حضرت حافظ مولوی محمد فیض الدین صاحبؓ سیالکوٹی

حضرت حافظ محمد فیض الدین صاحبؓ کے آباء و اجداد عرب سے آکر سیالکوٹ میں آباد ہوئے تھے۔ آپ کے دادا میاں حسن صاحب اور والد بزرگوار مولوی غلام مرتضی صاحب ایک وسیع حلقہ ارادت رکھتے تھے اور ان کی خاندانی بزرگی کا عوام پر یہ اثر تھا کہ ان کا خاندان ’’اللہ لوک’’ (یعنی اللہ والے لوگ) مشہور تھا اور جس محلہ میں آباد تھا وہ ’’محلہ اللہ لوکاں‘‘ کہلاتا تھا۔ آپؓ کی والدہ بھی مشہور سجادہ نشین خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
حضرت حافظ صاحبؓ اپنے والدین کے چھوٹے بیٹے تھے اور حنفی مکتب فکر سے تعلق تھا۔ اعتقاد و رسوم کے پابند تھے لیکن جوں جوں علم اور شعور نے ترقی کی تو آپ نے پیری مریدی کے پرانے طریق کو ترک کردیا۔ گو آپ علمائے اہل حدیث کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ پر تنقید بھی کرتے لیکن حضورؑ کے عشّاق سے آپ کے دوستانہ مراسم بھی تھے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام کی اسلام کی حمایت میں کوششوں سے متاثر ہوئے۔ آپؓ کا بیان ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی ایک عالم مگر آزاد خیال انسان تھے، داڑھی منڈواتے تھے مگر بیعت کے بعد داڑھی رکھ لی اور اسلام کا میں نے ان کو عاشق صادق پایا تو میرے دل نے سمجھ لیا کہ جس وجود نے مولوی صاحبؓ میں تبدیلی پیدا کردی ہے وہ یقینا خدا کا فرستادہ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب 1904ء میں سیالکوٹ تشریف لائے تو آپؓ نے بھی بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔
حضرت مولوی صاحبؓ حافظ قرآن تھے، عربی اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور علم حدیث سے خاص شغف تھا۔ آپؓ کا شمار سیالکوٹ کے جید علماء میں ہوتا تھا۔ قبول احمدیت کے ساتھ ہی آپ کی شدید مخالفت شروع ہوگئی لیکن آپؓ نے صبر و استقامت کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ اپنے ہی خاندان سے شدید گالیاں اور صلواتیں سنیں۔ آخر آپؓ کی بیوی کو بھی ترک تعلقات پر مجبور کرکے دھوکہ سے میکہ بھجوادیا گیا جہاں وہ طاعون سے فوت ہوگئی۔ مخالفانہ معاشرتی دباؤ کے نتیجہ میں آپؓ نے تولیت میں آنے والی دو مساجد میں سے ایک مسجد بھی غیراحمدیوں کو دیدی اور دوسری مسجد جامع احمدیہ کبوترانوالی میں خود امامت کرواتے رہے۔ لوگوں نے اس پر آپؓ کا شکرگزار ہونے کی بجائے آپؓ کے خلاف خوردبرد کا ایک جھوٹا مقدمہ قائم کردیا کہ آپؓ نے مسجد کے سائبان بیچے ہیں۔ جب عدالت میں مقدمہ کی کارروائی جاری تھی اور جھوٹے گواہ پیش ہو رہے تھے تو آپؓ ایک دیوار کے سایہ میں دعا میں مصروف تھے۔ چنانچہ خدا کی نصرت اس رنگ میں نازل ہوئی کہ ایک گواہ نے سچ بولنے کا حلف اٹھاکر میز پر دو روپے رکھ دیئے اور کہا کہ ’’مجھے سائبان بیچنے کا تو علم نہیں البتہ مجھے ان دو روپوں کے عوض یہاں لایا گیا ہے‘‘۔ اس پر مجسٹریٹ نے مقدمہ خارج کردیا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کے خلاف مخالفت کی شدّت اتنی بڑھی کہ ایک دن جب آپؓ مسجد میں سربسجود تھے تو ایک شخص نے آپؓ پر تلوار سے حملہ کردیا لیکن ایک اور احمدی نے حملہ آور کو پکڑلیا۔ جب یہ حملہ آور عدالت میں پیش ہوا تو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ لیکن تھوڑا عرصہ بعد ہی اُس نے ایک نابالغ لڑکی پر حملہ کرنے کے جرم میں چودہ سال قید کی سزا پائی۔ … آپ کے مخالفین نے عناد میں آپکی بھینسوں پر بھی ظلم کیا اور اُن کی زبانیں باندھ دیں اور دمیں کاٹ دیں۔… ان ایذاؤں اور شرارتوں کی اللہ تعالیٰ آپ کو پہلے سے خبر دے دیتا تھا۔
آپؓ کے مخالفین جب کبھی اظہار ندامت کرتے تو آپؓ فوراً درگزر فرماتے اور اُن کے لئے دعا کرتے۔ جب آپؓ کا ایک مخالف طاعون کا شکار ہوا تو اُس کی خواہش پر آپؓ اُس کے پاس چلے گئے۔ وہ اپنی غلطیوں پر نادم ہوا اور آپؓ نے اسے معاف فرمادیا۔ بعد میں وہ فوت ہوگیا۔ اسی طرح آپؓ پر قاتلہ حملہ کرنے والا بھی اپنی رہائی کے بعد 1924ء میں سیدھا آپکے پاس آیا اور معافی کا طلبگار ہوا۔ آپؓ نے اسے بھی معاف فرمادیا۔
حضرت مولوی صاحب کے جس ماموں زاد بھائی نے آپؓ کی مخالفت اور ایذارسانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، اُس کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جبکہ حضرت مولوی صاحب ؓ کی صرف دو بیٹیاں تھیں اور کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو ایذا پہنچانے والے کی ساری اولاد کو وفات دے کر بتایا کہ مال اور اولاد پر فخر کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے دورِ خلافت میں حضرت مولوی صاحبؓ کی والدہ نے ایک روز آپؓ کو بلایا اور بتایا کہ میں نے رات خواب دیکھا ہے کہ تمہارے دادا ایک کشتی میں بیٹھے ہیں اور ساتھ ایک بزرگ تشریف فرما ہیں جن کے ساتھ ایک بچہ بھی ہے۔ میں نے تمہارے دادا سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں تو انہوں نے فرمایا یہ وہی بزرگ ہیں جن کی تمہارے بیٹے نے بیعت کی ہے اور یہ ان کا بچہ ہے اور یہ وقت کے امام ہیں۔ پھر والدہ صاحبہ نے آپؓ کو ایک اشرفی دی کہ یہ میری طرف سے نذرانہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو قادیان بھجوادو۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی پہلی شادی ماموں زاد کے ساتھ ہوئی تھی جن سے کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔ دوسری شادی لدھیانہ میں رحیم بی بی صاحبہ سے ہوئی جن سے تین بیٹیاں ہوئیں جن میں ایک چھوٹی عمر میں فوت ہوگئی۔ دوسری بیوی موصیہ تھیں جو 1918ء میں فوت ہوکر خاندانی قبرستان میں دفن ہوئیں اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ خاص میں اُن کا کتبہ نصب کیا گیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ کی تیسری شادی ایک بیوہ سے ہوئی جو 1923ء میں وفات پاگئیں۔ اُن کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ آپؓ کے بڑے داماد محترم علی محمد صاحبؓ المعروف بی ٹی صاحب تھے جنہیں 1906ء میں قبول احمدیت کا شرف حاصل ہوا۔ وہ مدّت تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں استاد رہے۔ 1924ء میں انہیں حضرت مصلح موعودؓ کا پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اور انہیں اُس وفد میں بھی شرکت کا موقع ملا جو گورنر پنجاب سر میلکم ہیلی سے ملنے بھجوایا گیا تھا۔
حضرت حافظ محمد فیض الدین صاحبؓ کو 1924ء میں اختلاج قلب کا مرض ہوا۔ جب سیالکوٹ میں مرض دور نہ ہوا تو قادیان لے جایا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے از راہ شفقت آپؓ کی عیادت بھی کی۔ 17، 18 دسمبر 1924ء کی درمیانی شب آپؓ کو ضعف زیادہ بڑھ گیا۔ آپؓ نے کلمہ شہادت پڑھ کر وہاں موجود افراد سے فرمایا کہ آپ لو گ گواہ رہو کہ مجھے احمدیت قبول کئے ہوئے بیس سال گزرے اور اس سارے عرصہ میں یقین و ایمان میں میرا قدم آگے ہی آگے بڑھا ہے۔ پھر آپؓ کی خواہش پر آپکی بیٹی نے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا تو کچھ دیر بعد آپؓ نے فرمایا حضرت رسول اکرمﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ حضورؐ کے لئے جگہ چھوڑ دو۔ پھر فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا رہے ہیں، حضورؑ کے لئے جگہ چھوڑ دو ۔ پھر فرمایا حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ تشریف لا رہے ہیں ان سب کے لئے جگہ چھوڑ دو … اس کے ساتھ ہی آپؓ کی روح محبوب حقیقی کے پاس حاضر ہوگئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور قطعہ خاص بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
حضرت مولوی صاحبؓ عاشقِ رسول، عالم باعمل تھے اور درود شریف ہر وقت آپکی زبان پر رہتا تھا۔ حـضرت مسیح موعودؑ سے بے حد محبت تھی۔ جب آپؓ نے حضورؑ کی وفات کی خبر سنی تو آپؓ سیالکوٹ میں اپنے گھر سے حضرت میر حامد شاہ صاحب کے مکان کی طرف بے تحاشا ننگے پاؤں دوڑ پڑے اور وہاں سے برھنہ پا قادیان روانہ ہوگئے، حضورؑ کے جنازہ میں شامل ہوئے اور خلافت اولیٰ کی بیعت کرکے واپس آئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ کو خلافت سے بھی بڑی محبت تھی۔ آپؓ خلافت ثانیہ کی ابتدائی بیعت کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپؓ کا حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ سے گہرا تعلق تھا اور اُن کے ایک مصلّٰی پر آپ تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے۔ جب آپؓ کو معلوم ہوا کہ شاہ صاحبؓ نے بیعتِ خلافت میں تامل کیا ہے تو آپؓ انہیں سمجھانے گئے اور جب تک انہوں نے بیعت نہ کرلی آپؓ نے اُن کے مصلّٰی پر نماز پڑھنا ترک کردیا اور اُن کی ہدایت کے لئے دعا کرتے رہے۔
ایک دن محترم چودھری شاہ محمد صاحب انسپکٹر نے آپؓ سے عرض کیا کہ آپؓ نے بیعتِ خلافت ثانیہ کرلی ہے اس لئے مجھے آپ سے کچھ سمجھنا ہے۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ پہلے بیعت کرو، میں تمہارے سارے شبہات دور کردوں گا۔ آپؓ کے تقویٰ کا ایسا اثر تھا کہ انسپکٹر صاحب نے فوراً بیعت کرلی۔ تب مولوی صاحبؓ نے دریافت فرمایا کیا پوچھنا چاہتے ہو۔ اُنہوں نے عرض کی کہ سب شبہات دور ہوگئے ہیں۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی دعوت پر حضرت مصلح موعودؓ سیالکوٹ تشریف لے گئے اور آپؓ کے گھر قیام فرما ہوئے جسے آپؓ نے پہلے ہی خالی کرکے خوب صاف کروایا تھا اور کئی بار آہک پاشی بھی کروائی تھی۔ آپؓ خود دوسری جگہ منتقل ہوگئے تھے۔ بعد ازں حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ مکان اپنی دیگر جائیداد کے ساتھ جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے لئے وقف کردیا تھا۔ جائیداد میں مسجد کبوترانوالی بھی شامل تھی جس کے آپؓ مالک و متولّی تھے۔ نیز دکانیں اور مکان بھی جس میں آجکل احمدیہ گرلز سکول قائم ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓکی جائیداد کی قربانی اور جذبہ خدمت دین کے پیش نظر جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ روپے ماہوار آپکی خدمت میں پیش کئے جایا کریں۔ یہ سُن کر آپؓ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے اور وہی میرا رازق ہے، تم لوگ میرے رازق بننے کی کوشش نہ کرو۔
حضرت مولوی صاحبؓ کو قادیان سے اتنی محبت تھی کہ اپنی دونوں بیٹیوں کے رشتے خاص طور پر قادیان میں کئے اور آپؓ کی درخواست پر جلسہ سالانہ 1913ء کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے دونوں لڑکیوں کے نکاح کا اعلان فرمایا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی وفات پر انجمن احمدیہ سیالکوٹ نے آپؓ کی خدمات کے پیش نظر ایک تعزیتی قرارداد منظور کی اور آپؓ کے نام پر ایک وظیفہ بھی جاری کیا۔ آپؓ کا تفصیلی ذکر خیر مکرم نصراللہ خان ناصر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اپریل و مئی 1998ء کے شماروں میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں