حضرت ابوبکر صدیقؓ کا بلند مقام اور آپؓ کا عشق رسولﷺ

آنحضورﷺ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل صحابہؓ کی ایک مجلس میں یہ ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ چاہے تو دنیا میں اَور زندگی بسر کرلے اور چاہے تو اپنے ربّ کے حضور چلا آئے، خدا کے اُس بندے نے اپنے خدا کے حضور جانا پسند کیا ہے۔ آنحضورﷺ کی یہ بات سُن کر حضرت ابوبکرؓ بے اختیار رونے لگے۔ دوسرے صحابہؓ کو یہ خیال بھی نہ گزرا کہ ان الفاظ میں آنحضورؐ اپنی وفات کے قرب کا اشارہ فرما رہے ہیں لیکن حضرت ابوبکرؓ کی بصیرت اپنے محبوب کے اقوال کو بہتر سمجھتی تھی چنانچہ آنحضورﷺ نے ایک موقعہ پر آپؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ مال کے لحاظ سے اور رفاقت کے لحاظ سے مجھ پر دنیا کے سب لوگوں سے زیادہ ابوبکرؓ کا احسان ہے اور اگر میں اپنے ربّ کے سوا کسی کو اپنا خلیل بنا سکتا تو ابوبکرؓ کو بناتا …۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بلند مقام اور آپؓ کے عشق رسول ﷺ کے بارے میں یہ مضمون مکرم ایم اے ناصر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍ستمبر 1998ء کی زینت ہے۔
حضرت ابوبکرؓ کی سیرت کا ایک امتیازی پہلو آنحضرتﷺ کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنا اور ہجرت کے وقت آنحضورﷺ کی رفاقت میں سفر ہے۔ پھر آپؓ ہر مہم میں نہ صرف آنحضورؐ کے ہمراہ رہے بلکہ آپؐ کے مشیر اور انتظامی امور میں نیابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آنحضورﷺ کی وفات سے قبل علالت کے دوران آپؓ ہی امام مقرر ہوئے اور وفات کے بعد خلیفہ منتخب ہوئے۔
ایک بار کسی صحابیؓ سے حضرت ابوبکرؓ کی معمولی شکررنجی ہوگئی۔ آنحضورﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپؐ نے فرمایا لوگو! خدا نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تو تم سب نے کہا کہ تم جھوٹے ہو مگر ابوبکرؓ نے کہا کہ خدا کا رسول سچا ہے اور اُس نے اپنی جان و مال میری ہمدردی میں لگا دیا، کیا تم میری خاطر میرے اس دوست کو تکلیف پہنچانے سے باز نہیں آؤ گے!۔
قبولِ اسلام کے وقت حضرت ابوبکرؓ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے جو آپؓ نے خدمت اسلام میں خرچ کردیئے اور بارہا اپنی جان خطرے میں ڈال کر آنحضورﷺ سے مشرکین کے مظالم دور کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مکّی زندگی میں قرب کا یہ عالم تھا کہ آنحضورﷺ روزانہ صبح و شام حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے جاتے۔ سفر ہجرت کے لئے زاد راہ کا انتظام کرنے کی سعادت بھی آپؓ کو ملی اور پھر غار ثور میں آپؓ نے اُس وقت اپنے محبوب سے عشق کا بے مثال مظاہرہ کیا جب آنحضورﷺ استراحت فرما رہے تھے اور کسی زہریلے جانور نے ایک سوراخ سے اپنا سر نکالا تو اس جانثار عاشق نے اپنے محبوب کی نیند میں خلل گوارا نہ کیا اور سوراخ کے منہ پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔ جانور نے پاؤں پر کاٹ کھایا تو درد و کرب کے باعث آپؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اتفاقاً ایک قطرہ آنحضورﷺ کے چہرہ انور پر ٹپکا جس سے آپؐ بیدار ہوگئے اور واقعہ معلوم ہونے پر آپؐ نے اپنا لعاب دھن زخم پر لگایا جس سے زہر کا اثر دور ہوگیا۔ اسی رفاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک بار آنحضورﷺ نے آپؓ کو خوشخبری دی کہ تم پہلے شخص ہو جو میری امّت میں سے جنّت میں داخل ہوگے، تم غار میں میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے۔
مدنی زندگی میں بھی آپؓ آنحضرتﷺ کے معتمد ترین مشیر اور بہترین وزیر ثابت ہوئے اور تمام معرکوں میں آپؐ کے ہمراہ رہے۔ آنحضورؐنے فرمایا میرے آسمانی وزیر بھی ہیں اور زمینی بھی اور دنیا کے وزیروں میں سے پہلے ابوبکر ہیں۔
آپؓ کی فدائیت کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے کسی کا مال اس طرح کام نہیں آیا جیسے ابوبکر کا مال میرے کام آیا ہے۔ تو ابوبکر رو پڑے اور عرض کیا: حضور میں کیا اور میرا مال کیا، ہمارا تو سب وجود آپؐ کے لئے ہے۔
روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے جنازہ کے موقعہ پر جب یہ فیصلہ ہوا کہ آپؓ کو آنحضورﷺ اور ابوبکرؓ کے ساتھ دفن کیا جائے تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میرا بھی یہی خیال تھا کہ اللہ انہیں اپنے دونوں رفیقوں کے ساتھ دفن ہونے کا موقع دے گا کیونکہ میں نے آنحضرتﷺ کو بہت دفعہ یہ کہتے سنا کہ ’’میں اور ابوبکرؓ اور عمرؓ فلاں جگہ پر تھے‘‘ یا ’’میں نے اور ابوبکرؓ اور عمرؓ نے فلاں کام کیا ‘‘۔
جب حضرت عمروؓ بن عاص کو غزوہ ذات السلاسل کا کمانڈر مقرر کیا گیا تو انہوں نے آنحضورﷺ سے پوچھا کہ آپؐ کو لوگوں میں سب سے پیارا کون ہے، آپؐ نے فرمایا ’’عائشہ‘‘۔ انہوں نے پھر پوچھا مردوں میں سے کون؟۔ آپؐ نے فرمایا ’’اس کا باپ ابوبکرؓ‘‘۔
آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو جنّت کی بشارت دیتے ہوئے عشرہ مبشرہ میں شامل فرمایا اورآپؓ کو جنّت کے سب دروازوں سے بلائے جانے کی بشارت دی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں