جان الیگزینڈر ڈوئی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22نومبر 2008ء میں مکرم کریم ظفر ملک صاحب کے قلم سے ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی (24مئی 1847ء تا 9مارچ 1907ء) کے انجام کے متعلق اس کے ایک پیرو کار کی گواہی کا بیان رقم کیا گیا ہے۔ ڈوئی کے بارہ میں ایک مضمون ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 29جون 2001ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بھی بنایا جاچکا ہے۔

ڈوئی اور اُس کے شہر میں بننے والی احمدیہ مسجد فتح عظیم

جان الیگزینڈر ڈوئی کا دعویٰ تھا کہ وہ نبی یحییٰ ہے۔ لیکن اُس کے اسلام پر نہایت گندے حملے کرنے کا علم جب حضرت مسیح موعودؑ کو ہوا تو حضورؑنے بذریعہ خط و کتابت اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُس کے تکبر، دریدہ دہنی اور امریکی اخبارات میں بے باکانہ مضامین کو دیکھتے ہوئے حضورؑ نے ستمبر 1902ء میں اُسے چیلنج کیا کہ ہم دونوں میں سے جو بھی اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہے وہ دوسرے کی زندگی میں مر جائے گا۔ جس پر اس وقت ڈاکٹر ڈوئی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد اگست 1903ء میں حضور نے دوبارہ چیلنج بھجوایا اور اشتہار کی صورت میں چھپوا بھی دیا۔ جب ڈاکٹر ڈوئی کو اس کے مریدوں نے بار بار بتایا کہ ہندوستان کے شہر قادیان سے تمہارے لیے یہ چیلنج دوبارہ آیا ہے تو اس نے انتہائی تکبر کے ساتھ اپنے مریدوں کو مخاطب کرکے کہا ’’کہ کیا تم سوچ سکتے ہو کہ میں مچھروں یا مکھیوں کو جواب دوں۔ میں تو صرف اگر اپنا پاؤں ان پر رکھ دوں تو یہ مر جائیں گے‘‘۔
حضرت اقدس نے تو یہ فرمایا تھا کہ ڈوئی انتہائی غم و رنج کے ساتھ میری زندگی میں ہی ذلیل و رسوا ہو کر مرے گا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا اور جلد ہی وہ شدید مالی مشکلات میں پھنس گیا۔ 1905ء میں اسے فالج کا پہلا حملہ ہوا۔ جب اس کی فیملی اور نہایت قریبی عزیز و اقارب کو معلوم ہوا کہ وہ تو اپنی زندگی میں بہت اخلاقی گراوٹ میں مبتلا رہا ہے تو فیملی اور اس کے اپنے مریدوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور اس کے شہر ZOIN کا کنٹرول بھی اس سے لے لیا اور اس کو وہاں سے نکل جانے کا کہہ دیا۔ اس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزنا ہے۔ پس اس طرح پر وہ قوم میں ولدالزنا ثابت ہوا۔ اور بعینہٖ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق وہ ایک شرمناک اور ذلت کی موت سے مارچ 1907ء میں ہلاک ہوا۔ مرنے سے پہلے فالج کے باعث وہ بالکل معذور ہوچکا تھا ایک تختہ کی طرح چند آدمی اس کو اٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجانہ رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب حقیقتہ الوحی میں 30 ویں نمبر پر اس نشان کا ذکر فرمایا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ 1972ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب جب عالمی بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے تو ایک دفعہ شکاگو تشریف لائے۔ خاکسار ان دنوں ILLINOIS سٹیٹ میں نیا نیا مقیم ہوا تھا اور بنک میں ملازم تھا۔ ایک دن محترم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم کا فون آیا کہ حضرت میاں صاحب ZOIN آرہے ہیں۔ اُسی روز ڈاکٹر صاحب ہمیں ایک بڑے Nursing Home میں لے گئے۔ اور ایک کمرہ میں لے جاکر ایک بوڑھے امریکی سے پوچھا کہ کیا تمہیں ڈاکٹر ڈوئی کے بارہ میں کچھ یاد ہے۔ تو اس نے برملا کہا کیوں نہیں میں خود اس کا پیروکار تھا اور ZOIN کا ہی رہنے والا ہوں۔ وہ ہمارا مذہبی رہنما تھا اور بہت اثرو رسوخ والا اورمال دار انسان تھا اور ہزاروں اس کے مرید تھے۔ اسی اثنا میں دوسرے بستر والا شخص بھی ہماری گفتگو میں شامل ہو چکا تھا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے استفسا ر پر کہ آخر اس کا کیا ہوا؟ تو کہنے لگا کہ انڈیا کے کسی قصبے میں ایک شخص کے ساتھ اس کی خط و کتابت شروع ہوگئی تھی۔ اس نے مسیح ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ پھر کافی دیر اُن میں خط و کتابت رہی اور اخبارات کی سرخیاں بھی بنتی رہیں۔ بالآخر ڈاکٹر ڈوئی بہت ہی بیچارگی اور رنج و غم کی حالت میں مرگیا۔
اُس امریکی نے سوال کیا کہ ہم کیوں اس سے یہ پوچھ رہے ہیں اور کیا ہم اس انڈیا والے مہدی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ تو خاکسار نے برملا حضرت صاحبزادہ صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا کہ ہاں یہ بزرگ انسان اُنہی کا پوتا ہے جنہوں نے ڈاکٹر ڈوئی کے اس طرح ہلاک ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ وہ امریکی تو جہاں حیران ہوا۔ مگر میری نظر جب حضرت میاں صاحب کے چہرے پر پڑی تو ان کا ایسا چہرہ خاکسار نے زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک نور کا پیکر انکساری سے آنکھیں جھکی ہوئیں اور یقینا خداتعالیٰ کے اس نشان سے انتہائی متاثر اور ان کا چہرہ اس طرح دکھائی دیا کہ خود چہرے کا نور حضرت اقدس کی سچائی کی گواہی دے رہا ہو۔
ڈوئی کی موت کا ذکر شکاگو کے ٹریبیون اخبار نے یو ں کیا تھا: ’’ڈوئی کل صبح 7 بجکر 40 منٹ پرشیلو ہاؤس میں مر گیا اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہ تھا۔ یہ خود ساختہ پیغمبر بغیر کسی اعزاز کے اور بالکل کسمپرسی میں مرگیا‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں