حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍مئی 2008ء کے شمارہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے بارہ میں مکرم ثاقب زیروی صاحب کا منفرد انداز میں رقم شدہ ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا دل مسلمانوں کے قومی انحطاط پر سوگوار اور ہمہ وقت اس کے ازالہ کے لئے مصروف کار رہتا تھا۔ اس حوالہ سے آپؓ کے کرب کا اندازہ اُن تبصروں سے کیا جاسکتا ہے جو آپؓ نے اپنی مجالس علم و عرفان میں فرمائے۔
’’کشمیر میں جذامیوں کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن آیا۔ وہاں کُل 104 جذامی تھے جن میں سے ننانوے مسلمان تھے‘‘۔
’’مَیں نے مختلف اضلاع کے جیل خانوں کے داروغوں سے دریافت کیا ہے۔ معلوم یہی ہوا کہ قیدیوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایک شہر میں کُل 235 قیدی تھے، ان میں سے صرف 13 ہندو تھے۔ اسی ضلع کے مدرسوں میں کُل چودہ سو لڑکے پڑھتے تھے جن میں صرف چودہ مسلمان تھے… تم غور کرو اور سوچو اور خداتعالیٰ سے استغفار کرو اور ڈرو…‘‘۔
لاہور میں جب ایک لیکچر سنا جس میں لیکچرار کہہ رہا تھا کہ مَیں حساب کے امتحان میں فیل ہوتا رہا ہوں اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ مَیں مسلمان ہوں…۔ اس پر حضورؓ نے اپنے قریب بیٹھے احباب سے فرمایا: ’’… مجھے یہ شخص مسلمان معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے لِتَعْلَمُوْا عَدَدَالسِّنِیْنَ وَالْحِسَابْ بھلا مسلمانوں سے زیادہ کون حساب جان سکتا ہے‘‘۔
نو بہن بھائیوں میں سے آپؓ اپنے والد محترم کی سب سے چھوٹی اور آخری اولاد تھے۔ آپؓ کے والد محترم نے ان سب کو پڑھنے میں اس قدر التفات برتا کہ حضورؓ فرماتے ہیں کہ میرا سب سے بڑا اور خوبصورت بھائی اپنے والد کے حکم سے (فارسی زبان کے ماہر) مدن چند نامی ایک جذامی کے پاس پڑھنے جایا کرتا تھا۔ شہر والوں نے کہا کہ آپ اپنے لڑکے کو کوڑھی کے پاس پڑھنے بھیجتے ہیں۔ کہنے لگے کوڑھی اور عالم ہو تو جاہل تندرست سے اچھا ہے۔ پھر جب مَیں تحصیل علم کے لئے پردیس جانے لگا تو فرمایا کہ اتنی دُور جاکر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے۔
حضورؓ کی طبیعت شرک کو ذرا بھی برداشت نہ کرتی۔ فرماتے ہیں کہ میری ایک بہن کا ایک لڑکا تھا جو پیچش کے مرض میں مبتلا ہوکر مرگیا۔ چند روز بعد مَیں گیا تو میرے علاج سے انہوں نے پیچش کے کسی مریض کو اچھا ہوتے دیکھا تھا، فرمانے لگیں: بھائی! اگر تم آجاتے تو میرا لڑکا بچ ہی جاتا۔ مَیں نے اُن سے کہا: تمہارے ایک لڑکا ہوگا اور میرے سامنے پیچش میں مبتلا ہوکر مرے گا۔ چنانچہ وہ حاملہ ہوئی اور ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوا۔ جب وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا تو اُنہیں میری بات یاد تھی، کہنے لگیں کہ اچھا دعا ہی کرو۔ مَیں نے کہا کہ خدا تعالیٰ اس کے عوض میں آپ کو ایک اَور لڑکا دے گا لیکن اس کو تو اب جانے ہی دو۔
اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کو بھی اولاد خوب دی اور جب چاہا اپنے اپنے وقت پر اُن میں سے بعض کو بلا بھی لیتا رہا مگر جب بھی کسی کے لئے بلاوا آتا رہا، ہمیشہ یہ کہہ کر دل کو تشفی ہوئی کہ اس میں کوئی نقص ہوگا، خدا تعالیٰ اس سے بہتر بدلہ دے گا۔ فرماتے ہیں میرا جب بھی کوئی بچہ مرا میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ … اگر تم مرتے تب بھی یہ تم سے جدا ہوجاتے۔
حضورؓ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے بہت روپیہ، محنت اور وقت خرچ کرکے احادیث کو پڑھا ہے اور اس قدر پڑھا ہے کہ اگر بیان کردوں تو سننے والوں کو حیرت ہو۔ میرے سامنے کوئی کلمہ حدیث کا، ایک قرآن کریم کا اور ایک کسی اَور شخص کا پیش کرکے دیکھ لو، مَیں فوراً بتادوں گا کہ یہ قرآن کریم کا ہے، یہ حدیث نبویﷺ کا ہے اور یہ کسی معمولی انسان کا۔
حق بات کہنے سے کسی بڑے سے بڑے جابر کے سامنے بھی نہ چوکتے تھے۔ گو مہاراجہ کشمیر کے ملازم تھے لیکن جب بھی دین سے متعلق کوئی ذکر ہوتا تو جواب میں کبھی ملازمانہ خوشامد نہ آنے دی۔ ایک دفعہ مہاراجہ نے کہا کہ مولوی صاحب! ہمیں تو آپ کہتے ہیں کہ سؤر کھاتے ہیں اس لئے بے جا حملہ کر بیٹھتے ہو لیکن انگریز بھی تو سؤر کھاتے ہیں، وہ کیوں اس طرح عاقبت نااندیشی سے حملہ نہیں کرتے؟ آپؓ نے جواب دیا: وہ گائے کا گوشت بھی تو کھاتے رہتے ہیں جس سے اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ مہاراجہ ایسے لاجواب ہوئے کہ پھر دو سال تک مذہب کی بات کرنے کی جرأت ہی نہ ہوئی۔ ویسے وہ آپؓ کے علم و فضل کے دل سے معترف تھے اور کئی دفعہ برسردربار کہہ دیتے تھے کہ تم سب لوگ اپنی اپنی غرض کے باعث میرے پاس جمع ہوگئے ہو لیکن صرف ایک شخص یہ ہے جس کو مَیں نے اپنی غرض سے بلایا ہے اور جس کی مجھے خوشامد کرنی پڑتی ہے۔
حضورؓ کا جواب معترض کی علمی حیثیت کے مطابق ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک آریہ نے جب نماز کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے پر اعتراض کیا تو آپؓ نے فرمایا: ہون کرتے وقت تم اُس کی طرف پشت کیوں نہیں کرتے اور پھر اب مجھ سے بات کرتے ہو تو میری طرف پشت کیوں نہیں کرلی۔
ایک بار ایک جینی کے جسم پر کیڑے پڑ گئے۔ آپؓ نے تیزاب ڈال کر ان کیڑوں کو ہلاک کرڈالا اور زخم صاف کردیا۔ وہ بڑی دعائیں دینے لگا کہ ’’مہاراج بڑی کرپا ہوئی‘‘۔ آپؓ نے فرمایا: ’’کرپا کیا خاک ہوئی، تمہارے مذہب پر تو پانی پھر گیا، ایک جیو کے عوض ہزار جیو ہلاک ہوگئے‘‘۔
مئی 1909ء میں ایک مجلس میں بڑے درد سے فرمایا: ’’مسلمانوں میں بدکاری کی بہت عادت ہوگئی ہے اور پھر بدکاری کو بدکاری بھی تو نہیں سمجھتے۔ مَیں نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ فلاں عورت سے ناجائز تعلق نہ رکھ۔ تو اُس نے کہا کہ اُس عورت نے اپنی برادری اور قوم کو چھوڑ کر وفاداری کا ثبوت دیا اور مَیں مرد ہوکر اُس کو چھوڑ دوں اور بے وفائی کروں‘‘۔ فرمایا: ’’یہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کے خلاف ہے‘‘۔
حضورؓ فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ میرے دل میں کسی گناہ کی خواہش پیدا ہوئی۔ مَیں نے بہت سی حمائلیں لے کر اپنی ہر ایک جیب میں حمائل رکھی، ایک حمائل ہاتھ میں رکھنے کی عادت ڈالی۔ بسترے میں، سامنے الماری پر، مکان کی کھونٹیوں پر۔ غرض کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں قرآن سامنے نہ ہو۔ پس جب بھی وہ خیال آتا تو قرآن سامنے ہوتا۔ اس پر عمل کرنا ضروری تھا۔ یہاں تک کہ نفس تنگ ہوگیا اور اس گناہ کا خیال ہی جاتا رہا‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں