تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14فروری 2011ء میں مکرم چودھری شبیر احمد صاحب (سابق وکیل المال اوّل) کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں جماعتی کاموں کے لئے تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات کا بیان ہے۔
٭ قریباً 1944ء میں لکھنؤ میں قیام کے دوران ایک کمرہ میں ہم پانچ افراد رہا کرتے تھے۔ صرف مَیں احمدی تھا جبکہ دو کا تعلق اہلسنّت والجماعت سے تھا۔ وہ دونوں جماعت احمدیہ کے عقائد سے بہت متأثر تھے لیکن اُن میں سے ایک صاحب باوجود بار بار کی نصیحت کے، نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ ایک دن جب لیٹ کر وہ رسالہ ’’الوصیت‘‘ پڑھ رہے تھے کہ یکایک اُٹھ بیٹھے اور رسالہ کے مضامین کی بڑی تعریف کرنے لگے کہ کاش یہ کتاب مَیں نے طالبعلمی میں پڑھی ہوتی تو خدا کی ہستی کے بارہ میں جو دلائل مجھے اس کتاب میں ملے ہیں ان کے ذریعہ مَیں خدا کے منکروں کو تسلّی بخش جواب دے سکتا۔ پھر انہوں نے غسل کیا اور نماز پڑھی۔ اس پر خاکسار نے انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت معلوم کرنے کے لئے استخارہ کرنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی۔ پھر دو تین روز بعد خواب سنائی کہ حضرت اقدسؑ ایک طبیب ہیں اور اس دوست کا معائنہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ آپ کو بیماری تو کوئی نہیں لیکن کمزوری ہے۔ مَیں نے پوچھا کہ اس خدائی اشارہ کو آپ سمجھ گئے ہیں؟ کہنے لگے کہ ہاں سمجھ تو گیا ہوں لیکن ایک مجبوری کا مقابلہ نہیں کرسکتا کہ میرے والد امام مسجد ہیں اور میرے احمدی ہونے کی صورت میں اُن کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا۔
اسی طرح دوسرے مسلمان دوست نے بھی استخارہ کے نتیجہ میں بڑی واضح خواب دیکھی لیکن اپنی والدہ کی سخت طبیعت کے خوف سے حق قبول کرنے سے ہچکچاتے رہے۔
٭ خاکسار ایک کارکن مکرم فیروز دین صاحب کے ہمراہ جہلم جماعت کے دورہ پر بذریعہ بس ربوہ سے روانہ ہوا تو چنیوٹ سے آگے بس نے جانے سے انکار کردیا کیونکہ کسی سیاسی جلسہ کی وجہ سے بسوں کی پکڑدھکڑ ہورہی تھی۔ چنانچہ ہم اُتر کر دوسری کسی بس کا انتظار کرنے لگے۔ آخر ایک بس جانے کے لئے تیار نظر آئی۔ اُس میں بیٹھے لیکن پنڈی بھٹیاں میں اُس کے ڈرائیور نے بھی بس خالی کرنے کو کہا۔ میرے ہمسفر نے کہا کہ ہمیں واپس ربوہ چلے جانا چاہئے ۔ مگر خاکسار نے یہ مشورہ قبول نہ کیا کیونکہ وہاں کی جماعت ہماری منتظر تھی۔ ربوہ کے ایک احمدی دوست اپنی کار میں وہاں سے ربوہ جاتے ہوئے گزرے تو میرے ہمسفر نے مجھ پر ایک بار پھر زور دیا کہ واپس چلے جائیں لیکن میری طبیعت نے اسے توکّل کے خلاف سمجھا۔ آخر ایک بس مل گئی مگر حافظ آباد پہنچ کر اُس کے ڈرائیور نے بھی آگے جانے سے انکار کردیا۔ ہم دعا کرتے ہوئے سڑک پر کھڑے ہوگئے۔ دعا کے نتیجہ میں میری طبیعت ریل گاڑی کے سفر کی طرف مائل ہوئی تو ہم ایک تانگہ کے ذریعہ سٹیشن پر پہنچے۔ جہلم کا ٹکٹ خریدا۔ پلیٹ فارم پر بے انتہا رش تھا۔ ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ آخر گاڑی آئی لیکن اُس میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ اسی پریشانی میں میرے ہمسفر گارڈ تک پہنچے اور اُن سے کہا کہ میری تو خیر ہے لیکن میرے ساتھ ایک دوست حاجی ہیں، اگر اُن کو آپ جگہ دیدیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ حاجی کا لفظ سن کر گارڈ صاحب کا دل پسیج گیا اور انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھالیا۔ میرے ہمسفر نے بھی کھڑے ہونے کی جگہ بنالی اور اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے بروقت جہلم پہنچ گئے۔
حج کرنے کی برکت کے نتیجہ میں پاکستان کے بعض علاقوں میں حاجی کے لفظ کو جو تکریم دی جاتی ہے خدا کے فضل سے اُس کا فائدہ کئی بار ہم نے بھی دیکھا۔ ایک بار سکّھر سے روہڑی جانے کی فوری ضرورت تھی لیکن بسوں کی ہڑتال کے باعث بڑی پریشانی تھی۔ تب بھی میرے ہمسفر نے ایک کار والے کو میرے حج کے حوالہ سے بتاکر رضامند کرلیا اور انہوں نے بخوشی ہمیں منزل تک پہنچادیا۔
ایک بار مردان سے نوشہرہ جاتے ہوئے راستہ میں ایک چھوٹی جماعت رسالپور میں بھی حاضری دی۔ لیکن پھر دوبارہ سڑک پر کھڑے ہوکر بس کا انتظار کرنا شروع کیا تو کسی میں گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی۔ دعا کی بہت توفیق ملی تو اسی اثناء میں ایک تیز رفتار کار کچھ آگے جاکر رُکی اور پھر واپس آئی۔ دیکھا تو اُس میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بھائی مکرم چودھری عبدالوہاب صاحب تھے۔ انہوں نے وہاں کھڑے ہونے کا مقصد دریافت کیا اور پھر ہمیں اپنی کار میں سیدھا نوشہرہ کی احمدیہ مسجد میں پہنچادیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں