’براہین احمدیہ‘ میں بیان کردہ بعض نکاتِ معرفت

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ کی “براہین احمدیہ” خصوصی اشاعتوں میں ایک سلسلہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ’براہین احمدیہ‘ میں بیان کردہ بعض نکاتِ معرفت کا بیان ہے جو مکرم نصراللہ ناصر صاحب نے مرتّب کئے ہیں۔ ان میں سے چند ایک ذیل میں ہدیہ قارئین ہیں:

٭ ’’ہمیشہ توحید الٰہی صرف الہام ہی سے پھیلتی رہی ہے اور معرفت الٰہی کے طالبوں کے لئے قدیم سے یہی دروازہ کھلا ہے۔‘‘
٭ ’’نور الہام کا بھی خاص خدا کی طرف سے اور اس کے ارادہ سے نازل ہوتا ہے یونہی اندر سے جوش نہیں مارتا۔‘‘
٭ ’’الہام الٰہی کی ہدایت ہر یک طبیعت کے لئے نہیں بلکہ ان طبائع صافیہ کے لئے ہے جو صفت تقویٰ اور صلاحیت سے متّصف ہیں۔‘‘
٭ ’’کوئی شخص صرف اس صحیفہ فطرت پر نظر کرکے کوئی فائدہ علم دین کا اٹھا نہیں سکتا اور جب تک الہام رہبری نہ کرے خدا کو پا نہیں سکتا۔‘‘
٭ ’’عقل صرف ضرورت شئے کو ثابت کرتی ہے خود شئے کو ثابت نہیں کرسکتی۔‘‘
٭ ’’الہام کامل اور حقیقی کہ جو … مذاہب باطلہ کے ہر یک قسم کے وساوس کو بکلّی دور کرتا ہے اور طالب حق کو مرتبہ یقین کامل تک پہنچاتا ہے وہ فقط قرآن شریف ہے۔‘‘
٭ ’’اس وقت انسان کو مقرب الٰہی بولا جاتا ہے جب وہ ارادہ اور نفس اور خلق اور تمام اضداد اور اغیار سے بکلّی الگ ہوکر طاعت اور محبت الٰہی میں سراپا محو ہو جاوے اور ہر یک ماسوا اللہ سے پوری دوری حاصل کرلیوے اور محبت الٰہی کے دریا میں ایسا ڈوبے کہ کچھ اثر وجود اور انانیت کا باقی نہ رہے۔‘‘
٭ ’’جب تک نورِ قلب و نورِ عقل کسی انسان میں کامل درجے پر نہ پائے جائیں تب تک وہ نور وحی ہرگز نہیں پاتا۔‘‘
٭ ’’بغیر معقول وجوہ رکھنے کے بدظنی کرنا ایک شعبہ دیوانگی کا ہے۔‘‘
٭ ’’خداوند تعالیٰ نے اہل اللہ کو ایسی فطرت بخشی ہے کہ اُن کی نظر اور صحبت اور توجہ اور دعا اکسیر کا حکم رکھتی ہے بشرطیکہ شخص مستفیض میں قابلیت موجود ہو۔‘‘
٭ ’’اہل اللہ کا وجود خلق اللہ کے لئے ایک رحمت ہوتا ہے۔‘‘
٭ ’’ادب اور صدق اور صبر برکات الٰہیہ کے لئے شرط اعظم ہے۔‘‘
٭ ’’دعا ایک مجاہدہ اور کوشش ہے اور کوششوں پر جو ثمرہ مترتب ہوتا ہے وہ صفت رحیمیت کا اثر ہے۔‘‘
٭ ’’خدا تعالیٰ نے دعا میں جوش دلانے کے لئے دو محرک بیان فرمائے ایک اپنی عظمت اور رحمت کاملہ شاملہ دوسرے بندوں کا عاجز اور ذلیل ہونا۔‘‘
٭ ’’عصمت … فرقان مجید کے کامل تابعین کو بطور خارق عادت عطا ہوتی ہے … وہ ایسی نالائق اور مذموم عادات اور خیالات اور اخلاق اور افعال سے محفوظ رکھے جاتے ہیں جن میں دوسرے لوگ دن رات آلودہ اور ملوث نظر آتے ہیں اور اگر کوئی لغزش بھی ہو جائے تو رحمتِ الٰہیہ جلد تر ان کا تدارک کرلیتی ہے۔ …عصمت کا مقام نہایت نازک اور نفس امارہ کے مقتضیات سے نہایت دور پڑا ہوا ہے جس کا حاصل ہونا بجز توجہ خاص الٰہی کے ممکن نہیں۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں