حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی حسین یادیں از عبداللہ واگس ھاؤزر صاحب

رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی بیان کرتے ہیں کہ میں پہلی دفعہ 1977میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملا۔ اِس سے کچھ دیر قبل میں نے قادیان میں بیعت کی تھی۔ اس کے بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات کیلئے ربوہ پہنچا۔ اِس ملاقات کے فوراً بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دفتر میں پہنچا۔ حضورؒ کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں مجھے یہ احساس ہوا کہ آپ کی شخصیت کس قدر کشادہ طبع اور نا قابلِ یقین طورپر زندہ دِل ہے۔ حضورؒ اکثر محو سفررہتے اور مصروف زندگی گزارتے۔ آپ کی یہ خصوصیت بھی تھی کہ آپ ملنے والوںپر اور اُنکی شخصیت پر پوری توجہ دیتے۔
آپ اُن دنوں کالے رنگ کی ٹوپی پہنتے تھے۔ یہ کوئی نئی اکڑی ہوئی ٹوپی نہ تھی جیسا کہ عام طور پر ہوتی ہے بلکہ ایک نہایت ہی ڈھیلی اور تھوڑی سی پھٹی ہوئی ٹوپی تھی۔ جسے دیکھتے ہی احساس ہو جاتا تھا کہ یہ ایسا انسان ہے جس کی نظر باطن پر ہے نہ کہ ظاہر پر۔
میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے دورِ خلافت میں نیشنل قائد تھا اور مجھے یہ سہولت حاصل تھی کہ ہر سال جلسہ سالانہ پر ربوہ جا سکوں اور وہاں ربوہ اور قادیان کے جلسوں میں شرکت کرسکوں۔ یہ جلسے میرے لئے ایک طرح کی ٹریننگ ثابت ہوئے۔ اور انہوں نے میری شخصیت پر اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ایک دفعہ مجھے بحیثیت نیشنل قائد جرمنی 1983ء میں علم انعامی حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا جو کہ بیرونِ پاکستان بہترین مجلس کو دیا جاتا تھا۔
جس چیز نے بار بار میرے شوق کو دوبالا کیا وہ شام کے وقت لگنے والی سوال وجواب اور گفتگو کی نشستیں تھیں جو غیر مُلکی وفود کے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہا کرتی تھیں۔ چونکہ تشنگی باقی رہتی تھی اس لئے مجھے ہمیشہ مزید کی خواہش رہتی تھی۔ اِس پیاس کو بجھانے کے لئے حضورؒ روزانہ سائیکل پر ہمارے پاس تشریف لاتے اور وفد کے ساتھ گفتگو فرماتے۔ اِن نشستوں میں مَیں اکثر تھک جاتا جبکہ حضورؒ اُسی طرح درمیان میں چاق و چوبند بیٹھے ایک کے بعد دوسرا مضمون بیان کرتے چلے جاتے۔ حضورؒ میں ایک انتہائی قسم کی توانائی تھی جو ہماری سمجھ سے بالا تھی۔ ہم جرمنی سے گئے ہوئے شرکاء گفتگو تھک جاتے اور توجہ بٹ جاتی لیکن حضور ؒ اُسی طرح چُست بیٹھے ہوتے اور فرماتے کہ میں تو صبح تک آپ کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں۔ اور یہ اتنی سنجیدگی سے فرماتے کہ ہمیں اُس میں کوئی شک نظر نہ آتا۔
ہمیں اُس وقت بھی حضور ؒ کے ہمراہ ہونے کا شرف حاصل ہوتا جب آپ غیراحمدی پاکستانی دوستوں سے محو گفتگو ہوتے۔ ہمیں اُن کی گفتگو کی سمجھ تو نہ آتی مگر جو واقعہ بعد میں ہوتا وہ بخوبی سمجھ جاتے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح لوگ بپھرے ہوئے آتے اور حضورؒ اُن کے دلوں کو اپنے لئے جیت لیتے۔ بہت سے لوگوں کے چہروں کے تاثرات مثبت رنگ میں بدلتے دیکھ کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ حضورؒ کو اﷲ تعالیٰ نے کیسی طاقت عطا فرمائی تھی اور آپؒ کے پاس کیسی کیسی دلیلیں تھیں جس سے آپؒ لوگوں کے دلوں میں اُترتے چلے جاتے ہیں۔
1984ء میں بالکل غیرمتوقع طور پر مجھے اچانک یہ پیغام ملا کہ حضورؒ نے خاکسار کو امیر جماعت جرمنی مقرر کیا ہے۔ جب مجھے یہ پیغام ملا تو میں دیوار کے ساتھ پُشت لگا کے کھڑا تھا اور یہ سُنتے ہی میں سِرکتے سِرکتے زمین پر بیٹھ گیا اور پھر آہستہ آہستہ مجھے اس ذمہ داری کا احساس ہونے لگا۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ حضور پُرنورؒ نے مجھے اِس وقت کے لئے پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔ ہر سال جب بھی میں ربوہ آتا حضورؒ اہم کاموں میں ہمیشہ مجھے شامل فرمایا کرتے تھے۔ بعد میں حضورؒ میرے سامنے کبھی کبھی ہالینڈ اور جرمنی کا یا جرمنی اور انگلینڈ کا تقابلی جائزہ اس طرح پیش فرماتے کہ دونوں حضورؒ کے ہی گھوڑے ہیں اور کوئی بھی آگے آئے تو حضورؒ کو خوشی ہی ہوگی۔ لیکن اس طرح ایک مثبت مقابلہ ضرور شروع فرمادیتے۔
حضورؒ نے مجھے اکثر ہم سفر ہونے کا شرف بخشا۔ حضورؒ ہمارے ساتھ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک بغیر کوئی تھکان ظاہر کئے سفر کرتے رہے۔ ہم نے تقریباً ہر پیٹرول پمپ پر جہاں ہم رکے، نماز کے وقت اذان دے کر حضورؒ کی اقتدا میں نماز ادا کی ہوئی ہے۔ میرے لئے یہ بات بھی ہمیشہ حیران کن رہی کہ کس طرح دوران سفر حضورؒ بیگم صاحبہ کے ساتھ مختلف دکانوں میں بھی جاتے رہے۔ آپؒ کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ دوران سفر گھرکے لئے کچھ نہ کچھ خریداری ضرور کرتے۔ حضورؒ ہمیشہ وہ خریدتے جو اُس علاقے کی مخصوص چیز ہوتی۔ اگر بیگم صاحبہ شریک سفر ہوتیں تو خریداری کے لئے اکھٹے جاتے۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت ہی اچھا لگتا۔ میں غیر شادی شدہ تھا جب میں نے اِس سادگی کا مشاہدہ کیا۔ حضورؒ نے ہمیشہ بیگم صاحبہ کو ایسی تفریحات میں ساتھ رکھا۔ بیشک ہم قافلہ کی صورت میں ہوتے تھے اور باڈی گارڈ زبھی حضورؒ کے ارد گرد رہتے تھے مگر اِس بات نے آپؒ کو کبھی پریشان نہیں کیا۔ کبھی کبھار تو حضورؒ باڈی گارڈزسے خود بات چیت شروع کردیتے اور اکثر اُن سے خریداری کے بارے میں مشورہ بھی لے لیتے۔ آپؒ نے اپنے باڈی گارڈز کو کبھی بھی محض ایک محافظ کے طور پر نہیں لیا بلکہ وہ آپ کے بہترین دوست تھے۔ آپؒ نے قافلہ والوں کا ہر لحاظ سے خیال رکھا اور ہر موقع پر اِن لوگوں کو مختلف مفید نکات بتائے۔ آپؒ نے کبھی بھی کسی خادم کو نوکر نہیں سمجھا بلکہ ہر وہ شخص جو آپ کی خدمت میں رہا اسے آپؒ نے ہمیشہ اپنا فیملی ممبر سمجھا۔ اس چیز کو ہم نے حضورؒ کے ساتھ سفروں میں خاص طور پر محسوس کیا۔ اسی طرح سے آپؒ کی عادت تھی کہ جس علاقے سے آپ کا گزر ہوتا اس کے متعلق ضرور معلومات لیا کرتے تھے۔
حضورؒ کی عادت تھی کہ نماز پڑھانے کے بعد اکثر ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جایا کرتے تھے اور پھر ہم سے باتیں کرتے۔ آپؒ ان لوگوں کی زندگی کے واقعات اور کہانیاں سناتے جن سے آپؒ پاکستان میں ملے تھے۔ نماز کے بعد مڑ کر بیٹھ جانا اور کچھ دیر کے بعد محظوظ ہونے والی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوجانا حضورؒ کا خاصہ تھا اور اسی طرح یہ عادت آپؒ کے اور ہمارے درمیان کمیونیکیشن کا بھی اہم ذریعہ تھا۔ میرے لئے یہ بات ہمیشہ ہی حیرت کا باعث بنی رہی کہ کس طرح آپؒ دورانِ گفتگو ساری جماعت کوساتھ شامل کرلیا کرتے تھے۔
1997ء میں ایک دفعہ مشرقی جرمنی کے دورہ کے دوران ہم چیک ریپبلک میں Karlsbad گئے۔ یہ نہایت ہی دلچسپ سیر تھی۔ حضورؒ ہمیشہ ہی جدّت پسند تھے سب سے بڑھ کریہ کہ نئے ممالک اور نئی جگہوں کو دیکھنے اور جاننے کا بے حد شوق تھا۔ وہاں ایک ہوٹل میں ہم نے ٹراؤٹ مچھلی کھائی۔ حضورؒ کھانے سے اس قدر لطف اندوز ہوئے کہ آپؒ نے خود کچن میں جا کر کھانے کے بارے میں ساری معلومات لیں۔ جونہی سفر آگے جاری ہوا ہم ایک پل کے قریب پہنچے تو آپؒ نے فرمایا یہ ہمیں دیکھنا چاہیے۔ پھر معلوم ہوا کہ حضورؒ اکیلے ہی آگے جانا چاہتے ہیں۔ تب آپؒ پیدل چلتے ہوئے پُل کی دوسری جانب ایک چینی کے برتنوں کی دوکان کے اندر گئے اور چند تحائف خریدے۔ یہ بھی میں نے حضورؒ سے سیکھا کہ جب آدمی اپنے دوستوں،رشتہ داروں اور عزیزوں سے محبت رکھے تو کن باتوں کی طرف خصوصی دھیان رہنا چاہئے۔ آپؒ تحائف خریدنا بے حد ضروری سمجھتے تھے۔ پھر ہم آگے چل پڑے اور قدرے اونچے ٹیلوں اور پہاڑیوں کے درمیان وادی میں پہنچے جہاں مختلف درجۂ حرارت کے کئی چشمے تھے۔ لوگ ان چشموں کا پانی پینے کے لئے وہاں جاتے تھے۔ ہم نے پھر مختلف چشموں سے پانی بھر کر پینا شروع کیا۔ قریباً 45منٹ تک حضورؒ اپنی پگڑی، چھڑی اور ایک مگ کے ساتھ ایک کے بعد دوسرے چشمے پر جا تے اور پانی پیتے۔ میں کچھ دیر کے لئے یہ بھی بھول گیا کہ حضورؒ خلیفۂ وقت ہیں۔ صرف یہ محسو س کیا کہ حضورؒکتنے خوش نظر آرہے ہیں۔
ایک دفعہ میونخ کے سفر میں مجھے یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ میں حضورؒ کے ساتھ ان کی گاڑی میں سفر کرسکوں۔ گاڑی کے اندر ایک بہت ہی خاص قسم کا روح پرور ماحول تھا اس گاڑی میں بڑی ہی مسحورکن خوشبو تھی۔ سیٹ کے درمیان حضورؒ کے پاس ہمیشہ اپنا پکنک والا تھیلا ہوتا تھا اس میں سے آپؒ نے میرے لئے کافی بھی بنائی۔ اس دوران جب بھی آپ کسی سے بات کرنا چاہتے تو پہلے مجھ سے اردو میں بات کرنے کی اجازت لیتے۔
ایک دفعہ ہم ہیلمٹ کوہل (Helmut Kohl) کے سیکرٹری سے ملنے Bonn گئے۔ اُس سے پہلے حضور ؒ کی ضیافت کے لئے میں آپؒ کو اپنے والدین کے گھر لے گیا۔ دوران سفر آپؒ نے پوچھا کہ کیا ہمارے پاس میری والدہ کے لئے پھول ہیں؟ چنانچہ ہم نے پھول خریدے۔ والدہ کے ہاں کھانا کھانے اور نمازوں کی ادائیگی کے بعد ہم سیکریٹری سے ملنے چلے گئے۔ یہ سیکریٹری بعد میں کلچرل منسٹر بنا۔ یہ کافی اچھی ملاقات تھی جس میں دوسرے موضوعات کے علاوہ اسائلم پر بھی کافی اچھی گفتگو ہوئی۔ اِس ملاقات کا بہت مثبت اثر ہوا۔ جس کے نتیجہ میں ہمارے لوگوں کو جرمنی میں اچھی سہولتیں میسر آنے لگیں اور فضا سازگار ہوگئی۔
ایک احمدی بھائی نے حضورؒ کواپنے گھر دعوت دی۔ یہ ایک مخصوص جرمن دوپہر تھی جس میں کہ جرمن اپنے گھروں کے ٹیرس پر بیٹھ کر کیک کھاتے ہیں۔ ہمارے سامنے پندرہ قسم کے رنگارنگ کیک پیش کئے گئے اور ہر ایک اس انتظار میں تھا کہ حضورؒ کونسا کیک پسند فرمائیں گے۔ لیکن آپؒ نے ہر ایک میں سے تھوڑا تھوڑا لے کرکھایا۔ بہت ہی پیاری شخصیت تھی حضورؒ کی۔ آپؒ کو کسی چیز کا پابند نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اب حضورؒ کیا کریں گے۔ آپؒ ہر صورتحال سے اچھے طریقے سے نکلنے کا فن جانتے تھے۔
جب پکنک ہوتی تو سب سے پہلے یہ دیکھتے کہ کون کون شامل ہے اور پھر کام تقسیم کرتے کہ مثلاً کون کھانا پکائے گا وغیرہ۔ آپؒ ہمیشہ کسی نئے کھیل یا شغل کی انتظار میں ہوتے کہ اب کچھ ہونا چاہئے۔ اس طرح پھرلوگ کبڈی، فٹ بال ، بینی پکڑنا یا اسی قسم کی کسی دوسری گیم کا انتظام کرلیتے تھے۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو کچھ کرنے کے لئے شوق دلاتے رہتے۔ اس طرح پھر کوئی نظم پڑھ دیتا۔ آپؒ لوگوں سے باتیں کرتے اور پکنک میں جان ڈال دیتے۔ ایک دفعہ ہمیں حضورؒکے ساتھ Rüdesheim کے ایک سوئمنگ پول میں پکنک کرنے کا موقع ملا۔ آپؒ کی اجازت سے ہم تیراکی کرنے بھی گئے۔ حضورؒاکثر ایسے پروگراموں میں ہمارے ساتھ رہے۔ آپؒ نے لوگوں کو ایسے موقعوں پر کبھی شوروغوغا کرنے سے منع نہیں کیا۔ ہم سب نے بہت لطف اُٹھایا اور حضورؒ ہلکے پھلکے مزاح کے رنگ بکھیرتے رہے۔ پِکنک میں ہم نے والی بال بھی کھیلا۔ پھر ہم نے نماز پڑھی اور دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔
کبھی کبھار آپؒ سختی بھی کرتے تھے۔ ہمارے 1997ء کے سابقہ DDR کے پرگرام میں حضورؒ کو انتظامی کمزوریاں نظر آئیں تو وہاں آپؒ نے قدرے خفگی کا اظہار بھی کیا۔ آپؒ نے آئندہ کے لئے پھر یہ لائحہ عمل بھی جاری کیا کہ جہاں بھی ہم جائیں سارا انتظام مقامی جماعت کے ذمہ ہونا چاہئے نہ کہ مرکز کے ذمہ۔ اس لئے حضورؒنے اس ٹور سے آدھے افراد کو واپس بھجوا دیا۔ حضورؒ نے ہمیشہ ہی فیصلے بلا تاخیرکئے ہیں۔
حضورؒ کو نئے مشاہدات کرنے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ ہم نے حضورؒکو یورپ کیا دکھانا تھا آپؒ تو یورپ کا چپہ چپہ جانتے تھے۔ حضورؒ نے بتایا کہ ایک دفعہ منصبِ خلافت پر سرفراز ہونے سے پہلے میں نے ایک وین کرائے پر حاصل کی تاکہ بمعہ فیملی میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒکے ساتھ سیر پر جاسکوں۔ مگرآپؒ کی وفات ہوجانے کی وجہ سے پھر مجھے یہ پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ دوبارہ آپؒ جب منصبِ خلافت پر سرفراز ہو ئے تو حالات یکسر بدل گئے۔ آپ ؒ کی خلوت نشینی ختم ہوگئی اور آپ دن رات جماعت کی خدمت میں محو ہوگئے۔
حضورؒ دیوار برلن ٹوٹنے سے قبل بھی سابقہ مشرقی جرمنی گئے تھے۔ وہاں ہم ایک دکان کے پاس سے گزرے جس کی ڈیکوریشن والی الماری میں پرفیوم صابن اور دوسری اشیاء سجائی گئی تھیں۔ حضورؒ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ مجھے اندر جا کر کچھ خریدنا چاہئے۔ آپؒ کے اِس ارشاد پر میں دکان کے اندر گیا۔ ان دنوں DDR کی ایسی حالت ہوتی تھی کہ شو کیس کافی چیزوں سے سجا ہوتا لیکن خریدنے کو اصل میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ مجھے بھی یہی جواب ملا کہ بیچنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ جب میں نے باہر آ کر حضورؒ کو یہ بتایا تو آپؒ نے جواب دیا کہ میں نے DDR کے بارہ میں کتابوں میں بعینٖہ یہی پڑھا تھا اور یہی سچ نکلا۔ ہمارے پاس وقت بہت کم تھا ہم ایک دوسری سڑک میں مڑ گئے۔ پھر حضورؒ نے فرمایا اب ہمیں دعا کرلینی چاہئے اور خاص کر یہ دعا کریں کہ یہ دیوار گر جائے اور اس طرح طرفین کے ملنے سے حالات بہتر ہوں۔ ہم ایک دائرہ کی شکل میں کھڑے ہو گئے اور حضورؒ نے بہت لمبی دعا کروائی۔
ایسے اوقات بھی آئے خاص کر صبح کی سیر کے وقت جب حضورؒ اکیلے چلنا پسند کرتے تھے۔ آپؒ کے آگے اور پیچھے محافظوں کا دستہ تقریباً 100 میٹر کی دوری پر چلتا۔ لندن میں ایک خواجہ گروپ بنایا ہوا تھا۔ بسا اوقات وہ اپنے آپ پر لطیفے سناتے۔ حضورؒ اُن کے ساتھ مُسکراتے اور مزاح کی کلیاں بکھیرتے۔ ایک دفعہ میں نے اِس گروپ میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تو حضورؒ نے ارشاد فرمایا :آپ کو کبھی بھی اِن دیوانوں کے گروپ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
یہ آپؒ کی شخصیت کا خاص پہلو تھا جس میں آپؒ تنہا رہنا پسند کرتے۔ فرانکفرٹ میں ایک صبح جنگل میں حضورؒ سیر کے وقت اکیلے جانا چاہتے تھے تو ہم اِسی طرح پیچھے کافی فاصلے پر چل رہے تھے۔ میرا بیٹا حضورؒ کے پاس جانا چاہتا تھا۔ تو باڈی گارڈ نے کہا کہ بچے آگے جا سکتے ہیں۔ تب وہ آگے چلا گیا۔ بعد میں حضورؒ نے مجھے بتایا کہ کس طرح مجھے پیچھے سے کسی بچے کے قریب آنے کی چاپ سنائی دے رہی تھی اور جب یہ قریب پہنچا تو اِس نے مجھے پوچھا کہ کیا یہ میری چھڑی اُٹھا سکتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں میں اِسے خود اُٹھا سکتا ہوں۔ اور اکیلا ہونے کے بارہ میں آپ ؒنے فرمایا بچے میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہیں وہ بیشک میرے ساتھ ساتھ چلیں لیکن بڑے نہیں۔
آپؒ دوسروں کے لئے بہت حسّاس طبع تھے۔ مثلاً جب کسی شخص کو یہ علم نہ ہوتا کہ وہ اپنے مسئلے کو آپؒ کی خدمت میں کیسے بیان کرے تو یہ بات آپؒ کے لئے پریشانی کا باعث بنتی۔
آپؒ سیر کے لئے ہمیشہ نئے رستوں کا انتخاب فرماتے۔ اور پہلے سے بتا دیتے کہ سیر کا دورانیہ کتنا ہوگا۔ حضورؒایک عرصہ بیمار رہنے کے بعد جب دوبارہ صحتیاب ہوئے تو آپؒ نے پھر لمبی سیر شروع کر دی۔ مسجد نُور اور ناصر باغ میں قیام کے دوران آپؒ کی سیر کے مختلف رستے تھے۔ ناصر باغ کی سیر کے دوران ہم سب کو پسینہ آگیا تھا۔ آپؒ ؒ اُن دنوں روزانہ تقریباً آٹھ سے نو کلومیٹر ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ میں کیا کرتے تھے۔ ایک صبح حضورؒ نے سب کا دوڑ کا مقابلہ بھی کروایا۔
حضورؒ کا جماعت جرمنی سے ایک خاص تعلق تھا۔ اِس کی ایک وجہ تو جماعت جرمنی کی تجنید تھی اور دوسری یہاں کے احمدیوں کی قربانی کا جذبہ۔ آپؒ نے ہمیشہ اِس بات کا ذکر کیا کہ اُنہیں یہاں کے پاکستان والے خوش کن ماحول اور روح پرور فضا کی وجہ سے یہاں آنا بہت خوشگوار لگتا تھا۔ حضورؒ نے خلافت سے تعلق کو مضبوط کرنے کی طرف ہمیشہ زور دیا۔ حضورؒ صرف جماعت جرمنی کی دفتری رپورٹ پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کو ہمیشہ علم ہوتا تھا کہ مُلکی حالات اِس وقت کیسے ہیں۔ آپؒ جب بھی اجتماعات پر تشریف لاتے تو اپنا بہت سارا قیمتی وقت ہم کو نوازتے۔ مثلاً معائنہ اجتماع یا جلسہ کے دوران گہرائی سے ہر شعبہ کا معائنہ فرماتے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتے۔ معائنے پر تین تین گھنٹے لگتے تھے۔ یہ کوئی روایتی معائنے نہیں ہوتے تھے بلکہ کہیں زیادہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت تھی کہ اُن لوگوں کو جن پر پہلے بارِ ذمہ داری ڈالا نہیں گیا تھا تکنیکی باتوں سے اور مخصوص صلاحیتوں سے منوّر کیا جائے۔ حضورؒ نے شعبہ ضیافت کو خاص ہدایت کی ہوئی تھی کہ کونسے وقت میں کونسا کھانا پکایا جانا چاہیے۔ مثلاً دال صرف دوپہر میں پکے لیکن شام کو نہیں۔ معائنہ کے دوران بازار میں مختلف دکانوں سے بھی کھانے کی چیزیں چیک کرتے۔ حضورؒ نے کبھی بھی زیادہ نہیں کھایا۔ آپ ؒ ہمیشہ اپنی تھالی میں کم ڈالتے اور ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہم بھی کم ہی ڈالتے اور نتیجۃً پیٹ بھر کر نہ کھا سکتے جو بالآخر ہمارے لیے ہی بہتر ہوتا۔ حضورؒ کھیل کے مقابلہ جات دیکھنے کے لئے بڑی گرمجوشی دکھاتے۔ اور پوچھتے کہ کونسی ٹیم کب کھیلے گی۔ آپؒ کو یہ بھی علم ہوتا کہ کونسی ٹیمیں سخت ہیں اور کونسی کمزور۔ اور آپ ؒ خاص خاص مقابلہ جات کو دیکھنے کی خواہش بھی کرتے۔اگرچہ کبڈی کے علاوہ دوسرے مقابلہ جات بھی مثلاً فُٹ بال اور والی بال کے میچ بھی حضورؒ دیکھتے تھے۔ حالانکہ آپؒ کو اِن کھیلوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی تھی لیکن پھر بھی وقت نکالتے اور وہاں اپنی حاضری سے سرفراز فرماتے۔
مجالس سوال و جواب میں لوگوں پر حضورؒ کی شخصیت کا جادو چھا جاتا۔ حضور ؒ ہمیں اکثر اپنی نوجوانی کے واقعات بتایا کرتے تھے جن میں ایک واقعہ اُن دنوں کا ہے جب آپؒ یونیورسٹی میں طالب علم تھے۔ آپؒ نے دوسروں کو یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ الفاظ کے بغیر بھی گفتگو کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ جسے پیراسائیکالوجی Parapsychology (ماورائے نفسیات) کہتے ہیں۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ لوگ کس طرح بیٹھے بیٹھے آپؒ کے ہم خیال ہو جاتے۔ مہمان آپؒ کے جوابات ذہن نشین کرتے جاتے۔ جب حضورؒ بوزنین، البانین، جرمن اور دوسرے لوگوں سے اکٹھی گفتگو فرماتے تو آپؒ کوہمیشہ علم ہوتا کہ اب کس انداز میں گفتگو کرنی بہترہے۔ اُن میں چاہے کوئی غصے والا ہوتا یا کوئی اَور۔ سب محظوظ ہوتے۔ یہ بات حیران کُن تھی کہ حضورؒ ہر قسم کے حالات کو اپنے حق میں کر لینے کا فن رکھتے تھے۔
آپؒ نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ مہمانوں کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔ اِس لئے جب بھی مہمان آئے تو آپؒ اِن کی مہمان نوازی کے لئے ہمیشہ مصروف نظر آئے۔ میں نے کبھی بھی اس طرح آئے ہوئے مہمانوں کااتنا خیال نہیں رکھا۔ حضورؒ انہیں دروازے میں آکر خوش آمدید کہتے اور اُن کو پورا وقت دیتے۔ اُن کا ہر طرح سے خیال رکھتے۔ اُن سے باتیں کرتے اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے حتیٰ کہ بوقتِ الواداع اُنکی گاڑی تک آتے۔ اور اگر بارش ہوتی تو چھتری لے کراُن کو گاڑی تک چھوڑنے کے لئے ساتھ آتے۔ آپ ؒ کو اپنے اِن فرائض کی انجام دہی سے کو ئی بھی غافل نہ کر سکا۔ حضور اقدسؒ نے ہمیشہ اِس بات کا خیال رکھا کہ مہمانوں کو تحائف بھی ملیں۔ ایک نہایت چھوٹی سی توجہ۔ لیکن مہمانوں نے کبھی بھی اِس کو منفی انداز میں نہیں دیکھا۔ کیونکہ حضورؒ یہ تحائف بڑی سادگی اور پیارے انداز میں دیتے تھے۔
اور مجالسِ عرفان تو ایک فیملی ملاقات کی طرح ہوتی تھیں۔ حضورؒ نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ ہرکوئی آپؒ کے جادو میں جکڑا گیا تھا۔ ایک لمحے میں مزاح ہوتا تو دوسرے ہی لمحے آپؒ سنجیدہ ہوتے۔ یہ ایک ایسا ماحول تھا جس میں محبت اور اجتماعیت پنپ رہی تھی۔ ہمارے خلیفہؒ ایسے ہیرے کی مانند تھے جس سے ہر قسم کی روشنی پھوٹتی تھی۔ جب حضورؒ ہمارے درمیان تشریف فرما ہوتے تو دوسروں سے ممتاز ہو کر نہ بیٹھتے۔ آپؒ عین درمیان میں ایسے بیٹھتے تھے جیسے آپؒ سب کا حصّہ ہوں۔ حضورؒ نے ہمیں تالی بجانے کے متعلق بتایا کہ جب کوئی خاص موقع ہو اور ہم بہت خوش ہوں تو ہمیں تالی نہیں بجانی چاہیے کیونکہ یہ ایک فنکار اور ناظرین کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیتی ہیں۔
حضورؒ نے ہمیں بار بار یہی فرمایا کہ ہماری جماعت عیسائی دنیا کے مقابلہ میں بیشک چھوٹی ہے لیکن یہ سوچ کر ہم اپنے فوجی (مربیان) تیار کرنے چھوڑ نہیں سکتے۔ آپؒ نے فرمایا ہمیں آفیسر بنانے چاہئیں۔ اِس کی مثال دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنوں کی ملتی ہے۔ اُس وقت جرمن حکومت کو بڑی آرمی رکھنے کی اجازت نہ تھی تو اُنہوں نے زیادہ آفیسر تیار کرنے کی طرف توجہ شروع کر دی۔ بعینہٖ ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔
آپؒ نے ہمیشہ اِس بات کو بہت زیادہ اہمیت دی کہ داعی الی اﷲ تیار کرنے کے لئے زیادہ سے ز یادہ تبلیغی سیمینار منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر آپؒ نے ہمیں تبلیغی ٹارگٹ دینے شروع کیے اور اِن ٹارگٹس کو ہم نے کم وبیش پورا کیا۔ بوزنیا اور بالکان کی جنگ کے بعد جرمنی میں ہر طرف مسلمان گھومتے پھرتے نظر آتے تھے جن کے سر پر سایہ نہ تھا۔ وہ لوگ جو پیدا تو مسلمان ہوئے لیکن اسلام سے واقف نہ تھے۔ جب اِن کوہم سے تعارف ہوا تو اِن کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اِن لوگوں کی خوشی کو دیکھ کر ہم بھی بہت خوش تھے اور بغیر سوچے سمجھے کہ تربیت کے بغیر ہمارا کوئی کام آگے نہیں بڑھے گا ہم نے جوق در جوق اِن کو جماعت میں شامل کرنا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِن لوگوں نے سنجیدگی سے اِن تعلیمات کو نہ لیا۔ جس سے حضورؒ نے ہمیں پہلے سے خبردار کردیا تھا۔ یہ لوگ واپس گھروں کو لوٹے تو اِنہوں نے پھر سے شراب نوشی شروع کردی اور اپنی پُرانی رسم وروایات کو جاری رکھا۔ اِن کا رہن سہن بالکل غیر اسلامی طرز کا تھا۔ کوئی پردے کا انتظام نہیں تھا اور کسی نے اِن کو یہ سکھانے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ جب دس ہزار افراد اکٹھے جماعت میں شامل ہوں گے تو لازمی بات ہے اِن کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ حضورؒ نے فرمایا مجھے یہ پہلے سے علم تھا۔ ہمیں چاہیے تھا کہ اِن لوگوں کو کم از کم جماعت کا لٹریچر ہی بہم پہنچاتے تا کہ اِن کو جماعت کی بنیادی تعلیمات سے ہی آگاہی ہوتی۔ کم از کم یہ ہم سے وہ علم حاصل کر لیتے جو یہ لوگ غیروں کی دسترس میں ہوتے ہوئے کبھی بھی ہم سے نہ حاصل کرتے۔ اور وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ اُن ممالک میں جہاں سے پناہ گزین آئے تھے ہماری جماعت قائم ہو گئی۔ گواِن جماعتوں نے آہستہ آہستہ ترقی کی لیکن مسلسل کی۔ اور اِن ممالک میں آج ہماری پہچان ہے۔ لوگ ہمارا لٹریچر پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے ملے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں