اطاعت کے روح پرور نظارے

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صحابہؓ کی ارفع شان کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-
’’آنحضورﷺ کے فیض اور صحبت اور تربیت سے اُن پر وہ اثر ہوا … گویا بشریت کا چولہ اتار کر مظہراللہ ہوگئے تھے اور اُن کی حالت فرشتوں کی سی ہوگئی تھی جو یفعلون ما یؤمرون کے مصداق ہیں‘‘۔
اِنہی اصحابِ رسولﷺ کی بے مثال اطاعت کے کچھ نمونے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 و 20؍نومبر1998ء میں مکرم مسعود احمد سلیمان صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صحابہؓ کی زندگیوں میں نظر آنے والا اطاعت کا بے مثال نمونہ سوائے محبت اور عشق کے ممکن ہی نہیں چنانچہ اُن کی زندگیاں عشقِ خدا اور عشقِ رسولؐ میں سرشار تھیں۔ انہوں نے آنحضرتﷺ کی ہر حرکت اور سکون کو بڑی باریک نظروں سے مشاہدہ کیا اور پھر اپنی زندگیوں میں جاری و ساری کردیا۔اسی لئے اگر تاریخِ انسانی میں کسی کی مکمل ترین سوانح حیات موجود ہے تو وہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔
صحابہؓ کے سیرۃ رسولﷺ کے مشاہدہ کا یہ حال تھا کہ جب حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے خلاف شرپسندوں نے الزام عائد کیا کہ آپؓ نماز بھی اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کے دریافت کرنے پر یہی جواب دیا کہ: ’’اللہ کی قسم میں انہیں حضورﷺ کے طریق پر نماز پڑھایا کرتا تھا، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرتا، یہاں تک کہ جب میں عشاء کی نماز پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں کو لمبی کرتا اور آخری دو رکعتوں کو مختصر کرتا‘‘۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’میرا تمہارے بارے میں یہی گمان تھا‘‘۔
اسی طرح جب صحابہؓ نے آنحضورﷺ کو دیکھ کر وصال کے (یعنی آٹھ پہرے) روزے رکھنے شروع کئے تو آپؐ نے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا ربّ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضورﷺ بعض اعمال کو، جو آپؐ کو محبوب ہوتے ، بجالانے سے اس لئے رُک جاتے کہ آپؐ کو خوف ہوتا کہ صحابہ اس کی پیروی کریں گے اور اپنے اوپر لازم قرار دے لیں گے۔ یعنی امّت پر رحمت اور شفقت کرتے ہوئے آپؐ ایسے افعال سے رُک جاتے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک بار فرمایا کہ جب ہم حضورﷺ کے ساتھ ہوتے تھے تو آپؐ ابھی پورا حکم نہ دے پاتے تھے کہ ہم اُسے بجا لاتے تھے۔
جب شراب کے حرام ہونے کا حکم نازل ہوا اور اِس کی منادی مدینہ کی گلیوں میں ہوئی تو حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ گویا ہر گھر سے شراب نکل کر گلیوں میں بہنے لگی، مٹکے ٹوٹنے لگے اور صراحیاں اوندھی ہوگئیں۔
ایک بار آنحضورﷺ نے ایک خاتون سے پوچھا کہ اُس کی بیٹی نے جو سونے کے کڑے پہن رکھے ہیں کیا اُن کی زکوٰۃ دی ہے؟ اُس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کیا تو پسند کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے آگ کے کنگن پہنائے!۔ یہ سنتے ہی اُس عورت نے وہ کنگن حضورﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ یہ اللہ اور اُس کے رسول کے لئے ہیں۔
اسی طرح ایک صحابی کے ہاتھ میں جب آپؐ نے سونے کی انگوٹھی دیکھی تو یہ فرماتے ہوئے اُسے اتار کر پھینک دیا کہ ’’تم کیوں آگ کے انگارے کو پکڑتے ہو اور پھر اسے اپنے ہاتھ میں رکھتے ہو‘‘۔ جب حضورﷺ چلے گئے تو کسی نے اُس صحابیؓ سے کہا اپنی انگوٹھی اٹھالو اور اسے فروخت کرکے فائدہ اٹھالو۔ لیکن اُس صحابیؓ نے جواب دیا ’’نہیں نہیں، خدا کی قسم میں کبھی بھی اُس انگوٹھی کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا جسے میرے محبوب آقا ﷺ نے پھینک دیا ہو‘‘۔
ایک جنگی مہم کے وقت جب راہِ خدا میں مال پیش کرنے کی تحریک ہوئی تو حضرت عمرؓ نے سوچا کہ آج میں ابوبکرؓ سے زیادہ ثواب کما سکتا ہوں اور وہ اپنے گھر سے نصف سامان اٹھالائے۔ لیکن جب حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو انہوںنے آنحضورﷺ کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ حضور! جو کچھ میرے پاس تھا وہ سب لے آیا ہوں اور بال بچوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔ یہ سُن کر حضرت عمرؓ نے اپنے آپ سے کہا کہ میں ابوبکرؓ سے کبھی بھی نہیں بڑھ سکتا۔
حضرت حکیمؓ بن حزام بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے مالی امداد طلب کی تو آپؐ نے عطا فرمائی۔ پھر طلب کی تو عطا ہوئی، پھر طلب کی تو عطا ہوئی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ ’’اے حکیم! یہ مال تو بڑا سرسبز نظر آنے والا اور میٹھا لگنے والا ہے مگر یاد رکھو جو بھی اسے نفس کی سخاوت کے ساتھ یعنی بغیر حرص اور لالچ کے حاصل کرے گا تو اُس کے لئے اس مال میں برکت رکھ دی جائے گی اور جو بھی نفس کی حرص اور لالچ سے اسے حاصل کرے گا تو اُس کے لئے ہرگز اس میں برکت نہیں ہوگی۔ اُس کا حال ایسے شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا تو ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘۔ اس نصیحت کے بعد مرتے دم تک حضرت حکیمؓ نے کسی سے کچھ مال نہیں لیا۔ حتّٰی کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور میں اپنا حصہ لینے سے بھی انکار کردیا۔
حضرت ابوذر غفاریؓ نے تو آنحضورﷺ کی نصیحت کے بعد اپنے غلاموں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا شروع کردیا تھا جیسا وہ اپنے لئے چاہتے تھے حتّٰی کہ اپنے غلام کے لئے بھی وہی لباس تیار کرواتے جیسا خود استعمال کرتے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں ایک بار آنحضورﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ اچھا آدمی ہے، کاش کہ وہ رات کو نماز تہجد ادا کیا کرے۔ چنانچہ اِس ایک فقرہ نے حضرت عبداللہؓ کی ساری زندگی میں نماز تہجّد کا چراغ روشن کردیا جو پھر کبھی نہ بجھا۔ وہ رات کو بہت کم سوتے اور لمبی نماز ادا کیا کرتے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:- ’’اطاعت ایک بڑا مشکل امر ہے۔ صحابہ کرام کی اطاعت، اطاعت تھی‘‘۔
حضرت عمرؓ ایک بار طواف کرتے ہوئے حجرِ اسود کے پاس آئے اور اُسے بوسہ دینے کے بعد فرمایا کہ یقینا میں جانتا ہوں کہ تُو تو محض ایک بے جان پتھر ہے … اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
صحابہ کرام سَمِعنَا وَ اَطَعنَا کی عملی تصویر تھے۔ بعض دفعہ دنیاوی معاملہ میں یہ جاننے کے باوجود کہ اطاعت میں نقصان کا اندیشہ ہے پھر بھی حرف شکایت زباں پر نہ لاتے۔ ایک مرتبہ جب آنحضورﷺ نے بعض صحابہؓ کو کھجور کے درختوں پر نر پھولوں کے پولن کو مادہ پھولوں پر ڈالتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ میرا نہیں خیال کہ ایسا کرنے سے کچھ فائدہ ہوتا ہوگا۔ صحابہؓ یہ سُن کر رُک گئے۔ لیکن جب پھل بہت کم لگا تو آپؐ کے دریافت فرمانے پر انہوں نے ساری بات عرض کردی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم بعض دنیاوی معاملات میں مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو۔ میں تو ایک بشر ہوں۔ جب میں تمہیں دینی معاملات میں کوئی حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور اگر دنیاوی معاملات میں اپنی رائے سے کوئی بات کروں تو اس میں غلطی کا بھی امکان ہے۔ کیونکہ میں بھی انسان ہوں‘‘۔
یہی اطاعت کی روح ہمیں اُس صحابیؓ میں بھی نظر آتی ہے جنہوں نے گلی میں سے گزرتے ہوئے آنحضورﷺ کی آواز سنی ’’بیٹھ جاؤ‘‘۔ گو یہ ارشاد مسجد میں کھڑے ہوئے لوگوں کے لئے تھا لیکن وہ صحابیؓ گلی میں ہی بیٹھ گئے اور پھر پرندے کی طرح پھدک پھدک کر مسجد میں پہنچے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:- ’’جس آقا کی غلامی میں ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے اور دل جیتنے ہیں عالم کے۔ میں آپ کو عرض کرتا ہوں کہ اس کی غلامی کے بغیر کوئی نجات نہیں ہے۔ ایک ذرہ بھی نجات کا محمد مصطفی ﷺ کے دائرہ غلامی سے باہر نہیں ہے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں