’’اِس ڈھب سے‘‘

دین اسلام میں شعر کہنے یا شاعر کہلانے کی جو گنجائش موجود ہے وہ کلیۃً ایسی اصلاحی شاعری ہے جس کے ذریعے ہمارے دین کا بول بالا ہو، خالق حقیقی کی محبت اور اُس کا قرب حاصل ہو، اصلاحِ خلق کی سعی پیش نظر ہو اور اصلاح نفس بھی اس کا منطقی نتیجہ ہو۔ چنانچہ اکثر احمدیوں نے اِسی حسین انداز فکر کو اپناتے ہوئے شعر کہنے کی جسارت کی ہے اور اُن کے لاشعور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر کسی جگہ ضرور موجود رہا ہے کہ:

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدّعا یہی ہے

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبرودسمبر 2011ء میں خاکسار فرخ سلطان محمود کے قلم سے جناب محمد شریف خالد صاحب کی شاعری کی کتاب ’’اس ڈھب سے‘‘ پر تبصرہ شائع ہوا ہے۔ اس مجموعۂ کلام میں شامل نظمیں ایک ایسے دل کی آواز ہیں جو اپنے قلبی جذبات کو احساس کے نہایت لطیف جھونکے سے پڑھنے والے کے دل کے نہاں خانوں میں موجود تاروں کو چھونے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ قریباً تمام تر نظمیں ، سادہ انداز میں کہے جانے کے باوجود، اُسی دینی محبت کی غمّاز اور ایسی اصلاح خلق کی خواہش کا اظہار ہیں جس کی ایک مخلص احمدی سے توقع کی جاتی ہے۔ اور اِس کے ساتھ ساتھ بلاشبہ فن شاعری کے مروّجہ اصول و ضوابط سے آراستہ ہیں ۔ کتاب کا خوبصورت سرورق بھی ایسی ہی ایک منفرد سوچ کا غمّاز ہے۔
قریباً دو صد صفحات پر مشتمل اِس مجموعہ کلام کو مجلّد اور خوبصورت گیٹ اَپ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ تین چوتھائی کلام اردو زبان میں جبکہ باقی پنجابی زبان میں ہے۔ اس خوبصورت کلام کے بارہ میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے بہتر ہے کہ اس حساس شاعر اور اِس کی قلبی واردات کو جو داد سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملی ہے، اُس پر اکتفا کرلیا جائے۔ حضورؒ فرماتے ہیں : ’’آپ کا وجود ایک خاموش سطح کے نیچے ایک متلاطم سمندر کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے فکر اور آپ کے جذبات دونوں کو اللہ تعالیٰ نے وسعت اور گہرائی عطا فرمائی ہے۔ کچھ آپ کی تحریریں آپ کے دل کا راز کھول دیتی ہیں ۔ کچھ آپ کا کلام ماوراء سے پردہ اٹھاتا ہے ورنہ ملنے جلنے والوں کو کچھ پتہ نہیں چلتا ہوگا کہ اس خالد شریف کے اندر کیسا خالد شریف چھپا ہوا ہے‘‘۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جناب محمد شریف خالد صاحب کو تمغۂ خدمت پاکستان سے نوازا جاچکا ہے۔
ذیل میں اس مجموعۂ کلام سے نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

ترے حسنِ بے کراں سے تری ذات آشکارا
مری زندگی کا حاصل تری دید کا نظارا
کہیں بادلوں کے اوپر کہیں دُور آسماں میں
تری عظمتوں کا مرکز مری حسرتوں کا چارا
ترے عشق کے جنوں سے مَیں کبھی کا مٹ چکا ہوں
مری خاک اُڑ رہی ہے اسے دیکھ لیں خدارا
…………………
صد شکر کہ محفوظ تھے ہم کشتیٔ نوح میں
صد شکر کہ اس نے ہمیں ساحل پہ اتارا
اے طالبِ حق سوچ یہ کم فضل و کرم ہے
جاری ہوا انعام خلافت کا دوبارا
…………………
بعض بندے عجیب ہوتے ہیں
دُور رہ کر قریب ہوتے ہیں
اُن کی عادات بادشاہوں سی
دوست اُن کے غریب ہوتے ہیں
اُن کی صحبت میں اے خدا رکھیو
جو جہاں کے طبیب ہوتے ہیں
…………………
جن پرندوں کے پَر نہیں ہوتے
وہ کبھی ہم سفر نہیں ہوتے
نظر ہو جن کی کامیابی پر
امتحاں دردِ سر نہیں ہوتے
زندگی کے حسیں لمحے بھی
دوستو بے خطر نہیں ہوتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں