جید عالم، عمدہ اخلاق کے پیکر اور نامور ادیب محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اپریل 2010ء میں معروف ادیب اور قلمکار جناب محمد طفیل صاحب کی یادداشتوں سے وہ حصہ شامل اشاعت ہے جو محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کے بارہ میں ہے۔ ذیل میں اس مضمون میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔ قبل ازیں محترم شیخ صاحب کے بارہ میں الفضل انٹرنیشنل 4 ستمبر 2009ء کے اسی کالم میں ایک مضمون شائع ہوچکا ہے۔
جناب محمد طفیل صاحب لکھتے ہیں کہ عام لوگوں کی زندگی میں اور ادیبوں کی زندگی میں فرق ہوتا ہے۔ عام لوگ اپنی طبعی عمر کے بعد مرہی جاتے ہیں مگر ادیب کی زندگی کا آغاز ان کی موت کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے شیخ محمد اسماعیل پانی پتی کتنے برس تک زندہ رہیں گے۔ اس کے بارہ میں میں کوئی پیشگوئی نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو صرف ان کے بارہ میں باتیں کرنی چاہتا ہوں۔
شیخ صاحب کا قد چھوٹا تھا۔ جسم بھی قدرے اکہرا تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی، چہرے پر سفید داڑھی، سر پر ترکی ٹوپی، باتیں تیزی سے کرتے تھے۔
شیخ صاحب عمر کے اس حصے میں تھے کہ جب آنکھیں جواب دے جاتی ہیں۔ مگر شیخ صاحب کی بینائی میں بڑی جان تھی۔ وہ بڑے خوشخط تھے اور بڑا باریک باریک لکھتے تھے۔ سطریں بالکل سیدھی، جیسے کوئی فوجی کھڑا ہو۔ ایک دن مجھے کہنے لگے۔ ’’میں آپ کو چاول کا ایک دانہ دینا چاہتا ہوں‘‘ میرا جواب یہ تھا: ’’کیا آپ مجھ سے دیگ کا حال معلوم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ پھر وہ ایک چھوٹی سی ڈبیا اٹھالائے۔ کہنے لگے ’’دیکھو‘‘۔ ’’کیا دیکھوں؟‘‘۔ کہا ’’اس ڈبیا کے اندر کیا ہے؟‘‘ میں نے ڈبیا کھولی تو روئی کے اندر لپٹا ہوا چاول کا ایک دانہ پڑا تھا۔ مَیں نے کہا ’’یہ دانہ بڑا خوش قسمت ہے اسے بڑے اہتمام سے رکھا گیا ہے۔ قصہ کیا ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’چاول کے اس دانہ پر پوری قُلْ ھُوَ اللہ لکھی ہوئی ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے ایک چھوٹا سا شیشہ دیا اور کہا کہ ’’لو پڑھ لو‘‘۔ میں نے شیشے کی مدد سے چاول کو دیکھا تو اس پر بڑی مہارت سے پوری قُلْ ھُوَاللہ لکھی ہوئی تھی۔ میں نے کہا میں نے سن رکھا تھا کہ لوگ چاول کے دانے پر قُلْ ھُوَ اللہ اور چنے کے دانے پر الحمد شریف لکھ لیتے ہیں مگر دیکھا کبھی نہ تھا۔ پھر پوچھنے پر کہنے لگے ’’میں نے لکھا ہے اور آپ کی نذر ہے‘‘۔
ہماری دوستی عجیب تھی۔ وہ بزرگ، میں نوجوان (یہ قصہ 1951ء کا ہے) وہ ساٹھ کے پیٹے میں، میں نوجوانی کی دہلیز پر۔ وہ جید عالم، میں ادب کا ایک معمولی طالب علم۔ وہ اخلاق کا مجسمہ، میں تند خو اور سرکش۔ وہ کٹرمذہبی، میں ترقی پسند ادب کا دلدادہ۔ غرض کوئی بھی قدر مشترک نہ تھی۔ اس کے باوجود ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک تھے۔
شیخ صاحب میں حس مزاح بہت تھی۔ بڑھاپے میں تو اولاد بھی والدین سے بھاگتی ہے مگر یہ ایسے بزرگ تھے جن سے دور بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ہمدرد و مشفق، پرائے دکھ اپنانے والے، اپنے دوست کے ہی نہیں بدخواہوں کے بھی کام آنے والے، کوئی بھی فرمائش کردے ان کے بس میں ہوگا تو کر گزریں گے۔ چاہے ان کا بھرکس ہی کیوں نہ نکل جائے!۔ بھرکس کا لفظ میں نے خاص طور پر استعمال کیا ہے قصہ سناتا ہوں۔ فیصلہ خود کرلیں کہ لفظ کا استعمال صحیح ہوا کہ نہیں۔ کیونکہ کسی بھی تحریر میں، الفاظ کے چناؤ کا مسئلہ بڑا اہم ہوتا ہے۔ بلکہ تحریر میں اہم مسئلہ الفاظ کے انتخاب ہی کا ہوتا ہے بہرحال یہ قصہ ان دنوں کا ہے جب میں خطوط نمبر مرتب کررہا تھا۔
کبھی آپ نے نواب محسن الملک کا خط پڑھا ہے؟ سرسید احمد خان کا خط؟ مولوی عنایت اللہ کا خط؟ مولانا عبدالماجد دریابادی کا خط؟ اگر آپ نے ان کے خطوط، ان کے اپنے ہینڈ رائٹنگ میں پڑھے ہوں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایسے حضرات کے خطوط پڑھنا کتنے جان جوکھوں کا کام ہے۔ جب میں نے جملہ خطوط کو سامنے رکھا انہیں پڑھنے لگا تو میں نے سرکو پیٹ لیا۔ معلوم ہوا کہ مفہوم کو تو ٹٹولا جاسکتا ہے مگر لفظ بہ لفظ صحیح نہیں پڑھا جاسکتا۔ ایسے خطوط جنہیں پڑھنے کی ضرورت تھی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں تھے سچ پوچھیں تو ہزاروں!۔ مَیں نے دشواری کا ذکر، شیخ صاحب سے کردیا۔ انہوں نے جھٹ کہا ان میں سے سرسید کے خطوط میں پڑھ دوں گا۔ سرسید کا خط بظاہر صاف نظر آتا ہے مگر الفاظ ٹیڑھے میڑھے اور ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ایک بڑے پلندے میں سے سرسید احمد خان کے821 خطوط اٹھائے اور شیخ صاحب کے حوالے کردیئے۔ دوچار دن کے بعد جا کر خیریت پوچھی تو معلوم ہوا کہ ایک دن میں چار پانچ خطوط سے زیادہ پڑھے ہی نہیں جاسکتے۔ کیونکہ بعض اوقات ایک لفظ پڑھنے میں ایک ایک دو دو گھنٹے صرف ہورہے ہیں۔ دس پندرہ دن بعد پھر احوال پوچھے کہنے لگے آپ خطوط کو جلد پڑھنے کے لئے کہتے ہیں میں صبح خطوط کو لے کر بیٹھتا ہوں رات کے گیارہ بجے تک پڑھتا ہوں۔ باہر کا آنا جانا موقوف کررکھا ہے۔ پیشاب بھی آتا ہے تو اسے کہتا ہوں ذرا ٹھہر! اس کے باوجود ابھی تک ساٹھ سے زیادہ خطوط نہیں پڑھ سکا میں تو وعدہ کرکے پھنس گیا ہوں۔چنانچہ وہ ایسا پھنسے، ایسا پھنسے کہ پورے تین ماہ تک خطوط پڑھتے رہے اور مجھے دعائیں دیتے رہے۔ کوئی اور ہوتا تو اس خدمت کو کبھی بھی بجانہ لاتا کہتے تھے کچھ ادب کی خدمت کا شوق لے ڈوبا کچھ آپ کی محبت نے انجرپنجر ڈھیلا کرڈالا۔ بہرحال میرا تو بھرکس نکل گیا۔
ہاں تو شیخ صاحب نے مجھ سے خطوط لئے تھے تو کہا تھا کہ خطوط کا پڑھنا کونسا مشکل کام ہے۔ چنانچہ جب انہوں نے کہا کہ خطوط کے پڑھنے میں میرا تو بھرکس نکل گیا تو میں نے ان کا فقرہ ان پر چپکایا کہ خطوط پڑھنا کونسا مشکل کام ہے۔ اس پر اتنا ہنسے اتنا ہنسے کہ کہنے لگے کہ آج ساری کلفت دور ہوگئی۔
شیخ صاحب شکر کا استعمال زیادہ کیا کرتے تھے۔ ہم ان سے پوچھتے چائے میں کتنی چینی؟ کہہ دیتے تین چار چمچے۔ ایسا ایک بار نہیں، کئی بار ہوا۔ ایک دن ہم شیخ صاحب کے گھر بیٹھے تھے، ان میں کچھ ایسے دوست بھی تھے جن کا آرٹ ہی خوشامد تھا۔ چائے آئی۔ مَیں نے سوچا، چائے بنانے کی سعادت میں حاصل کروں۔ چنانچہ میں نے حسب عادت پوچھا کتنی چینی؟ کہنے لگے ایک چمچہ!۔ مَیں نے کہا ’’شیخ صاحب یہ کیا چکر ہے کہ آپ دوسروں کے گھر میں چائے پیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ڈال دو، چار پانچ چمچے مگر اپنے گھر میں ایک چمچہ!۔ کہنے لگے (اور حاضرین کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ کر) کہ اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چمچے جتنے بھی کم ہوں اچھا ہے۔
یہ بزرگ تھے مگر پیارے بزرگ جبکہ ہربزرگ پیار کے قابل نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بزرگ پیار کے قابل ہوتا بھی ہے تو وہ اس سے پیار نہیں کرتے۔ کیونکہ ایک فاصلہ، ایک نسل بیچ میں آکے کھڑی ہو جاتی ہے مگر یہ جب تک جئے۔ خوش طبعی سے جئے یہی وجہ ہے کہ ان کے اور ہمارے درمیان، نہ فاصلہ حائل ہوا اور نہ ایک نسل۔
ایک بار میں نے شیخ صاحب سے شعراء کا مختصر سا تذکرہ لکھوایا تھا جوکہ غزل نمبر کے دوسرے ایڈیشن میں شامل ہے۔ جب شیخ صاحب مسودہ لائے اور میں نے مسودے کو ادھر ادھر سے جھانکا تو انہوں نے میری رائے پوچھی۔ میں نے کہا ’’پچانوے فیصد جامع‘‘ میں نے پچانوے فیصد جامع کا لفظ اس لئے استعمال کیا تھا کہ تحقیقی کاموں میں صد فی صد والا معاملہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی نہ کوئی پہلو دبتا ہوا رہ جاتا ہے۔ کوئی نہ کوئی تسامح ہو جاتا ہے کوئی نہ کوئی انکشاف ہوتا ہی رہتا ہے۔ مگر میرے ’’پچانوے فیصد جامع‘‘ والی بات پر انہوں نے کہا۔ ’’ایک لطیفہ سن لو‘‘۔ مَیں نے کہا ’’ارشاد‘‘۔ کہنے لگے۔ جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا تو امتحان میں ایک عنوان کے تحت مضمون لکھنے کے لئے کہا گیا میرا اس موضوع پر اچھا خاصا مطالعہ تھا میں نے خوب دلجمعی سے مضمون لکھا۔ میرے استاد نے اس مضمون پر مجھے شاباش دی۔ ساتھ ہی حوصلہ افزائی کے طور پر یہ کہا ’’اتنا اچھا مضمون تو شاید میں بھی نہ لکھ سکتا‘‘۔ اس پر میں نے (یعنی شیخ صاحب نے) استاد مکرم کی خدمت میں گزارش کی ’’اس کے باوجود سو میں سے پچانوے نمبر دیئے!‘‘۔ میرے استاد کا جواب یہ تھا ’’پانچ نمبر استادی کے کاٹے ہیں‘‘۔
میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ شیخ صاحب نے طبیعت بڑی مفرح پائی تھی۔ ایک واقعہ اور سن لیجئے کہ پانی پت میں ایک دکاندار تھے۔ بڑے متین اور وضع دار، علمی ذوق بھی خاصا تھا۔ ادیب اور شاعر آتے جاتے ان کے ہاں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ نام ان کا شیخ محمد نوح تھا۔ ایک دن وہ خاصے پریشان تھے۔ شیخ صاحب نے پوچھا۔ ’’خیریت تو ہے؟‘‘۔ محمد نوح ترت بولے: بیٹے کے کرتوتوں نے پریشان کررکھا ہے۔ پھر تفصیل بتانا شروع کردی۔ اس نے یہ کہا اس نے وہ کہا وہ ایسا نکل گیا وہ ویسا نکل گیا۔ شیخ صاحب چپ چاپ سنتے رہے بولے کچھ نہیں۔ بالآخر محمد نوح نے کہا شیخ صاحب! میں اپنی بپتا آپ کو سنا رہا ہوں اور آپ بول ہی نہیں رہے۔ شیخ صاحب نے چپکے سے کہہ دیا۔ ’’میں کیا بولوں وہ تو پسر نوح نکلا‘‘۔
اگر کوئی شخص ان کے ہاں کوئی امانت رکھواتا تھا تو یہ بے حد پریشان ہوتے تھے۔ ان کا سوچنے کا انداز یہ تھا کہ عمر مستعار کا اعتبار کیا! مر گیا تو کیا ہوگا۔ احتیاطاً اپنے بیٹے کے نام بطور وصیت یادداشتیں بھی لکھتے جاتے کہ فلاں فلاں شخص کی میرے پاس امانت ہے اور فلاں فلاں جگہ رکھی ہے۔ اگر کوئی ہزار روپیہ دے گیا ہے اور وہ شخص جب اسے واپس لینے آئے گا تو اسے سو سو کے بھی وہی نوٹ واپس ملیں گے۔ دس دس کے بھی وہی اور پانچ پانچ کے بھی وہی، مطلب یہ کہ اس امانت کی ایک پوٹلی بنا لیتے تھے۔ پھر اسے کسی جگہ احتیاط سے رکھ دیتے تھے۔ مطالبے پر وہی رقم، جوں کی توں نکال کر دے دیتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ امانت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اصل چیز ہی واپس کی جائے۔ ہزار روپیہ واپس کرنا اتنا اہم نہیں۔ جتنا کہ یہ ہزار کے نوٹ بھی وہی ہوں جوکہ بہ وقت امانت سپرد کئے گئے تھے۔
ایک موقع پر شیخ صاحب نے ایک تولیہ نما چیز دکھائی پوچھا گیا۔ یہ کیا؟ کہنے لگے غور سے دیکھئے۔ دیکھا تو چھوٹے چھوٹے دھاگوں سے، تولیہ نما چیز بنی ہوئی تھی جو لمبائی اور چوڑائی میں ڈیڑھ گز اور ایک گز کے قریب ہوگی۔ کہنے لگے ’’یہ میری والدہ کا کارنامہ ہے‘‘۔ بازار سے جو سودا سلف لایا جاتا تھا ان پڑیوں پر جو دھاگہ، دکاندار باندھ کر دیتے تھے اسے میری والدہ اکٹھا کرتی رہیں نہ جانے کتنے برس جب اتنے سارے دھاگے جمع ہوگئے تو پھر والدہ نے انہیں مٹکے سے نکالا اور یہ تولیہ بنادیا‘‘۔ حیرت سے میرا منہ کھلا رہ گیا۔ پہلے ایک ایک دھاگہ اکٹھا کیا پھر ایک ایک دھاگہ جوڑا۔
ادب کی ریاضت کے باب میں شیخ صاحب نے جو کچھ بھی کیا۔ اس پر مجھے تو حیرت نہیں ہوتی۔ یہی نا کہ سو سوا سو کے قریب کتابیں لکھیں یہی نا کہ سینکڑوں مقالات ادق موضوعات پر لکھ ڈالے۔ حیرت اس لئے نہیں ہوتی کہ انہیں والدہ ایک رستہ دکھا گئی تھیں۔ انہوں نے بھی جتنا کام کیا وہ بھی ادب کی پڑیوں پر سے دھاگے ہی اکٹھا کرنے کا کام کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں