ام المومنین ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا

امّ المومنین حضرت ماریہ قبطیہؓ کی ازدواجی حیثیت کے متعلق بعض غیر محتاط مسلم مؤرخین نے نادانستہ اور غیرمسلم مؤرخین نے دانستہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ آپ آنحضرتﷺ کی لونڈی اور کنیز تھیں اور آپؓ کی حیثیت آنحضرتﷺ کی دوسری ازواج مطہرات سے کم تر تھی۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کی حیثیت ایک کنیز کی ہرگز نہ تھی بلکہ آنحضرت ﷺ نے آپؓ سے باقاعدہ نکاح فرما کر آپؓ کو ازواج مطہرات میں شامل فرمایا تھا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جون 2004ء میں مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے اپنے مضمون میں حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بارہ میں اس تأثر کو غلط ثابت کیا ہے۔
آنحضرتﷺ نے جب شاہان عرب وعجم کو اسلام کی دعوت دی تو قبطی قوم کے عظیم راہنما مقوقس والی مصر کو بھی ایک خط لکھا۔ مقوقس نے حضورؐ کے خط کا بہت احترام کیا اور خیر سگالی کے طور پر خط کے جواب کے ساتھ قبطی قوم کی عالی نسل کی دولڑکیاں بھی تحفتاً بھجوائیں۔ ایک ان میں سے حضرت ماریہؓ تھیں۔ جن کو آنحضرت ؐ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت ماریہ کے بطن سے حضورؐ کے فرزند ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے جو کم سنی میں ہی وفات پاگئے۔
پھر چونکہ حضرت ماریہؓ کسی جنگ میں اسیر ہوکر نہیں آئی تھیں اس لئے ان کی آزاد حیثیت برقرار تھی اور وہ ملک یمین قرار نہیں پاسکتی تھیں۔
یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت ماریہؓ سے شروع سے ہی پردہ کروایا۔ اور یہ امر مسلمہ فقہی مسئلہ ہے کہ پردہ صرف آزاد عورت ہی کرسکتی ہے۔
پھر مقوقس والی مصر نے آنحضرتﷺ کے مکتوب گرامی کے جواب میں لکھا تھا کہ … میں آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھجوارہا ہوں جنہیں قبطی قوم میں بڑا درجہ حاصل ہے۔ …
گویا اس نے حضورؐ کی تکریم کے اظہار کے طور پر انتہائی اعلیٰ خاندان کی لڑکیوں کا انتخاب کرکے بھجوایا تھا، نہ کہ غلاموں کی مارکیٹ سے خرید کر۔
حضرت ماریہ کے بطن سے آنحضرتﷺ کے جو فرزند پیدا ہوئے وہ بڑے عظیم المرتبت تھے۔ ان کی وفات پر آنحضرتؐ نے فرمایا:

لَوْعَاشَ اِبْرَاہِیْمَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا

کہ اگرابراہیم زندہ رہتا تو ایک صدیق نبی ہوتا۔ اس جلیل القدر بچہ کا نسب کسی طور پر بھی داغدار ہونا سنت الٰہی کے خلاف ہے۔ انبیاء حسباً ونسباً اعلیٰ خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں تا دشمن ان پر اس طور کا طعن نہ کر سکے۔
عربی زبان میں ایک کنیز کو حبالۂ عقد میں لانے کے لئے تزوج کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ تزوج باقاعدہ نکاح کو کہتے ہیں جو ہمیشہ آزاد عورت سے ہوتا ہے۔ حضرت صفیہؓ کے متعلق حدیث میں آتا ہے:۔

ان رسول اللّہ ﷺ اعتق صفیہ وتزوجھا۔

یعنی آنحضرتﷺ نے حضرت صفیہؓ کو آزاد کرکے آپ سے باقاعدہ شادی کرلی۔ اسی قسم کے الفاظ حضرت ماریہؓ کے متعلق بھی آتے ہیں۔ چنانچہ یہ بھی لکھا ہے کہ پھر آنحضرتﷺ نے ماریہ بنت شمعون سے باقاعدہ شادی کرلی جسے اسکندر یہ کے والی مقوقس نے رسول اللہ کی خدمت میں ہدیتہ بھیجا تھا۔
اس مضمون میں بعض شبہات کا ازالہ بھی کیا گیا ہے ۔ مثلاً کتب آثارو سیرمیں مذکور ہے کہ جب حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اعتقھا ولدھا کہ ماریہ کو اس کے بیٹے نے آزاد کردیا۔ اسی طرح حدیث بیان کی جاتی ہے کہ جب کسی کنیز کے ہاں اس کے مالک سے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے مالک کی وفات کے بعد آزاد ہوجاتی ہے۔ ان ہر دو روایات پر قاضی ابن الرشد قرطبی تنقید کرتے ہیں کہ مذکورہ دونوں احادیث محدثین کے نزدیک ثابت نہیں۔
بعض مورخین کو لفظ جاریہ سے دھوکا لگا ہے کہ یہ لفظ صرف لونڈیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ اپنے متعلق واقعہ افک کے ذکر میں جاریہ کا لفظ استعمال فرماتی ہیں۔
بعض مسلمان مورخین کو ماریہ نام سے بھی غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے علاوہ ماریہ نام کی دو خادمائیں آنحضرتؐ کی خدمت گزاری میں رہتی تھیں۔ ایک ماریہ جو جاریہ النبی کہلاتی تھی ان کی کنیت ام رباب تھی اور دوسری خادمتہ النبی کہلاتی تھیں۔ یہ مثنی بن صالح بن مہران عمرو بن حریث کی دادی تھیں۔ ان دونوں خادماؤں کے حضرت ماریہ کے ہم نام ہونے کی وجہ سے واقعات میں التباس پیدا ہوگیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں