بخاری و مسلم کا مقام و مرتبہ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اپریل 1998ء میں مکرم منیر احمد جاوید صاحب کے ایک طویل مقالہ کی تلخیص مکرم احمد طاہر مرزا صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ اس مقالہ میں حدیث کی دو مستند کتب بخاری و مسلم کے مقام و مرتبہ سے متعلق متفرق آراء شامل ہیں۔
امام المحدّثین حضرت محمد بن اسماعیل بخاریؒ خراسان کے شہر بخارا میں 13؍شوال 194ھ بروز جمعہ پیدا ہوئے۔ آپؒ اعجمی و فارسی النسل تھے۔ زمانہ طفولیت میں بینائی سے محروم ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی والدہ ماجدہ کی دعاؤں کے طفیل دوبارہ آنکھوں کا نور عطا فرمایا۔ آپؒ کے والد ماجد بھی محدّث تھے۔ دس برس کی عمر میں مکتب سے فارغ ہوکر بخارا کے مشہور عالم امام داخلی کی شاگردی اختیار کی۔ 16 برس کی عمر میں طلب حدیث کی خاطر طویل اسفار کا آغاز کیا اور حجاز، شام، مصر، جزیرہ خراسان، مرو، بلخ، ہرات، نیشاپور، جیال، سمرقند، تاشقند اور مضافاتِ بخارا کے طویل سفر کئے۔ آپؒ کے اساتذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ 18 برس کی عمر میں درس حدیث کا آغاز کیا۔ آپؒ کا سب سے بڑا کارنامہ چار لاکھ مجموعہ احادیث پر مشتمل جامع صحیح بخاری کی تالیف ہے جس میں مکررات کو حذف کرکے 2663؍ احادیث ہیں اور اس کے بارہ میں سینکڑوں علماء و مشائخ، محدثین و مستشرقین نے آراء دی ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں’’مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت متبرک اور مفید کتاب ہے۔ یہ وہی کتاب ہے جس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے۔‘‘
حضرت اقدسؑ مزید فرماتے ہیں ’’قرآن شریف کے بعد بالاستقلال وثوق لائق ہماری دو ہی کتابیں ہیں ایک بخاری اور ایک مسلم‘‘۔
حضرت امام مسلم بن حجاج القشیری نیشاپوریؒ خراسان کے شہر نیشاپور میں 202ھ میں پیدا ہوئے۔ نیشاپور علم حدیث میں مرکزیت کا مقام رکھتا تھا اور یہیں مشہور اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپؒ نے سماعت حدیث کے لئے عراق، حجاز، مصر وغیرہ کے سفر کئے۔ آخری سفر بغداد 259ھ میں اختیار کیا۔ آپ کے اساتذہ کی طویل فہرست میں امام بخاریؒ اور امام احمد بن حنبلؒ بھی شامل ہیں۔ امام دارقطنیؒ نے لکھا ہے کہ اگر امام بخاری کا فیضِ صحبت نہ ہوتا تو امام مسلمؒ کا کوئی نام بھی نہ لیتا۔
حضرت امام مسلمؒ نے انتہائی احتیاط کے ساتھ تین لاکھ احادیث میں سے صحیح مسلم کا انتخاب کیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ ہم ظن غالب کے طور پر بخاری اور مسلم کو صحیح سمجھتے ہیں واللہ اعلم بالصواب‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں