تبت۔ دنیا کی چھت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اکتوبر 2012ء میں تبّت کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ مغربی تبّت کا علاقہ KA-ERH دنیا کا بلند ترین قصبہ خیال کیا جاتا ہے جس کی سطحٔ سمندر سے بلندی 15ہزار فٹ ہے۔ تبّت کو ’’دنیا کی چھت ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ برف سے ڈھکے پہاڑوں اور دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع پر مشتمل تبّت سے ایشیا کے بڑے دریا نکل کر چین اور پاک وہند کی طرف آتے ہیں ان میں برہما پترو (بنگلہ دیش) اور دریائے سندھ بھی شامل ہے۔
تبّت کے شمال مشرق میں چین، مشرق میں سکّم، بھوٹان، نیپال اور بھارت جبکہ مغرب میں کشمیر کا ضلع لدّاخ ہے۔ جنوب میں کوہ ہمالیہ ہے۔ تبّت کا کُل رقبہ 12لاکھ 21ہزار 600مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 20لاکھ ہے جن میں 96فیصد تبتی اور باقی چینی ہیں۔ تبّت کی تجارت پہلے ہندوستان کے ساتھ تھی مگر جب اس پر چین کا قبضہ ہوا تو یہ تجارت بند ہوگئی۔ 1957ء میں چین نے تبّت تک ایک سڑک تعمیر کرلی۔ تبّت کا دارالحکومت لہاسہ (Lhasa)ہے۔ تبّت میں وسیع سبزے کے میدان اور جنگلات بھی ہیں۔ یہاں سینکڑوں جھیلیں اور ندیاں قدرت کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ چونکہ بارش کم ہوتی ہے اسی لئے کھیتی باڑی صرف دریائوں کے کناروں پر ہوتی ہے جہاں پھل، جَو اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ یاک (yalk) یہاں کا پالتو جانور ہے۔
7ویں صدی عیسوی میں تبّت میں طاقتور بادشاہت تھی۔ بھارت کی طرف سے بدھ مت کو یہاں فروغ ملا۔ 18ویں صدی میں یہ چین کے کنٹرول میں چلاگیا۔ اس کے بعد تبّت پر چین کے قبضے اور اس سے آزادی کی آنکھ مچولی کافی دیر تک چلتی رہی۔ یہاں روایتی مذہبی بادشاہت بھی قائم ہے جس کا بادشاہ دلائی لامہ کہلاتا ہے۔ چینی کنٹرول سے پہلے تبّت پر بدھ راہبوں کی ایک مضبوط حکمرانی قائم تھی۔د لائی لامہ بدھ مت کا سردار کاہن ہے جو کرۂ ارض پر خدا کا مجسّم اوتار خیال کیا جاتا ہے۔ تبتی روایات کے مطابق جس وقت کوئی دلائی لامہ فوت ہونے لگتا ہے تو وہ اپنی وفات سے قبل یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ آئندہ جنم میں وہ کس گھرانے میں پیدا ہو گا۔ چنانچہ اہل تبّت اُس خاندان کے نوزائیدہ بچے کو متوفی دلائی لامہ کی مسند اقتدار پر لا بٹھاتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں