حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ کی حسین یادیں

رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب اپنی یادوں کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں کہ جب مَیں پہلی بار حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے 1973ء میں ملا تو مَیں آپؒ سے ناواقف تھا۔ آپؒ جلسہ سالانہ ربوہ پر آنے والے سیاہ فام امریکیوں کے ایک وفد سے گیسٹ ہاؤس میں باتیں کررہے تھے، جب مَیں صبح کی سیر کے بعد واپس پہنچا اور بلاجھجک گفتگو میں مخل ہوگیا۔ مَیں نے کچھ نامناسب باتیں بھی یہ سوچ کر کہیں کہ میرے تجربات اور دین سے محبت شاید اِن امریکی احمدیوں کے لئے کارآمد ہو۔ حضورؒ نے بہت تحمل سے کام لیتے ہوئے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ کیا بلکہ میرے ساتھ بات چیت شروع کردی اور کچھ دیر بعد یہ محفل ختم ہوگئی۔ پھر مَیں نے ایک قلم آپؒ کو تحفۃً پیش کیا۔ دو سال بعد مَیں دوبارہ ربوہ جلسہ پر گیا تو حضورؒ نے بہت سے غیرملکیوں کو اپنی رہائش گاہ پر شام کے کھانے پر مدعو کیا۔ اس موقع پر مجھے وہی قلم بڑی محبت کے ساتھ دکھایا جسے حضورؒ اُس وقت تک استعمال فرمارہے تھے اور اِس قلم کی سیاہی کی نلکیوں (ink cartridges) کی عدم دستیابی کی وجہ سے پرانی نلکی میں ہی باریک سوراخ کے ذریعے سرنج کی مدد سے روشنائی ڈال لیا کرتے تھے۔ مَیں نے حضورؒ کو اپنی انگریزی کی بعض نظمیں سنائیں جو مَیں نے قادیان جاتے ہوئے جذبات سے مغلوب ہوکر کہی تھیں۔ حضورؒ بہت انہماک سے سنتے رہے اور جس مصرعے کی تکرار ہوتی، اُسے خود بھی گنگناتے۔
آپؒ جب بھی جرمنی تشریف لاتے تو اکثر میرے گھر بھی تشریف لاتے۔ اُس وقت میں ایک چھوٹے سے مکان میں اپنی ماریشین بیوی ہدایت بیگم سوکیہ کے ساتھ رہتا تھا۔ حضورؒ بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ ہمارے گھر آتے چائے کے ساتھ ساتھ آپؒ میری صحت اور کام کی متعلق بھی پوچھتے اور میرے سوالات کے جواب بھی دیتے۔ آپؒ خود کو کبھی بھی عام لوگوں سے ممتاز نہیں سمجھتے تھے۔ آپؒ میں کسی قسم کی شوخی، بدمزاجی اور غرور کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ایک بار آپ مسجد میں موجود احمدیوں کو کافی پینے کے لئے جنگل میں قائم ایک کیفے میں لے گئے۔ سب احباب کو ایک ایک کیک لینے کی اجازت تھی۔ جب سب نے اپنے کیک لے لئے تو حضورؒ نے ازراہ شفقت فرمایا کہ وہ ہر پلیٹ میں سے تھوڑا تھوڑا کیک چکھیں گے۔ میرا کیک جو انناس سے بنا ہوا تھا، اُس کی حضورؒ نے بہت تعریف کی۔

پہلے پہل ہم حضورؒ کے لئے پریس کانفرنسوں کا انتظام کرتے تھے۔ لیکن حضورؒ کو یہ طریق پسند نہیں آیا کیونکہ یہ رسمی ہوتیں اور صحافی بھی رسمی سوال ہی کرتے اور اُن کی دلچسپی بھی رسمی ہی ہوتی۔ چنانچہ پھر بڑی تبلیغی نشستیں ہونے لگیں۔ ان نشستوں میں ترجمہ کرنے کی ذمہ داری میری ہوتی۔ دعا بھی کرتا اور حضورؒ کا اعجاز بھی دیکھتا کہ کافی لمبے جوابات میرے ذہن پر بغیر کسی قسم کے نوٹس بنانے کے نقش ہوجاتے تھے۔ اگر میں کچھ بھول جاتا تو بلاجھجک حضورؒ سے درخواست کرتا کہ ذرا دہرا دیں یا بتا دیں۔
میرے لئے ان تبلیغی نشستوں میں سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ حضورؒ انتہائی صبر اور توجہ سے مخاطب سے پیش آتے۔ حضورؒ عام سوالات کا، جو سینکڑوں مرتبہ کئے جاچکے ہوتے، ایک ہی جواب نہیں دیا کرتے تھے اور نہ ہی آپؒ عام اور ہمیشہ استعمال ہونے والے دلائل دیتے بلکہ آپؒ سوال کرنے والے کو پرکھ کر اور اس کے ذوق اور ذہنی استعداد کے مطابق الفاظ کا چناؤ کیا کرتے اور ہر مرتبہ سوال کا نئے زاویہ سے جواب دیتے۔ لوگوں کی بے جاضد، احمقانہ اور مغرورانہ رویہ کے باوجود حضورؒ کی خوش مزاجی اور مسکراہٹ میں کوئی فرق نہ آتا۔ ایک بار ایک سوال کے طویل اور مدلل جواب دینے کے باوجود جب سوال کرنے والا بحث کرنے اور درمیان میں ٹوکنے بھی لگا تو حضورؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تو اپنی پوری کوشش کی ہے آپ کو مطمئن کرنے کی لیکن معذرت کے ساتھ کہ اس سے زیادہ اس کی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ اِن نشستوں سے میری علمی اور ذہنی ترقی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
80ء کی دہائی کا آخر تھا جب حضورؒ برلن تشریف لائے۔ حضورؒ کی اور احباب جماعت کی یہ دلی خواہش تھی کہ حضورؒ برلن کا مشرقی حصہ بھی دیکھ سکیں۔ لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا کیونکہ دیوار برلن ابھی موجود تھی۔ بہرحال ہم تقریباً 10احمدی حضورؒ کے ساتھ سرحد پار گئے۔ مشرقی برلن کی حالت کو دیکھ کر حضورؒ کو بہت افسوس ہوا اور قدرے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مشرقی جرمنی کی حکومت کے دعوے تو کچھ اور تھے اور حقیقت میں ان کی حالت آج کچھ اور ہے۔ چونکہ میرے علم میں تھا کہ حضورؒ کو شہد پسند ہے اس لئے میں نے جب ایک دکان کی کھڑکی میں شہد کی کچھ بوتلیں دیکھیں تو حضورؒ کے لئے ایک بوتل خریدنے دکان کے اندر گیا۔ حضورؒ دوسرے احمدی احباب کے ساتھ دروازے کے باہر انتظار کرتے رہے۔ میں حضورؒ کے لئے یہ تحفہ نہ لاسکا کیونکہ باہر صرف دکھاوے کے طور پر چیزیں رکھی گئی تھیں اور اندر شہد موجود نہ تھا۔ حضورؒ کو شہد نہ ملنے پر تھوڑا سا افسوس تو ہوا لیکن حضورؒ کو یہاں کی پسماندگی دیکھ کر زیادہ دکھ تھا۔ ہم بڑی سڑک سے اتر کر پھر ایک چھوٹی گلی میں داخل ہوگئے۔ یہاں ہم حضورؒ کے گرد جمع ہوگئے جہاں حضورؒ نے دعا کروائی۔
ان دنوں میں حضورؒ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے “Friday the 10th” والا الہام ہوا تھا۔ جو پھر دیوار برلن کے 10نومبر 1989ء کو انہدام کے اعلان کی صورت میں پورا ہوا۔
حضورؒ ہمیشہ میری نظموں کو بہت سراہتے اور خوش ہوتے تھے۔ ایک جرمن احمدی کو ملاقات کے دوران فرمایا کہ یہ بظاہر دیکھنے میں بہت سیدھی سادی ہوتی ہیں لیکن ان کی تاثیر بہت گہری ہے۔ حضورؒ کا میری نظمیں پسند کرنا مجھے اَور لکھنے کی طرف مائل کرتا تھا۔ ایک دفعہ میں اپنے گھر میں لیٹا ہوا تھا اور MTA پر حضورؒ کا انگریزی بولنے والے احباب کے ساتھ ایک پروگرام آرہا تھا۔ جب میری آنکھ کھلی تو ایک خاتون کوئی انگریزی نظم سنا رہی تھیں۔ میں اس نظم کو توجہ سے سننے لگا اور اس کے معیار کا اپنی شاعری سے مقابلہ کرنے لگا۔ مجھے یہی محسوس ہوا کہ یہ شاعری میری شاعری سے بہت بلند ہے۔ جب ان احمدی خاتون نے نظم ختم کی اور بغیر شاعر کا نام بتائے بیٹھ گئیں تو حضورؒ نے فرمایا کہ غالباً یہ نظم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کی ہے تو ان خاتون نے اثبات میں جواب دیا۔ ایک دفعہ عالمی شوریٰ کے موقع پر جو لندن میں منعقد ہورہی تھی، دوران وقفہ حضورؒ نے مجھ سے نظم سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضورؒ نے میری درخواست پر میرا کلام چھاپنے کی اجازت بھی دی۔
حضورؒ کے ساتھ میری بہت سی ایسی یادیں بھی وابستہ ہیں جو بے حد ذاتی ہیں لیکن وہ سب لمحات میری زندگی میں آج بھی زندہ جاوید ہیں اور زندگی کے سفر میں ایک مشعلِ راہ ہیں۔ جب مجھے آپؒ کی وفات کی خبر ملی تو میں دیر تک بلک بلک روتا رہا۔ اپنے آپ کو کچھ سنبھالنے کے بعد میں نے ایک نظم لکھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں