انٹرویو: مکرم مولانا محمد سعید انصاری صاحب

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اپریل 2001ء میں مکرم مولانا محمد سعید انصاری صاحب کا انٹرویو (مرتبہ: میر انجم پرویز صاحب و محمد آصف عدیم صاحب) شامل اشاعت ہے۔
آپ کے والد محترم حکیم مولوی محمد اعظم صاحب ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں پنڈوری وینساں کے رہنے والے تھے جو قادیان سے پندرہ سولہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔آپ کی پیدائش موضع تھہ غلام نبی میں 10؍مارچ 1916ء کو ہوئی۔ 1924ء میں آپ کا گھرانہ قادیان منتقل ہوگیا۔
آپکے والد کو حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ سے بڑی عقیدت تھی اور احمدی نہ ہونے کے باوجود حضورؓ کے درس قرآن میں شامل ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے محترم قاضی محمد رشید صاحب کو قادیان میں ہی تعلیم دلوائی تھی اور انہوں نے 1911ء میں احمدیت قبول کرلی تھی جبکہ آپ کے والد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے ابتدائی دَور میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔
آپ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز 1925ء میں قادیان میں ہوا۔ 1926ء میں پرائمری پاس کرکے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور 1933ء میں مدرسہ کی سات جماعتیں پاس کرکے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔دو سال کے بعد یعنی 1935ء میں آپ نے مولوی فاضل کے امتحان کے لئے داخلہ بھجوادیا۔ اُنہی دنوں محترم حافظ محمد رمضان صاحب جو نابینا تھے، آپ کے پاس آئے اور بیان کیا کہ وہ امتحان دینا چاہتے ہیں لیکن کوئی لکھنے والا نہیں مل رہا۔ اس پر آپ نے اپنے داخلہ اور ایک سال کی قربانی دیتے ہوئے خود امتحان دینے کی بجائے محترم حافظ صاحب کی مدد کی اور وہ مولوی فاضل کے امتحان میں کامیاب ہوگئے جبکہ آپ نے 1936ء میں یہ امتحان دیا۔ پھر کچھ عرصہ آپ کتابت کرکے اور ٹیوشن پڑھاکر گزارہ کرتے رہے۔ 1938ء میں مبلغین کلاس میں داخل ہوئے۔ 1939ء میں انگریزی کا امتحان دے کر میٹرک پاس کرلیا۔
جامعہ احمدیہ میں تعلیم مکمل کرکے آپ نے بعض اداروں میں کتابت وغیرہ کا کام کیا۔ 1946ء میں آپ نے وقف کردیا اور 15؍جون کو وقف کی منظوری کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی تقرری سنگاپور اور ملایا کے لئے فرمادی۔ 3؍دسمبر کو آپ روانہ ہوکر 14؍دسمبر کو ملایا پہنچ گئے۔ سنگاپور میں آپ کو ڈیڑھ سال خدمت کا موقع ملا۔ پھر ڈیڑھ سال سماٹرا میں کام کی توفیق ملی۔ 1949ء میں نارتھ بورنیو جانے کا حکم ملا۔ اور 1953ء میں حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ واپس آکر چھ ماہ بعد بیوی بچوں کے ہمراہ واپس بورنیو چلے جائیں۔ چنانچہ ربوہ میں چھ ماہ گزار کر اپریل 1954ء میں واپس بورنیو پہنچ گئے اور مزید پانچ سال وہاں خدمت کی۔ اس دوران ایک سہ ماہی رسالہ Peace بھی جاری کیا۔ اکتوبر 1959ء میں ربوہ واپسی ہوئی اور ایک سال کے بعد دوبارہ سنگاپور، ملایا جانے کا ارشاد ہوا۔ جنوری 1961ء سے مارچ 1964ء تک وہاں خدمت بجالائے اور واپسی پر جامعہ احمدیہ ربوہ میں طلباء کو انڈونیشین پڑھانے پر مقرر کئے گئے۔ ستمبر 1967ء میں پھر سنگاپور اور ملائشیا بھجوائے گئے۔ نومبر 1970ء میں واپسی پر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں کام کیا۔1973ء میں انڈونیشیا کے لئے تقرری ہوئی۔ 1974ء سے اپریل 1977ء تک مغربی جاوا میں خدمت کی توفیق پائی اور پھر جامعہ احمدیہ ربوہ میں استاد مقرر ہوئے۔
1980ء سے 1982ء تک جلسہ سالانہ پر انڈونیشین میں رواں ترجمہ کرنے کا کام آپ کے سپرد رہا۔ 1980ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے نمائندہ کے طور پر سری لنکا کا پانچ ماہ کا دورہ کیا اور 1986ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ کی نمائندگی میں سنگاپور اور ملائشیا کاچار ماہ کیلئے دورہ کرنے کی سعادت ملی۔ 1986ء میں نمائندہ تحریک جدید کے طور پر جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کی توفیق بھی ملی۔ اس دوران جلسہ کی تقاریر کا انڈونیشین میں رواں ترجمہ بھی کیا اور اسلام آباد میں ہونے والے مربیان کے ایک ماہ کے ریفریشر کورس کے انچارج بھی مقرر کئے گئے۔
1989ء تک آپ جامعہ احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہے اور پھر سنگاپور اور ملائشیا کی تاریخ مرتب کرنے کے لئے وکالت تبشیر میں بلالئے گئے۔ پھر وکالت تصنیف میں تبادلہ ہوگیا جہاں آپ حضرت مسیح موعودؑ کی عربی کتب کا اردو ترجمہ کرنے میں مصروف ہیں۔
آپ نے اپنے پیغام میں بچوں کو اس حدیث پر عمل کرنے کی نصیحت کی جس میں آنحضورﷺ نے عشاء سے قبل سونے اور عشاء کے بعد بے مقصد باتیں کرنے کو ناپسند فرمایا ہے۔ نیز انگریزی میں ایک مقولہ کا ترجمہ ہے: جلدی سونا اور جلدی جاگنا، انسان کو صحتمند، دولتمند اور عقلمند بنا دیتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں