آنحضورﷺ کی تعدّد ازدواج کی وجہ

آنحضورﷺ کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں تھا اور آپؐ کی تعدّد ازدواج کی بنیاد بھی حکمت پر تھی- آپؐ کے ہر نکاح کی بنیاد میں ہمدردی یا مختلف اقوام میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنا اور دینی اغراض نظر آتی ہیں اور اس میں ذرہ بھر بھی نفسانیت کا دخل نہیں دکھائی دیتا- حیات مبارکہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پچپن سال کی عمر تک آپؐ کے نکاح میں ایک سے زیادہ بیوی نہیں تھی اور اسی طرح جب آپؐ نے دعویٰ نبوّت فرمایا تو عرب سرداروں کی اس پیشکش کو ردّ کردیا کہ جس لڑکی سے بھی آپؐ نکاح کرنا چاہیں اُس کا انتظام کردیا جائے گا- یہ بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت عائشہؓ آپؐ کی واحد زوجہ محترمہ تھیں جو کنواری تھیں- باقی سب ازواج مطہرات بیوہ یا مطلقہ تھیں- اس موضوع پر ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ جولائی 1998ئ میں مکرمہ نبیلہ رفیق صاحبہ کے قلم سے ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے-
حضرت صفیہؓ ایک یہودی سردار کی بیٹی تھیں اور تاریخ گواہ ہے کہ آپؓ کے ساتھ آنحضور ﷺ کے نکاح کے بعد یہود نے مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شرکت نہیں کی-
حضرت امّ حبیبہؓ مشہور دشمن اسلام ابو سفیان کی بیٹی تھیں- ابوسفیان مسلمانوں کے خلاف ہر جنگ میں پیش پیش رہتا تھا حتّٰی کہ عربوں کی جنگ کا نشان بھی اُسی کے گھر میں رکھا گیا تھا- وہ جنگ احد، حمرائ الاسد، بدرالاخریٰ اور جنگ احزاب میں کفار کی قیادت کرتا رہا- لیکن حضرت امّ حبیبہؓ کے نکاح کے بعد وہ کسی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف لشکر کشی کرتا ہوا نظر نہیں آتا-
حضرت جویریہؓ کا باپ مشہور رہزن اور ڈاکو تھا اور مسلمانوں سے بے حد بغض اور عداوت رکھتا تھا- قبیلہ بنو مصطلق اُسی کے اشارے پر مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں میں مشغول رہتا- مگر اس نکاح کے بعد یہ قبیلہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شریک نظر نہیں آتا بلکہ ڈکیتی کا کام چھوڑ کر ایک مہذب زندگی اختیار کرلیتا ہے-
اہل نجد ایسے دشمنِ اسلام تھے جنہوں نے دھوکہ دے کر ستّر حفّاظ صحابہ کو شہید کردیا تھا- حضرت میمونہؓ سے نکاح کے بعد اس قبیلہ کے ساتھ دوستی اور صلح کا نیا باب کھل گیا کیونکہ نجد کے سردار کے گھر حضرت میمونہؓ کی بہن تھیں-
حضرت زینبؓ بنت حجش کے ساتھ نکاح کرکے آنحضورﷺ نے عرب معاشرہ کی اُس بُری رسم کا خاتمہ کیا جس کے مطابق عرب اپنے متبنیّ کو اصلی اولاد سمجھتے اور اسے وراثت میں حصّہ دیتے تھے-
تاریخ گواہ ہے کہ آنحضورﷺ کی وفات کے بعد امّت مسلمہ نے جتنا دینی علم امہات المؤمنین سے سیکھا، کسی اور سے نہیں سیکھا- حضرت عائشہؓ احادیث کی بہت مستند راوی اور قابل احترام شخصیت تسلیم کی جاتی ہیں- آپؓ کو وہ تمام خطبات حرف بہ حرف یاد تھے جو آنحضورﷺ مختلف وفود کے ساتھ مجلس میں یا خطبہ جمعہ میں بیان فرماتے تھے- اسی طرح حضرت امّ سلمہؓ بھی دین کا بہترین شعور رکھنے والی تھیں اور آنحضورﷺ کی وفات کے بعد آپؓ نے اپنی تقریری صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے خواتین میں علم و معرفت کے خزانے بانٹے-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں