حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍مئی 2009ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی سیرۃ کے چند نقوش ماہنامہ ’’خالد‘‘ کے سیدنا ناصر نمبر سے منقول ہیں۔

٭ مکرم سعید احمد سعید صاحب لکھتے ہیں کہ جب مَیں کالج میں زیرتعلیم تھا تو مجھے اعصابی دورے پڑتے تھے اور اکثر کئی کئی گھنٹہ بیہوشی رہتی تھی۔ حضورؒ اُس وقت پرنسپل تھے۔ ایک روز دورہ پڑا تو حضورؒ اسی وقت ہوسٹل میں تشریف لائے اور اجتماعی لمبی دعا کی۔ جونہی دعا ختم کی تو مجھے ہوش آگیا۔ مَیں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ حضورؒ شفقت سے میرے پاؤں اور ٹانگیں دبا رہے ہیں۔ مَیں نے درخواست کی کہ حضور مجھے شرمندہ نہ کریں اور تشریف لے جائیں۔ آپ مسکرائے اور فرمایا کہ تم نے سگریٹ پینی ہوگی! مَیں نہیں جاتا، تم سگریٹ پی لو، آج تمہیں اجازت ہے۔ مَیں بہت شرمندہ ہوا اور حضورؒ کی دعاؤں کے طفیل سگریٹ نوشی ترک کردی اور پھر اللہ کے فضل سے وہ بیماری بھی ختم ہوگئی۔
٭ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ حضورؒ کا اصول تھا کہ ہر شخص کو اس کا حق ملنا چاہئے۔ کسی کمزوری کی بنا پر اُس کو حق سے محروم نہیں کرنا چاہئے۔ ایک دفعہ مَیں نے ایک غریب لڑکے کے لئے وظیفہ کی سفارش کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ ایک کمزور احمدی ہے اور اکثر اعتراضات میں حضورؒ کی ذات مبارک کو بھی شامل کرلیتا ہے۔ حضورؒ نے نظر اٹھاکر فرمایا : پھر کیا ہوا، بچہ ذہین ہے، پڑھتا ہے اور اتنا غریب ہے کہ اپنا خرچ نہ اٹھاسکے تو پھر اس کا حق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔
٭ مکرم مولوی سید علی اکبر صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات پر خاکسار مجبوراً ربوہ نہ جاسکا۔ حضورؓ کی ذات کے ساتھ جو محبت تھی اُس کی وجہ سے ناسمجھی میں خلافت ثالثہ کی بیعت کرتے ہوئے یہ فقرہ بھی لکھ دیا کہ ’’مَیں آپ کو خلیفہ تو تسلیم کرتا ہوں لیکن آپ کو حضور نہیں کہوں گا۔ میرے حضور تو وہی تھے جن کے مجھ پر بے شمار احسانات ہیں۔…‘‘۔ چند دن بعد جواب آیا تو اُسے پڑھ کر شرمندگی اور پشیمانی سے میرے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ حضورؒ نے لکھا: ’’آپ مجھے اپنا نوکر کہہ کر پکار سکتے ہیں۔ مَیں تو اس جماعت کا ادنیٰ خادم ہوں‘‘۔
٭ مکرم نذیر احمد صاحب خادم تحریر کرتے ہیں کہ 1974ء کے پُرآشوب دور میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کے بعد ایک حضورؒ کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو حضورؒ نے فرمایا: ’’ان لوگوں کے لئے بددعا نہیں کرنی‘‘۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! اب تو حد ہوگئی ہے۔ فرمایا: ’’مَیں اور جماعت ایک وجود ہیں۔ جو میرا عمل ہے جماعت کا بھی وہی عمل ہونا چاہئے‘‘۔
٭ مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب 1970ء میں حضورؒ کو گھوڑے سے گرنے کا حادثہ پیش آیا تو اس کے نتیجہ میں کمر کے ایک مہرہ کو ضرب آئی۔ شدید تکلیف تھی جو سانس لینے اور کھانسنے سے بھی ہوتی تھی۔ایسی تکلیف میں بھی حضورؒ کو جماعت کا ہی خیال رہتا تھا کیونکہ اب حضورؒ پہلے کی طرح ملاقاتیں نہیں کرسکتے تھے اور احباب کے خط نہیں پڑھ سکتے تھے۔
٭ محترمہ آپا طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ وفات سے چند روز قبل جب حضورؒ کی طبیعت اچانک ناساز ہوئی تو کمزوری کے باعث بات کرنا بھی دشوار تھا۔ ایسے میں حضورؒ نے الفضل میں اپنی صحت کے متعلق ایک بلیٹن شائع کرنے کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کو صحیح صورتحال سے آگاہ کردو لیکن Exaggeration نہ ہو، اتنا پیار کرنے والی میری جماعت ہے۔‘‘
حضورؒ اپنی ہر چیز کو ترتیب سے رکھتے۔ علالت میں بھی لیٹے ہوئے مجھ سے فرماتے کہ میری فلاں دوائی فلاں لائن میں اتنے نمبر پر ہے، وہ دے دو۔ ایک روز مَیں نے صفائی کرتے ہوئے حضورؒ کے عطر کی شیشیوں کی ترتیب ذرا بدل دی تو فرمایا کہ دیکھو تم نے میرے دس سیکنڈ ضائع کردیئے جو مجھے اپنا عطر ڈھونڈنے میں لگے۔ آپؒ فرمایا کرتے کہ جب مَیں جماعتی کاموں میں مصروف ہوتا ہوں تو اُس وقت مجھے کسی اَور بات کا خیال نہیں آتا۔
٭ محترم محبوب عالم خالد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ خلافت کے ایام میں رات کے دو اڑہائی بجے تک کام کرتے اور اُس وقت تک نہ سوتے جب تک کام ختم نہ ہوجاتا۔ وفات سے قبل رمضان میں ایک دن مجھے فرمایا کہ گزشتہ 36 گھنٹوں میں مَیں نے صرف دو گھنٹے آرام کیا ہے۔
1974ء میں ایک روز نماز جمعہ کے لئے حضورؒ گھر سے باہر تشریف لائے تو مَیں نے طبیعت کا پوچھا، فرمایا: طبیعت اچھی ہے مگر کئی دن سے سویا نہیں۔
٭ مکرم بشیر احمد رفیق صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1967ء میں حضورؒ انگلستان تشریف لائے تو لندن ایئرپورٹ پر سینکڑوں احباب نے استقبال کیا۔ حضورؒ نے سفر کی تکان کے باوجود ایک ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے رہ کر اُن سب افراد کو شرف مصافحہ بخشا اور بعض نے شرف معانقہ بھی حاصل کیا۔

بشیر احمد رفیق خان صاحب

1971ء میں جب مَیں حضورؒ کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا تو احباب کی ملاقات کا دن اور وقت گیارہ بجے مقرر تھا۔ اُس روز اچانک دس بجے حضورؒ کو شدید ضعف کا حملہ ہوا۔ محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے آکر مسلسل ایک گھنٹہ دوائیں وغیرہ دیں تو طبیعت کچھ سنبھل گئی۔ ملاقات کا وقت ہوا تو محترم میاں صاحب نے عرض کیا کہ حضور کو مکمل آرام کرنا چاہئے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ ملاقاتی اتنی دُور سے تشریف لائے ہیں، یہ ناممکن ہے۔ انہوں نے یہ شرط عائد کی کہ حضور صرف مصافحہ فرمائیں اور کوئی گفتگو نہ فرمائیں۔ جب ملاقات شروع ہوئی تو اگرچہ چہرہ سے ضعف کے آثار نمایاں تھے لیکن حضورؒ نے پونے دو گھنٹے تک احباب میں تشریف فرما رہ کر گفتگو فرمائی۔
٭ حضورؒ کی صاحبزادی مکرمہ امۃالشکور صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضورؒ کو خدا پر کامل توکّل تھا۔ رزق کے لئے کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی پریشان نہیں ہوئے۔ ایک بار اپنا بٹوہ کھول کر مجھے دکھایا اور فرمایا: ’’خدا تعالیٰ کا اس بٹوے سے یہ سلوک ہے کہ اسے کبھی خالی نہیں ہونے دیتا‘‘۔
اکثر ایسے نظارے دیکھے کہ آپؒ جیب میں ہاتھ ڈالتے اور بے تحاشہ رقم غریبوں میں تقسیم کرتے چلے جاتے۔ Tip دینے کی بہت عادت تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں