’’جامعہ احمدیہ‘‘ کی بنیاد اور شاندار ترقیات – تیسرا حصہ

(مطبوعہ سہ ماہی اسماعیل اکتوبر تا دسمبر 2012ء)

تاریخ احمدیت کا ایک زرّیں باب

(مرتّب: محمود احمد ملک)

مدرسہ احمدیہ قادیان سے جامعہ احمدیہ ربوہ تک کے سفر کی ایمان افروز داستان

قادیان دارالامان

آج سے 115 سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارادہ فرمایا تھا کہ اپنے عظیم الشان فرض کی تکمیل کے لئے اور مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کے لئے قادیان میں ایک مدرسہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ آپؑ کا ارادہ تھا کہ اس سکول میں روزمرہ کی درسی تعلیم کے علاوہ ایسی کتب بچوں کو پڑھائی جائیں گی جو مَیں اُن کے لئے لکھوں گا۔ اس سے اسلام کی خوبی سورج کی طرح ظاہر ہوگی اور دوسرے مذاہب کی کمزوریاں انہیں معلوم ہوجائیں گی جن سے ان کا باطل ہونا اُن پر کھل جائے گا۔ چنانچہ اس غرض سے 15؍ستمبر 1897ء کو آپؑ نے بذریعہ اشتہار اعلان فرمایا اور پھر اس تحریک کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ایک کمیٹی مقرر کی جس کے صدر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ تھے اور دیگر اراکین میں محترم خواجہ کمال الدین صاحب (سیکرٹری)، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ (محاسب) اور حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ (جائنٹ سیکرٹری) شامل تھے۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 27؍دسمبر 1897ء کو ہوا جس میں کمیٹی نے سفارش کی کہ مدرسہ کا آغاز یکم جنوری 1898ء سے کردیا جائے۔ چنانچہ مدرسہ تعلیم الاسلام کا باقاعدہ افتتاح 3؍جنوری 1898ء کو مہمانخانہ میں ہوا۔ جلد ہی مہمانخانہ کے متصل دو تین کمرے تعمیر کئے گئے اور 1899-1900 میں مزید عمارت بنوائی گئی۔ اس کے بعد حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ ہجرت کر کے قادیان آگئے تو حضورؑ نے مدرسہ کا پورا نظم و نسق آپؓ کے سپرد کر دیا۔ آپؓ نے 2 دسمبر 1901ء سے 1905ء تک یہ خدمت نہایت محنت اور شوق سے سرانجام دی۔ اور مدرسہ کو ضروری فرنیچر مہیا کیا، اس کی پہلی عمارت کو وسعت دی اور ڈھاب پُر کر کے بورڈنگ کوارٹرز بنوائے۔


مدرسہ کا آغاز پرائمری سے ہوا تھا لیکن یہ 1898ء میں ہی مڈل اور فروری 1900 ء میں ہائی سکول اور مئی 1903ء میں کالج تک پہنچ گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 29 نومبر 1905ء کو مدرسہ (تعلیم الاسلام) کے متعلق فرمایا: ’’ہماری غرض مدرسہ کے اجراء سے محض یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کیا جاوے۔ مروّجہ تعلیم کو اس لئے ساتھ رکھا ہے کہ یہ علوم خادم دین ہوں۔ ہماری یہ غرض نہیں کہ ایف۔ اے، بی۔اے پاس کر کے دنیا کی تلاش میں مارے مارے پھریں۔ ہمارے پیش نظر تو یہ امر ہے کہ ایسے لوگ خدمت دین کے لئے زندگی بسر کریں۔‘‘
11؍اکتوبر 1905ء کو حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ سیالکوٹی اور 3دسمبر 1905ء کو حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ جہلمی جیسے بزرگ علماء وفات پاگئے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس خلاء کو محسوس فرمایا اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 6؍دسمبر1905ء کو فرمایا کہ افسوس کہ جو مرتے ہیں ان کا جانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا- پھر فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف سے بھی رنج ہی پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی- اگر یہاں سے بھی طالبعلم نکل کر دنیا کے طالب ہی بننے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں نیز اس زمانہ میں حضورؑ کو بکثرت قرب وفات کے الہامات بھی ہورہے تھے۔ 6دسمبر 1905ء کو الہام ہوا:

قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ۔

اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’مدرسہ کی حالت دیکھ کر دل پارہ پارہ اور زخمی ہوگیا۔ علماء کی جماعت فوت ہو رہی ہے۔…‘‘
چنانچہ حضور علیہ السلام نے بہت سے احباب کو بلاکر اُن کے سامنے یہ امر پیش فرمایا کہ مدرسہ (تعلیم الاسلام) میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور علماء پیدا ہوں جو آئندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوتے رہیں جو گزرتے چلے جاتے ہیں۔ سب سو چو کہ اس مدرسہ کو ایسے رنگ میں رکھا جاوے کہ یہاں سے قرآن دان، واعظ اور علماء پیدا ہوں جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں۔ حضورؑ کے اس ارشاد پر بعض احباب نے مشورہ دیا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام قائم رہے مگر اس میں ایسی تبدیلی کر دی جائے کہ حقیقی مقصد کی تکمیل ہوسکے۔ چنانچہ حضورؑ نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ اور صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ؓکے خیال کو پسند فرماتے ہوئے مدرسہ تعلیم الاسلام میں ہی دینیات کی ایک شاخ کھولنے کا فیصلہ فرمایا اور اس کیلئے 26؍دسمبر 1905ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں نہایت قیمتی ہدایات بھی دیں۔ چنانچہ یہ ’’شاخ دینیات‘‘ جنوری 1906ء میں کھل گئی۔ حضرت قاضی سید امیر حسین شاہ صاحبؓ (اوّل مدرس) اور مولوی فضل دین صاحبؓ (کھاریاں) دواستاد مقرر ہوئے۔ جلد ہی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ بھی اس میں مدرس ہوگئے۔ ’’شاخ دینیات‘‘ میں پرائمری پاس طلبہ داخل کئے جاتے تھے۔ اس میں پہلے سال دس اور دوسرے سال پانچ طلبہ داخل ہوئے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
جمّوں میں قیام کے دوران

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شدید خواہش چونکہ دینی مدرسہ کے قیام کی تھی۔ اس لئے مدرسہ تعلیم الاسلام کے علاوہ ایک الگ انتظام کے تحت ایک مدرسہ دینی علوم کیلئے قائم کیا جائے۔ حضورؓ کے ارشاد پر 8؍جون 1908ء کو اخبار بدر میں ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں مدرسہ کی غرض و غایت کو دوہرایا گیا۔
اسی سال جلسہ سالانہ کے ایام میں 26 دسمبر 1908ء کو جماعتوں کی کانفرنس مسجد مبارک قادیان میں منعقد ہوئی جس میں مدرسہ دینیہ کا معاملہ پیش ہوا۔ اجلاس میں مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور سید محمد حسین صاحب کی تجویز تھی کہ تعلیمی وظائف بڑھا دیئے جائیں تاکہ احمدی نوجوان زیادہ تعداد میں کالجوں میں جائیں اور پاس ہونے کے بعد ان میں سے جو دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کریں انہیں ایک آدھ سال قرآن پڑھا کر مبلغ بنا دیا جائے۔
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ بھی مجلس کے ممبر تھے مگر نہ معلوم اتفاقاً یا ارادۃً آپ تک یہ تجویز نہ پہنچائی گئی۔ جب آپؓ دوران اجلاس تشریف لائے تو خواجہ کمال الدین صاحب اس وقت بڑے زور شور کے ساتھ مدرسہ دینیہ کے قیام کی مخالفت میں تقریر کر رہے تھے۔ پھر بعض دوسرے احباب نے بھی اُن کی ہمنوائی میں تقریریں کیں اور پوری مجلس پر اُن تقریروں کا اثر تھا۔ جب حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی یادگار کے ساتھ یہ بے حرمتی دیکھی تو آپؓ بے قرار ہوگئے اور پھر مدرسہ کے قیام کے لئے زبردست تقریر فرمائی تو لوگوں کی رائے یکسر بدل گئی۔ پھر 31؍جنوری 1909ء کو مجلس معتمدین کا اجلاس ہوا جس میں مدرسہ کے عملاً جاری کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی جس کے ممبران میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ بھی شامل تھے اور سیکرٹری مجلس معتمدین (یعنی مولوی محمد علی صاحب) بھی شامل تھے۔ سب کمیٹی کے اجلاس میں ہی حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے اس کا نام ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ تجویز کیا اور یکم مارچ 1909ء سے مدرسہ احمدیہ کا کھولا جانا منظور کیا۔ اس سب کمیٹی نے مکمل سکیم و رپورٹ مرتب کرکے مجلس معتمدین میں پیش کی اور یہ رپورٹ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے چند ترامیم کے ساتھ منظور فرمالی۔ مدرسہ احمدیہ کا آغاز چار جماعتوں سے ہوا مگر چوتھی جماعت قائم نہ رہ سکی اس لئے تعداد طلباء جو مدرسہ کھلنے کے وقت 27تھی سال کے آخر پر 24 رہ گئی۔ مدرسہ کے اوّلین ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ قرار پائے اور سپرنٹنڈنٹ مولوی صدرالدین صاحب مقرر ہوئے۔ اس مدرسہ کا نصاب سات سال پر مشتمل تھا۔


حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ نے ستمبر 1910ء میں انجمن کو توجہ دلائی کہ اس مدرسہ کا انتظام یا تو مدرسہ احمدیہ کے مدرس اول (ہیڈماسٹر) کی زیرنگرانی ہو یا کسی اور موزوں شخص کو اس کا ناظم مقرر کیا جائے۔ اس پر سارا انتظام آپؓ ہی کے سپرد کر دیا گیا۔ آپؓ نے مارچ 1914ء تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ یہ دور مدرسہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنہری دَور کہلانے کا مستحق ہے۔ آپ نے حکماً طلبہ کو زمین پر بیٹھ کر پڑھنے سے منع فرمایا کیونکہ اس سے پست خیالی پیدا ہوتی ہے۔ طلبہ کو فن خطابت سکھانے کے لئے جلسوں اور لیکچروں کا انتظام فرمایا۔ آپؓ کی تجویز پر یکم مارچ 1911ء سے پرائمری سے کم تعلیم رکھنے والے طلبہ کے لئے ایک سپیشل کلاس کھولی گئی جس میں طلبہ کو ایک سال تک تعلیم دے کر دوسری کلاسوں کے ساتھ شامل کیا جانے لگا۔ لڑکوں کے بورڈنگ ہاؤس کی صفائی کا خاص اہتمام ہونے لگا۔ طلبہ کے کھیل کے لئے میدان بنائے۔ مدرسہ میں کوئی لائبریری نہیں تھی۔ آپؓ نے اپنی لائبریری سے قیمتی کتابوں کا ایک بڑا مجموعہ جس میں الہلال مصر کے پرچے بھی تھے مرحمت فرمایا اور مزید روپیہ بھی انجمن سے منظور کروایا۔ آپؓ نے چوتھی جماعت کو اپنے لئے مخصوص کر لیا اور روزانہ تین گھنٹہ اسے وقت دیتے۔ آپؓ کا انداز تربیت جُدا اور بہت پُراثر تھا۔ بعض طلبہ کرتہ پہن کر آجاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؓ نے عربی ترجمہ کے لئے یہ فقرہ دیا کہ مدرسہ میں بغیر کوٹ پہنے نہیں آنا چاہئے۔ اس کے بعد سب طلبہ کوٹ پہننے لگے۔
1912ء میں حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ نے اپنے خرچ پر ہندوستان کا ایک لمبا دورہ کیا جس میں دیوبند، سہارنپور، ندوہ وغیرہ اسلامی مدارس کی تعلیم اور ان کے انتظام کا بغور مطالعہ کیا اور پھر اپنے تجربات کی روشنی میں مدرسہ احمدیہ میں اہم تبدیلیاں کیں۔ 1912ء میں عربی مدارس دیکھنے اور حج کرنے کے لئے آپ نے مصر و عرب کا سفر بھی اختیار فرمایا۔ 1913ء میں آپؓ کے مشورہ پر حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ اور شیخ عبد الرحمن صاحب کو مصر میں بغرض تعلیم بھجوایا گیا۔ آپؓ نے مدرسہ کے فارغ التحصیل طلباء کے لئے ہائی سکول میں انگریزی تعلیم کا انتظام کروایا۔ نیز طلباء مدرسین کی مدد سے مولوی فاضل کے امتحان میں شامل ہونے لگے۔ مدرسہ کے نصاب کی تکمیل کے لئے ایک دو سالہ طبی کورس بھی رکھا گیا۔
مارچ 1914ء میں جب آپؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو مدرسہ کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو سونپا جو 1919ء تک اسے بخوبی سرانجام دیتے رہے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

جماعت کی عالمگیر تبلیغی ضروریات کے پیش نظر مدرسہ احمدیہ کو ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ بنانے کے لئے حضورؓ نے 1919ء میں ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس نے غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کی اور حضورؓ نے اس سکیم کے مطابق 1924ء میں صدر انجمن احمدیہ کو عملی اقدامات کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ کئی مراحل طے ہونے کے بعد صدر انجمن احمدیہ نے 15؍اپریل 1928ء کو جامعہ احمدیہ کے نام سے ایک مستقل ادارہ کے قیام کا فیصلہ کر دیا۔ اس کے پہلے پرنسپل حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ مقرر ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 20مئی 1928ء کو اس کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا: ’’جامعہ کے طلباء کو ایک ہی مقصد اپنی زندگی کا قرار دینا چاہئے اور وہ تبلیغ ہے۔ خواہ عمل کے کسی میدان میں جائیں کوئی کام کریں اپنے حلقہ میں تبلیغ کو نہ بھولیں‘‘۔

حضرت میر محمد اسحٰق صاحب

1929ء میں جامعہ احمدیہ کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق ہوا۔ اپریل 1930ء میں ایک سہ ماہی رسالہ ’’جامعہ احمدیہ‘‘ جاری ہوا۔ 1932ء میں قادیان علوم شرقیہ کے امتحان کا سنٹر منظور ہوا۔ 20؍نومبر 1934ء کو جامعہ احمدیہ کے دارالاقامۃ (ہوسٹل) کا حضورؓ نے افتتاح فرمایا۔ وسط 1937ء میں حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ جامعہ احمدیہ کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے تو ادارہ میں بہت سی اہم اصلاحات کی گئیں۔ علمی مجالس کا قیام ہوا اور تبلیغ کے لئے قادیان سے باہر جاکر تقاریر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب بنارس سے سنسکرت کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد واپس آئے تو مئی 1939ء سے جامعہ احمدیہ میں سنسکرت کلاس بھی کھول دی گئی جو دسمبر 1944ء تک جاری رہی۔


مئی1939ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ پرنسپل جامعہ مقرر ہوئے جو مئی 1944ء میں تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل بنائے گئے تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو جامعہ احمدیہ کا پرنسپل بنایا گیا۔ 1944ء میں ہی حضورؓ نے جماعت کو وقف زندگی کی تحریک بھی فرمائی جس پر کئی مخلص نوجوانوں نے لبیک کہا اور میٹرک پاس طلباء کے لئے جامعہ احمدیہ میں ایک سپیشل کلاس جاری کی گئی۔
تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا تو جامعہ احمدیہ کے اساتذہ و طلباء 10 نومبر 1947ء کو کانوائے کے ذریعہ قادیان سے لاہور آگئے جہاں 13 نومبر کو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کا مخلوط ادارہ جاری ہوا اور اس کے پرنسپل بھی حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب ہی مقرر ہوئے۔ 1947ء میں جامعہ کا ایک علمی سہ ماہی مجلہ ’’المنشور‘‘ جاری ہوا۔ جامعہ احمدیہ دسمبر 1947ء میں لاہور سے چنیوٹ اور فروری 1948ء میں احمدنگر منتقل ہوگیا۔ جہاں سے 22 فروری 1955ء کو ربوہ میں منتقل ہوا۔ اس سے قبل دسمبر 1949ء میں جامعۃالمبشرین کا بھی اجراء ہوا تاکہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو تبلیغ کی خصوصی تربیت دی جائے۔ لیکن یکم جولائی 1957ء کو مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ اور جامعۃالمبشرین (تینوں ادارے) ایک ہی درسگاہ ’’جامعہ احمدیہ‘‘ میں مدغم کردیئے گئے جس کے پرنسپل حضرت میر داؤد احمد صاحب مقرر ہوئے۔

محترم میر داؤد احمد صاحب

محترم میر صاحب کے دَور میں انتہائی بنیادی نوعیت کے انتظامی کام ہوئے۔ سب سے پہلے جامعہ احمدیہ کی عمارت تعمیر کی گئی جس کا سنگ بنیاد عیدالفطر کے دن 29؍ مارچ 1960ء کو حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے قادیان کے مقامات مقدسہ کی اینٹ سے رکھا اور 3 دسمبر 1961ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کا افتتاح فرمایا۔

حضرت مولوی غلام رسول راجیکیؓ

جامعہ احمدیہ کی مسجد کا سنگ بنیاد یکم جولائی 1972ء کو محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب امیر مقامی نے رکھا۔ اس مسجد کی تعمیر کے جملہ اخراجات محترم خان اقبال محمد خان صاحب آف گوجرانوالہ نے ادا کئے اور مسجد کا نام اُن کی خواہش پر ان کی اہلیہ حسن بی بی صاحبہ کے نام پر ’’مسجد حسن اقبال‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی منظوری سے رکھا گیا۔
ناصر ہوسٹل کی عمارت کی تعمیر جاری تھی کہ محترم میر صاحب 25؍ اپریل 1973ء کو وفات پاگئے۔ 21؍نومبر 1974ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ناصر ہوسٹل کا افتتاح فرمایا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے آغاز خلافت میں 1982ء میں علمی موضوعات پر تحقیق کے لئے جامعہ احمدیہ میں ایک ریسرچ سیل قائم کیا۔ اسی طرح مختلف علوم میں مستند اور ٹھوس اور گہرے علم کے حامل ماہرین تیار کرنے کے لئے تخصص کا نظام جاری کیا گیا۔ اس کے تحت طلباء کو بیرون از ربوہ اور بیرون ملک بھی تعلیم کے لئے بھجوایا جاتا ہے۔
مارچ 1981ء سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جامعہ احمدیہ میں ایڈمنسٹریشن کا نظام جاری کیا تھا لیکن 5 ستمبر 1985ء کو پرانا نظام بحال کرتے ہوئے پرنسپل ہی انتظامی سربراہ مقرر ہوا۔
جماعت کی بڑھتی ہوئی تعلیمی و تربیتی ضروریات کے پیش نظر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشاد و منظوری کے ماتحت 1984ء میں جامعہ احمدیہ کی تدریس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا یعنی چار سالہ کورس ’’مبشر‘‘ اور سات سالہ کورس ’’شاہد‘‘ میں۔ 1998ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

محترم مولانا ابوالعطاء صاحب

حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے عربی زبان میں ایک رسالہ ’البشریٰ‘ 1958ء میں نکالا تھا۔ یہ رسالہ محترم سید میر داؤد احمد صاحب کی خواہش پر جامعہ نے اپنالیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے جنوری 1959ء سے جب یہ رسالہ جامعہ احمدیہ کی طرف منتقل ہوگیا تو محترم ملک مبارک احمد صاحب اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ یہ رسالہ 1973ء تک جاری رہا۔
طلباء میں ذوق جستجو بڑھانے اور تحقیق کا شوق پیدا کرنے کے لئے محترم سید میر داؤد احمد صاحب نے مجلہ جامعہ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ جاری فرمایا جو قادیان سے شائع ہونے والے رسالہ جامعہ احمدیہ کا ایک رنگ میں دوبارہ احیاء تھا۔ اس رسالہ کا پہلا شمارہ 1964

ء میں شائع ہوا۔ یہ نہایت علمی اور تحقیقی مجلہ بھی 1973ء تک شائع ہوتا رہا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 3؍اپریل 1987ء کو تحریک وقف نو کا اجراء فرمایا تھا۔ اس تحریک میں شامل ہزاروں پاکستانی بچوں کے لئے ضروری سہولیات فراہم کرنے کے لئے ایک توسیعی منصوبہ کے تحت تعمیرات کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان تعمیرات کے لئے حضورؒ نے محترم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم فرمائی جس کی نگرانی میں تعمیراتی کام بڑے پیمانے پر مکمل کئے گئے۔ اس منصوبہ کے تحت جامعہ احمدیہ کا جونیئر سیکشن تیار کیا گیا جس میں یکم ستمبر 2002ء سے تدریس شروع ہوگئی۔ اس سیکشن کا افتتاح حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے یکم ستمبر 2002ء کو فرمایا تھا۔ جامعہ احمدیہ سینئر سیکشن کی دو منزلہ عمارت بھی تعمیر ہوچکی ہے۔ اسی طرح تین منزلہ عمارت محمود ہوسٹل اور پانچ منزلہ خوبصورت عمارت ’’مسرور ہوسٹل‘‘ کی تعمیر بھی مکمل ہوچکی ہے۔


18 فروری 2004ء کو کمپیوٹر لیب کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ ریسرچ سیل بھی شروع کیا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب سے نجات پانے اور کشمیر کی طرف ہجرت کی تحقیق کو مزید آگے بڑھانے اور نیز تحریک آزادی کشمیر میں جماعت احمدیہ کے کردار کو اجاگر کرنے کے لئے محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر کی درخواست پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ احمدیہ میں 31؍اکتوبر 2004ء کو ’’واقعہ صلیب سیل‘‘ کی منظوری عنایت فرمائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر 17؍اگست 2007ء کو جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کی مجلس علمی کا قیام بھی عمل میں آیا۔
آئندہ شمارہ میں مختلف ممالک میں قائم بعض جامعات کے حوالہ سے معلومات پیش کی جائیں گی۔ انشاء اللہ
جامعہ احمدیہ کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ واقفین نو بچوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اُن کے کاندھوں پر دعوت الی اللہ کی کتنی عظیم ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خلفاء نے جامعہ احمدیہ کے قیام اور اس کو برقرار رکھنے میں کس قدر جانفشانی دکھائی۔
ہمیں یہ بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جامعہ احمدیہ سے دلچسپی کا اندازہ واقفین نو کی اُن کلاسوں سے کیا جاسکتا ہے جو مختلف ممالک میں منعقد ہوتی ہیں۔ ان کلاسوں میں حضور انور مستقبل میں جامعہ میں داخل ہونے کے خواہشمند واقفین نَو کی تعداد معلوم کرتے ہیں اور انہیں اپنے ارشادات سے بھی نوازتے ہیں۔ اسی طرح اگر حضورانور ایسے ممالک کا دورہ فرمائیں جہاں جامعہ احمدیہ کی شاخ قائم ہوچکی ہو تو حضور انور وہاں کے طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ خصوصی میٹنگز اور کلاس بھی منعقد فرماتے ہیں جن میں نہ صرف مختلف امور کے بارہ میں استفسار کرتے ہوئے ہدایات سے نوازتے ہیں بلکہ طلبہ کے بعض ذاتی امور میں بھی دلچسپی لے کر اُن کی راہنمائی فرماتے ہیں۔

جامعہ احمدیہ جرمنی

امید ہے کہ جامعہ احمدیہ کے بارہ میں شامل کئے جانے والے چند صفحات واقفین نو کے جامعہ میں داخلہ کے شوق اور ولولہ کو مزید بڑھائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جا معہ ا حمد یہ میں د ا خلہ ملنے پر بیٹے کے نام ایک ماں کا خط

پیارے بیٹے، پیارے لخت جگر طول عمرہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہٗ
خو شا نصیب کہ تم نے خلیفۂ و قت کی آ واز پر لبیک کہا اور د ین کے لئے زندگی کو وقف کیا ہے۔ خوشا نصیب کہ تمہارے جیسے سعا دت مند بچوں نے اہل اللہ کی روایات کو ا یک بار پھر ز ند ہ کیا۔ تمہارے ماں با پ نے ہمیشہ خدا سے عہد با ند ھا تھا کہ اولاد کو د ین کے لیے و قف کر یں گے۔ آپ جیسے ہو نہا ر بیٹوں نے سر تسلیم خم کر کے ہمیں سکو ن و ا طمینا ن کی ا یسی دو لت عطا کی جس کے لئے ہم خدا کے حضور سجد ہ شکر بجا لاتے ہیں۔
پیا رے لخت جگر! خدا تعالیٰ ہمیشہ آ پ کو اپنے سایۂ ر حمت اور حفظ و امان میں رکھے۔ کبھی موسموں کی شدت، لمحو ں کی سختی آ پ کی ا ستقا مت میں فرق نہ آنے دے۔ پیا رے بیٹے، اپنی عبادات کو دعاؤں کے ساتھ زندہ کرو۔ دعاؤں کو ا پنا ا وڑ ھنا بچھونا بنالو۔ مسیح پا ک کے ماننے وا لوں کے لئے دعاؤں کا ہتھیار ہی تو دیا گیا ہے۔ صحبت صالحین کو تلاش کرو۔ چاہے آبلہ پائی کا سفر طے کرنا پڑے۔ ہر ایسی محفل سے ا پنے آپ کو بیزار کر لو جہاں خدا کی منشا کے خلاف با تیں ہورہی ہوں۔ ہر ایسی محفل آپ کے لئے کشش کا باعث ہو جہا ں خلافت کے استحکام اور مضبوطی کا ذکر ہو۔ خلافت حقہ کے لئے جان و دل فدا کر نے کا عزم رکھو۔

لگائیو نہ درخت شکوک دل میں کبھی
نہ اس کے پھل میں ہے برکت نہ ڈال میں برکت

عزیز از جان بیٹے! بڑے ادب کے سا تھ زا نوئے تلمذ طے کرو۔ ا ستاد صاحبان کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ پر کا ن د ھرو۔ سمعنا و اطعنا کے مفہوم پر غور کرو اور عمل کرو۔ اطاعت اور فدائیت کی ایک نئی تاریخ رقم کر و کہ ایک نئی حیاتِ نور جنم لے۔ ا پنے آپ کو مٹی بنالو۔ خاکستر کر لو۔

جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

پیارے اور اکلوتے بیٹے ! جدائی کی یہ گھڑیاں ماں کی مامتا پر بڑی بھاری ہیں، ہجر کے یہ نوکیلے کانٹے بے دست و پا کرنے کو ہیں۔ خدا کی رضا مقصود نہ ہو تو یہ جدائی کب گوارا ہے، ہماری خوشی اسی میں ہے کہ وقف کے اعلیٰ معیار کو حاصل کرنے والے بنو۔ عا لم باعمل بنو، خدا کا پیار اور اس کے پیاروں کا پیار نصیب ہو۔ علم پر کبھی تکبر نہ کرو۔ یہ عا دت خبیثہ ا نسا ن کو خدا سے دُور کردیتی ہے۔ اخلاص و وفا و تقویٰ کو شعار بناؤ۔ مقبول عبادات نصیب ہوں۔

بسر کر عمر تو اپنی نہ سو سو کر نہ غفلت سے
کہ ملتی ہے ہر اک عزت اطاعت سے عبادت سے
خدا سے بڑھ کے تم کو چاہنے والا نہیں کوئی
کسی کا پیار بڑھ سکتا نہیں ہے اس کی چاہت سے

جدائی کی کسک سے یہ دل نیم بسمل سہی لیکن پیارے بیٹے! قرون اولیٰ کی مومن عورت کی طرح آج کی احمدی ماں بھی خلیفۂ و قت کے ایک اشارے پر کہیں بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ الحمدللہ۔
پیا رے بیٹے! آپ میری دعاؤں میں رہتے ہو۔ خدا کرے آپ اس مقدّس ادارے کا فخر بنو۔ استاد آپ پر نازاں ہوں۔ خدا کرے آپ کی طرف سے ہمیشہ کامیابیوں کی خبریں ملیں۔

والسلام ۔ د عا گو۔ آپ کی والدہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں