تین افغان شہداء : محترم مولوی عبدالحلیم صاحب- محترم قاری نورعلی صاحب- محترم ولی داد خان صاحب

ماہنامہ ’’خالد‘‘ اپریل 2011ء میں مکرم عمار احمد پراچہ صاحب کے قلم سے تین افغان شہدائے احمدیت کا تذکرہ شامل اشاعت ہے۔
5؍فروری 1925ء کو دو احمدیوں محترم مولوی عبدالحلیم صاحب آف چراسہ اور محترم قاری نور علی صاحب ساکن کابل کو امیر امان اللہ خان کی حکومت نے سنگسار کرکے شہید کردیا۔
جب یہ خبر قادیان پہنچی تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس سلسلے میں منعقد ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے جس وقت گورنمنٹ کابل کی اس ظالمانہ اور اخلاق سے بعید حرکت کی خبر ملی مَیں اُسی وقت بیت الدعا میں گیا اور دعا کی کہ الٰہی تُو ان پر رحم کر اور ان کو ہدایت دے اور ان کی آنکھیں کھول تا وہ صداقت اور راستی کو شناخت کرکے اسلامی اخلاق کو سیکھیں اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات سے باز آجائیں۔ میرے دل میں بجائے جوش اور غضب کے بار بار اس امر کا خیال آتا تھا کہ ایسی حرکت اُن کی حد درجہ بے وقوفی ہے۔ اس تقریر کے ذریعے مَیں آئندہ آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ طاقت اور قوت کے زمانے میں اخلاق کو ہاتھ سے نہ دیں کیونکہ اخلاق اصل وہی ہیں جو طاقت اور قوت کے وقت ظاہر ہوں۔
محترم مولوی عبدالحلیم صاحب گوشہ نشین اور درویش، شریف النفس، نرم خُو اور خاموش طبع انسان تھے۔ بوقت شہادت عمر 60 سال تھی۔ جبکہ محترم قاری نور علی صاحب صرف 25 سال کے تھے۔
ایک اَور افغان محترم ولی داد خان صاحب جو لمبا عرصہ قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد تحریک جدید کے سلسلے میں وقف کرکے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر اپنے گاؤں (علاقہ خوست) میں آگئے جو افغان اور برطانوی حکومت کی حدفاصل پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے اور بالکل آزاد علاقہ ہے۔ یہاں اپنے چچازاد بھائی خالیداد کی لڑکی سے نکاح کیا۔ خداتعالیٰ نے ایک لڑکا فضل داد بھی دیا۔ لڑکے کی عمر ابھی صرف ڈیڑھ ماہ ہوئی تھی کہ ان کی بیوی کے بھائیوں نے اُس بچے کو قتل کردیا اور پھر چوتھے دن 15؍فروری کو نہایت بے دردی سے آپ کو بھی تین گولیاں مار کر شہید کردیا۔ تین دن تک لاش بے گوروکفن پڑی رہی اس کے بعد وہ کہیں پھینک دی گئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں