حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۳ء پر افتتاحی خطاب

ہماری جماعت یہ غم کُل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ اُن میں تقویٰ ہے یا نہیں۔
حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے تقویٰ کی اہمیت، برکات اور تقویٰ کے حصول کے ذرائع کا اثرانگیز تذکرہ
(سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا
جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۳ء کے موقع پر افتتاحی خطاب )

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ- اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

اس وقت مَیں اپنی جلسہ سالانہ کی پہلی تقریر میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء کی جو پہلی تقریر تھی اس میں سے اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن اس سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ارشاد ہے کہ کس طرح ہمیں باتیں یاد رکھنی چاہئیں وہ پیش کرتاہوں۔ آ پ نے فرمایا:
’’سب کو متوجہ ہوکر سننا چاہئے ، پورے غوروفکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے اس میں سستی، غفلت اور عدم توجہ بہت برے نتائج پیدا کرتی ہے۔ جولوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جائے تو غور سے اس کو نہیں سنتے۔ ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو، کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں پرسمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑے غور سے سنو کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
(الحکم۱۰؍ مارچ۱۹۰۲ء)
اس وقت جومَیں اقتباسات تقریر کے پیش کروں گا یہ تقویٰ کے بارہ میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تقویٰ کے بارہ میں ایسی نصائح فرمائی ہیں اور مختلف زاویوں سے تقویٰ کے حصول کے ذرائع بتائے ہیں جس پر اگر عمل کر لیا جائے تو ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس سے تعلق دل میں پیدا نہ ہو۔ آپ فرماتے ہیں :
’’اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے ،کیونکہ یہ بات عقلمندکے نزدیک ظاہر ہے کہ بجزتقوی کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ (النحل:۱۲۹)

اللہ یقینا اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں۔
ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاًاس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رُوبہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔
آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمارہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اس بیماری کے لئے دوا نہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھایا جاوے بیماراچھا نہیں ہوسکتا۔ ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کردیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کُل منہ کو کالا نہ کر دے۔ اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے۔ صغائر سہل انگاری سے کبائر ہوجاتے ہیں‘‘۔یعنی چھوٹے گناہ اگر ان کی پرواہ نہ کی جائے تو بڑے گناہ بن جاتے ہیں۔’’صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کارکُل منہ کو سیاہ کردیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے ویسا ہی قہاراورمنتقم بھی ہے۔ ایک جماعت کودیکھتاہے کہ ان کا دعویٰ اور لاف وگزاف تو بہت کچھ ہے اور ان کی عملی حالت ایسی نہیں تو اس کاغیظ وغضب بڑھ جاتا ہے۔ پھر ایسی جماعت کی سزادہی کے لئے وہ کفار کو ہی تجویزکرتاہے۔ جولوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کئی دفعہ مسلمان کافروں سے تہ تیغ کئے گئے۔ جیسے چنگیز خاں اور ہلاکوخاںنے مسلمانوں کو تباہ کیا،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیاہے ،لیکن پھر بھی مسلمان مغلوب ہوئے۔ اس قسم کے واقعات بسا اوقات پیش آئے۔ اس کا باعث یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ زبان

لاالہ الا اللّہ

تو پکارتی ہے لیکن اس کا دل اور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل روب دنیا ہے توپھراس کا قہراپنا رنگ دکھاتا ہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں کہ :
’’اللہ کاخوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول وفعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے۔ پھر جب دیکھے کہ اس کا قول وفعل برابرنہیں تو سمجھ لے کہ مورد غضب الٰہی ہوگا۔ جودل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہووہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا بلکہ خداکا غضب مشتعل ہوگا۔ پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں ،اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھلدار درخت ہوجائے۔ پس ہر ایک اپنے اندرغور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے ؟اوراس کی باطنی حالت کیسی ہے ؟اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے توپھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جب دیکھتاہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اورزبانی دعوے کرتی ہے۔ وہ غنی ہے، وہ پرواہ نہیں کرتا۔ بدرکی فتح کی پیشگوئی ہو چکی تھی ،ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت ﷺ رو رو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیاہے؟ آنحضرت ﷺنے فرمایاکہ وہ ذات غنی ہے، یعنی ممکن ہے کہ وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔
پس ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقوی وطہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیارقرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھاہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کرکے اس کے کاموں کا خود کفیل ہوجاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا

وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق:۳۔۴)

جوشخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہرایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کردیتا ہے کہ اس کے علم وگمان میں نہ ہوں ، یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکارضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دوکانداریہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا،اس لئے وہ دروغ گوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لیے وہ مجبوری ظاہر کرتاہے ،لیکن یہ امرہرگزسچ نہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہوجاتا ہے اور اسے ایسے مواقع سے بچالیتا ہے جوخلاف حق پر مجبورکرنے والے ہوں۔ یاد رکھوجب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا،توخدانے اسے چھوڑدیا۔ جب رحمان نے چھوڑ دیا،توضرورشیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔
یہ نہ سمجھوکہ اللہ تعالیٰ کمزورہے۔ وہ بڑی طاقت والاہے۔ جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کروگے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہٗ (الطلاق4:)

یعنی جو اللہ پر توکل کرے تو وہ اُس کے لئے کافی ہے۔ لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے، وہ اہلِ دین تھے۔ ان کی ساری فکریں محض دینی اُمُور کے لیے تھیں اور دنیوی امورحوالہ بخدا تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ غرض برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مَصائِب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امورمیں حارج ہوں‘‘۔
پھر متقی کے لئے روحانی رزق کیاہے۔ اس بارہ میں فرماتے ہیں:
’’ایسا ہی اللہ تعالیٰ متقی کو خاص طور پر رزق دیتا ہے۔ یہاں میں معارف کے رزق کا ذکر کروں گا۔ آنحضرت ﷺ کو باوجود امی ہونے کے تمام جہان کا مقابلہ کرنا تھا جس میں اہل کتاب، فلاسفر، اعلیٰ درجہ کے علمی مذاق والے لوگ اورعالم فاضل شامل تھے ،لیکن آپ کو روحانی رزق اس قدرملا کہ آپ ؐسب پر غالب آئے اور ان سب کی غلطیاں نکالیں۔
یہ روحانی رزق تھا جس کی نظیر نہیں۔ متقی کی شان میں دوسری جگہ یہ بھی آیا ہے۔

اِنْ اَوْلِیـَآؤُہٗ اِلَّاالْمُتَّقُوْنَ (الانفال:۳۵)

اللہ تعالیٰ کے ولی وہ ہیں جو متقی ہیں ،یعنی اللہ تعالیٰ کے دوست۔ پس یہ کیسی نعمت ہے کہ تھوڑی سی تکلیف سے خدا کا مقرب کہلائے۔ آج کل زمانہ کس قدرپست ہمت ہے۔ اگر کوئی حاکم یا افسر کسی کو یہ کہہ دے کہ توُ میرا دوست ہے یا اس کو کرسی دے اوراس کی عزت کرے ،تو وہ شیخی کرتا ہے۔ فخرکرتا پھرتاہے ،لیکن اس انسان کا کس قدرافضل رتبہ ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ اپنا ولی یادوست کہہ کر پکارے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریم ﷺ کی زبان سے یہ وعدہ فرمایاہے جیسے کہ ایک حدیث بخاری میں وارد ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میراولی ایسا قرب میرے ساتھ بذریعہ نوافل پیدا کرلیتاہے کہ مَیں بھی اس سے پیار کرنے لگتا ہوں اور جب مَیں اس سے محبت کرنے لگ جاؤں تو مَیں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو مَیں ضرور اس کو وہ دے دیتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ کا طلبگار ہو تو مَیں (شیطان کے مقابل پر) ضرور اُسے محفوظ رکھتا ہوں‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’انسان جس قدرنیکیاں کرتا ہے اس کے دو حصے ہوتے ہیں ایک فرائض دوسرے نوافل۔ فرائض یعنی جوانسان پر فرض کیا گیا ہو۔ جیسے قرضہ کااتارنا۔ یا نیکی کے مقابل نیکی۔ ان فرائض کے علاوہ ہرایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں ،یعنی ایسی نیکی جو اس کے حق سے فاضل ہو۔ جیسے احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اور احسان کرنا یہ نوافل ہیں۔ یہ بطورمُکَمَّلَاتْ اور مُتَمِّمَاتْ فرائض کے ہیں۔ اس حدیث میں بیان ہے کہ اولیاء اللہ کے دینی فرائض کی تکمیل نوافِل سے ہوتی رہتی ہے۔ مثلا زکوٰۃ کے علاوہ وہ اور صدقات دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کا ولی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ میں اس کے ہاتھ ، پاؤں حتیٰ کہ اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے‘‘۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہراحمدی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ اس کا ہر ایک فعل خدا کے منشا ء کے مطابق ہو۔ آ پ فرماتے ہیں کہ :
’’بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات نفس سے پاک ہوتا اورنفسانیت چھوڑ کرخدا کے ارادوں کے اندرچلتا ہے اس کا کوئی فعل ناجائزنہیں ہوتا بلکہ ہرایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ جہاں لوگ ابتلاء میں پڑتے ہیں وہاں یہ امرہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خدا کے ارادہ سے مطابق نہیں ہوتا۔ خدا کی رضا اس کے برخلاف ہوتی ہے۔ ایسا شخص اپنے جـذبات کے نیچے چلتا ہے۔ مثلاً غصہ میں آکرکوئی ایسا فعل اس سے سرزد ہوجاتاہے جس سے مقدمات بن جایا کرتے ہیں۔ فوجداریاں ہو جاتی ہیں، مگراگر کسی کایہ ارادہ ہو کہ بلااستصواب کتاب اللہ اس کا حرکت وسکون نہ ہوگا۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان کے خلاف وہ نہیں چلے گا۔’’ اور اپنی ہرایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا،تویقینی امرہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی۔ جیسے فرمایا

وَلَارَطْبٍ وَّلَایَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (الانعام:۶۰)

یعنی اَور کوئی تر یا خشک چیز نہیں مگر (اس کا ذکر) ایک روشن کتاب میں ہے۔ سو اگر ہم یہ ارادہ کریں کہ ہم مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے، تو ہم کوضرورمشورہ ملے گا، لیکن جواپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرورنقصان ہی میں پڑے گا۔‘‘
جیسے آج کل بھی بعض آپ دیکھتے ہیں کہ جذبات کے تابع ہو کر لڑائیاں ہوتی ہیں اور خاندان کی بدنامی کا بھی باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ اپنا مال بھی ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اپنا وقت بھی ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر آ پ فرماتے ہیں :
’’بسا اوقات وہ اس جگہ مواخذہ میں پڑے گا۔ سو اس کے مقابل اللہ نے فرمایاکہ ولی جو میرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں، وہ گویا اس میں محوہیں۔ سو جس قدرکوئی محویت میں کم ہے وہ اتنا ہی خدا سے دور ہے۔ لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہی ہے جیسے خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں۔ ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

من عادلی ولیاًفقداٰذنتہٗ بالحرب (الحدیث)

بے شک جو شخص میرے ولی کا مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتاہے (یعنی جو شخص میرے ولی سے دشمنی کرتا ہے تو مَیں اُسے جنگ پر متنبہ کرتا ہوں)۔ اب دیکھ لوکہ متقی کی شان کس قدربلند ہے اور اس کا پایہ کس قدرعالی ہے۔ جس کا قرب خداکی جناب میں ایساہے کہ اس کا ستایا جاناخدا کا ستایا جانا ہے تو خدا اس کا کس قدرمعاون ومددگارہوگا‘‘۔
پس ہم سب جو اس جلسہ میں شامل ہوئے ہیں۔ اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے کے لئے یہاں آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کے رسول کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرنے کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اپنے دلوں میں پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔اوراس تقویٰ کے زیر اثر اس زمانہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق بھی پائی ہے ۔ آپ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر شر سے بچائے جانے کی بشارت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’ لوگ بہت سے مصائب میں گرفتارہوتے ہیں ،لیکن متقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آجاتا ہے وہ بھی بچایا جاتاہے۔ مصائب کی کوئی حد نہیں۔ انسان کا اپنااندراس قدرمصائب سے بھرا ہواہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے کہ ہزارہا مصائب کے پیدا کرنے کوکافی ہیں لیکن جو تقوی کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔
متقی کے لئے ایک اور بھی وعدہ ہے۔

لَھُمُ الْبُشْری فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ (یونس:۶۵)

یعنی جو متقی ہوتے ہیں ان کو اسی دنیا میں بشارتیں سچے خوابوں کے ذریعہ ملتی ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کروہ صاحبِ مُکَاشْفَات ہوجاتے ہیں۔ مُکَالَمَۃُ اللّٰہِ کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ وہ بشریت کے لباس میں ہی ملائکہ کو دیکھ لیتے ہیں۔ جیسے کہ فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْاتَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰـئِکَۃُ (حم السجدۃ:۳۱)۔

یعنی جولوگ کہتے ہیں کہ ہمارارب اللہ ہے اور استقامت دکھاتے ہیں، یعنی ابتلاء کے وقت ایسا شخص دکھلادیتا ہے کہ جو میں نے منہ سے وعدہ کیا تھا ،وہ عملی طورسے پوراکرتا ہوں۔
ابتلا ضروری ہے۔ جیسے یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ (العنکبوت :۳)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہوں نے کہاکہ ہمارارب اللہ ہے اور استقامت کی ، ان پر فرشتے اترتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دل کو صاف کرتے ہیں اور نجاست اور گندگی سے،جو اللہ سے دور رکھتی ہے،اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں ان میں سلسلہ الہام کے لئے ایک مناسبت پیدا ہوجاتی ہے۔ سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے۔ پھر متقی کی شان میں ایک اور جگہ فرمایا

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ (یونس:۶۳)

یعنی جو اللہ کے ولی ہیں ان کوکوئی غم نہیں۔ جس کا خدا متکفل ہو اس کو کوئی تکلیف نہیں، کوئی مقابلہ کرنے والا ضررنہیں دے سکتا اگر خدا ولی ہوجائے۔ پھر فرمایا

وَاَبْشِرُوْابِالْجَنَّۃِالَّتِیْ کُنْتُمْ تُوعَدُوْنَ (حم السجدہ :۳۱)

یعنی تم اس جنت کے لئے خوش ہوجس کا تم کو وعدہ ہے۔
قرآن کی تعلیم سے پایا جاتا ہے کہ انسان کے لئے دوجنت ہیں۔ جوشخص خدا سے پیارکرتاہے کیاوہ ایک جلنے والی زندگی میں رہ سکتاہے ؟جب اِس جگہ دنیا میں ایک حاکم کا دوست دنیوی تعلقات میں ایک قسم کی بہشتی زندگی میں ہوتا ہے توکیوں نہ ان کے لئے دروازہ جنت کا کھلے جو اللہ کے دوست ہیں، اگرچہ دنیا پرازتکلیف ومصائب ہے ،لیکن کسی کو کیا خبر وہ کیسی لذت اٹھاتے ہیں ؟اگر ان کو رنج ہو تو آدھ گھنٹہ تکلیف اٹھانا بھی مشکل ہے، حالانکہ وہ تو تمام عمر تکلیف میں رہتے ہیں۔ ایک زمانہ کی سلطنت ان کو دے کران کو اپنے کام سے روکا جاوے تو کب کسی کی سنتے ہیں ؟ اس طرح خواہ مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں وہ اپنے ارادہ کو نہیں چھوڑتے۔
فرمایا کہ سب سے اعلیٰ نمونہ آنحضرت ﷺ کا ہے ۔فرماتے ہیںکہ ہمارے ہادی کامل کو یہ دونوں باتیں دیکھنی پڑیں۔ ایک وقت تو طائف میں پتھر برسائے گئے۔ ایک کثیر جماعت نے سخت سے سخت جسمانی تکلیف دی ،لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استقلال میں فرق نہ آیا۔ جب قوم نے دیکھا کہ مصائب وشدائد سے ان پر کوئی اثر نہ پڑا ،تو انہوں نے جمع ہو کر بادشاہت کا وعدہ دیا، اپنا امیر بنانا چاہا۔ ہر ایک قسم کے سامان آسائش مہیا کردینے کاوعدہ کیا۔ حتی کہ عمدہ سے عمدہ بی بی بھی۔ بدیں شرط کہ حضرت ؐ بتوں کی مذمت چھوڑدیں۔ لیکن جیسے کہ طائف کی مصیبت کے وقت ویسی ہی اس وعدہ بادشاہی کے وقت حضرت ؐ نے کچھ پروا نہ کی اور پتھر کھانے کو ترجیح دی۔ سو جب تک خاص لذت نہ ہو،تو کیا ضرورت تھی کہ آرام چھوڑکر دکھوں میں پڑتے۔
یہ موقع سوا ہمارے رسول علیہ الصلوۃ والتحیات کے کسی اور نبی کو نہ ملا کہ ان کو نبوت کا کام چھوڑنے کے لئے کوئی وعدہ دیا گیا ہو۔ مسیح علیہ السلام کو بھی یہ امرنصیب نہ ہوا۔ دنیا کی تاریخ میں صرف آنحضرت ﷺکے ساتھ ہی یہ معاملہ ہواکہ آپ ؐ کو سلطنت کا وعدہ دیا گیا، اگر آپ اپنا کام چھوڑ دیں۔ سو یہ عزت ہمارے رسول ﷺ کے ساتھ ہی خاص ہے۔ اسی طرح ہمارے ہادی کامل کو دونوں زمانے تکلیف اور فتح مندی کے نصیب ہوئے ،تاکہ وہ دونوں اوقات میں کامل نمونہ اخلاق کادکھا سکیں۔
اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لئے چاہاہے کہ ہردولذتیں اٹھائیں۔ بعض وقت دنیوی لذات آرام اور طیبات کے رنگ میں بعض وقت عسرت اور مصائب میں۔ تاکہ ان کے دونوں اخلاق کامل نمونہ دکھلاسکیں۔ بعض اخلاق طاقت میں اور بعض مصائب میں کھلتے ہیں۔ ہمارے نبی کریمﷺ کو یہ دونوں باتیں میسرآئیں۔ سوجس قدر ہم آپ ؐ کے اخلاق پیش کر سکیں گے کوئی اور قوم اپنے کسی نبی کے اخلاق پیش نہ کرسکے گی۔ جیسے مسیح کا صرف صبر ظاہر ہو سکتاہے کہ وہ مارکھاتا رہا لیکن یہ کہاں سے نکلے گا کہ ان کو طاقت نصیب ہوئی۔ وہ نبی بے شک سچے ہیں۔ لیکن ان کے ہر قسم کے اخلاق ثابت نہیں۔ چونکہ ان کا ذکر قرآن میں آگیا ، اس لئے ہم ان کو نبی مانتے ہیں واِلاّ انجیل میں تو ان کاکوئی ایسا خلق ثابت نہیں جیسے اولوالعزم انبیاء کی شان ہوتی ہے۔ ایساہی اگر ہمارے ہادی کامل بھی اگر ابتدائی تیرہ برس کی مصائب میں مرجاتے ،تو ان کے اوربہت سے اخلاق فاضلہ مسیح کی طرح ثابت نہ ہوتے لیکن دوسرا زمانہ جب فتح کا آیا اور مجرم آپؐ کے سامنے پیش کئے گئے تواس سے آپؐ کی صفت رحم اورعفوکا کامل ثبوت ملااوراس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آپؐ کے کام کوئی جبر پر نہ تھے ، نہ زبردستی تھی بلکہ ہر ایک امراپنے طبعی رنگ میں ہوا۔ اسی طرح آپ ؐ کے اور بہت سے اخلاق بھی ثابت ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا کہ

نَحْنُ اَوْلِیَـآؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ (حم السجدہ:۳۲)

کہ ہم اس دنیا میں بھی اور آئندہ بھی متقی کے ولی ہیں سو یہ آیت بھی تکذیب میں ان نادانوں کے ہے جنہوں نے اس زندگی میں نزول ملائکہ سے انکار کیا ہے۔

تقویٰ کی برکات
فرمایا کہ: یہ ایک نعمت ہے کہ ولیوں کو خدا کے فرشتے نظر آتے ہیں۔ آئندہ کی زندگی محض ایمانی ہے، لیکن ایک متقی کو آئندہ کی زندگی یہیں دکھلائی جاتی ہے انہیں اسی زندگی میں خدا ملتا ہے، نظر آتا ہے اور ان سے باتیں کرتا ہے سو اگر ایسی صورت کسی کو نصیب نہیں تو اس کا مرنا اور یہاں سے چلے جانا نہایت خراب ہے۔ ایک ولی کا قول ہے کہ جس کو ایک سچا خواب عمر میں نصیب نہیں ہوا اس کا خاتمہ خطرناک ہے جیسے کہ قرآن مومن کے یہ نشان ٹھہراتا ہے۔ سنو! جس میں یہ نشان نہیں اس میں تقوی نہیں سو ہم سب کی یہ دعا چاہئے کہ یہ شرط ہم میں پوری ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام، خواب، مکاشفات کا فیضان ہو کیونکہ مومن کا یہ خاصہ ہے۔ سو یہ ہونا چاہئے۔
بہت سی اور بھی برکات ہیں جو متقی کو ملتی ہیں مثلا ًسورۂ فاتحہ میں جو قرآن کے شروع میں ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مومن کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ دعا مانگیں

اِہْدِنَا الصِّـرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ( الفاتحہ: ۶۔ ۷ )

یعنی ہمیں وہ راہ سیدھی بتلا ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام و فضل ہے۔ یہ اس لئے سکھلائی گئی کہ انسان عالی ہمت ہو کر اس سے خالق کا منشاء سمجھے اور وہ یہ ہے کہ یہ امت بہائم کی طرح زندگی بسر نہ کرے بلکہ اس کے تمام پردے کھل جاویں ۔جیسے کے شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ولایت بارہ اماموں کے بعد ختم ہو گئی۔ برخلاف اس کے اس دعا سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے پہلے سے ارادہ کر رکھا ہے کہ جو متقی ہو اور خدا کی منشاء کے مطابق ہو تو وہ ان مراتب کو حاصل کر سکے جو انبیاء اور اصفیاء کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کو بہت سے قُویٰ ملے ہیں جنہوں نے نشوونما پانا ہے اور بہت ترقی کرنا ہے۔ ہاں ایک بکرا چونکہ انسان نہیں اس کے قویٰ ترقی نہیں کرسکتے۔ عالی ہمت انسان جب رسولوں اور انبیاء کے حالات سنتا ہے کہ وہ انعامات جو اس پاک جماعت کو حاصل ہوئے اس پر نہ صرف ایمان ہی ہو بلکہ اسے بتدریج ان نعماء کا علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہوجاوے۔
اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تعلیم اور خواہش کے مطابق ہر احمدی یقین کے تمام مدارج طے کرنے والاہو اور آئندہ نسلوں میں بھی اس معیار کو منتقل کرتا چلا جائے۔ اس کے لئے سب سے بڑی کوشش اللہ کے فضلوں کو مانتے ہوئے نسلوں کے دینی معیار کو بلند کرنے اور ان کو اس مادیت کے دَور سے دُور رکھنے کے لئے ان مدارج کے بارہ میں مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیںکہ علم کے تین مدارج ہیں۔ علم الیقین ، عین الیقین، حق الیقین۔ مثلاً ایک جگہ سے دھو اں نکلتا دیکھ کر آگ کا یقین کر لینا علم الیقین ہے، لیکن خود آنکھ سے آگ کا دیکھنا عین الیقین ہے ان سے بڑھ کر درجہ حق الیقین کا ہے یعنی آگ میں ہاتھ ڈال کر جلن اور حرقت سے یقین کر لینا کہ آگ موجود ہے۔ پس کیسا وہ شخص بد قسمت ہے جس کو تینوں میں سے کوئی درجہ حاصل نہیں۔ اس آیت کے مطابق جس پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں وہ کورانہ تقلید میں پھنسا ہوا ہے۔ ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: ۶۹)

جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے۔ یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ

اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ( الفاتحہ:۶)

سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مدنظر رکھ کر نماز میں دعا بالحاح کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جائے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسانہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے، فرمایا

مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ اَعْمٰی ( بنی اسرائیل:۷۳)

کہ جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہے۔ جس کی منشاء یہ ہے کہ اس جہان کے مشاہدہ کے لئے اسی جہان سے ہم کو آنکھیں لے جانی ہیں۔ آئندہ جہان کو محسوس کرنے کے لئے حواس کی طیاری اسی جہان میں ہو گی پس کیا یہ گمان ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ وعدہ کرے اور پورا نہ کرے۔

اندھا کو ن ہے؟
اندھے سے مراد وہ ہے جو روحانی معارف اور روحانی لذات سے خالی ہے ایک شخص کورانہ تقلید سے کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوگیا، مسلمان کہلاتا ہے۔ دوسری طرف اسی طرح ایک عیسائی عیسائیوں کے ہاں پیدا ہو کر عیسائی ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے شخص کو خدا، رسول اور قرآن کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اس کی دین سے محبت بھی قابل اعتراض ہے۔ خدا اور سول کی ہتک کرنے والوں میں اس کا گزرہوتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسے شخص کی روحانی آنکھ نہیں۔ اس میں محبت دین نہیں۔ وَ اِلّا محبت والا اپنے محبوب کے برخلاف کیا کچھ پسند کرتا ہے؟ غرض اللہ تعالیٰ نے سکھلایا ہے کہ میں تو دینے کو تیار ہوں اگرتولینے کو تیارہے۔ پس یہ دعا کرنا ہی اس ہدایت کو لینے کی تیاری ہے۔
اس دعا کے بعد سورہ بقرہ کے شروع میں ہی جو

ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ:۳)

کہا گیا،توگویا خدا تعالیٰ نے دینے کی تیاری کی۔ یعنی یہ کتاب متقی کو کمال تک پہنچانے کا وعدہ کرتی ہے۔ سو اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ کتاب ان کے لیے نافع ہے جوپرہیزکرنے اور نصیحت کے سننے کو تیار ہوں۔ اس درجہ کا متقی وہ ہے جو

مخلّٰی بِالطّبع

ہوکر حق بات سننے کو تیار ہو۔ جیسے جب کوئی مسلمان ہوتا ہے تووہ متقی بنتاہے۔ جب کسی غیرمذہب کے اچھے دن آئے ،تواس میں اتقاء پیدا ہوا۔ عجب ،غرور،پنداردورہوا۔ یہ تمام روکیں تھیں جو دور ہوگئیں۔ ان کے دورہونے سے تاریک گھرکی کھڑکی کھل گئی اور شعاعیں اندرداخل ہوگئیں۔ یہ جوفرمایاکہ یہ کتاب متقین کی ہدایت ہے یعنی

ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ

تو اتقاء جو افتعال کے باب سے ہے اور یہ باب تکلف کے لیے آتاہے یعنی اس میں اشارہ ہے کہ جس قدریہاں ہم تقوی چاہتے ہیں وہ تکلف سے خالی نہیں ،جس کی حفاظت کے لئے اس کتاب میں ہدایات ہیں۔ گویا متقی کو نیکی کرنے میں تکلیف سے کام لینا پڑتاہے۔
اب پانچ وقت کی نمازیں ہیں۔گوکہ نمازوں کے بارہ میں آگے ذکر آئے گا۔لیکن یہاں بھی بیان کر دیتاہوں۔ کہ یہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ بعض دفعہ ہمارے سستی ہو جاتی ہے۔فجر کی نماز ہے ۔رات میں نیند پوری نہ ہوئی ہو تو ادا نہ ہوئی۔ظہر عصر کی نمازیں ہیں اپنے دنیاوی کاموں کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں ہوئیں۔ تو قرآن کریم میں ان کو وقت پر اور باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو علم تھاکہ اس زمانہ میں کیاحالات ہوں گے اور باجماعت قیام کا نماز آسان ہوگا یا مشکل ہوگا۔لیکن اس کے باوجود یہ فرضیت اس لئے ہے کہ تکلیف اٹھائو گے تو تقویٰ کا اعلیٰ معیار حاصل کروگے ۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ پانچ وقت کی نمازوں کا التزام باقاعدہ رکھیں تاکہ ہم اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والے اور اس کا قرب پانے والے ہوں۔

اعمال میں اخفاء اچھاہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ اسی طرح یہ دنیا کیاہے ۔ ایک قسم کی دارالابتلاء ہے۔ وہی اچھا ہے جوہرایک امرخفیہ رکھے اور ریاء سے بچے۔ وہ لوگ جن کے اعمال للٰہی ہوتے ہیں وہ کسی پر اپنے اعمال ظاہر ہونے نہیں دیتے۔ یہی لوگ متقی ہیں‘‘۔
فرمایا:’’میں نے تذکرۃ الاولیاء میں دیکھا ہے کہ ایک مجمع میں ایک بزرگ نے سوال کیاکہ اس کو کچھ روپیہ کی ضرورت ہے۔ کوئی اس کی مددکرے۔ ایک نے صالح سمجھ کراس کوایک ہزارروپیہ دے دیا۔ انہوں نے روپیہ لے کر اس کی سخاوت اور فیاضی کی تعریف کی۔ اس بات پر وہ رنجیدہ ہواکہ جب یہاں ہی تعریف ہو گئی تو شاید ثواب آخرت سے محرومیت ہو۔ تھوڑی دیرکے بعد وہ آیا اور کہا کہ وہ روپیہ اس کی والدہ کا تھا جودینا نہیں چاہتی، چنانچہ وہ روپیہ واپس دیا گیا۔ جس پر ہر ایک نے لعنت کی اور کہاکہ جھوٹاہے۔ اصل میں روپیہ دینا نہیں چاہتا۔ جب شام کے وقت وہ بزرگ گھرگیا تو وہ شخص ہزارروپیہ اس کے پاس لایا اور کہاکہ آپ نے سرعام میری تعریف کرکے مجھے محرو م ثواب آخرت کیا، اس لئے میں نے یہ بہانہ کیا۔ اب یہ روپیہ آپ کا ہے ،لیکن آپ کسی کے آگے نام نہ لیں۔ بزرگ رو پڑا اور کہا کہ اب تو قیامت تک موردلعن طعن ہوا ، کیونکہ کل کاواقعہ سب کومعلوم ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ تونے مجھے روپیہ واپس دے دیا ہے۔
ایک متقی تو اپنے نفس امارہ کے برخلاف جنگ کرکے اپنے خیال کوچھپاتاہے اور خفیہ رکھتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس خفیہ خیال کو ہمیشہ ظاہر کردیتاہے۔ جیسا کہ ایک بدمعاش کسی بدچلنی کا مرتکب ہوکرخفیہ رہنا چاہتا ہے ،اسی طرح ایک متقی چھپ کرنماز پڑھتاہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی اس کو دیکھ لے۔ سچا متقی ایک قسم کا ستر چاہتاہے۔ تقوی کے مراتب بہت ہیں ،لیکن بہرحال تقوی کے لئے تکلف ہے اور متقی حالت جنگ میں ہے اور صالح اس جنگ سے باہرہے۔ جیسے کہ میں نے مثال کے طور پر اوپر ریاء کا ذکر کیاہے جس سے متقی کو آٹھوں پہر جنگ ہے‘‘۔

ریاء اور حلم کا جنگ
ریاء اور حلم کی جنگ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’ بسااوقات ریاء اور حلم کا جنگ ہوجاتاہے۔ کبھی انسان کا غصہ کتاب اللہ کے برخلاف ہوتاہے۔ گالی سن کر اس کا نفس جوش مارتاہے تقوی اس کو سکھلاتا ہے کہ وہ غصہ کرنے سے بازرہے۔ جیسے قرآن کہتاہے

وَاِذَامَرُّوْابِاللَّغْوِمَرُّوْاکِرَامًا (الفرقان: ۷۳)

کہ جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں ۔ایسا ہی بے صبری کے ساتھ اسے اکثر جنگ کرنا پڑتاہے۔ بے صبری سے مرادیہ ہے کہ اس کو راہ تقوی میں اس قدر دقتوں کا مقابلہ ہے کہ مشکل سے وہ منزل مقصود پرپہنچتا ہے،اس لئے بے صبر ہوجاتاہے مثلاًایک کنواں پچاس ہاتھ تک کھودنا ہے۔ اگر دوچار ہاتھ کے بعدکھودنا چھوڑدیا جائے،تو محض یہ ایک بدظنی ہے۔ اب تقویٰ کی شرط یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے احکام دیئے، ان کو اخیر تک پہنچائے اور بے صبر نہ ہوجاوے۔
پھرفرمایا:
’’راہ سلوک میں مبارک قدم دو گروہ ہیں۔ ایک دین العجائزوالے جو موٹی موٹی باتوں پر قدم مارتے ہیں۔ مثلاًاحکام شریعت کے پابندہوگئے اور نجات پاگئے۔ دوسرے وہ جنہوں نے آگے قدم مارا۔ ہر گزنہ تھکے اورچلتے گئے ،حتی کہ منزل مقصودتک پہنچ گئے ،لیکن نامرادوہ فرقہ ہے کہ دین العجائزسے تو قدم آگے رکھا ، لیکن منزل سلوک کوطے نہ کیا،وہ ضرور دہریہ ہوجاتے ہیں۔ جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تونمازیں بھی پڑھتے رہے۔ چلہ کشیاں بھی کیں ،لیکن فائدہ کچھ نہ ہوا۔ جیسے ایک شخص منصورمسیح نے بیان کیاکہ اس کی عیسائیت کا باعث یہی تھا کہ وہ مرشدوں کے پاس گیا،چلہ کشی کرتارہا،لیکن فائدہ کچھ نہ ہوا،تو بدظن ہو کر عیسائی ہوگیا‘‘۔
’’ سو جولوگ بے صبری کرتے ہیں ،وہ شیطان کے قبضہ میں آجاتے ہیں۔ سو متقی کو بے صبری کے ساتھ بھی جنگ ہے۔ بوستان میں ایک عابدکا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کبھی وہ عبادت کرتا توہاتف یہی آواز دیتا کہ تو مردود ومخذول ہے۔ ایک دفعہ ایک مرید نے یہ آواز سن لی اور کہا کہ اب توفیصلہ ہوگیا اب ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ وہ بہت رویا اور کہا کہ میں اس جناب کو چھوڑکرکہاں جاؤں۔ اگر ملعون ہوں توملعون ہی سہی۔ غنیمت ہے کہ مجھ کو ملعون توکہاجاتاہے۔ ابھی یہ باتیں مرید سے ہوہی رہی تھیں کہ آواز آئی کہ تو مقبول ہے۔ سو یہ سب صدق وصبرکا نتیجہ تھاجومتقی میں ہونا شرط ہے۔

کامیابی استقامت پر موقوف ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ جو فرمایا ہے کہ

وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: ۶۹)

یعنی ہمارے راہ کے مجاہدراستہ پاویں گے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ اس راہ میں پیمبرکے ساتھ مل کر جدوجہدکرنا ہوگا۔ ایک دو گھنٹے کے بعدبھاگ جانامجاہد کا کام نہیں۔ بلکہ جان دینے کے لئے تیاررہنااس کا کام ہے سو متقی کی نشانی استقامت ہے۔ جیسے کہ فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حم السجدہ :۳۱)

یعنی جنہوں نے کہاکہ رب ہمارا اللہ ہے اور استقامت دکھائی اور ہر طرف سے منہ پھیر کراللہ کوڈھونڈا۔ مطلب یہ کہ کامیابی استقامت پرموقوف ہے اور وہ اللہ کو پہچاننا اور کسی ابتلاء اورزلازل اور امتحان سے نہ ڈرنا ہے۔ ضرور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مورد مخاطبہ ومکالمہ الٰہی انبیاء کی طرح ہوگا۔

ولی بننے کے لئے ابتلا ضرور ی ہیں
آپ ؑفرماتے ہیں کہ:
’’بہت سے لوگ یہاں آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پھونک مارکرعرش پر پہنچ جائیں اورواصلین سے ہوجاویں۔ ایسے لوگ ٹھٹھا کرتے ہیں۔ وہ انبیاء کے حالات کو دیکھیں۔ یہ غلطی ہے جو کہاجاتاہے کہ کسی ولی کے پاس جاکرصدہا ولی فی الفور بن گئے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ (العنکبوت :۳)

یعنی کیا لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے، وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے؟ جب تک انسان آزمایانہ جاوے فتن میں نہ ڈالا جاوے ،وہ کب ولی بن سکتاہے۔
ایک مجلس میں بایزیدؒ وعظ فرمارہے تھے۔ وہاں ایک مشائخ زادہ بھی تھا جوایک لمبا سلسلہ رکھتا تھا۔ اس کو آپ سے اندرونی بغض تھا۔ اللہ تعالیٰ کایہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑکر کسی اور کولے لیتاہے۔ جیسے بنی اسرائیل کوچھوڑ کر بنی اسماعیل کولے لیا۔ کیونکہ وہ لوگ عیش وعشرت میں پڑکرخداکو بھول گئے ہوتے ہیں۔

وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاس (آل عمران: ۱۴۱)

یعنی اور یہ وہ ایام ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔سو اس شیخ زادے کو خیال آیاکہ یہ ایک معمولی خاندان کا آدمی ہے۔ کہاں سے ایسا صاحبِ خوارق آگیا کہ لوگ اس کی طرف جھکتے ہیں اور ہماری طرف نہیں آتے‘‘۔ اب بھی بعض لوگوں میں یہ نقص پایا جاتاہے کہ فلاں کا علم ہمارے سے کم ہے اور اس کوفلاں عہدہ ملا ہواہے اور ہم سے کوئی خدمت نہیں لی جا رہی۔ بہرحال فرماتے ہیں ’’یہ باتیں خداتعالیٰ نے حضرت بایزید ؒپرظاہر کیں تو انہوں نے قصے کے رنگ میں یہ بیان شروع کیا کہ ایک جگہ مجلس میں رات کے وقت ایک لیمپ میں پانی سے ملا ہوا تیل جل رہا تھا۔ تیل اور پانی میں بحث ہوئی۔ پانی نے تیل کوکہاکہ تو کثیف اورگندہ ہے اورباوجود کثافت کے میرے اوپرآتا ہے۔ میں ایک مصفا چیز ہوں اور طہارت کے لئے استعمال کیا جاتا ہوں لیکن نیچے ہوں۔ اس کاباعث کیا ہے؟ تیل نے کہا کہ جس قدرصعوبتیں میں نے کھینچی ہیں تونے وہ کہاں جھیلی ہیں، جس کے باعث یہ بلندی مجھے نصیب ہوئی۔ ایک زمانہ تھا جب میں بویا گیا، زمین میں مخفی رہا، خاکسارہوا۔ پھرخداکے ارادہ سے بڑھا۔ بڑھنے نہ پایا کہ کاٹاگیا ۔ پھر طرح طرح کی مشقتوں کے بعد صاف کیا گیا۔ کولہو میں پیسا گیا۔ پھر تیل بنا اور آگ لگائی گئی۔ کیا ان مصائب کے بعد بھی بلندی حاصل نہ کرتا؟
یہ ایک مثال ہے کہ اہل اللہ مصائب وشدائد کے بعد درجات پاتے ہیں۔ لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جا کربلامجاہدہ وتزکیہ ایک دم میں صدیقین میں داخل ہو گیا۔ قرآن شریف کو دیکھو کہ خدا کس طرح تم پر راضی ہو،جب تک نبیوں کی طرح تم پر مصائب وزلازل نہ آویں، جنہوں نے بعض وقت تنگ آکر یہ بھی کہہ دیا

حَتٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْامَعَہٗ مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ اَلَآاِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب (البقرۃ:۲۱۵)

یہاں تک کہ رسول اور وہ جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ سنو! یقینا اللہ کی مدد قریب ہے۔ اللہ کے بندے ہمیشہ بلائوں میں ڈالے گئے پھرخدانے ان کو قبول کیا۔

ایمان بالغیب
ایمان بالغیب کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ تقویٰ جیسا کہ مَیں بیان کر آیاہوں کسی قدر تکلف کو چاہتاہے۔اسی لئے فرمایا کہ

ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ( البقرہ : ۳۔۴)

یعنی ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ اس میں ایک تکلف ہے مشاہدہ کے مقابل ایمان بالغیب لانا ایک قسم کے تکلف کو چاہتا ہے سو متقی کے لئے ایک حد تک تکلف ہے کیونکہ جب وہ صالح کا درجہ حاصل کر تا ہے تو پھر غیب اس کے لئے غیب نہیں رہتا کیونکہ صاـلح کے اندر سے ایک نہر کھلتی ہے جو اس میں سے نکل کر خدا تک پہنچتی ہے وہ خدا ا ور اس کی محبت کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے کہ

مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ اَعْمٰی ( بنی اسرائیل:۷۳)

کہ جو اِسی دنیا میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔اسی سے ظاہر ہے کہ جب تک انسان پوری روشنی اسی جہان میں نہ حاصل کر لے وہ کبھی خدا کا منہ نہ دیکھے گا۔ سو متقی کا یہی کام ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے سرمے تیار کرتا رہے جس سے اس کا روحانی نزول الماء دور ہو جائے۔ اب اس سے ظاہر ہے کہ متقی شروع میں اندھا ہوتا ہے۔ مختلف کوششوں اور تزکیوں سے وہ نور حاصل کر تا ہے۔ پس جب سوجاکھا ہو گیا اور صالح بن گیا پھر ایمان بالغیب نہ رہا اور تکلف بھی ختم ہو گیا۔ جیسے کہ رسول اکرمﷺ کو بِرَایِ الْعَیْنِ اسی عالم میں بہشت و دوزخ وغیرہ سب کچھ مشاہدہ کرایا گیا جو متقی کو ایک ایمان بالغیب کے رنگ میں ماننا پڑتا ہے وہ تمام آپ کے مشاہدہ میں آگیا۔ اس آیت میں اشارہ ہے کہ متقی اگرچہ اندھا ہے اور تکلف کی تکلیف میں ہے لیکن صالح ایک دارالامان میں آگیا ہے اور اس کا نفس نفس مطمئنہ ہو گیا ہے متقی اپنے اندر ایمان بالغیب کی کیفیت رکھتا ہے وہ اندھا دھند طریق سے چلتا ہے اس کو کچھ خبر نہیں ہر ایک بات پر اس کا ایمان بالغیب ہے یہی اس کا صدق ہے اورا س صدق کے مقابل خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ فلاح پائے گا

اُوْلٰـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرہ:۶)۔

اقامت ِصلوٰۃ
پھر نماز کے قیام کے بارہ میں آپ ؑفرماتے ہیں:
’’اس کے بعد متقی کی شان میں آیا ہے

وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ( البقرہ:۴ )

یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتا ہے یہاں لفظ کھڑی کرنے کا آیا ہے یہ بھی اس تکلف کی طرف اشارہ کرتا ہے جو متقی کا خاصہ ہے یعنی جب وہ نماز شروع کرتا ہے تو طرح طرح کے وساوس کا اسے مقابلہ ہوتا ہے جن کے باعث اس کی نماز گویا بار بار گری پڑتی ہے جس کو اس نے کھڑا کرنا ہے۔ جب اس نے

اَللّٰہُ اَکْبَر

کہا تو ایک ہجوم وساوس ہے جو اس کے حضور قلب میں تفرق ڈال رہا ہے وہ ان سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے، پریشان ہوتا ہے ،ہر چند حضور و ذوق کے لئے لڑتا مرتا ہے لیکن نماز جو گری پڑتی ہے بڑی جان کنی سے اسے کھڑا کرنے کے فکر میں ہے۔ بار بار

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن

کہہ کر نماز کے قائم کرنے کے لئے دعا مانگتا ہے اور ایسے

اَلصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

کی ہدایت چاہتا ہے جس سے اس کی نماز کھڑی ہو جائے۔ ان وساوس کے مقابل میں متقی ایک بچہ کی طرح ہے جو خدا کے آگے گڑگڑاتا ہے روتا ہے اور کہتا ہے کہ میں

اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ ( الاعراف:۱۷۷ )

ہو رہا ہوں (یعنی زمین کی طرف جھک گیا)۔ سو یہی وہ جنگ ہے جو متقی کو نماز میں نفس کے ساتھ کرنی ہوتی ہے اور اسی پر ثواب مترتب ہو گا۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز میں وساوس کو فی الفور دور کرنا چاہتے ہیں‘ حالانکہ

وَ ُیِقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ

کی منشاء کچھ اور ہے۔ کیا خدا نہیں جانتا ؟ حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی ( رحمۃ اللہ علیہ) کا قول ہے کہ ثواب اس وقت تک ہے جب تک مجاہدات ہیں اور جب مجاہدات ختم ہو ئے تو ثواب ساقط ہو جاتا ہے۔ گویا صوم و صلوٰۃ اس وقت تک اعمال ہیں جب تک ایک جدوجہد سے وساوس کا مقابلہ ہے لیکن جب ان میں ایک اعلیٰ درجہ پیدا ہوگیا اور صاحب صوم و صلوٰۃ تقوی کے تکلف سے بچ کر صلاحیت سے رنگین ہوگیا تو اب صوم وصلوۃ اعمال نہیں رہے۔ اس موقعہ پر انہوں نے سوال کیا کہ کیا اب نماز معاف ہو جاتی ہے؟ کیونکہ ثواب تو اس وقت تھا جس وقت تک تکلف کرنا پڑتا تھا۔ سو بات یہ ہے کہ نماز اب عمل نہیں بلکہ ایک انعام ہے۔ یہ نماز اس کی ایک غذا ہے جو اس کے لئے قرۃ العین ہے۔ یہ گویا نقد بہشت ہے۔
مقابل میں وہ لوگ جو مجاہدات میںہیں وہ کشتی کر رہے ہیں اور یہ نجات پا چکا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا سلوک جب ختم ہوا تو اس کے مصائب بھی ختم ہو گئے مثلاً ایک مخنث اگر یہ کہے کہ وہ کبھی کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تو وہ کونسی نعمت یا ثواب کا مستحق ہے۔ اس میں تو صفت بد نظری ہے ہی نہیں ، لیکن اگر ایک مرد صاحب رجولیت ایسا کرے تو ثواب پائے گا۔ اسی طرح انسان کو ہزاروں مقامات طے کرنے پڑتے ہیں۔ بعض بعض امور میں اس کی مشاقی اس کو قادر کر دیتی ہے۔ نفس کے ساتھ اس کی مصالحت ہو گئی اب وہ ایک بہشت میں ہے لیکن وہ پہلا سا ثواب نہیں رہے گا۔ وہ ایک تجارت کر چکا ہے جس کا وہ نفع اٹھا رہا ہے ، لیکن پہلا رنگ نہ رہے گا۔ انسان میں ایک فعل تکلف سے کرتے کرتے طبیعت کا رنگ پیدا ہو جا تا ہے۔ ایک شخص جو طبعی طور سے لذت پاتا ہے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اس کام سے ہٹایا جاوے۔ وہ طبعاً یہاں سے ہٹ نہیں سکتا۔ سو اِتِّقَا اور تقویٰ کی حد تک پورا انکشاف نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک قسم کا دعویٰ ہے۔
تو یہاں ان لوگوں کی بھی تسلی ہو جانی چاہئے جو گھبرا گھبرا کر لکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں نماز میں سرور نہیں آتا، توجہ نہیں پیدا ہوتی جو ہم چاہتے ہیں۔ اور باربار ہماری توجہ اس طرف سے پھر رہی ہوتی ہے ۔ بار بار ہم اپنی توجہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔خوفزدہ ہو رہے ہوتے ہیں کہ شیطان ہم پر غلبہ پا رہا ہے۔ تو مستقل مزاجی شرط ہے۔ یہ طریق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھا دیاہے ۔اس پر قائم رہیں تواس وقت نمازوں میں سرور بھی آنا شروع ہو جائے گا ۔انشاء اللہ۔

انفاق من رزق اللہ
پھر جو اللہ تعالیٰ نے رزق دیا اس کوکس طرح خر چ کرناہے اس بارہ میں آپ ؑفرماتے ہیں: ۔
’’اس کے بعد متقی کی شان میں

وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ( البقرہ:۴ )

آیا ہے (یعنی اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں)۔ یہاں متقی کے لئے مِمّا کا لفظ استعمال کیا کیونکہ اس وقت وہ ایک اعمٰی کی حالت میں ہے اس لئے جو خدا نے اس کو دیا اس میں سے کچھ خدا کے نام کا دیا۔ حق یہ ہے کہ اگر وہ آنکھ رکھتا تو دیکھ لیتا کہ اس کا کچھ بھی نہیں سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہی ہے۔ یہ ایک حجاب تھا جو اِتِّقَا میں لازمی ہے اس حالت اِتِّقَا کے تقاضے نے متقی سے خدا کے دئیے میں سے کچھ دلوایا۔ رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایام وفات میں دریافت فرمایا کہ گھر میں کچھ ہے؟ معلوم ہوا کہ ایک دینار تھا۔ فرمایا کہ یہ سیرت یگانگت سے بعید ہے کہ ایک چیز بھی اپنے پاس رکھی جاوے۔ رسول اکرم ﷺ اِتِّقَا کے درجہ سے گزر کر صلاحیت تک پہنچ چکے تھے،اس لئے مِمّا ان کی شان میں نہ آیا ،کیونکہ وہ شخص اندھا ہے جس نے کچھ اپنے پاس رکھا اور کچھ خدا کو دیا ، لیکن یہ لازمۂ متقی تھا کیونکہ خدا کی راہ میں دینے سے بھی اسے نفس کے ساتھ جنگ تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کچھ دیا اور کچھ رکھا۔ ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ خدا کی راہ میں دے دیا اور اپنے لئے کچھ نہ رکھا۔
یہاں بھی قرآن کریم نے جوانسان کو تمام مراحل ترقی کے طے کرانے آیاہے ۔اتقا سے شروع کیا ہے۔ یہ ایک تکلف کا راستہ ہے۔ یہ ایک خطرناک میدا ن ہے۔ اس کے ہاتھ میں تلوار ہے اور مقابل بھی تلوار ہے۔ اگر بچ گیا تو نجات پا گیا

وَ اِلّا اَسْفَلُ السَّافِلِیْنَ

میں پڑ گیا۔ چنانچہ یہاں متقی کی صفات میں یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ ہم دیتے ہیں اسے سب کا سب خرچ کر دیتا ہے متقی میں اس قدر ایمانی طاقت نہیں ہوتی جو نبی کی شان ہوتی ہے کہ وہ ہمارے ہادی ٔ کامل کی طرح کل کا کل خدا کا دیا ہوا خدا کو دے دے۔ اسی لئے پہلے مختصر سا ٹیکس لگایا گیا تا کہ چاشنی چکھ کر زیادہ ایثار کے لئے تیار ہو جاوے۔
اب جماعت پر یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر مالی قربانی کے اس نقطہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی ۔ آج کئی ایسے احمدی مل جاتے ہیں جو مستقل مالی قربانیوں کے علاوہ لاکھوں کروڑوں روپے خلیفہ ٔوقت کو پیش کررہے ہوتے ہیں کہ جہاں چاہیں خرچ کرلیں جبکہ دوسرے اپنی عیاشیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ایک ا یک شخص کے پاس شاید سینکڑوں امیر ترین احمدیوں کے پیسوں کے مقابلہ میں بھی بہت زیادہ پیسہ ہوگا لیکن خدا کی راہ میں ایک احمدی کی قربانی کا شاید ہزارواں بلکہ لاکھواں حصہ بھی وہ خرچ نہیں کرسکتے ۔پس جس فکر اوردعا سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کو اس قربانی کی طرف توجہ دلائی ہے اس کام کو، اس تعلیم کو ہم نے آگے چلانا ہے، آگے بڑھانا ہے۔ ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ اپنی نسلوں میں بھی اس ذکر اوردعا کو فکر کے ساتھ قربانی کے معیار کو جاری کریں اور قائم رکھیں بلکہ بڑھائیں کیونکہ زندہ قومیں اپنا قدم آگے بڑھاتی ہیں۔

رزق سے مراد
پھر آپ فرماتے ہیں کہ رزق سے کیا مرادہے۔

وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ( البقرہ:۴ )

(یعنی اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں) ۔رزق سے مراد صرف مال نہیں بلکہ جو کچھ ان کو عطا ہوا۔ علم، حکمت، طبابت۔ یہ سب رزق میں ہی شامل ہے۔ اس کو اسی میں سے خدا کی راہ میں بھی خرچ کرنا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
اس کے بعد متقی کے لئے فرمایا

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُؤْقِنُوْنَ ( البقرہ:۵ )

یعنی وہ متقی ہوتے ہیں جو پہلی نازل شدہ کتب پر اور تجھ پر جو کتاب نازل ہوئی اس پر ایمان لاتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ امر بھی تکلف سے خالی نہیں۔ ابھی تک ایمان ایک محجوبیت کے رنگ میں ہے۔ متقی کی آنکھیں معرفت اور بصیرت کی نہیں۔ اس نے تقوی سے شیطان کا مقابلہ کر کے ابھی تک ایک بات کو مان لیا ہے۔ یہی حال اس وقت ہماری جماعت کا ہے۔ انہوں نے بھی تقوی سے مانا تو ہے پر ابھی تک وہ نہیں جانتے کہ یہ جماعت کہاں تک نشوونما الٰہی ہاتھوں سے پانے والی ہے۔ سو یہ ایک ایمان ہے جو بالآخر فائدہ رساں ہوگا۔
یقین کا لفظ جب عام طور پر استعمال ہو تو اس سے مراد اس کا ادنیٰ درجہ ہوتا ہے یعنی علم کے تین مدارج میں سے ادنیٰ درجہ کا علم یعنی علم الیقین۔ اس درجہ پر اِتِّقَا والا ہوتا ہے مگر بعد اس کے عین الیقین اور حق الیقین کا مرتبہ بھی تقوی کے مراحل طے کرنے کے بعد حاصل کر لیتا ہے‘‘۔
فرمایا:’’تقویٰ کوئی چھوٹی چیز نہیں۔ اس کے ذریعہ سے ان تمام شیطانوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو انسان کی ہرایک اندرونی طاقت وقوت پر غلبہ پائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام قوتیں نفس امارہ کی حالت میں انسان کے اندر شیطان ہیں اگر اصلاح نہ پائیں گی تو انسان کو غلام کرلیں گی۔ علم و عقل ہی برے طور پر استعمال ہو کر شیطان ہو جاتے ہیں۔ متقی کا کام ان کی اور ایسا ہی اور دیگرکُل قُویٰ کی تعدیل کرنا ہے۔

سچے مذہب کی نشانی
سچے مذہب کی کیا نشانی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’سچا مذہب انسانی قویٰ کا مربی ہوتا ہے ۔ایسا ہی جو لوگ انتقام ، غضب یا نکاح کو ہر حال میں برا مانتے ہیں، وہ بھی صحیفہ ٔ قدرت کے مخالف ہیں اور قویٰ انسانی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ سچا مذہب وہی ہے جو انسانی قوی کا مربی ہو ،نہ کہ ان کااستیصال کرے۔ رجولیت یاغضب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فطرت انسانی میں رکھے گئے ہیں ان کو چھوڑنا خدا کا مقابلہ کرنا ہے جیسے تارک الدنیا ہونا یا راہب بن جانا۔ یہ تمام امور حق العباد کو تلف کرنے والے ہیں اگر یہ امر ایسا ہی ہوتا تو گویا اس خدا پر اعتراض ہے جس نے یہ قویٰ ہم میں پیدا کئے۔ پس ایسی تعلیمات جو انجیل میں ہیں اور جن سے قوی کا استیصال لازم آتا ہے ضلالت تک پہنچاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اس کی تعدیل کا حکم دیتا ہے ضائع کرنا پسند نہیں کرتا۔ جیسے فرمایا

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ… الخ (النحل:۹۱)

یعنی یقینا اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے۔ عدل ایک ایسی چیز ہے جس سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ حضرت مسیح کا یہ تعلیم دینا کہ اگر تو بری آنکھ سے دیکھے تو آنکھ نکال ڈال۔ اس میں بھی قوی کا استیصال ہے کیونکہ ایسی تعلیم نہ دی کہ تو غیرمحرم عورت کو ہرگز نہ دیکھ مگر برخلاف اس کے اجازت دی کہ دیکھ تو ضرور لیکن زنا کی آنکھ سے نہ دیکھ۔ دیکھنے سے تو ممانعت ہے ہی نہیں۔ دیکھے گا تو ضرور ،بعد دیکھنے کے دیکھنا چاہئے کہ اس کے قویٰ پر کیا اثر ہو گا۔ کیوں نہ قرآن شریف کی طرح آنکھ کو ٹھوکر والی چیز ہی کے دیکھنے سے روکا اور آنکھ جیسی مفید اور قیمتی چیز کو ضائع کر دینے کا افسوس لگایا۔

اسلامی پردہ سے مراد
اس ضمن میں اسلامی پردہ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’آجکل پردے پر حملے کئے جا تے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زنداں نہیں بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب پردہ ہو گا ،ٹھوکر سے بچیں گے۔ ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مردو عورت اکٹھے بلا تامل اور بے محابا مل سکیں ،سیریں کریں کیوںکر جذبات نفس سے اضطراراً ٹھوکر نہ کھائیں گے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بندہو ، کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔ یہ گویا تہذیب ہے۔ انہیںبد نتائج کوروکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی ،جوکسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد وعورت ہر دو جمع ہوں، تیسرا ان میں شیطان ہوتاہے۔ ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خَلِیْعُ الرَّسَنْ تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جا رہی ہے۔ یہ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی چیز کوخیانت سے بچاناچاہتے ہو توحفاظت کرو۔ لیکن اگر حفاظت نہ کرواور یہ سمجھ رکھوکہ بھلے مانس لوگ ہیں ،تو یاد رکھو کہ ضروروہ چیز تباہ ہوگی۔ اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد وعورت کوالگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خودکشیاں دیکھیں۔ بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرناایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیرعورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی ہے۔
اب اس ضمن میں ایک اور وضاحت بھی کرتاہوں۔ یہ اسلامی تعلیم کا جو نقشہ مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا ہے اس پر عمل کرنے کی ہمیں پہلے سے بڑھ کر آج ضرورت ہے جبکہ مادیت کا بہت زور ہے ۔اخلاقی اقدار بالکل ختم ہو چکی ہیں۔رابطے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ مشرق و مغرب کی کو ئی تخصیص نہیں رہی۔ اب انٹرنیٹ کو ہی لے لیں جہاں ان کے فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں۔ اب یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اتفاقاً رابطہ ہوتاہے ،ایک دوسرے کا پتہ بھی نہیں ہوتا ۔ بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھراب یہ بھی سہولتیں میسر ہیں کہ ایک دوسرے کی تصویر ،حرکات و سکنات بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اور اکثر ایسا ہوتاہے کہ غلط قسم کے لڑکے مستقل اپنے کمپیوٹر کے سامنے اس لئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب کسی معصوم لڑکی سے رابطہ ہو اور پھر اس کو ورغلا کر اس کی زندگی برباد کی جائے۔ کئی واقعات ایسے ہو چکے ہیں۔ لڑکیوں کی اس طرح تصویریں بھیجنا بھی بے پردگی کے زمرے میں آتاہے۔ تو عموماًدیکھا گیاہے کہ یہ دوستیاں ، یہ رشتے نیک نتائج کے حامل نہیں ہوتے۔ ماں باپ خاندانوں کی بدنامی کا باعث ہی ہوتے ہیں اور کبھی اگر رشتے ہو بھی جائیں تو کامیاب نہیں ہوتے۔ احمدی لڑکوں اور لڑکیوں کو اس سے بہرحال اجتناب کرنا چاہئے، بہت احتیاط کرنی چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے جس قدرقوی عطافرمائے، وہ ضائع کرنے کے لئے نہیں دیئے گئے ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوو نما ہے۔ اسی لئے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا۔ جیسے فرمایا

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المومنون:۲)

اور ایسے ہی یہاںبھی فرمایا۔ متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطورنتیجہ یہ کہا۔

وَاُوْلٰـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرہ ۶:)

یعنی وہ لوگ جو تقوی پر قدم مارتے ہیں۔ ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ نماز ڈگمگاتی ہے پھراسے کھڑا کرتے ہیں۔ خداکے دیئے ہوئے سے دیتے ہیں۔ باوجود خطرات نفس بلاسوچے ،گزشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں‘‘۔ایمان بالغیب کی طرف اشارہ ہے ۔ ’’اور آخرکار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سرپر ہیں۔ وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابرآگے کو جا رہی ہے اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتاہے۔ پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے اور راہ کے خطرات سے نجات پاچکے ہیں ،اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تقوی کی تعلیم دے کر ایک ایسی کتاب ہم کو عطا کی جس میں تقوی کے وصایابھی دیئے۔

اہل تقویٰ کے لئے ایک اہم شرط
سو ہماری جماعت یہ غم کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پرلگائے کہ ان میں تقوی ہے یا نہیں‘‘۔
’’ اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اورمسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقوی کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اورکڑی منزل غضب سے بچناہی ہے۔ عجب وپندارغضب سے پیدا ہوتاہے اور ایسا ہی کبھی خودغضب عجب وپندارکا نتیجہ ہوتاہے ،کیونکہ غضب اس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتاہے‘‘۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ :
’’میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کوچھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پرغرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندرحقارت ہے، ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے۔ بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں۔ لیکن بڑا وہ ہے جومسکین کی بات کو مسکینی سے سنے، اس کی دل جوئی کرے، اس کی بات کی عزت کرے، کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمَ الْفَسُوْقِ بَعْدَ الْاِیْمَانِ۔ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰـئِکَ ھُمُ الظّٰـلِمُوْنَ (الحجرات:۱۲)

تم ایک دوسرے کا چڑکے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسَّاقْ وفُجَّارْکا ہے۔ جو شخص کسی کو چڑاتاہے ،وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کل پانی پیتے ہو ،تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرم ومعظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہوسکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات:۱۴)

یعنی بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے۔
اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے بن جائیں ،آپس میں ایک دوسرے کے لئے عزت و احترام دلوں میں پیدا کرلیں تو سارے جھگڑے ختم ہوجائیں ۔ بھائی بھائی کا احترام کرے ،خاوند بیوی ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کرنے والے اور ا حترام کرنے والے بن جائیں تو ایک حسین معا شرہ انشاء اللہ قائم ہوجائے گا۔

متقی کون ہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں۔ وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے۔ ان کی گفتگوایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔ ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہئے جس سے ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دارنہیں۔ وہ خاص تقوی کو چاہتا ہے جو تقویٰ کرے گاوہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا۔ آنحضرتﷺ یا حضرت ابراہیم علیہ السلام میں سے کسی نے وراثت سے تو عزت نہیں پائی۔ گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے، لیکن اس نے نبوت تو نہیں دی۔ یہ تو فضل الٰہی تھا ان صدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھے۔ یہی فضل کے محرک تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابوالانبیاء تھے ، انہوں نے اپنے صدق وتقوی سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا۔ خود آگ میں ڈالے گئے۔ ہمارے سید ومولیٰ حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کا ہی صدق ووفا دیکھئے! آپ ؐ نے ہر قسم کی بدتحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب وتکالیف اٹھائے ،لیکن پرواہ نہ کی۔ یہی صدق ووفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓـئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓـاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:۵۷)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو!تم درود وسلام بھیجو نبی ؐپر۔
اس آیت سے ظاہر ہوتاہے کہ رسول اکرم ؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے یعنی آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپ ؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا ا ورآپؐ کے اعمال خداکی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیاکہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ آپ کی ہمت وصدق وہ تھا کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں ،تو اس کی نظیر نہیں ملتی۔ خود حضرت مسیح کے وقت کو دیکھ لیا جاوے کہ ان کی ہمت یاروحانی صدق ووفا کا کہاں تک اثر ان کے پیروؤں پر ہوا۔ ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایک بد روش کو درست کرنا کس قدر مشکل ہے۔ عادات راسخہ کا گنوانا کیسا محالات سے ہے، لیکن ہمارے مقدس نبیﷺ نے تو ہزراروں انسانوں کو درست کیا ،جو حیوانوں سے بدتر تھے۔ بعض، ماؤں اور بہنوں میں حیوانوں کی طرح فرق نہ کرتے تھے۔ یتیموں کا مال کھاتے، مردوں کا مال کھاتے۔ بعض ستارہ پرست ،بعض دہریہ ،بعض عناصرپرست تھے۔ جزیرہ عرب کیا تھا ایک مجموعہ مذاہب اپنے اندررکھتا تھا‘‘۔

نبی کریم ؐ کا عظیم الشان معجزہ
’’ہمارے نبی اکمل ؐ کی برکات جس قدرظہور میں آئیں اگر تمام خوارق کو الگ کر دیا جائے تو صرف آپ کی اصلاح ہی ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ اگر کوئی اس حالت پر غور کرے ،جب آپ ؐ آئے۔ پھر اس حالت کو دیکھے، جو آپ ؐ چھوڑ گئے تو اس کو ماننا پڑے گا کہ یہ اثر بذات خود ایک اعجاز تھا ،اگرچہ کل انبیاء عزت کے قابل ہیں لیکن

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآء (الجمعہ:۵)

یعنی یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اُس کو جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لاتے تو نبوت تو درکنارخدائی کاثبوت بھی اس طرح نہ ملتا۔ آپ ؐ ہی کی تعلیم سے

قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔اَللّٰہُ الصَّمَد ۔لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَد (الاخلاص)

کا پتہ لگا۔یعنی تُو کہہ دے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ بے احتیاج ہے۔ نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور اُس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا۔
اگر تورات میں کوئی ایسی تعلیم ہوتی اور قرآن مجیداس کی تصریح ہی کرتاتو نصاریٰ کا وجود ہی کیوں ہوتا۔
آپ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں سب سچائیاں ہیں۔غرض قرآن شریف نے جس قد رتقوی کی راہیں بتلائیں اور ہر طرح کے انسانوں اور مختلف عقل والوں کی پرورش کرنے کے طریق سکھلائے ایک جاہل ،عالم اور فلسفی کی پرورش کے راستے ہر طبقے کے سوالات کے جوابات غرضیکہ کوئی فرقہ نہ چھوڑا،جس کی اصلاح کے طریق نہ بتائے۔ یہ ایک صحیفہ ٔ قدرت تھا۔ جیسے کہ فرمایا

فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃ (البینہ :۴)

یہ وہ صحیفے ہیں ،جن میں کل سچائیاں ہیں۔ یہ کیسی مبارک کتاب ہے کہ اس میں سب سامان اعلیٰ درجہ تک پہنچنے کے موجودہیں۔

مسیح و مہدی
فرماتے ہیں:
’’لیکن افسوس ہے کہ جیسے حدیث میں آیا ہے کہ ایک درمیانی زمانہ آوے گا جو فیج اعوج ہے‘‘۔ یعنی بگڑے ہوئے لوگوں کا زمانہ ۔’’یعنی حضور علیہ السلام نے فرمایاکہ ایک میرا زمانہ برکت والا ہے ایک آنے والے مسیح ومہدی کا۔ مسیح ومہدی کوئی دوالگ اشخاص نہیں ان سے مراد ایک ہی ہے مہدی ہدایت یافتہ سے مرادہے۔ کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ مسیح مہدی نہیں۔ مہدی مسیح ہو یا نہ ہو لیکن مسیح کے مہدی ہونے سے انکارکرنا مسلمان کا کام نہیں۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے یہ دو الفاظ سب وشتم کے مقابل بطور ذب کے رکھے ہیں کہ وہ کافر ،ضال، مضل نہیں۔ بلکہ مہدی ہے چونکہ اس کے علم میں تھا کہ آنے والے مسیح و مہدی کو دجال وگمراہ کہا جائے گا، اس لئے اس کو مسیح ومہدی کہا گیا دجال کا تعلق

اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ (الاعراف۱۷۷:)

سے تھا اور مسیح کا رفع آسمانی ہونا تھا۔ سو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دو ہی زمانوں میں ہونی تھی۔ ایک آپ ؐ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح ومہدی کا زمانہ۔ یعنی ایک زمانہ میں تو قرآن اور سچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس تعلیم پر فیج اعوج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا۔ جس پردہ کا اٹھا یا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا۔ جیسے کہ فرمایاکہ رسول اکرمﷺ نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام ؓ کا تزکیہ کیااو رایک آنے والی جماعت کا جس کی شان میں

لَمَّایَلْحَقُوْابِھِم (الجمعہ :۴)

آیا ہے یعنی جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ یہ ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا۔ بلکہ آنے والے زمانہ میں خدا تعالیٰ حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا۔ آثار میںہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہو گی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کرکے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہوگئی ہوں گی۔

جہاد کی حقیقت
اب جہاد کی حقیقت کے بارہ میں آپ ؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ اللہ تعالیٰ بعض مصالح کے رو سے ایک فعل کرتاہے اور آئندہ جب وہ فعل معرض اعتراض ٹھہرتاہے تو پھروہ فعل نہیں کرتا۔ اولاً ہمارے رسول اکرم ﷺنے کوئی تلوارنہ اٹھائی مگر ان کو سخت سے سخت تکالیف برداشت کرنی پڑیں۔ تیرہ سال کا عرصہ ایک بچے کو بالغ کرنے کے لیے کافی ہے اور حضرت مسیح کی میعاد تو اگر اس میعاد میں سے دس نکال دیں تو پھر بھی کافی ہوتی ہے۔ غرض اس لمبے عرصے میں کوئی یا کسی رنگ کی تکلیف نہ تھی جو اٹھانی نہ پڑی ہو۔ آخرکاروطن سے نکلے تو تعاقب ہوا دوسری جگہ پناہ لی ،تو دشمن نے وہاں بھی نہ چھوڑا جب یہ حالت ہوئی تومظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے بچانے کے لیے حکم ہوا۔

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ۔ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْامِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْارَبُّنَااللّٰہُ (الحج:۴۰۔۴۱)

کہ جن لوگوں کے ساتھ لڑائیاں خواہ مخواہ کی گئیں اور گھروں سے ناحق نکالے گئے، صرف اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارارب اللہ ہے۔ سو یہ ضرورت تھی کہ تلوار اٹھائی گئی۔ وَاِلاَّحضرت کبھی تلوار نہ اٹھاتے۔ ہاں ہمارے زمانہ میں ہمارے بر خلاف قلم اٹھائی گئی ہے ،قلم سے ہم کواذیت دی گئی اور سخت ستایا گیا،اس لئے اس کے مقابل پر قلم ہی ہمارا حربہ ہے‘‘۔

جماعت کے لئے نصیحت
جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں باربارکہہ چکاہوں کہ جس قدرکوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے ،اسی قدرمؤاخذہ کے قابل ہے۔ اہل بیت زیادہ مؤاخذہ کے لائق تھے۔ وہ لوگ جو دور ہیں ،وہ قابل مؤاخذہ نہیں ،لیکن تم ضرورہو۔ اگر تم میں ان پر کوئی ایمانی زیادتی نہیں ،توتم میں اوران میں کیا فرق ہوا۔ تم ہزاروں کے زیرنظرہو۔ وہ لوگ گورنمنٹ کے جاسوسوں کی طرح تمہاری حرکات وسکنات کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ سچے ہیں۔ جب مسیح کے ساتھی صحابہؓ کے ہمدوش ہونے لگے ہیں ، تو کیا آپ ویسے ہیں ؟جب آپ لوگ ویسے نہیں، توقابل گرفت ہیں۔ گویہ ابتدائی حالت ہے لیکن موت کا کیا اعتبارہے۔ موت ایک ایسا ناگزیرامر ہے جو ہر شخص کو پیش آتا ہے۔ جب یہ حالت ہے تو پھر آپ کیوں غافل ہیں۔ جب کوئی شخص مجھ سے تعلق نہیں رکھتا، تویہ امر دوسرا ہے ،لیکن جب آپ میرے پاس آئے ،میرا دعویٰ قبول کیااور مجھے مسیح مانا،تو گویا من وجہٍ آپ نے صحابہ کرام ؓکے ہمدوش ہونے کا دعویٰ کردیا۔ تو کیاصحابہؓ نے کبھی صدق ووفا پر قدم مارنے سے دریغ کیا، ان میں کوئی کسل تھا، کیاوہ دل آزارتھے؟،کیا ان کو اپنے جذبات پر قابونہ تھا؟،کیا وہ منکسرالمزاج نہ تھے ،بلکہ ان میں پرلے درجہ کا انکسارتھا۔ سو دعا کروکہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی ویسی ہی توفیق عطا کرے کیونکہ تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی شخص اختیارنہیں کرسکتاجب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی مددنہ کرے۔ اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچہ کی طرح اپنے آپ کو کمزورپاؤ،تو گھبراؤنہیں۔

اِھْدِناالصِّرَاطَ المُسْتَقِیم

کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو۔ راتوں کو اٹھواور دعا کروکہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ نے بھی تدریجاًتربیت پائی۔ وہ پہلے کیا تھے۔ ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے۔ پھر آنحضرت ﷺنے آبپاشی کی۔ آپ نے ان کے لئے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلاجس طرح حضورعلیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے وہ دن کا یا رات کا انتظار نہ کرتے تھے تم لوگ سچے دل سے توبہ کر و،تہجدمیں اٹھو،دعا کرو،دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑدواور خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول وفعل کو بنائو۔ یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کوورد بنائے گااور عملی طورسے دعا کرے گا اور عملی طور پر التجاء خداکے سامنے لائے گا اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گااور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی۔ خداتعالیٰ سے ناامیدمت ہو۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو کیا کوئی ولی بننا ہے ؟ افسوس انہوں نے کچھ قدرنہ کی۔ بے شک انسان نے (خداکا) ولی بنناہے۔ اگر وہ صراط مستقیم پر چلے گا تو خدابھی اس کی طرف چلے گا۔ اور پھر ایک جگہ پر اس کی ملاقات ہو گی۔ اس کی اس طرف حرکت خواہ آہستہ ہو گی لیکن اس کے مقابل خداتعالیٰ کی حرکت بہت جلد ہو گی ،چنانچہ یہ آیت اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُم…الخ (العنکبوت :۷۰)

یعنی وہ لوگ جو ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے۔ سو جو جو باتیں میں نے آج وصیت کی ہیں ان کویاد رکھوکہ ان ہی پر مدارنجات ہے۔ تمہارے معاملات خدا اور خلق کے ساتھ ایسے ہونے چاہئیں جن میں رضاء الٰہی مطلق ہی ہو۔ پس اس سے تم نے

وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ… الخ

کے مصداق بننا ہے۔ یعنی انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے۔
اب آخر میں ایک اقتباس پیش کرتاہوں جس میں حسب روایت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ اس جلسے سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلیں کہ ان کے دل آخر ت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہداور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اورباہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکساراور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘ (شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۳۹۴)
پھرفرمایا : ’’اس جلسے کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلے کی بنیادی اینٹ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ ‘‘
(اشتہار۷؍ دسمبر۱۸۹۲ء مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۳۴۱)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قومیں اس میں شامل ہو رہی ہیں پس ان کی تربیت کے لئے ہم، جن پر ایک عرصہ احمدیت پر قائم رہتے ہوئے ہو گیا ہے ،ہمارایہ فرض بنتاہے کہ اپنی اصلاح کی زیادہ کوشش کریں، تقویٰ پر قائم ہوں تا کہ ان آنے والوں کی بھی صحیح تربیت کر سکیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور ہم میں سے ہر ایک جو اس جلسہ میں شامل ہے یا جو دنیا میں کہیں بھی اس جلسہ کی کاروائی کو سن رہا ہے وہ گواہی دے کہ اے مسیح آخرالزمان اللہ تعالیٰ نے اسلام کی جس حسین تعلیم کو آنحضر ت ﷺپر اتارا تھا اور آپ ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق جس طرح ہماری اصلاح کے لئے ……آپ نے اس تعلیم کو ہم تک پہنچانے کا حق ادا کردیا۔……اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم اس خوبصورت تعلیم کو آپ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق، جو …مسیح موعود ہیں اور حکم و عدل ہیں دنیا کے کونے کونے تک پہنچاتے چلے جائیں اور تمام دنیا کو آنحضرت ﷺکے جھنڈے تلے اکٹھا کردیں۔جلسہ کے ان ایام میں جب کہ آپ محض دینی اغراض کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں مکمل طورپر جلسہ کے پروگراموںسے فائدہ اٹھائیں۔ ہر تقریر میں ہر خطاب میں کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوتی ہے جو علم میں ،تقویٰ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ ان دنوں میں ذکر الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر ر کھیں، دعاؤں پر زور دیں،دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں پر زور دیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس جلسہ کی حقیقی برکات سے فیض اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب دعا کرلیں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں