ایک بابرکت کفن

(فرخ سلطان محمود)
(مطبوعہ انصارالدین جولائی اگست 2016ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحبؓ کے حوالہ سے ایک روایت ’’سیرۃالمہدی‘‘ میں بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ غالباً 1884ء کے مئی جون میں رمضان کی 27 تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز فجر پڑھ کر اس کے ساتھ والے غسلخانہ میں جو تازہ پلستر ہونے کی وجہ سے ٹھنڈا تھا، ایک چارپائی پر جالیٹے۔ مَیں پاؤں دبانے بیٹھ گیا۔ دل میں بہت مسرور تھا کہ میرے لئے ایسے مبارک موقعے جمع ہیں یعنی حضرت صاحب جیسے مبارک انسان کی خدمت کررہا ہوں۔ وقت فجر کا ہے۔ مہینہ رمضان کا ہے تاریخ 27 اور جمعہ کا دن ہے اور گزشتہ شب شب قدر تھی کیونکہ مَیں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی 27 تاریخ اور جمعہ مل جائیں تو وہ رات یقینا شب قدر ہوتی ہے۔
مَیں انہی باتوں کا خیال کرکے دل میں مسرور ہو رہا تھا کہ حضرت صاحب کا بدن یکلخت کانپا اور اس کے بعد حضورؑ نے آہستہ سے اپنے اوپر کی کہنی ذرا ہٹاکر میری طرف دیکھا۔ آپؑ کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد آپؑ نے پھر اسی طرح اپنی کہنی رکھ لی۔ مَیں دباتے دباتے حضورؑ کی پنڈلی پر آیا تو مَیں نے دیکھا کہ حضورؑ کے پاؤں پر ٹخنے کے نیچے سرخی کا ایک قطرہ پڑا تھا جو ابھی تازہ گرے ہونے کی وجہ سے گیلا تھا۔مَیں نے اسے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی لگاکر دیکھا تو وہ ٹخنے پر پھیل گیا اور میری انگلی پر بھی لگ گیا۔ مَیں نے اُسے سونگھا لیکن اس میں خوشبو نہیں تھی۔ پھر مَیں دباتا دباتا پسلیوں کے پاس پہنچا وہاں مَیں نے سرخی کا ایک اور بڑا قطرہ کرتہ پر دیکھا۔ اس کو بھی مَیں نے ٹٹولا تو وہ بھی گیلا تھا۔ اس وقت پھر مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ سرخی کہاں سے آگئی ہے۔
پھر مَیں چارپائی سے آہستہ سے اٹھا کہ حضرت صاحبؑ جاگ نہ اٹھیں اور پھر اس کا نشان تلاش کرنا چاہا کہ یہ سرخی کہاں سے گری ہے۔ بہت چھوٹا سا حجرہ تھا۔ چھت میں اردگرد مَیں نے اس کی خوب تلاش کی مگر خارج میں مجھے اس کا کہیں پتہ نہیں چلا کہ کہاں سے گری ہے۔
تھوڑی دیر بعد حضرت صاحبؑ اٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر حجرہ میں سے نکل کر مسجد میں جاکر بیٹھ گئے۔ مَیں وہاں پیچھے بیٹھ کر آپؑ کے مونڈھے دبانے لگ گیا۔ اس وقت مَیں نے عرض کیا کہ حضور! یہ آپ پر سرخی کہاں سے گری ہے؟ حضورؑ نے بے توجہی سے فرمایا کہ آموں کا رس ہوگا۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! یہ تو سرخی ہے۔ اس پر آپ نے پوچھا کہ کہاں ہے؟ مَیں نے کرتہ پر وہ نشان دکھاکر کہا کہ یہ ہے۔ اس پر حضورؑ نے کرتے کو سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنے سر کو ادھر پھیر کر اس قطرہ کو دیکھا۔ پھر اس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا بلکہ رویت باری اور امور کشوف کے خارج میں وجود پانے کے متعلق پہلے بزرگوں کے ایک دو واقعات مجھے سنائے۔ پھر فرمایا کہ یہ کشف کی باتیں تھیں مگر خدا تعالیٰ نے ان بزرگوں کی کرامت ظاہر کرنے کے لئے خارج میں بھی ان کا وجود ظاہر کردیا۔ اب ہمارا قصہ سنو۔ جس وقت تم حجرہ میں ہمارے پاؤں دبارہے تھے۔ مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت وسیع اور مصفّٰی مکان ہے۔ اس میں ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک شخص حاکم کی صورت میں بیٹھا ہے۔ میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ احکم الحاکمین یعنی ربّ العالمین ہیں اور مَیں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے حاکم کا کوئی سر رشتہ دار (ہیڈکلرک) ہوتا ہے۔ مَیں نے کچھ احکام قضاء و قدر کے متعلق لکھے ہیں اور ان پر دستخط کرانے کی غرض سے ان کے پاس لے چلا ہوں۔ جب مَیں پاس گیا تو انہوں نے مجھے شفقت سے اپنے پاس پلنگ پر بٹھالیا۔ اس وقت میری حالت ایسی ہوگئی کہ جیسے ایک بیٹا اپنے باپ سے بچھڑا ہوا سالہا سال کے بعد ملتا ہے اور قدرتاً اس کا دل بھر آتا ہے یا شاید فرمایااس کو رقّت آجاتی ہے۔ اور میرے دل میں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ یہ احکم الحاکمین (یا فرمایا ربّ العالمین) ہیں اور کس محبت اور شفقت سے انہوں نے مجھے بٹھالیا ہے۔ اس کے بعد مَیں نے وہ احکام جو لکھے تھے دستخط کرانے کے لئے پیش کئے۔ انہوں نے قلم سرخی دوات میں (جو پاس پڑی تھی) ڈبویا اور میری طرف جھاڑ کر دستخط کردیئے۔
حضرت صاحبؑ نے فرمایا: یہ وہ سرخی ہے جو اس قلم سے نکلی ہے۔ پھر فرمایا کہ دیکھو کوئی قطرہ تمہارے اوپر بھی گرا؟ مَیں نے اپنے کرتے کو ادھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے پر تو کوئی نہیں گرا۔ فرمایا کہ تم اپنی ٹوپی پر دیکھو۔ مَیں نے اپنی ململ کی سفید ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور مَیں نے عرض کیا کہ حضورؑ میری ٹوپی پر بھی ایک قطرہ ہے۔
پھر میرے دل میں شوق پیدا ہوا کہ یہ کرتہ بڑا مبارک ہے اس کو تبرکاً لے لینا چاہئے۔ پہلے مَیں نے اس خیال سے کہ کہیں حضورؑ انکار نہ کردیں، حضورؑ سے مسئلہ پوچھا کہ حضورؑ کسی بزرگ کا کوئی تبرک کپڑے وغیرہ کا لے کر رکھنا جائز ہے؟ فرمایا: ہاں جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات صحابہؓ نے رکھے تھے۔ پھر مَیں نے عرض کیا کہ حضورؑ خدا کے واسطے میرا ایک سوال ہے۔ فرمایا کہو کیا ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ حضور یہ کرتہ تبرکاً مجھے دے دیں۔ فرمایا نہیں یہ تو ہم نہیں دیتے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضورؑ نے ابھی تو فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات صحابہؓ نے رکھے۔ اس پر فرمایا کہ یہ کرتہ مَیں اس واسطے نہیں دیتا کہ میرے اور تیرے مرنے کے بعد اس سے شرک پھیلے گا۔ اس کی لوگ پوجا کریں گے، اس کو لوگ زیارت بنالیں گے۔
مَیں نے عرض کیا کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے تبرکات سے شرک نہ پھیلا؟ فرمایا: دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کرگئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کردینا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضورؑ مَیں بھی مرتا ہوا وصیت کرجاؤں گا کہ یہ کرتہ میرے ساتھ دفن کردیا جاوے۔ فرمایا: ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو۔ چونکہ وہ جمعہ کا دن تھا، تھوڑی دیر کے بعد حضورؑ نے غسل کرکے کپڑے بدلے اور مَیں نے یہ کرتہ سنبھال لیا۔
7؍اکتوبر 1927ء کو حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ کی وفات ہوئی تو اس موقع پر ان کی وصیت کے مطابق یہ کرتہ ان کو کفن کے طور پر پہنایا گیا اور اُن کے ساتھ ہی بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوا۔
پس کیسا وہ مبارک وجود تھا اور کیسا یہ بابرکت کفن تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں