حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 اپریل 2012ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ (یکے از صحابہ 313) کی سیرت و سوانح پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت بابو شاہ دین صاحب ولد مکرم میاں شیخ احمد صاحب مرحوم دراصل ساہووالہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے لیکن محکمہ ریلوے میں ملازمت کی وجہ سے جہلم، راولپنڈی، مردان وغیرہ مختلف علاقوں میں مقیم رہے۔ بیعت سے پہلے پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مرید تھے۔ قبول احمدیت کے بعد حضورؑ کے جاں نثار صحابہؓ میں سے ثابت ہوئے اور مہینوں رخصت لے کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے۔ آپؓ نے نیکی اور تقویٰ میں بہت ترقی کی اور احمدیت کا نہایت عمدہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کے نتیجے میں متعدد سعید روحوں کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔
حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ کی بیعت کا قطعی علم نہیں کہ کس سال میں کی۔ 1896ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں اپنے 313 کبار صحابہ کے اسماء کی فہرست شامل فرمائی جس میں آپؓ کا نام 208نمبر پر موجود ہے۔
حضرت اقدسؑ نے اپنی کتاب ’’کتاب البریہ‘‘ میں بھی اپنی جماعت کے معززین اور مخلصین کی ایک فہرست شامل فرمائی ہے جس میں حضرت بابو صاحبؓ کا نام 75ویں نمبر پر’’منشی شاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر دینا ضلع جہلم‘‘ موجود ہے۔
حضرت بابو صاحبؓ ایک پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ آپؓ جہاں رہے احمدیت کے داعی بن کر رہے۔ تبلیغ میں برکت کے لئے آپؓ حضرت اقدسؑ سے بھی اپنے مباحثات و مکالمات کا ذکر کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیرکوٹلہ اپنی 25نومبر 1901ء کی ڈائری میں حضور علیہ السلام کی سیر کا حال لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’سیر میں سٹیشن ماسٹر مردان (مراد حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ۔ ناقل) کے بعض لوگوں سے مباحثہ وغیرہ کے تذکرہ پر فرمایا کہ مباحثہ قولی کی بجائے مباحثہ عملی زیادہ مؤثر اور مفید ہوتا ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنا عمدہ نمونہ دکھانا چاہئے، تقویٰ اختیار کرنا چاہئے۔ تقویٰ سے ظفرمندی، قرب خدا اور رعب پیدا ہوتا ہے۔‘‘
حضرت بابو صاحبؓ اخبار الحکم و بدر کی بھی خوب اشاعت کرتے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’بابو شاہ دین صاحب … ہمارے اخبار کے پرانے سرپرست سچے خیرخواہ ہیں، الحکم میں متعدد مرتبہ آپ کا تذکرہ ہوا ہے۔ آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک یہ خوبی عطا کی ہے کہ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں کسی نہ کسی شخص کو سلسلہ عالیہ کی طرف لانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے عزیز الحکم کو کبھی نہیں بھولتے بلکہ ان کا مقولہ ہے کہ میں الحکم کی خریداری قومی نشان سمجھا کرتا ہوں اور ہرنئے احمدی کو اس کی خریداری پر توجہ دلانا اپنا فرض۔ غرض الحکم کی توسیع اشاعت کے فرض سے وہ غافل نہیں رہتے…۔‘‘
آپؓ کی اسی نیکی کا ذکر حضرت عرفانی صاحبؓ نے بعض اور جگہوں پر بھی کیا ہے مثلاً لکھتے ہیں:
(1) منشی شاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر مردان اس سلسلہ میں قابل قدر شخص ہیں، تبلیغ و اشاعت کا سچا شوق رکھتے ہیں جہاں جاتے ہیں ایک جماعت ضرور بنا دیتے ہیں۔
(2) ہم اپنے مکرم بھائی بابو شاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے مردان جیسے مقام پر عہد کیا ہے کہ کم از کم الحکم کے دس پرچے جاری کرائیں گے … بابو شاہ دین صاحب نے اپنے اخلاق اور چال چلن کا مردان میں ایسا اچھا نمونہ دکھایا ہے کہ انہوں نے اکثر لوگوں کو اپنا گرویدہ اور اس سلسلہ عالیہ کا عاشق زار بنا لیا ہے۔
23مئی 1902ء کو حضرت بابو صاحبؓ نے حضرت اقدس علیہ السلام کے نام اپنے ایک خط میں اپنے ایک مباحثہ کا تفصیلی ذکر کیا۔ اس خط کے چند حصّے ملاحظہ کیجئے۔ حضرت بابو صاحبؓ لکھتے ہیں:
’’میرے پیارے آقا مرشد و مولا حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود ادام اللہ برکاتکم
…ازیں صوب کمترین شاہ دین آداب بندگانہ و تسلیمات غلامانہ کے ساتھ عرض پرداز ہے کہ چند روز ہوئے کہ … جو اپنے تئیں کسی شیطانی القا کی بنا پر خلیفۃالمسیح بواسطہ خواجہ خضر ظاہر کرتا ہے اور حضورؑ کے مقابل دو ایک اشتہار بھی بغرض مقابلہ دے چکا ہے، یہاں مردان میں آیا اور مقامی دیسی حکام و دیگر اہلکاروں میں یہ شور مچانا شروع کیا کہ مَیں نے تین چار اشتہار مرزا صاحب کے مقابل شائع کئے ہیں اور خود بھی اسی غرض سے بٹالہ تک گیا ہوں تا اگر وہ لکھیں تو قادیان ہی میں پہنچ کر ان کا مقابلہ کروں مگر مرزا صاحب نے جواب تک نہیں دیا اور اس جواب نہ دینے کو حضور کے فرار اور عجز کی طرف محمول کیا۔
آخر جب یہ زہر اُس نے عوام الناس میں بھی پھیلانا چاہا تو برادرم میاں محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے بذریعہ رقعہ خاکسار کو اس شور و فساد سے اطلاع دی اور مجھے بلایا تا ہم دونوں جاکر اس کے دعاوی اور مقاصد دریافت کریں…‘‘۔
اس کے بعد آپؓ نے سارے مباحثہ کی روداد لکھی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے لا جواب کر دیا اور پھر وہ خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد بٹالہ کے رہنے والے میاں حسین بخش صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی آمد کا ذکر کرکے خط میں لکھا ہے کہ انہوں نے ہمارے مباحثہ کا حال سن کر اس خودساختہ خلیفہ کو کہا کہ: ’’آپ اس خیالِ مقابلہ کو چھوڑ دیں، آپ تو مرزا صاحب کے مریدوں سے بھی تاب مقابلہ نہیں رکھتے‘‘۔
حضرت بابو صاحبؓ کی قولی و فعلی تبلیغ کے اثرات کے حوالہ سے حضرت ملک محمود خان صاحبؓ رئیس معیار ضلع مردان (وفات 2جنوری 1959ء) رقمطراز ہیں کہ 1901ء میں حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ مردان کے ریلوے سٹیشن کے پہلے سٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے۔ وہ نہایت مخلص، دیندار اور با اخلاق احمدی تھے اور احمدیت کے قابل قدر مبلغ تھے، جن کی جدو جہد سے بگٹ گنج مردان میں جماعت احمدیہ کی بنیاد پڑی۔ آپ مہمان نواز اور جاذب شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے نیک نمونہ اور حسنِ اخلاق سے نوشہرہ سے لے کر درگئی تک اکثر ریلوے ملازم احمدیت میں داخل ہوئے۔
مردان میں بعض شریر النفس لوگوں کی طرف سے حضرت بابو صاحبؓ کو سخت ایذائیں دی گئیں اور آخر اُن کی شرارت سے آپؓ کی تبدیلی کردی گئی۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور جب اُن کی تکالیف اور مصائب کا ذکر ہوا تھا تو حضور علیہ السلام نے صبر اور استقامت کی تعلیم دی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر خدا تعالیٰ نے اظہار حق کیا۔ افسران بالا نے از خود تفتیش کی اور انجام کار آپؓ ترقی پاکر گوجرخان (ایک عمدہ سٹیشن پر) تبدیل ہوئے۔ بابوصاحبؓ کی اس کامیابی کا سُن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’عاقبت متقی کے لئے ہے۔…خدا تعالیٰ نیک نیت حاکم کو اصلیت سمجھا دیتا ہے اگر اصلیت نہ سمجھیں تو پھر اندھیر پیدا ہو۔ ‘‘
1901ء میں مقدمہ دیوار کی کامیابی کی خوشی میں آپؓ نے مردان سے تمام ممبران جماعت کی معیت میں ایک عریضہ حضرت اقدس کی خدمت میں بھجوایا جس سے آپ کے حضرت اقدس پر ایمان اور حضور سے بے حد محبت کا ایک اور نظارہ ملتا ہے۔ اس کے تقریباً تین ماہ بعد آپ اپنے اہل و عیال کے ساتھ قادیان حاضر ہوئے۔
زلزلہ 1905ء کے دنوں میں ایک مرتبہ آپ اُس وقت بیمار ہوئے جب آپ قادیان میں حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر تھے۔حضرت ملک حسن محمد صاحبؓ آف سمبڑیال (بیعت 1904ء ) بیان کرتے ہیں کہ ’’… شدّتِ بخار سے آپ کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ آپ ایک چھوٹی سی چارپائی پر باغ میں جہاں نمازیں پڑھی جاتی تھیں لیٹے ہوئے تھے اور ہم چند آدمی پاس بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے، حضورؑ باہر تشریف لائے اور ہم سب اٹھ کھڑے ہوئے بابو شاہ دین بھی اُٹھ کھڑے ہوئے، حضور نے فرمایا السلام علیکم! بابو صاحب کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضور بخار ہوگیا ہے، حضور نے بابو شاہ دین کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا بخار وُفار تو کچھ نہیں ہے۔ بعدہٗ ہم سب نے بابو صاحب کو دیکھا کہ بخار بالکل نہیں تھا اور بابو صاحب تندرست تھے‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے رسالہ ’’الوصیت‘‘ شائع ہوا تو اس کے مطالعہ کے فوراً بعد 3فروری 1906ء کو آپؓ نے اپنی وصیت تحریر کردی۔ آپ ابتدائی موصیان میں سے تھے اور آپ کا وصیت نمبر9 تھا۔
آخری عمر میں حضرت بابو صاحبؓ بیمار ہوگئے اور اپریل 1908ء میں قادیان حاضر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ اُنہی دنوں (اپریل مئی 1908ء) لاہور تشریف لے گئے لیکن آپؓ کی خبرگیری کا پورا خیال رکھا اور قادیان میں موجود حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کو آپؓ کے علاج معالجہ کی تاکید فرمائی، چنانچہ اُن کے نام اپنے ایک خط میں حضورؑ تحریر فرماتے ہیں ’’میری دلی خواہش ہے کہ آپ تکلیف اٹھا کر ایک دفعہ اخویم بابو شاہ دین صاحب کو دیکھ لیا کریں اور مناسب تجویز کریں۔ مَیں بھی ان کے لئے پانچ وقت دعا میں مشغول ہوں، وہ بڑے مخلص ہیں ان کی طرف ضرور پوری توجہ کریں۔‘‘
حضورؑ ایک اَور مکتوب میں فرماتے ہیں: ’’بابو شاہ دین صاحب کی تعہد اور خبر گیری سے آپ کو بہت ثواب ہوگا۔ میں بہت شرمندہ ہوں کہ ان کے ایسے نازک وقت میں قادیان سے سخت مجبوری کے ساتھ مجھے آنا پڑا اور جس خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے مَیں حریص تھا، وہ آپ کو ملا۔ امید کہ آپ ہر روز خبر لیں گے اور دعا بھی کرتے رہیں گے اور مَیں بھی دعا کرتا ہوں۔‘‘
تاہم یہی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ نے حضورؑ کی وفات سے قبل 15مئی 1908ء کو بعمر تقریباً 38سال قادیان میں ہی وفات پائی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔ اخبار ’’الحکم‘‘ نے لکھا
’’15 اور 16 مئی1908ء کی درمیانی رات کو 10 بجے بابو شاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر جو اس سلسلہ کے بڑے ہی مخلص اور سرگرم ممبر تھے، قادیان ہی میں آکر فوت ہوگئے۔ مرحوم کئی سال سے بعارضہ سل بیمار تھے، کئی مرتبہ اس مرض کے دَور ہوئے اور آرام ہوگیا، اس دفعہ ایسے گرے کہ پھر نہ اُٹھے۔ مرحوم کو حضرت اقدس کے ساتھ خاص محبت اور اخلاص تھا اور خود حضرت حجۃ اللہ بھی اُن کی اس ارادت اور عقیدت کی قدر فرماتے تھے۔ مرحوم جہاں کہیں رہے سلسلہ کی اشاعت میں سرگرم رہے اس کام میں انہوں نے تکالیف بھی اُٹھائیں مگر ایک دم کے لئے بھی پروا نہ کی۔ اگرچہ مرحوم نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی مگر بہت سی روحیں اُن کے لئے باقیات الصالحات کا کام دیں گی جن کے لئے اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے وہ ذریعہ ہدایت ہوئے۔ مرنے والے میں بہت سی خوبیاں تھیں اور وہ احمدیت کا ایک درخشندہ نمونہ تھے۔…۔‘‘
حضرت بابو صاحبؓ کی دو بیویاں تھیں۔ ایک حضرت کرم بی بی صاحبہ اور دوسری محترمہ رسول بی بی صاحبہ ۔ دونوں ہی نہایت مخلص اور دینداری کی صفت سے متّصف تھیں۔ آپؓ کی ایک اہلیہ محترمہ کو ’’الدار‘‘ میں رات کے وقت پہرہ دینے کی سعادت بھی حاصل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں