جی رہے جس میں ہم ، یہ اِک انوکھا دَور ہے – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11جنوری 2012ء میں ’’ اکیسویں صدی کا المیہ‘‘ کے عنوان سے مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک طویل نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

جی رہے جس میں ہم ، یہ اِک انوکھا دَور ہے
نفسی نفسی کا گلی کوچوں میں بے حد شور ہے
جلدبازی ہر طرف ، صبر و سکوں ناپید ہے
نفس کے زندان میں ، آزاد انساں قید ہے
پُر تکلّف ہیں مکاں ، گھر ہیں مگر ٹوٹے ہوئے
شوہر و بیوی ہوں یا بھائی بہن روٹھے ہوئے
دُور دیسوں میں بسے غیروں سے گہرے رابطے
اپنے ہی ماں باپ سے لیکن ہیں کتنے فاصلے
لڑکیوں میں ناز نخرے ہیں لبھانے کے لئے
حوصلے لیکن نہیں شادی نبھانے کے لئے
کیا ضرورت ، کیا ہے آسائش ، نہیں کچھ بھی پتہ
شکر کا کلمہ نہیں ہر وقت ہونٹوں پر گِلہ
علم تو ہے واجبی سا ڈگریاں بے شک بہت
فہم و دانش کم ہے ، پر بیکار کی بک بک بہت
عالمِ بالا کے کُرّوں پر ہے انساں کی نظر
اپنے رشتہ دار و ہمسایوں سے لیکن بے خبر
آج مقداریں بڑھیں اور ہو گئے معیار کم
صاحبِ گفتار ڈھیروں ، صاحبِ کردار کم
یہ نہ مٹی کے نہ پتھر کے بتوں کا دَور ہے
اپنے اپنے نفس کی پوجا پہ سارا زور ہے
کھیلتے ہیں آگ سے بارود پر بیٹھے ہیں ہم
واہ شانِ بے نیازی فکر ہے لیکن نہ غم

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں