جسٹس جاوید اقبال کی خودنوشت سوانح

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍مئی 2003ء میں سابق چیف جسٹس پنجاب ہائی کورٹ اور سینیٹر جناب جاوید اقبال صاحب کی خودنوشت سوانح: ’’اپناگریبان چاک‘‘ سے جماعت احمدیہ اور احمدی مشاہیر کے بارہ میں اُن کے ذاتی مشاہدات مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
وہ بیان کرتے ہیں UNO میں کشمیر کے مسئلہ پر اصلی معرکہ سر ظفراللہ خان اور کرشناسینن کے درمیان ہوتا تھا۔ گھنٹوں لمبی منہ زبانی تقریریں ہوا کرتیں۔ اُس زمانہ میں بیشتر موضوعات نوآبادیاتی علاقوں کی آزادی سے متعلق تھے۔ ان میں اکثر ممالک مسلمان تھے مثلاً مراکو، الجیریا، تیونس۔ سرظفراللہ خان نہایت عمدگی سے ان کا کیس پیش کیا کرتے۔ یہاں ہر شام کسی ڈپلومیٹک پارٹی یا کھانے پر جانا پڑتا اور خوب وقت گزرتا کیونکہ یہ زندگی بھی ایک اپنی نوع کی عیاشی کی زندگی تھی۔ اس میں سفیر اور دیگر حضرات کام کے بعد شراب و شباب کے کھیل میں مشغول ہوجاتے۔ سر ظفراللہ خان واحد شخصیت تھے جو ایسی محفلوں میں نظر نہ آتے بلکہ UNO کے میڈیٹیشن روم کو اپنی عبادت کے لئے استعمال کرتے۔ شاید اس عبادت کے کمرہ کو اُن کے سوا کوئی استعمال نہ کرتا تھا۔ پاکستان نے اگر بین الاقوامی فورموں میں کبھی کوئی کامیابی حاصل کی تو اس میں سر ظفراللہ خان کی شخصیت کا بڑا دخل تھا۔ وہ نہ صرف سال بھر کے لئے جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے بلکہ دو مرتبہ بین الاقوامی عدالت میں جج کی حیثیت سے بھی چنے گئے۔ وہ معمول کے مطابق رات نو بجے سو جایا کرتے تھے۔ 1960ء میں انہوں نے مجھے اپنا متبادل نمائندہ بنادیا تھا۔ اُن کے جانے کے بعد اُن کی کرسی مجھے سنبھالنا پڑتی۔ ایک رات سپیشل پولیٹیکل کمیٹی میں روسی سفیر اور میرے درمیان بحث نے مکالمہ کی شکل اختیار کرلی۔ صبح مَیں نے فون کرکے اُنہیں صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ بولے کہ مَیں نے ساری کارروائی ریڈیو پر سن لی تھی، تم نے درست مؤقف اختیار کیا۔
وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ پنجاب ہائیکورٹ میں چیف جسٹس کے طور پر ریٹائرمنٹ سے پیشتر وزیراعظم محمد خان جونیجو نے مجھے بلوایا اور چاہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے سپریم کورٹ میں لے جاکر واپس ہائیکورٹ میں لے آئیں۔ مَیں نے کہا کہ مَیں ایسا نہیں چاہوں گا کہ واپس ہائیکورٹ میں جاکر اپنے کسی جونیئر ساتھی کا حق ماروں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرے بعد کون ہوسکتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ سب سے سینئر جج سعد سعود جان ہیں جو لائق بھی ہیں اور قابل ستائش بھی۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ وہ تو قادیانی ہیں۔ مَیں نے کہااوّل تو وہ کہتے ہیں کہ وہ قادیانی نہیں ہیں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں لیکن اگر وہ قادیانی ہوں بھی تو کیا مذہبی عقائد کے سبب اُن کی سنیارٹی اور میرٹ کو نظرانداز کرنا جائز ہے؟۔ جونیجو کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ بعد میں میرے ساتھ سعد سعود جان کو بھی سپریم کورٹ میں جج بنادیا گیا لیکن انہیں ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بننے سے محروم رکھا گیا۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام ، داؤد رہبر اور مَیں نے مل کر کیمبرج میں پاکستان سوسائٹی قائم کی تھی اور کیمبرج یونیورسٹی میں مجھے داخلہ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فلسفہ کے سربراہ پروفیسر قاضی اسلم نے پروفیسر آربری سے خط و کتابت کرکے دلوایا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ 1984ء میں حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ میں مذہبی عدم رواداری کے موضوع پر ہونے والے ایک سیمینار میں شرکت کیلئے جنیوا (سوئٹزرلینڈ) بھیجا۔ مَیں نے وزارت خارجہ سے پاکستان میں احمدی اقلیت سے متعلق ہونے والی قانون سازی کی بریفنگ مانگی لیکن وہ مجھے کچھ نہ دے سکے۔ وزارت قانون سے بھی کوئی خاطرخواہ جواب نہ ملا۔ سیمینار میں قائداعظم اور علاّمہ اقبال کے فرمودات کے حوالوںسے مَیں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بانیان پاکستان مذہبی رواداری سے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے۔ لیکن وہاں احمدیوں کا مبصّر بھی موجود تھا۔ انہوں نے مجھے ضیاء الحق کی مخصوص قانون سازی پر خوب لتاڑا۔ بین الاقوامی برادری نے میرے دلائل مسترد کردیئے اور جو قراردادیں پاس ہوئیں سب کی سب پاکستان کے خلاف تھیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانہ ہی سے پاکستان کا امیج مذہبی طور پر ایک تنگ نظر اور متشدد ریاست کے طورپر ابھرا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں