تمہارے اپنے گھروں میں تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں بلکہ تمہارے نمونہ کی وجہ سے تمہاری اولادوں میں نمازوں کی عادت نہیں پڑی،تمہاری اولادوں میں قرآن کریم پڑھنے کی عادت نہیں پڑی، تمہاری اولادوں میں دین کی غیرت نہیں ابھری،ایسی غیرت کہ وہ نوجوانی میں بھی اپنی ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کو قربان کرنے والے ہوں۔ اگر تمہاری بیوی،تمہاری بہو،تمہارے حسن سلوک اور عبادت گزاری کی گواہی نہیں دیتیں تو صرف مختلف مواقع پر یہ اعلان کر دینا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ،۔ اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اللہ کی مدد کیا ہے۔ آجکل یہ کیا طریقہ ہے جس سے ہم اللہ کی مدد کر سکتے ہیں۔ کیا اللہ تعالٰے کی مدد گولے چلانا ہے۔ کیا اللہ تعالٰے کی مدد کے لئے توپوں اور بندوقوں سے جنگ کرنا ہے؟ نہیں، بلکہ آج انصاراللہ، اللہ کے مددگاروں کا یہ کام ہے کہ وہ اپنی عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں۔ ان کے گھروں سے ان کے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبوئیں اٹھتی ہوں، ان کے ماحول سے ان کے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبوئیں اٹھتی ہوں تبھی وہ پورے معاشرے میں اللہ کی مددسے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبوئیں پھیلا سکتے ہیں۔ اللہ کو تو کسی بندے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ایک اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بندوں کو دے رہا ہے کہ تم میری تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اگر اس دنیا میں زندگی گزارو گے اور تم میری تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤ گے تو اس طرح تم میرے دین کی مدد کر رہے ہو گے۔
اگر خاموشی سے بھی، زبان سے کچھ کیے بغیر بھی تمہارے عملی نمونہ سے کسی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس وجہ سے دوسرے کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کے دین کی عظمت بڑھ رہی ہے تو یہ ایسے لوگ ہیں جو خاموشی سے بھی، کچھ کہے بغیر بھی انصاراللہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہونگے۔ اللہ تو تمہیں محض اور محض اپنے فضل سے اپنے مدد گاروں میں شمار کر رہا ہو گا کہ تم اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ہواور اس وجہ سے بعض سعید روحیں راہِ راست پر آرہی ہیں، تمہارے نمونہ کو دیکھ کر سیدھے راستے پر آرہی ہیں، ورنہ اللہ کو ہماری مدد کی کیا پرواہ ہے اور کیا ضرورت ہے۔ اس کو تو کوڑی کی بھی ضرورت نہیں ہماری ان مددوں کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں اس زمانے میں بھی ہمارے پاس بے شمار مثالیں ہیں جن میں خداتعالٰے نے براہ راست خوابوں کے ذریعے سے لوگوں کو جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ بعض ایسی ٹھوکریں ان کی اصلا ح کا باعث بن گئیں جن کی وجہ سے وہ جماعت میں شامل ہو گئے۔ پھر اگر جماعت کی ضروریات کا دیکھا جائے تو ایسے ایسے رنگ میں مالی ضروریات بھی اللہ تعالٰے نے پوری فرمائیں جب بھی ضرورت ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے زمانے میں بھی اور خلفاء کے زمانے میں بھی۔ اور ایسے لوگ جو اس طرح احمدی ہوئے وہ اپنے ایمانوں میں اکثر اوقات ان سے زیادہ مضبوط ہیں جتناکہ پیدائشی احمدی ہیں۔ یہ واقعات اکثروبیشتر اللہ تعالیٰ اس لئے دکھاتا ہے تاکہ ہمیں بتا سکے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ جس مشن کو میں اپنے پیاروں کے ذریعے جاری کرتا ہوں اس کو پھیلانے کے لئے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ یہ تو میں اپنے بندوں پر خود بھی ظاہر کر سکتا ہوں۔ ان کو راہ راست پر لانے کے طریقے اور بھی ہیں۔ اور اسی لئے وقتاً فوقتاً نمونے دکھاتا بھی رہتا ہوں۔ اللہ تعالٰے فرماتا ہے تاکہ تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ بندوں پر انحصار ہے اللہ تعالٰے کے کاموں کا۔ تمہیں تو ثواب کا مستحق بنانے کے لئے، ان نیکیوں پر قائم رکھنے کے لئے، تمہیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیداکرنے کے لئے یہ موقع دیا ہے کہ اگر تم زمانے کے امام پر ایمان لائے ہو تو اس کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالٰے کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اس کام میں میرے پیاروں کا ہاتھ بٹاؤ۔ جو تعلیم اس نے دی ہے اس پر عمل کرو اور اپنے نیک نمونے قائم کرو تاکہ تمہیں دنیا اور آخرت کے انعاموں کا وارث بنایا جائے۔ ورنہ خداتعالیٰ نے جو وعدے اپنے پیاروں سے کیے ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ان کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اگر فلاں شخص نے میری مدد نہ کی تو غلبہ کس طرح ہو گا۔ یا اگر فلاں حکومت نے مخالفت کی تو میرے کام کیسے آگے بڑھیں گے، میری جماعت کس طرح پھیلے گی۔ اگر چند لوگ وعدہ کر کے بھول بھی جاتے ہیں تو اللہ تعالٰے اپنے پیاروں کی مدد کے لئے اور لوگ لے آتا ہے اور جماعت پیدا کر دیتا ہے۔ ظالم حکومتوں سے بھی خود نپٹ لیتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے بھی اللہ تعالٰے نے یہ وعدے کئے ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی اس قدرت کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے اور تقریباً ہراحمدی جس کا جماعت کے نظام سے پختہ تعلق ہے اس کو اس کا تجربہ ہے۔ بہت سارے مواقع پر یہ اظہار ہوتے رہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا تھا کہ

یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآء

کہ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالٰے سچے وعدوں والا ہے۔ وہ ضرور بضرور اپنے وعدوں کے مطابق مددگار بھیجتا رہے گا، دین کے خادم بھیجتا رہے گا، دین کی نصرت کرنے والے بھیجتا رہے گا۔ اور آج سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اللہ تعالٰے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے اس وعدہ کو پورا فرما رہا ہے اور آئندہ بھی فرمائے گا اور فرماتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ۔ لیکن ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے اور اپنے عملوں کو درست کرتے ہوئے خدا سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ ہمارا بھی ان رِجال میں شمار ہو جن کو خدا تعالٰے قبول کرتے ہوئے مسیح موعود کے مددگاروں میں شامل کرے گا۔ ورنہ اگر ہمارے عمل اس قابل نہیں،ہماری عبادتیں سوزوگداز سے بھری ہوئی نہیں، ہم اللہ کی نظر میں مقبول نہیں تو لاکھ ہم

نَحْنُ اَنْصَارُاللہ

کہتے رہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور دوسرے لوگ آکر یہ مقام لے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو اس طرح قبول نہیں کرتا وہ تو یہی کہے گا کہ پہلے اپنی حالت درست کرو، اپنے اعمال درست کرو،انسانی حقوق ادا کرو،پھر میرے دین کے مددگار کہلا سکتے ہو۔
پس ہر ایک کو ہم میں سے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا

نَحْنُ اَنْصَارُاللہِ

کا نعرہ لگانے سے پہلے غور بھی کیا ہے کہ یہ کتنا گہرا اور وسیع نعرہ ہے۔ کیا کیا قربانیاں دینی پڑیں گی اس کے لئے اور قربانیاں ہیں کیا،جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کوئی جنگ، توپ، گولہ نہیں ہے، کسی گولے کے آگے کھڑا ہونا نہیں ہے، کسی توپ کے منہ کے سامنے کھڑے ہونا نہیں ہے، تیروں کی بوچھاڑ کے آگے کھڑے ہونا نہیں ہے۔ صحابہ کرام، جو آنحضرت ﷺ کے صحابہ تھے ان کی طرح گردنیں کٹوانا نہیں ہے۔ ہاں یہ قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کبھی کبھار اکّا دکّا لے لیتا ہے۔ نمونے قائم رکھنے کے لئے اس طرح کرتا ہے۔ لیکن قربانی جو اس زمانے میں کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ اپنے معاشرہ کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ اپنے مالوں کی قربانیاں دینی ہیں۔
پس انصار اللہ کا فرض بنتا ہے اور میں بار بار کہتا ہوں کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں،اپنے لئے،اپنی اولادوں کیلئے، اپنے معاشرہ کیلئے،دکھی انسانیت کیلئے، غلبۂ اسلام کیلئے ایک تڑپ سے دعا مانگیں۔ آخرت کی فکر اپنے دلوں میں پیدا کریں جب آخرت کی فکر زیادہ ہو گی تو معاشرہ کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوگی، قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے کی طرف بھی توجہ کریں۔ اس بارہ میں انصار اللہ نے پروگرام بھی بنا لیا ہے اور میرا خطبہ بھی سن لیا ہے۔ قربانی کرتے ہوئے ہرایک کا حق ادا کریں،اس کا حق اس کو دینے کی کوشش کریں۔ دوسروں کی برائیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی برائیوں کو دیکھیں تو پھر اصلاح بھی ہو گی اور اصلاح کی طرف توجہ بھی پیدا ہوگی۔ پھر مالی قربانیوں کی طرف توجہ کریں،اپنے عہدوں کو پورا کریں۔ آپ نے عہد کیا ہے کہ احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت کیلئے قربانی کرتا رہوں گا۔ یہ جو ابھی عہد دہرایا ہے،پس اس بارہ میں سوچیں، غور کریں کہ کہاں تک اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہاں تک اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کیا ہے۔
مَیں نے جلسہ کی تقریر کے دوران آخری دنوں میں انصاراللہ کے ذمّہ بھی یہ لگایا تھا کہ وہ نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی طرف توجہ دیں، اس بارے میں بھی کوشش کریں۔ ایک بہت بڑی تعداد ہے جو صفِ دوم کے انصار پر مشتمل ہے۔ یاد رکھیں کہ آپ کی تلقین بھی تبھی کامیاب ہوگی، تبھی کارآمد ہو گی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نظام میں بھی شامل ہوں گے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس میں شامل ہونے والوں کے لئے بہت دعائیں کی ہوئی ہیں۔ اورجس کو یہ دعائیں لگ جائیں اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور اس کی آخرت بھی سنور جائے گی۔ پس اس طرف بھی توجہ کریں۔ اورسب سے پہلے میں یہاں کہوں گا کہ تمام عہدیداران جو ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونا چاہئے، نیشنل عاملہ سے لیکر نچلی سے نچلی سطح تک جو بھی عاملہ ہے اس کے لیول تک۔ ہر عاملہ کا ممبر اس نظام میں شامل ہو، تبھی وہ تلقین کرنے کے قابل بھی ہوگا۔
پس یہ طریق ہیں نصرت کے وعدے کو پورا کرنے کے، یہ طریق ہیں اپنے وعدے کو سچا کرنے کے اور یہ طریق ہیں اللہ تعالٰے کی برکات اس کے نتیجے میں حاصل کرنے کے۔ اللہ تعالٰے کے دین نے تو انشاء اللہ تعالیٰ غالب آنا ہے اور یہ خدا تعالٰے کا وعدہ ہے جیسے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی الہاماً فرمایا تھا اور اتفاق یہ ہے کہ آج سے سو سال پہلے کا یہ الہام ہے۔ دو، تین اکتوبر کا کہ

قَدْ جَآء الدِّیْنُ مِنَ النُّصْرَۃِ ثُمَّ سَیَعُوْدُ مِنَ النُّصْرَۃِ (تذکرہ، صفحہ۵۲۰، مطبوعہ ۱۹۶۹ء، ربوہ)

کہ دین پہلے بھی نصرت ہی سے غالب آیا تھا اب بھی دوبارہ وہ نصرت ہی کے ذریعہ سے غالب آئے گا۔ پس جہاں یہ الہام ہمیں یہ تسلی دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں احمدیت کو بھی غلبہ عطا کروں گا اسی طرح جیسے پہلے اسلام کو غلبہ عطا ہوا تھا۔ کہیں کوئی کم عقل یہ نہ سمجھ لے کہ شائد میری کسی کوشش کی وجہ سے یا میرے کسی کام کی وجہ سے یا میرے کسی کارنامے کی وجہ سے،میری کسی قربانی کی وجہ سے غلبہ عطا ہو رہا ہے یا جماعت میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس بارہ میں اور بھی بہت سارے الہامات ہیں نصرت کے بارہ میں اللہ تعالٰے کے۔ تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہمیں اللہ تعالیٰ نے انصار بنا کر برکتیں سمیٹنے کا موقع دیا ہے۔ پس ان برکتوں کو اگر جاری رکھنا ہے، اپنی نسلوں کی اصلاح کی خواہش اگرآپ کو ہے اور تمنا ہے، تو عملی نمونے قائم کرنے ہوں گے۔ گھروں میں بھی، ماحول میں بھی، معاشرہ میں بھی۔ عبادتوں کے بھی عملی نمونے، اعلیٰ اخلاق کے بھی عملی نمونے اور قربانی کے معیار کے بھی نمونے قائم کرنے ہوں گے۔
پس یہ اللہ تعالٰے کا ہم پر احسان ہے، جیسا کہ میں نے کہا، کہ ہمیں انصار اللہ بنا کر اس ثواب کا مستحق بنا رہا ہے۔ ہمیں ان ترقیات میں ہماری حقیر سی کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے شامل فرما رہا ہے جو جماعت کے لئے اس نے مقدر کی ہوئی ہیں۔ جس کا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالٰے سب انصار کو حقیقی معنوں میں انصار اللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور خدا کرے کہ یہ غلبہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ ہمارے اعمال کی کمزوریاں کہیں ہمیں ان نظاروں کے دیکھنے سے،جس کے خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح سے وعدے کئے ہیں۔ محروم نہ کردیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’دنیا جائے گزشتنی و گزاشتنی ہے اور جب انسان ایک ضروری وقت میں ایک نیک کام کے بجا لانے میں پوری کوشش نہیں کرتا تو پھر وہ گیا ہوا وقت ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:
’’یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوششوں سے آتا ہے بلکہ خدا تعالٰے کی طرف سے آتا ہے۔ اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجا لاکر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پرکچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کیلئے بلاتا ہے۔ اور میں سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کردے گا کہ اس کی خدمت بجا لائے گی۔ تم یقینا سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے۔ تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمتِ مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں۔ میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں، ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے…‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تمہیں معلوم نہیں کہ اس وقت رحمتِ الٰہی اس دین کی تائید میں جوش میں ہے اور اس کے فرشتے دلوں پر نازل ہو رہے ہیں۔ ہر ایک عقل اور فہم کی بات جو تمہارے دل میں ہے وہ تمہاری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے۔ آسمان سے عجیب سلسلۂ انوار جاری اور نازل ہو رہا ہے۔ پس میں بار بار کہتا ہوں کہ خدمت میں جان توڑ کر کوشش کرو مگر دل میں مت لاؤ کہ ہم نے کچھ کیا ہے۔ اگر تم ایسا کرو گے(یعنی دل میں اگر لاؤگے) ہلاک ہو جاؤ گے۔’‘(تبلیغ رسالت۔ جلد دہم۔ صفحہ ۵۴ تا ۵۶)
اللہ کرے کہ ہم حقیقی معنوں میں انصاراللہ بھی ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات پر پورا اترنے والے ہوں اور ان تمام دعاؤں کے وارث ہوں جو آپ نے اپنی جماعت کے نیک لوگوں کیلئے کی ہیں۔ اللہ توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں