حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کی قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21 و 22؍جولائی 1998ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم عبدالسمیع نون صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1965ء میں منصبِ خلافت پر فائز ہونے سے قبل حضرت مرزا ناصر احمد صاحب میرے ہاں سرگودھا میں تشریف لائے- میں نے پچاس سے زائد غیراز جماعت معززین کو مدعو کر رکھا تھا- آپؒ کی کشش کا یہ عالم تھا کہ موضع سکیسر کے ایک رئیس محمد اعظم صاحب لک نے مجھے کوٹھی کے گیٹ پر بلایا اور شکوہ کیا کہ اُنہیں بلایا نہیں گیا- اُنہوں نے کہا کہ میں چائے پینے نہیں آیا- میں میاں صاحب کی زیارت کے لئے صرف اسی شوق میں بن بلائے آگیا ہوں-
مضمون نگار کا بیان ہے کہ میرا نواسہ پیدائش کے وقت سے ہی لاغر تھا اور24 دن کا تھا کہ ہسپتال میں داخل کرلیا گیا لیکن ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود حالت تشویشناک ہوگئی اور جب ہم سب نے محسوس کیا کہ عزیز کا وقت مرگ آچکا ہے تو میں نے حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرنے کے لئے اسلام آباد فون کیا- پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جواب دیا کہ اس وقت کوئی پیغام نہیں بھیجا جاسکتا اور کل ڈاک کے ساتھ اطلاع دیدی جائے گی- میں جو پہلے ہی دل گرفتہ تھا اب زیادہ پریشان ہوا- مگر نہ معلوم کیسے صرف چند منٹ بعد حضورؒ کا فون آیا کہ بچے کی عمر کتنی ہے اور اسے بیماری کیا ہے؟- مجھے علم نہیں کہ حضورؒ کو کیسے علم ہوا اور کس نے میرا نمبر آپ کو دیا- اس فون سے ہماری جان میں جان آئی اور بچہ اُسی رات سنبھل گیا اور آکسیجن وغیرہ اتار دی گئی، صبح ہی ہم ہنستا کھیلتا بچہ گھر لے آئے-
مضمون نگار کو محترم جنرل عبدالعلی ملک صاحب نے بتایا کہ اُنہیں دل کا دورہ ہوا تو راولپنڈی کے امراض قلب ہسپتال میں داخل کردیئے گئے- حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی گئی تو پھر حضورؒ خود دن میں تین بار جنرل صاحب کی خیریت دریافت فرماتے رہے اور قصر خلافت سے اِس ردّعمل سے جنرل صاحب کو یقین ہوگیا کہ اب کوئی خطرہ نہیں رہا- چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں شفا عطا فرمائی-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں