امّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11 فروری 2009ء میں مکرمہ ص۔احمد صاحبہ کے قلم سے امّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی مقدس سیرت پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مدینہ کے یہودی قبیلہ بنونضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں جس کا شجرۂ نسب حضرت ہارون علیہ السلام تک جاتا تھا اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جا ملتا تھا۔حضرت صفیہؓ کی پہلی شادی غالباً چودہ سال کی عمر میں خیبر کے ایک یہودی سردار سلام بن مشکم سے ہوئی۔ جو دونوں کے باہمی تضاد اور طبائع کے اختلاف کی وجہ سے کامیاب نہ ہوئی اور اُس نے آپؓ کو طلاق دے دی۔ پھر آپؓ کی دوسری شادی مدینہ کے دوسرے یہودی قبیلے بنو قریظہ کے ایک سردار کنانہ سے ہوئی جو مدینہ سے جلاوطنی کے بعد خیبر میں آباد تھا۔ 7ہجری میں غزوۂ خیبر کے موقع پر قلعہ قموص کی فتح پر جو عورتیں قید ہوئیں ان میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ روایات میں آتا ہے کہ ان کا اصل نام زینب تھا۔ آپؓ اپنے قبیلہ کے ساتھ مدینہ سے جلاوطن ہونے کے بعد خیبر میں آباد ہوئی تھیں۔ فتح خیبر کے وقت آپ کی عمر سترہ برس تھی۔
کنانہ ایک سنگدل انسان تھا۔ اس کے مقابل پر صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بلند شخصیت اور اخلاق عالیہ کی مالک تھیں۔ ایک رات آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ چاند آپ کی گود میں آگرا ہے۔ یہ خواب آپؓ نے اپنے شوہر کو بتائی تو وہ آگ بگولا ہوگیا اور آپؓ کے منہ پر زور سے تھپڑ مارا اور کہنے لگا کہ کیا تو حجاز کے بادشاہ محمد (ﷺ) سے شادی کی خواہش رکھتی ہے!۔ اس تھپڑ کا نشان آپ کے چہرہ مبارک اور آنکھ پر قائم رہا۔ کنانہ کا یہ ردّعمل ثابت کرتا ہے کہ وہ حقیقۃً آنحضرت ﷺ ہی کو عرب کا بادشاہ تسلیم کرتا تھا گو حسد، بغض اور عناد کی وجہ سے آپ کی عداوت میں سرگرم عمل تھا۔ اس مبشر خواب اور کنانہ کے ردّ عمل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صفیہؓ کے دل میں آنحضرت ﷺ کا مقام و مرتبہ بھی واضح فرما دیا اور آپؐ کے لئے رغبت بھی پیدا کر دی۔ بعد میں خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے بھی آپؓ کے خواب کی یہی تعبیر ظاہر فرمائی کہ بالآخر آپؓ غیرمعمولی حالات میں آنحضرت ﷺ کے عقد میں آئیں۔
اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ جنگ خیبر کے دوران کچھ لوگ قید ہوئے جن میں ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہؐ! صفیہؓ بنو قریظہ اور بنو نظیر کی شہزادی ہیں، وہ آپؐ کے علاوہ کسی اور کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ جب آنحضرت ﷺ کے سامنے حضرت صفیہؓ پیش ہوئیں تو آپؐ نے ان کی تکریم کی اور فرمایا کہ تم اپنے دین پر رہنا چاہو تو تمہیں اس کا پورا اختیار ہے، تم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ ہاں! اگر اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرو تو اس میں بہر حال تمہاری بھلائی ہے۔ صفیہؓ نے کہا میں آپؐ کو سچا سمجھتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا میں سچا ہوں مگر جو میں نے بتایا ہے اس کے پیش نظر فیصلہ تمہارے اختیار میں ہے۔ چنانچہ صفیہؓ نے اللہ، اس کے رسول اور اسلام کو اختیار کر لیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف انہیں آزاد کر دیا بلکہ انہیں یہ بھی اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو آپؐ کے عقد میں آسکتی ہیں اور اگر چاہتی ہیں تو اپنے خاندان والوں کے پاس بھی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے حرم میں آنے کو ترجیح دی۔ آپؐ نے ان کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔ بار بار اور مسلسل ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ کوئی نہ کوئی دوسری راہ حضرت صفیہؓ کے سامنے آتی رہی جس کی وجہ سے آپؓ کا رخ آنحضرت ﷺ سے دوسری طرف بھی مڑ سکتا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے آپؓ کی سمت وہی معین کئے رکھی جو اُس کی تقدیر کے تحت آپؓ کو خواب میں بتائی گئی تھی۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب اپنے اقرباء اور اپنی آزادی پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو ترجیح دی اور آنحضرتﷺ کے حرم میں آنا پسند فرمایا تو صحابہؓ اس انتظار میں تھے کہ اگر آپؐ حضرت صفیہؓ کو پردہ میں لے آئے تو پھر وہ امہات المومنین میں سے ہوں گی اور اگر پردہ نہ کرایا تو پھر کنیز کے طور پر ہوں گی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت صفیہؓ کو پردہ اوڑھا دیا ۱ور خیبر سے واپسی پر تیسرے دن جب صہباء کے مقام پر پہنچے تو باقاعدہ رخصتانہ کے لئے تیاری کی گئی۔ حضرت انس بن مالک ؓ کی والدہ حضرت ام سلیمؓ نے حضرت صفیہؓ کو دلہن بنایا اور رخصتانہ عمل میں آیا۔ رات آنحضرت ﷺ نے آپؓ کے چہرہ پرضرب کا نشان دیکھا جس کا اثر آنکھ پر بھی تھا تو اس کے متعلق آپؓ سے دریافت فرمایا۔ آپؓ نے اپنی رؤیا اور اس پر کنانہ کے غصہ و غضب اور طیش والا واقعہ سنایا۔
حضرت صفیہؓ کا بیان ہے چونکہ جنگ خیبر میں میرے باپ اور شوہر مارے گئے تھے اس لئے میرے دل میں آپؐ کے لئے انتہائی نفرت تھی مگر آپؐ نے میرے ساتھ ایسا حسن سلوک فرمایا کہ میرے دل کی سب کدورتیں جاتی رہیں۔ آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ خیبر سے ہم رات کے وقت چلے تو آپؐ نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیا۔ مجھے اونگھ آگئی اور سر پالان کی لکڑی سے جاٹکرایا۔ حضورؐ نے بڑے پیار سے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھ دیا اور فرمانے لگے: اے لڑکی! اے حییی کی بیٹی! ذرا احتیاط کرو اور ذرا اپنا خیال رکھو۔ پھر رات کو جب ایک جگہ پڑاؤ کیا تو وہاں میرے ساتھ بہت محبت بھری باتیں کیں۔ فرمانے لگے دیکھو تمہارا باپ میرے خلاف تمام عرب کو کھینچ لایا تھا اور ہم پر حملہ کرنے میں پہل اُس نے کی تھی اور یہ یہ سلوک ہم سے روا رکھا تھا جس کی بنا پر مجبوراً تیری قوم کے ساتھ ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا جس پر میں تم سے معذرت خواہ ہوں۔ مگر تم خود جانتی ہو کہ یہ سب کچھ ہمیں مجبوراً کرنا پڑا ہے۔ حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں رسول کریم ﷺ کے پاس سے اٹھی تو آپؐ کی محبت میرے دل میں ایسی رچ بس چکی تھی کہ دنیا میں آپؐ سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہ تھا۔
حضرت صفیہؓ کو آپؐ سے ایسی محبت تھی کہ اپنی جان تک آپؐ پر نچھاور کرتی تھیں۔ چنانچہ جب آپؐ کی طبیعت ناساز ہوئی تو حضرت صفیہؓ نے نہایت حسرت سے کہا کہ کاش آپؐ کی بیماری مجھے لگ جاتی۔ اس پر بعض ازواج مطہراتؓ نے حضرت صفیہؓ کی طرف دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خدا تعالیٰ کی قسم! صفیہ سچ کہہ رہی ہے۔
آنحضرت ﷺ حضرت صفیہؓ کی بے حد دلداری اور تکریم فرماتے تھے۔ صہباء میں شادی کے بعد جب مدینہ کو روانگی کا وقت آیا تو آنحضرت ﷺ نے اونٹ پر حضرت صفیہؓ کے لئے اپنے پیچھے چادر بچھا دی اور خود اونٹ کے قریب بیٹھ گئے اور انہیں سوار کرنے کے لئے اپنا زانوئے مبارک اونٹ کے ساتھ لگا دیا اور حضرت صفیہؓ آپؐ کے زانوئے مبارک پر قدم رکھ کر اونٹ پر سوار ہوئیں۔
اس دلداری اور تکریم کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ حضرت صفیہؓ کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ فرمایا: صفیہ! کیوں روتی ہو؟ کہا عائشہؓ اور حفصہؓ مجھ کو چھیڑتی ہیں اور کہتی ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کی نظر میں زیادہ محترم ہیں اور ہم آپؐ کی زوجہ ہونے کے ساتھ آپؐ کے چچا کی بیٹیاں ہیں۔ آپؐ نے فرمایا! تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم کیسے مجھ سے بہتر ہو سکتی ہو جبکہ ہارون ؑ میرے باپ اور موسیٰ ؑ میرے چچا ہیں اور محمد ﷺ میرے شوہر ہیں۔
حضرت صفیہؓ سردار کی بیٹی تھیں اور نازو نعم والے ماحول کی عادی تھیں۔ اس کے برعکس آنحضرت ﷺ کا رہن سہن انتہائی سادہ تھا۔ لیکن یہ آپؓ کی طبیعت کا حسن تھا کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایسی ہی طرز زندگی اپنائی جو قرآن کریم کے احکام اور آنحضرت ﷺ کی توقعات کے عین مطابق تھی۔ ایک وقت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک (زوجہ مطہرہ) کے پاس صرف ایک (جوڑا) کپڑے کے علاوہ اور کپڑا نہیں ہوتا تھا۔ ازواج مطہراتؓ دنیوی زخارف اور نعماء کی طرف توجہ نہیں دیتی تھیں۔ ان کو ہر بات میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی مد نظر ہوتی تھی۔
حضرت صفیہؓ چونکہ سردار کی بیٹی تھیں اس لئے طبیعت میں فیاضی تھی۔ امّ المؤمنین بن کر مدینہ تشریف لائیں تو آپؓ کے کانوں میں سونے کے کچھ زیورات تھے۔ آپؓ نے اس میں سے کچھ حضرت فاطمہؓ کو دیدیئے اور کچھ دوسری عورتوں میں تقسیم کردیئے۔ آپؓ علمی خصوصیات کا بھی مخزن تھیں۔ لوگ آپؓ سے مسائل پوچھتے تھے۔ آپؓ کے بارہ میں لکھا ہے کہ عاقلہ، فاضلہ اور حلیم تھیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی سختی سے پابندی کرتیں۔ نہایت قانع، فیاض اور عبادت گزار تھیں۔ یتامیٰ کی کفالت کرتی تھیں۔ زہدوتقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کی۔
حضرت صفیہؓ کی وفات 50ہجری میں ساٹھ سال کی عمر میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں