امّ المومنین حضرت امّ سلمیٰؓ

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جلسہ سالانہ نمبر 2001ء میں امّ المومنین حضرت امّ سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت کے متعلق مکرمہ عطیہ شریف صاحبہ کا ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت امّ سلمہؓ کا تعلق قریش کے خاندان محزوم سے تھا۔ آپؓ کے والد ابوامیہ اپنے قبیلہ کے رئیس تھے اور بہت دولتمند تھے۔ حضرت سیدہؓ کا نام ہندہ اور کنیت امّ سلمہ تھی۔ آپؓ کا پہلا نکاح حضرت عبداللہ بن الاسود ؓ سے ہوا تھا جو ابوسلمہؓ کے نام سے مشہور ہیں۔ آغاز اسلام میں ہی ان دونوں نے قبول اسلام کی توفیق پائی۔ جنگ احد میں حضرت ابوسلمہؓ زخمی ہوئے اور ان زخموں کے سبب 4ہجری میں وفات پاگئے۔ جب آنحضورﷺ تعزیت کیلئے تشریف لائے تو حضرت امّ سلمہؓ رو رہی تیں۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کو تسلّی دی، صبر اور اس دعا کی تلقین کی کہ ’’خدا تعالیٰ مجھے ان سے بہتر جانشین عطا کر‘‘۔ جب آپؓ یہ دعا کرتیں تو سوچا کرتیں کہ بھلا ابوسلمہؓ سے بہتر جانشین کون ہوسکتا ہے؟
حضرت ابوسلمہؓ کی وفات کے وقت آپؓ حاملہ تھیں۔ جب عدت گزر گئی تو آنحضرتﷺ نے حضرت عمر فاروقؓ کے ذریعہ آپؓ کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ آپؓ نے چند عذر پیش کئے کہ صاحب عیال ہوں، عمر زیادہ ہے۔ جب آنحضرتﷺ نے ان امور کو برضا و رغبت قبول فرمالیا تو آپؓ رضامند ہوگئیں اور اپنے بیٹے سے کہا کہ رسول اللہﷺ سے میرا نکاح کردو۔
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ مَیں نے حضرت امّ سلمہؓ کی خوبصورتی کا چرچا سنا تھا لیکن جب دیکھا تو اُس سے بڑھ کر اُنہیں حسین اور خوبصورت پایا۔ آپؓ بہت عقلمند اور صاحب الرائے تھیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپؓ بھی آنحضورﷺ کے ہمراہ تھیں۔ صلح کی شرائط کے بعد رسول اللہﷺ نے جب فرمایا کہ مسلمان قربانی کردیں تو چونکہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں اس لئے مغموم مسلمانوں میں سے کوئی بھی قربانی دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ اس پر آنحضورﷺ نے حضرت امّ سلمہؓ سے سارا واقعہ بیان فرمایا تو آپؓ نے عرض کی کہ صحابہؓ حضورؐ کے فرمان کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکے اس لئے حضورؐ خود قربانی کریں اور احرام اتارنے کے لئے بال منڈوائیں۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کا مشورہ قبول فرمایا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں نے آنحضورﷺ کی پیروی میں قربانیاں کیں اور احرام اتارنے شروع کردئے۔
حضرت امّ سلمہؓ بہت سادہ اور صاف گو تھیں نہایت درجہ عبادت گزار تھیں، فیاض اور سخی تھیں۔ آنحضورﷺ کی ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہؓ کے بعد آپؓ کی دینی حیثیت اور علمی قابلیت مسلّمہ ہے۔ آنحضورﷺ کی وفات کے بعد جب بھی صحابہؓ کو کوئی مشکل پیش آتی تو وہ انہی دونوں ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ حضرت امّ سلمیٰ حدیث کا درس بھی دیا کرتی تھیں جس سے بہت سے مرد اور عورتیں فائدہ اٹھاتے تھے۔ بہت سے یتیم بچوں کو آپؓ نے پالا اور اُن کی شادیاں کیں۔ بیوگان کی خبرگیری اور غرباء کی مدد اپنا فرض خیال کرتیں۔
آپؓ آنحضورﷺ کی طبیعت کے خلاف کوئی کام کرنا پسند نہیں فرماتی تھیں۔ ایک بار آپؓ نے ایسا ہار پہن لیا جس میں کچھ سونا بھی شامل تھا۔ جب آپؓ کو علم ہوا کہ آنحضورﷺ کو ناگوار گزرا ہے تو آپؓ نے اسے اتار ڈالا۔ آپؓ کی وفات 63 ہجری میں 84 سال کی عمر میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں