تربیت اولادکے عملی نمونے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 و 20؍اپریل 2012ء میں مکرم حافظ عبد الحمید صاحب کے قلم سے ایک مضمون شاملِ اشاعت ہے جس میں تربیتِ اولاد کے عملی نمونوں کے حوالہ سے چند روشن مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
٭ آنحضرتﷺ نے نہ صرف اپنی احادیث میں بارہا تربیتِ اولاد کے مضمون کو بیان فرمایا ہے بلکہ اپنی سنّت سے بھی اس کا بھرپور اظہار فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت امام حسنؓ نے زکوٰۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی تو آپؐ نے فوراً اُن کے منہ میں انگلی ڈال کر کھجور نکال دی اور فرمایا کہ صدقہ ہمارے خاندان کے لئے جائز نہیں۔ اسی طرح ربیب ابن ابی سلمہؓ جب آپؐ کی گود میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے اپنا ہاتھ برتن کے چاروں طرف مارنے لگے تو آپؐ نے فرمایا: بچے! بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ اور برتن میں صرف اپنے آگے سے کھانا لو۔
٭ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ جب مَیں چھوٹی سی لڑکی تھی تو حضرت مسیح موعودؑ نے کئی بار فرمایا کہ میرے ایک کام کے لئے دعا کرنا۔ یہ اس لئے ہوتا تھا کہ ہم بچوں کو بھی دعا کی عادت پڑے ۔ اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بڑے پیار سے فرماتے کہ ’میرے لئے دعا کرتی ہو؟‘ اور ’میرے لئے بھی دعا ضرور کیا کرو‘۔ آپؓ ہم چھوٹی لڑکیوں سے بھی فرماتے کہ ’اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی شرم نہیں۔ تم چھوٹی ضرور ہو مگر خدا سے دعا کرتی رہا کرو کہ اللہ تعالیٰ مبارک اور نیک جوڑا دے‘۔
٭ حضرت امّاں جانؓ نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک بچہ باہر سے گالی سُن کر آیا کہ ’’سؤر کا بچہ گُو کھانا‘‘۔ جب اُس نے گھر میں دہرایا تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: اس طرح کہا کرو کہ ’باپ کا بچہ گُڑ کھانا‘۔ پھر وہ اسی طرح کہنے لگا۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اُن ماں باپ سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں جو بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب بیمار تھے اس لئے جماعت کے لئے مسجد نہ جاسکے۔ مَیں اُس وقت بالغ نہیں تھا تاہم جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد جارہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا۔ مَیں نے پوچھا: کیا نماز ہوگئی ہے؟ انہوں نے کہا: آدمی بہت ہیں، مسجد میں جگہ نہیں تھی۔ مَیں بھی یہ جواب سُن کر واپس آگیا اور گھر آکر نماز پڑھ لی۔ حضرت صاحب نے مجھے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے؟ آپؑ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور چہرہ سے غصّہ ظاہر ہوتا تھا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا۔ آپؑ یہ سُن کر خاموش ہوگئے لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحبؓ آپؑ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضورؑ نے دریافت کی وہ یہ تھی کہ کیا آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اُس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا مجھے بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ مَیں نے جھوٹ بولا۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہاں حضور! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔ خدا نے میری بریّت کے لئے یہ سامان کردیا ۔ اس واقعہ کا آج تک میرے قلب پر گہرا اثر ہے اور اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو نماز باجماعت کا کتنا خیال تھا۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر تقریر کرکے واپس گھر تشریف لائے تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے، جن کی عمر اُس وقت دس بارہ سال ہوگی، پوچھا کہ میاں یاد بھی ہے کہ آج مَیں نے کیا تقریر کی تھی؟ انہوں نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا تو آپؑ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ خوب یاد رکھا۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ بچپن میں مجھے ہوائی بندوق سے شکار کا شوق ہوا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعودؑ کو بھی شکار پسند تھا کیونکہ یہ طاقت قائم رکھتا ہے۔ مَیں آپؑ کے لئے فاختائیں مار کر لایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ فاختہ نہ ملی تو طوطا مار کر لے آیا اور آپؑ کو دے دیا۔ آپؑ نے رکھ تو لیا لیکن کچھ دیر کے بعد بلاکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سارے جانور کھانے کے لئے نہیں بنائے۔ کچھ دیکھنے کے لئے بھی بنائے ہیں۔ طوطا ایک خوبصورت جانور ہے یہ خدا نے دیکھنے کے لئے بنایا ہے۔
٭ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ حضرت اماں جانؓ کے تربیت کے متعلق کچھ اصول بیان کرتی ہیں کہ بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آ پ کا بڑا اصول تربیت ہے۔پھر جھوٹ سے نفرت بہت ہی بنیادی تربیت ہے۔ آپؓ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچہ میں یہ عادت ڈالوکہ وہ کہنا مان لے۔پھر بیشک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں۔ فرماتی ہیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے۔ یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا۔اور کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں ان کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں۔ حضرت اماں جانؓ ہمیشہ فرماتی تھیں کہ’ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے‘ اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ اور زیادہ متنفر کرتا تھا۔ پھر حضرت اماں جان کا ایک اصول یہ تھا کہ: ’’پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگائو دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے‘‘۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے فرمایا ہے کہ میری والدہ کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی شوق تھا۔ انہوںنے تیرہ سال کی عمر سے قرآن کریم پڑھانا شروع کیا چنانچہ ان کا یہ اثر ہے کہ ہم بھائیوں کو قرآن شریف سے بڑا ہی شوق رہا ہے۔ اسی طرح وہ بہت سارے بچوں کی ماں تھیں مگر وہ کبھی نماز قضاء نہ کرتیں۔ ایک پاک صاف چادر صرف اس لئے رکھی ہوئی تھی کہ نماز کے وقت اُسے اوڑھ لیتیں اور نماز پڑھ کر کھونٹی پر لٹکا دیتیں۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اپنے بچوں سے ناجائز محبت نہ کریں، اگر کوئی اُن کے متعلق شکایت کرے تو اُس کی اصلاح تجویز کریں۔ اگر بچہ کسی بدی میں مبتلا ہے تو ایسی سختی نہ کریں کہ وہ چھپ کر بدی کرنے لگے۔
دوسری بات یہ کہ رات کو سونے سے پہلے دعا کی عادت ڈالی جائے کیونکہ ذکرالٰہی کے بغیر سونا جائز بھی نہیں۔ آنحضرت ﷺ بلاناغہ آیت الکرسی اور تینوں قُل پڑھ کر اپنے بدن پر پھونکا کرتے تھے۔ جس بات کو آپؐ بلاناغہ کریں توہ وہ سنّت کہلاتی ہے۔ پس جس طرح نماز کی سنّتیں ضروری ہیں اسی طرح یہ سنّت بھی ضروری ہے۔ اگر اُن سنّتوں کو ترک کرنا گناہ ہے تو پھر اِن کو ترک کرنے میں بھی گناہ ہونا چاہئے۔
٭ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان کرتی ہیں کہ مَیں ایک بار لڑکیوں کے ساتھ کوئی تالی بجانے والا کھیل کھیل رہی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے دیکھا تو مجھے کہا کہ کھیلو مگر تم نہ کبھی تالی بجانا، یہ لوگ بجایا کریں۔
٭ محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اپنے بچپن کے حالات میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میرے ساتھ دو تین لڑکیاں صحن میں ایک گھریلو کھیل کھیل رہی تھیں۔ مجھے کسی بات پر غصہ آیا اور میں نے ان میں سے ایک کے منہ پر طمانچہ مارا۔ عین اسی وقت ابّا جان نماز پڑھ کر صحن میں داخل ہورہے تھے۔ آپ نے مجھے طمانچہ مارتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس لڑکی کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ مبارک کے منہ پر اسی طرح طمانچہ مارو۔ لڑکی اس کی جرأت نہ کرسکی اور باربار کہنے کے باوجود اس نے طمانچہ نہیں مارا۔ پھر آپؓ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: تم کیا سمجھتے ہو کہ اس کا باپ نہیں اس لئے تم جو چاہو کر سکتے ہو۔ یاد رکھو میں اس کا باپ ہوں۔ اگر تم نے آئندہ ایسی حرکت کی تو میں سزا دوں گا۔ (یہ ایک یتیم لڑکی تھی جس کو ابّاجان نے اپنی کفالت میں لیا ہوا تھا)۔
ابّاجان دستر خوان پر بیٹھے ہوئے سب بچوں پر نظر رکھتے کہ ڈش سے کھانا اپنے سامنے والے حصہ سے نکالا ہے یا نہیں۔ لقمہ منہ میں ڈال کرمنہ بند کرکے کھانا چبایا ہے یا نہیں، کھاتے وقت منہ سے آواز تو نہیں نکلتی۔ کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ صابن سے دھوئے تھے یا نہیں۔ غرض کوئی پہلو بھی آپؓ کی نظر سے اوجھل نہ تھا۔ بعض دفعہ میں حیران ہوتا تھا کہ خود تو کھاتے ہوئے ڈاک بھی دیکھتے جاتے ہیں۔ خطوط پر نوٹ بھی لکھتے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی لقمہ بھی منہ میں ڈالتے ہیں۔ نظر بھی نیچی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ہماری ہر حرکت پر بھی نظر ہے۔ بہت کم خوراک تھی۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ آپ اتنا کم کھاتے ہیں، میں بھی کم کھانا کھایا کروں۔ میں نے آدھا پھلکا کھانا شروع کیا۔ ایک دن فرمایا: میں ایک ماہ سے دیکھ رہا ہوں کہ تم بہت کم کھانا کھاتے ہو، تم ابھی بچے ہو، تمہاری نشوونما کی عمر ہے اس عمر میں پیٹ بھر کر کھانا چاہئے۔ تمہارے پر بڑی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں۔ ان کو کیسے اٹھا سکو گے؟
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ صبح اٹھتے ہی سلام کرنے کی عادت امّاں جان نے ڈالی تھی۔ نماز کا وقت ہوتا تو وضو کرواکر نماز کے لئے بھیج دیتیں۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھلواتیں۔ بسم اللہ اونچی آواز میں پڑھتیں، ساتھ مَیں بھی پڑھتا۔ عصر کے بعد کھیلنے کے لئے بھیجتیں لیکن حکم تھا کہ مغرب کی اذان کے ساتھ گھر آجاؤ اور پھر مغرب کے بعد کہیں بھی جانے کی اجازت نہ ہوتی۔ بڑے ہوکر کوئی ضروری جماعتی کام ہوتا تو نکل سکتا تھا ورنہ کسی اپنے کے گھر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔
٭ حضرت سیّدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ اپنے بچوں کو بے تُکے پیسے دینے کی قائل نہ تھیں کیونکہ اس سے فضول خرچی پیدا ہوتی ہے۔ جب بھی کسی ضرورت کے لئے پیسے دیتیں تو ایک ایک پیسہ کا حساب لیتیں تاکہ بچوں میں لین دین میں دیانتداری پیدا ہو۔ سالگرہ پر کیک یا تحائف کی بجائے کوئی نیک نصیحت کان میں ڈالتیں۔ کبھی اپنے ہاتھ سے خط لکھ کر اُن کو نصائح کرتیں۔ آپؓ اپنی بچیوں کو سمجھاتی تھیں کہ لڑکیوں کو دوستی میں رازداری نہیں کرنی چاہئے۔ بچپن میں بعض اوقات بچے غلط باتیں دوستوں سے کردیتے ہیں جن کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ آپ ہمیشہ اپنے بچوں کی دوستیوں پر نظر رکھتیں۔ بچوں کو دوستوں کے ساتھ کمرے بند کرکے کھیلنے سے منع کرتیں۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ میری والدہ کو اگر کبھی ہلکا سا بھی احساس ہوتا کہ مَیں قرآن کریم کی تلاوت اور دینی لٹریچر کے مطالعہ کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہا تو ناپسندیدگی کا اظہار فرماتیں بلکہ زجروتوبیخ بھی کرتیں۔ وہ بچوں سے بے جا لاڈ پیار کی قائل نہیں تھیں خواہ بچے بیمار ہی کیوں نہ ہوں۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ بے جا لاڈپیار بچوں کی شخصیت کو تباہ کردیتا ہے۔
٭ محترمہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ لڑکوں کے لئے ٹوپی کا استعمال خصوصاً مسجد میں جاتے ہوئے ضروری سمجھتے۔ مَیں نے کبھی آپ کو بچوں کی کسی کوتاہی پر ڈانٹتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ لیکن اپنے ایک نواسے کو جب حضورؒ نے مسجد میں ٹوپی کے بغیر دیکھا تو اس کے والدین کے ساتھ اتنی ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ میں نے کبھی آپ کو ایسا ناراض نہیں دیکھا۔ آپؒ نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ اگر اپنے بیٹوں کو مسجد میں بغیر ٹوپی کے دیکھ لیتے تو ان کی ٹنڈیں کروادیا کرتے تھے اور اگر اب میں نے دیکھا تو اس کی ٹنڈ کروادوں گا۔ لیکن پھر رات کے کھانے پر فرمایا کہ میں نے سوچا کہ مصلح موعود کے تو وہ بیٹے تھے ان کا حق تھا کہ ان کی ٹنڈیں کروادیتے میرا تو یہ نواسا ہے۔ میرا یہ حق نہیں ہے ۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بچوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر بے وجہ جھڑکنا نہیں چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو ان سے عزت کا سلوک کیا کرو لیکن عزت سے پیش آنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کچھ نہیں کہنا۔ جہاں عزت سے پیش آؤ کا ارشاد ہے وہاں اچھی تربیت کا ارشاد بھی ساتھ ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات میں سختی نہ کرو لیکن غلط کام پر بچوں کو سمجھاؤ بھی کیونکہ یہ تربیت کا حصہ ہے۔اگر کسی بات پر لوگوں کے سامنے ڈانٹنا بچے کی نفسیات پر برا اثر ڈالتا ہے تو وہاں اس کو پیار سے سمجھا دینا، کسی غلط کام سے روکنا اس کی اصلاح کا باعث بنتا ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں جن کو مائیں یوں نظر انداز کردیتی ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ۔ مثلاً کسی کے گھر گئے ہیں، بچہ چیزیں چھیڑ رہا ہے یا چاکلیٹ یا اور کوئی کھانے کی چیز کھا کر پردوں یا صوفوں پر مل رہا ہے۔ گھر والے دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ماں اس کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہی یا دیکھ کر نظریں پھیر لیتی ہے کہ اس وقت اگر میں نے اس کو کچھ کہا تو بچے کی عزت نفس کچلی جائے گی۔ پھر بعض دفعہ بچے نے کوئی شرارت کی، بلا وجہ کسی دوسرے بچے کو مارا یا کسی کی کوئی چیز توڑ دی تو ماں باپ بچے کو کہہ تو رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر جو تأثرات ہوتے ہیں، جو دبی دبی مسکراہٹ ہوتی ہے وہ بتا رہی ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں ۔ یہ یاد رکھیں بچہ بڑا ہوشیار ہوتا ہے وہ سب تأثرات دیکھ رہا ہوتا ہے اور اپنے ماں باپ کی ہر ادا سے واقف ہوتا ہے ۔تو اس طرح اس کی تربیت ہونے کی بجائے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے ایسی باتوں پر مار دھاڑ کرنے کی ضرورت نہیں لیکن چہرے پر ذرا سنجیدگی سی پیدا کرلینی چاہئے تاکہ بچے کو یہ احساس ہو کہ میں نے غلط کام کیا ہے۔
پھر دین کے معاملے میں بچپن سے ہی بچے کے دل میں اس کی اہمیت اور پیار اور عزت پیدا کریں۔ بعض دفعہ بچے ضد میں آکر بڑی ناگوار بات کرجاتے ہیں۔ جہاں بہرحال بچے کو سمجھانے کے لئے ماں باپ کو سختی بھی کرنی پڑتی ہے ۔
حضرت امّاں جانؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ قرآن شریف ریل پر رکھ کر پڑھ رہی تھیں۔ میاں مبارک صاحب، جو چھوٹے بچے تھے، اُن سے کسی کام کے لئے کہہ رہے تھے اور ضد کرکے ہاتھ سے ریل کو دھکا دیا کہ پہلے میرا کام کردیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بے ادبی دیکھی تو انہیں تھپڑ دے مارا ۔اب یہاں دین کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں ۔حالانکہ حضرت مسیح موعودؑ بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف تھے۔
٭ محترم مرزا مظفر احمد صاحب اپنے والد حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے بارہ میں بیان کرتے ہیں کہ وہ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں میرا وہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کا تھا۔ مَیں انہیں نصیحت کرتا رہتا ہوں۔ لیکن دراصل سہارا خدا کی ذات ہے جس کے آگے جھک کر دعا گو رہتا ہوں ۔
ہمیں جب بھی نصیحت فرماتے تو اس بات کو ملحوظ رکھتے کہ سُبکی کا پہلو نہ ہو۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر نصیحت ایسے رنگ میں کی جاوے کہ دوسرے کی خفّت ہوتو وہ بعض دفعہ اُلٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے ۔مجھے یاد ہے بچپن میں جب بھی میری کوئی حرکت پسند نہ آتی تو اس کے متعلق تفصیل سے خط لکھتے تھے اور بڑے مؤثر اور مدلّل طور پر نصیحت فرماتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں کے دینی کاموں میں دلچسپی لینے سے بہت خوش ہوتے تھے اور خوشی کا اظہار بھی فرماتے تھے اور یہی خواہش رکھتے تھے کہ دنیوی زندگی کا حصہ ایک ثانوی حیثیت سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرے۔
٭ مولوی ابوالمبارک صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میرے سسر صاحب اور ساس صا حبہ نے میری بیوی کی بہت اچھی تربیت کی تھی ۔بقول میری اہلیہ زینب بی بی پانچوں نمازیں بچپن سے ہی پڑھتی رہی ہوں اگر نہیں پڑھتی تھی تو والد صاحب (حافظ امام الدین صاحب) اس وقت تک روٹی نہ کھانے دیتے تھے جب تک نماز نہ پڑھ لیتی۔
٭ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ میری طبیعت پر بچپن سے یہ اثر تھا کہ والد (حضرت چوہدری محمد نصراللہ خان صاحبؓ) نماز بہت پابندی سے ادا فرمایا کرتے اور تہجد کا التزام رکھتے تھے۔ مَیں اپنے تصور میں اکثر والد صاحب کو نماز پڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھتا ہوں۔ آپ فجر کی نماز سیالکوٹ میں مسجد کبوتراں والی میں ادا کرتے تھے جو ہمارے گھر سے فاصلے پر تھی اس لئے والد صاحب گھر سے بہت اندھیرے میں روانہ ہوجاتے تھے۔
جب میرے انٹرنس کے امتحان میں چھ ماہ کے قریب باقی تھے تو ایک دن والد صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا قرآن مجید کا ترجمہ کتنا پڑھ لیا ہے۔ اُن دنوں مَیں مکرمی جناب مولوی فیض الدین صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا کرتا تھا۔ مَیں نے جواب دیا: ساڑھے سات پارے پڑھے ہیں۔ فرمایا: جب تم کالج چلے جاؤ گے تو ان امور کی طرف توجہ کم ہو جائے گی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ امتحا ن سے قبل قرآن کریم کا ترجمہ تم ختم کرلو اس لئے بجائے مسجد میں جاکر پڑھنے کے گھر میں مجھ سے ہی پڑھ لیا کرو۔ چنا نچہ اس کے بعد مَیں دن کے وقت دوتین رکوع کا ترجمہ دیکھ چھوڑتا تھا اور عشاء کے بعد آپؓ کو سنا دیا کرتا تھا۔ اس طرح کالج میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے مجھے قرآن کریم کاسادہ ترجمہ ختم کرادیا ۔
٭ محترمہ سیدہ بشریٰ صا حبہ بنت حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ ہمیشہ خدا کی رضا کو پیش نظر رکھتیں ۔بچوں نے جب بھی کہانی سننے کی خواہش کی تو ہمیشہ انبیاء، خلفاء اور صحابہ کے واقعات بیان کئے۔ خلافت سے تعلق مضبوط کرنے کے لئے جب بھی بچے نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو کہتیں کہ سب سے پہلے حضرت صاحب کے لئے دعا کرو۔ اپنی نمازیں تو باوضو کھڑے ہوکر خاص توجہ اور التزام سے ادا کرتیں لیکن بچوں کی نماز وں اور وضو پر بھی خاص نظر تھی ۔اگر کوئی بچہ جلدی جلدی نماز پڑھ لیتا تو دوبارہ پڑھواتیں… فجر کی نماز کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کئے بغیر ناشتہ نہیں دیتی تھیں۔
آپ کی بیٹی مکرمہ امۃالکافی عمر صا حبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو تہجد گزار پایا ۔میری شادی کے ڈیڑھ دو سال بعد اپنے ایک خط میں والدہ نے یہاں تک لکھا کہ اگر تم نے کوئی نماز کبھی چھوڑی تو سمجھو کہ اس دن میرا ہارٹ فیل ہوجائے گا۔ ان کو قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا اتنا شغف تھا کہ نہ صرف اپنے گھر پر پڑھایا کرتیں بلکہ دوسروں کے گھروں میں جاکر زبردستی پڑھاتیں۔ اپنے بچوں کو روزانہ مغرب کے بعد قرآن کریم کا لفظی ترجمہ سکھلاتیں اور پھر ہر سپارے کے بعد امتحان لیا کرتیں۔ تربیت کی طرف ایسی توجہ تھی کہ کبھی کسی کا بُرے رنگ میں ذکر نہ کیا ۔سچائی کا ایسا احترام تھا کہ جھوٹ بولنے کی سزا بڑی ہی شدید ہوا کرتی ۔جو بات وہ خود نہ بتانا چاہیں تو آرام سے کہہ دیتیں کہ یہ نہیں بتاؤں گی لیکن جھوٹ کبھی نہیں بولا ۔
٭ انجینئر محمد سعید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز عشاء کی نماز مسجد نور میں ادا کرنے کے بعد ہم دس بارہ بچے کھیلنے اور شور مچانے لگے تو ہمارے مربی اطفال حضرت ڈاکٹر عبدا لکریم صاحبؓ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے زور سے پکارا: او نیک بختو! سب ادھر آجاؤ۔ ہمیں معلوم تھا کہ اُن کی بینائی کمزور ہے۔ مگر کوئی لڑکا نہ بھاگا اور سب خاموشی سے اُن کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ انہوں نے ڈانٹا کہ نماز کب کی ختم ہوگئی ہے اور تمہاری مائیں گھروں میں پریشان ہوں گی اور پھر صبح کی نماز کے لئے کیسے اٹھو گے ۔ میں تمہیںسخت سزا دوں گا۔ ہم پر خوف طاری تھا کہ اللہ جانے مربی صاحب کیا سزا دیں گے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ کن بچوں کو دعائے قنوت آتی ہے؟ سب کا حال ایک جیسا تھا۔ تب کہنے لگے اب تمہاری سزا یہی ہے کہ جو دعائے قنوت سنائے وہی گھر جائے ۔وہیں زمین پر کلاس لگ گئی اور دعائے قنوت یاد کرائی گئی۔ میری دعائے قنوت اس وقت کی یاد کی ہوئی ہے ۔
اس زمانہ میں قادیان کی آبادی میں صحابہؓ کی کافی تعداد بقید حیات تھی۔ کبھی ہم بچے تجسّس کی راہ سے دیکھتے کہ یہ بزرگ آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں تو یہی پتہ چلتا کہ رات مجھے یہ خواب آئی ہے،یہ الہام ہوا ہے، یہ نئی بات میرے علم میں آئی ہے یا یہ نشان صداقت کا پورا ہوتے دیکھا ہے۔ سب علمی اور روحانی باتیں سمجھ نہ آتی تھیں مگر آج تک طبیعت میں یہی تأثر ہے کہ یہ فرشتے تھے جو انسانی صورتوں میں زمین پر چلتے پھرتے تھے۔ ہم بچے کھیل رہے ہوتے تھے تو انتہائی پیارے انداز میں نماز کے لئے مسجد میں جانے کی تحریک کرتے جیسے بچو کیا اذان ہوگئی ہے؟ مسجد میں بزرگان نماز کھڑی ہونے کے انتظار میں بیٹھے ذکر الٰہی کررہے ہوتے تو ہم بچے مسجدنور کی چھت پر چڑھ کر چار چار پانچ پانچ اذانیں دے دیتے۔ عجیب روحانی ماحول تھا۔ بزرگوں کو گھنٹوں مساجد میں جاکر نوافل ادا کرتے اور لمبے سجدے کرتے دیکھا۔
٭ محترمہ بی بی غلام سکینہ صاحبہ بچوں کی تربیت کے لئے نگرانی کے ساتھ اُنہیں خلیفۂ وقت کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھنے کی تلقین کرتیں۔ حضورانور کے خطبات باقاعدگی سے بچوں کو سنواتیں ۔جب اُن کے بیٹے مکرم محمود ایاز صاحب اعلیٰ تعلیم کے بعد بطور ٹیچر تعینات ہوئے تو آپ نے اُنہیں نصیحت فرمائی کہ بیٹا! استاد اگر فرشتہ نہیں تو فرشتہ صفت ضرور ہونا چاہئے۔ تم اپنے فرائض اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر ادا کرنا تو تمہیں کبھی مشکل پیش نہیں آئے گی اور اللہ تعالیٰ رزق میں بھی برکت ڈالتا رہے گا۔ پھر فرمایا کہ میںنے ہمیشہ اپنے بچوں کو با وضو ہوکر دودھ پلایا ہے۔
٭ محترم چوہدری محمد مالک صاحب چدھڑ (شہید لاہور) کے بیٹے داؤد احمد صاحب نے جب ایم اے اکنامکس کرکے اُن سے ملازمت کی اجازت چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ میری نوکری کرلو۔ پوچھنے پر کہا تم باقاعدہ دفتر کی طرح تیار ہوکر صبح نو بجے آنا درمیان میں وقفہ بھی ہوگا اور شام پانچ بجے چھٹی ہوجایا کرے گی اور یہاں میز پر بیٹھ جاؤ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھا کرو اور اپنی نوکری سے جتنی تنخواہ ملنے کی تمہیں امید ہے اتنی تنخواہ میں تمہیں دیدیا کروں گا۔ تو کتابیں پڑھانے کے بعد اس نوکری سے فارغ کیا۔
شہید مرحوم اذان کے وقت سب بچوں کے اٹھاتے اور پھر وضو کروا کر گھر میں باقاعدہ نماز ہوتی ۔ بچوں کی تربیت کے لئے انہیں کبھی نہیں مارا اور لڑکے کہتے ہیں ہمیں بھی یہی فلسفہ سمجھاتے کہ بچوں کے لئے دعا کرنی چاہئے یہی ان کی ہمدردی ہے اور مار پیٹ سے تربیت نہیں ہوتی۔ جب بھی رات کو میری آنکھ کھُلتی مَیں رو رو کر انہیں اپنی اولاد کے لئے دعائیں ہی کرتے دیکھتا ۔
٭ مکرم شریف احمد بانی صاحب لکھتے ہیں :قادیان میں ایک بار تلاوت قرآن کریم کا مقابلہ ہوا تو ہم تینوں بھائی اوّل، دوم اور سوم قرار پائے۔ حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ بوتالوی نے اس پر ہمارے والد صاحب سے فرمایا کہ مَیں بچوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، مَیں نے کسی زمانہ میں خوشخطی کا فن سیکھا تھا۔ آپ کے بچے روزانہ فجر کے وقت تختیاں اور قلم لے کر میرے گھر آجایا کریں۔ چنانچہ بہت ہی مفید کلاس جاری ہوئی اور بعد ازاں محلّہ کے اَور بھی بہت سے بچوں نے استفادہ کیا۔
ہمارے ہمسائے مولوی عبدالحئی صاحب (سابق مبلغ انڈونیشیا ) انتہائی محبت اور شفقت سے ہم تینوں بھائیوں کو نماز باجماعت کے لئے لے جاتے تھے۔ ایک روز جمعہ کے بعد مسجد اقصٰی سے واپس گھر آکر ہم سے کہا کہ حضرت صاحب کے خطبہ کا خلاصہ سنائیں۔ مَیں اس غیر متوقع سوال کے لئے تیار نہ تھا مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے بعد ہمیشہ مَیں نے حضور کے تمام خطبات نہایت توجہ سے سنے۔
ہمارے اساتذہ کا جزو ایمان تھا کہ ہمارے ان عزیزوں نے احمدیت کا سپاہی بننا ہے۔ ماسٹر نذیر احمد رحمانی صاحب نے چھٹی کلاس میں خاکسارکو تحریک کی کہ ابھی سے روزانہ ڈائری لکھنے کی عادت ڈالو۔ میاں محمد ابراہیم صاحب طلبہ کو پڑھائی کے علاوہ روزانہ اردو اور انگریزی اخبار پڑھنے کی تلقین فرماتے۔ حضرت مولوی تاج دین صاحب کے بیان کردہ معرفت کے نکات اب تک ازبر ہیں اور اس زمانہ کی یادکروائی ہوئی ادعیہ اب بھی یاد ہیں۔ حضرت سید محموداللہ شاہ صاحب ہیڈماسٹر تھے۔ انہوں نے کئی اصلاحات جاری فرمائیں۔ ہماری کلاس میں ہر طالبعلم کے ذمہ ایک رکوع تھا اس طرح ساری کلاس نے مل کر پورا پارہ یاد کرلیا اور سارے سکول نے مل کر پورا قرآن پاک حفظ کرلیا۔
٭ مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست نے ذکر کیا کہ ہماری رہائش احمدیہ مسجد سے دُور تھی اور ہم گھر پر نماز باجماعت ادا کرتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں کی باری باری ڈیوٹی ہوتی کہ روزانہ نماز مغرب کے بعد درس دینا ہے۔ ہر بچہ اپنی باری پر درس کی تیار ی کرتا اور اپنی عمر کے مطابق جماعتی کتب یا جماعتی رسائل سے مدد لیتا اس طرح یہ سلسلہ بہت مفید ثابت ہوا۔
٭ ایک دوست نے بتایا کہ روزانہ کسی نماز کے بعد گھر پر والد صاحب بچوں کو ایک آیت کا ترجمہ سکھاتے ہیں۔
٭ ایک دفعہ حضرت مولانا عبدالمالک خانصاحب ہمارے محلّہ میں تشریف لائے۔ جب آپ واپس تشریف لے جانے لگے تو سب بچے قطار میں کھڑے ہوگئے تاکہ آپ سے مصافحہ کرسکیں۔ چھوٹی عمر کی ایک بچی بھی قطار میں کھڑی ہوگئی۔ آپ نے سب بچوں سے مصافحہ کیا لیکن جب اس بچی کی باری آئی تو آپ نے اسے پیار دیا اور فرمایا کہ بچیاں مردوں سے مصافحہ نہیں کرتیں۔
٭ جرمنی کے ایک دوست نے ذکر کیا کہ میرے بچوں کا سکول گھر کے قریب ہی ہے اور بچے سکول سے پیدل واپس آتے ہیں ۔لیکن جمعہ کے روز بچوں کو سکول سے واپس گاڑی پر لاتا ہوں اور اُس دن گھر پر خاص طور پر بچوں کی پسند کا کھانا تیار کیا جاتا ہے تاکہ بچوں کو ذہن نشین رہے کہ جمعہ کا دن ہمارے لئے ایک خاص دن ہے۔
٭ ایک دفعہ ایک دوست نے خاکسار سے ذکر کیا کہ میری بیٹی قاعدہ یسرنا القرآن نہیں پڑھتی کوئی مشورہ دیں میں نے چند باتیں بتائیں کہ اس طرح کوشش کریں۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے کہا کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔آخر کچھ عرصہ بعد انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی کی آمین ہے۔ میں نے خوشی کا اظہار کیا کہ کس طرح کامیابی ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میں رات کی ڈیوٹی کرتا ہوں صبح فجر کے وقت ڈیوٹی سے واپس آکر نماز اور تلاوت کے بعد سو جاتا ہوں بیٹی اس وقت سوئی ہوتی ہے۔ دوپہر کو جب بیٹی سکول سے واپس آتی ہے تو اس سے ملاقات ہوتی ہے اور تھوڑی دیر بعد میں ڈیوٹی پر چلا جاتا ہوں ۔ایک دن جب بچی کی والدہ بچی کو قاعدہ پڑھا رہی تھیں اور بیٹی قاعدہ نہیں پڑھ رہی تھی تو بیٹی نے کہا کہ آپ مجھے تو قاعدہ پڑھاتی ہیں لیکن ابو نے تو کبھی تلاوت نہیں کی اس لئے میں بھی نہیں پڑھوں گی۔ اہلیہ نے جب اس بات کا مجھ سے ذکر کیا کہ آپ جب تلاوت کرتے ہیں تو بیٹی سوئی ہوتی ہے اس لئے یہ سمجھتی ہے کہ آپ تلاوت نہیں کرتے۔ اس کے بعد میں نے یہ معمول بنالیا کہ جب بیٹی سکول سے واپس آتی تو میں ڈیوٹی پر جانے سے قبل بیٹی کے سامنے تلاوت قرآن کریم کرتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بچی نے شوق سے قاعدہ پڑھنا شروع کردیا اور اب اس نے قرآن کریم ناظرہ ختم کرلیا ہے اور ہم اس کی آمین کررہے ہیں۔
٭ بعض دوستوں نے ذکر کیا کہ وہ جب بچوں کو سکول چھوڑنے یا واپس لینے جاتے ہیں (پیدل یا گاڑی پر)تو رستہ میں چھوٹی چھوٹی دعائیں دہراتے ہیں چند دنوں میں بچہ بہت کچھ یاد کرلیتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں