حضرت امیر خسروؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جنوری 2007ء میں باکمال صوفی شاعر حضرت امیر خسرو کے بارہ میں ایک مختصر مضمون مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
امیر خسرو 1253ء میں پٹیالی ضلع ایٹہ (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ والد امیر سیف الدین لاچین (جو سلطان التمش کے دربار میں ملازم تھے) کی شادی عمادالملک کی بیٹی سے ہوئی تھی جو نو مسلم راجپوت تھے۔ اس طرح امیر خسرو ماں کی طرف سے ہندوستانی اور باپ کی طرف سے ترکی النسل تھے۔ امیر کا خطاب سلطان علائوالدین خلجی نے عطا کرکے مصحف داری کے عہدہ پر فائز کیا۔
آپ بچپن میں ہی باپ کے سایہ سے محروم ہوکر نانا کے پاس رہنے لگے اور انہی کے زیرسایہ تعلیم و تربیت پائی۔ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، ترکی، پنجابی اور اردو میں مہارت حاصل کی۔ شاعری میں سعدی شیرازی کی پیروی کی چنانچہ شاعری میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے۔ آپ وہ ہندوستانی فارسی گوشاعر اور ادیب ہیں جنہیں ایرانی بھی اہل زبان تسلیم کرتے ہیں۔ شاعری میں دیوان کے علاوہ آپ کی منظومات میں ’’خمسہ امیر خسرو‘‘کی بہت شہرت ہے جو نظامی گنجوی کے خمسئے کے مقابلے میں لکھا گیا۔
جب امیر خسرو کی علمی قابلیت دور دور تک شہرت پاگئی تو سلطان غیاث الدین بلبن کے بھتیجے ملک علائوالدین کشلو خان نے جو سلطنت کا سب سے با اثر امیر تھا، آپ کو اپنا ندیم خاص بنالیا۔ مگر آپ دو سال بعد سلطان بلبن کے بیٹے بغرا خاں کے پاس سامانہ چلے گئے اور پھر بلبن کے ولی عہد شہزادہ محمد قآن سے وابستہ ہوگئے۔ چونکہ تصوف سے بہت لگاؤ تھا اس لئے اپنے وقت کے نامور صوفی خواجہ نظام الدین اولیاء کے حلقہ ارادت میں 1272ء میں شامل ہوگئے۔
جب آپ سلطان قطب الدین مبارک خلجی کے دربار سے وابستہ تھے تو سلطان کی فرمائش پر مشہور مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ لکھی جس میں ہندوستان کو جنت ارضی بیان کرکے دیگر ممالک سے برتر ثابت کیا۔ سلطان اس مثنوی کو پڑھ کر اتنا خوش ہوا کہ اس نے آپ کے وزن کے برابر تول کر روپے انعام دیئے۔
امیر خسرو اپنے زمانہ کے تمام سلاطین دہلی کے درباروں سے وابستہ رہے اور آپ کو ہر قسم کا دنیاوی اعزاز حاصل ہوا لیکن اس کے باوجود اپنے مرشد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء کی خدمت کو نعمت عظمیٰ سمجھتے تھے۔ حضرت خواجہؒ بھی آپ کو بہت محبوب رکھتے تھے اور فرماتے کہ ایک قبر میں دو لاشوں کا دفن کرنا جائز ہوتا تو میں اپنی قبر میں خسرو کو بھی دفن کراتا۔
امیر خسرو ایک روز حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گفتگو کے دوران عرض کیا کہ حکم ہو تو بندہ بھی ایک کتاب ’’گلستان‘‘ کی طرز پر لکھے۔ آپ نے فرمایا بہت مناسب ہے۔ چند روز بعد خسرو نے ایک کتاب تصنیف کرکے اپنے مرشد کی خدمت میں پیش کی۔ سلطان المشائخ نے فرمایا: ’’یہ کتاب تم نے خوب لکھی ہے مگر سعدی کی گلستان کچھ اور ہی ہے اس کا حسن و لطافت اس میں نہیں‘‘۔ امیر خسرو یہ سن کر دل شکستہ ہوئے تو اسی رات آپ نے خواب دیکھا کہ آنحضورﷺ کے سامنے حضرت شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی اور دائیں جانب حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دست بستہ باادب کھڑے ہیں اور آنحضورﷺ کسی کتاب کے مطالعہ میں مشغول ہیں۔ امیر خسرو نے قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ سعدی شیرازی کی ’’گلستان‘‘ ہے، چنانچہ بیدار ہونے پر آپ نے اپنی کتاب پھاڑ دی اور ’’گلستان سعدی‘‘ کا احترام پہلے سے بھی بڑھ کر کرنے لگے۔
ایک روز ایک فقیر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ ء کی خانقاہ میں آیا اور سوال کیا۔ اتفاق سے لنگرخانہ میں اس وقت کوئی چیز نہ تھی۔ انہوں نے فرمایا آج جو کچھ بھی فتوح میں آئے گاتم کو دیدیا جائے گا۔ لیکن اتفاق سے اس روز کوئی چیز کہیں سے نہیں آئی۔ بالآخر انہوں نے اپنی جوتیاں دے کرفقیر کو رخصت کیا۔ وہ شہر سے باہر نکلا تو امیر خسرو جو بادشاہ وقت کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، راستہ میں ملے اور فقیر سے اپنے مرشد کی خیریت پوچھی۔ جب وہ باتیں کرنے لگا تو آپ نے بے اختیار ہو کر کہا کہ تم سے میرے مرشد کی خوشبو آرہی ہے، کیا تمہارے پاس ان کی کوئی نشانی ہے؟ فقیر نے جوتی دکھائی تو امیر خسرو بیتاب ہو گئے اور فقیرسے پانچ لاکھ نقرئی تنکے دے کر جوتیاں خرید لیں۔ یہ رقم بادشاہ نے ان کو قصیدہ لکھنے کے صلہ میں عطا کی تھی۔ پھر سر پر جوتیاں رکھ کر مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اُس درویش نے اتنے ہی پر اکتفا کیا، اگر اس کے بدلے تمام جان و مال طلب کرتا تو میں حاضر کردیتا۔
حضرت خواجہؒ کی وفات کے وقت امیر خسرو دہلی سے دُور سلطان محمد تغلق کے ساتھ بنگالہ کی مہم پر تھے، وہاں یکایک آپ کے دل پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی چنانچہ سلطان سے اجازت لے کر چل کھڑے ہوئے۔ دہلی پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت خواجہؒ فوت ہوچکے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے اپنی ساری ملکیت مرشد کے ایصال ثواب کے لیے فقیروں اور مسکینوں میں لٹا دی اور ماتمی لباس پہن کر مرشد کے مزار پر پہنچے، اس سے سر ٹکرا کر ایک چیخ مار کر کہا: سبحان اللہ آفتاب تو زمین کے اندر ہے اور خسرو ابھی زندہ ہے۔ پھر ایک شعر پڑھ کر بے ہوش ہو گئے اوراسی اندوہ غم میں چھ مہینے کے بعد عالمِ بقا کو سدھارے۔
امیر خسروکی تصانیف میں سے بہت کم دستیاب ہیں اور ان کی تعداد 17 ہے۔ امیر خسرو نے اپنی شاعری میں11 بحور استعمال کی ہیں جن میں35 اوزان موجود ہیں۔ غزلیات 2006، قصائد 45، قطعات 20، مثنویات 19، رباعیات 155۔ کل اشعار کی تعداد 57701 ہے۔
اہل تصوف نے امیر خسرو کو اپنے اشعار اور نثر میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے خطابات اور تقریروں میں امیر خسرو کے کلام میں سے ایک شعر اور تین مصرعے بھی استعمال فرمائے ہیں یہ شعر تو حضور نے کئی بار بیان فرمایا ہے:

من تُو شدم تُو من شُدی من تن شدم تُو جاں شدی
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

ترجمہ:- میں تُو بن گیا، تُو میں بن گیا۔ میں تن بنا، تُو جان بن گیا تابعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں کوئی اَور ہوں اور وہ کوئی اَور ہے۔

موئے سپید از اجل آرد پیام

ترجمہ:- سفید بال مرگ کا پیغام لاتے ہیں

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری

ترجمہ:- وہ تمام خوبیاں جو حسینوں میں پائی جاتی ہیں وہ سب تیری ذات میں جمع ہیں۔

پس از آنکہ من نمانم بچہ کارخواہی آمد

ترجمہ:- جب میں ہی نہ رہوں تو اس کے بعد تیرا آنا بیکار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب 22؍اکتوبر تا 10نومبر1905ء دہلی تشریف لے گئے تو آپؑ دہلی میں مدفون بزرگان دین کے مزارات پر بغرض دعا بھی تشریف لے گئے۔ 29؍اکتوبر کی صبح حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر تشریف لے گئے تو وہاں کے سجادہ نشین خواجہ حسن نظامی صاحب نے ساتھ ہوکر تمام مقامات اور قبریں دکھائیں اور حضورؑ نے حضرت نظام الدین اولیاء اور امیر خسرو کے مزار پر دعا کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں