جدید عجائباتِ عالم: غزہ کا ہرم اکبر

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل اپریل تا جون 2014ء)

جدید عجائباتِ عالم: غزہ کا ہرم اکبر
(ناصر محمود پاشا)

دنیا کے قدیم سات عجائبات میں سے واحد عجوبہ جو آج بھی باقی ہے اور جسے جدید عجائباتِ عالم میں خصوصی درجہ دے کر شامل کیا گیا ہے، وہ غزہ کا ہرم اکبر ہے۔ دراصل دور فرعونیہ کے مصریوں نے کئی اہرام تعمیر کئے تھے۔ ان میں تقریباً 111 آج بھی قائم ہیں۔ ’’غزہ کا ہرم اکبر‘‘ ان میں سب سے بڑا ہے اور یہی قدیم سات عجائبات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اہرام بنیادی طور پر فرعونوں، ان کے خاندانوں، وزراء اور امراء کے مقابر ہیں۔
ہرم اکبر قاہرہ کے قریب واقع ہے۔ اسے فرعونوں کی چوتھی سلطنت کے فرعون، خوفو کے مقبرے کی حیثیت سے تعمیر کیا گیا۔ یہ تقریباً بیس سال میںیعنی 2560 ق م (قبل مسیح) میں مکمل ہوا۔ اسے ’’خوفو کا ہرم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے قریب ہی دو معبد اور خوفو کی تین بیویوں کے تین چھوٹے اہرام بھی موجود ہیں۔ مزیدبرآں کارکنوں کی بستی بھی دریافت ہوئی ہے جنہوں نے یہ تعمیرات مکمل کی تھیں۔
ہرم اکبر کے جنوب مغرب کی طرف، چند سو گز کے فاصلے پر خوفو کے جانشین خافرے کا ہرم واقع ہے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ خافرے ہی نے ابوالہول تعمیر کرایا تھا۔ جنوب مغرب کی سمت ہی ایک اور بڑا ہرم واقع ہے۔ یہ خوفو کے ایک اور جانشین مینکارا کا مقبرہ ہے۔ یہ دونوں ہرم اکبر سے کچھ ہی چھوٹے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ پورا کمپلیکس 2560 ق م میں مکمل ہو گیا تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ خوفو کا ہرم اکبر اس کے قابل وزیر ہیمون یا ہامون نے تعمیر کروایا تھا۔
سائنسدانوں کے تخمینے کی رو سے ہرم اکبر کی تیاری میں بیس لاکھ بلاک استعمال ہوئے۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ غزہ کمپلیکس پانچ فرعونوں کے دور حکومت میں مکمل ہوا اور یہ تقریباً سو برس کا عرصہ بنتا ہے۔ اس سے قبل کے ایک سو سالہ عرصے میں بھی تین عظیم اہرام تعمیر ہوئے تھے یعنی صقاریہ کا ہرم (جو پہلا ہرم سمجھا جاتا ہے) سنیفرو، ہرم اور سرخ ہرم۔
ہرم اکبر تیرہ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی تیاری میں چوبیس لاکھ پتھر استعمال ہوئے۔ یہ 146.6 میٹر یا 48.09 فٹ بلند تھا۔ تاہم چوٹی شکست و ریخت کا شکار ہونے کے باعث اس کی موجودہ اونچاء 138.8 میٹر ہے۔ 1301ء میں ایک زبردست زلزلے کے باعث ہرم کے کئی پتھر ٹوٹ گئے تھے۔ انہیں بعدازاں مملوک سلطان، بصیرالدین حسن کے حکم پر قاہرہ کی مساجد اور قلعے تعمیر کرتے ہوئے استعمال کرلیا گیا۔
ہرم اکبر کی پہلی باقاعدہ پیمائش برطانوی ماہر مصریات، فلنڈرز پیری نے 1880ء میں کی تھی۔ یہ تقریباً ترپن ہزار مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ خوفو کا ہرم چار ہزار سال تک دنیا کی سب سے اونچی عمارت رہی۔ 1300ء میں برطانیہ میں لنکن کیتھڈرل مکمل ہوا تو اس سے یہ اعزاز چھن گیا۔
ہرم اکبر بنانے والوں کے کمال کا اندازہ اس امر سے لگایئے کہ چاروں کونوں کی پیمائش میں صرف اٹھاون ملی میٹر کا فرق پایا گیا۔ ہرم کے پتھر چونے، بسالٹ یا گرینائٹ کے ہیں۔ یہ پتھر یا بلاک تین چار ٹن کے ہیں۔ بنیادوں میں البتہ زیادہ بھاری پتھر استعمال کئے گئے۔ نیز جو بلاک بیرونی دیواروں میں لگائے گئے، ان کا وزن اسی ٹن تک جا پہنچتا ہے۔ اندازے کے مطابق ہرم اکبر کا کل وزن انسٹھ لاکھ ٹن ہے۔
دنیا کے سات نئے عجائبات کا اعلان کرنے والی اس کمپنی نے اپنی فہرست میں خصوصی طور پر ’ہرم خوفو‘ کو شامل کیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ یہ سات قدیم عجائبات کی واحد سالم نشانی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں