اسلام دشمن گستاخانہ فلم کا تجزیہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 5 اپریل 2019)

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اکتوبر 2012ء میں امریکہ میں بنائی جانے والی شیطانی فلم ’’صحرائی جنگجو‘‘(Desert Warrior) کا بھرپور محاسبہ مکرم لطف الرحمن محمودصاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
اس فلم کے اداکاروں کو یہ بتایا گیا تھا کہ فلم کا تعلق دو ہزار سال قبل فرعونوں کے پرانے مصر سے ہے۔ شروع میں یہ خبر بھی لگی کہ ایک امریکن یہودیSam Bacile نے یہودیوں سے فنڈ جمع کرکے یہ فلم بنائی ہے۔ مگر اسرائیلی حکومت نے اس فلم کی مذمّت کرتے ہوئے مذکورہ خبر کی تردید کردی۔ پھر اچانک فلمساز کے طور پر 55سالہ مصری نژاد امریکی قبطی مسیحی نکولا بیسلی نکولا(Nakoula Basseley Nakoula) کا نام سامنے آیا۔ اس حوالے سے دو تنظیموں کا نام بھی میڈیا میں آیا یعنی National American Coptic AssemblyاورMedia for Christ۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور پُراسرار شخص عبدالمسیح کا ذکر بھی آیا اور مصری نژاد امریکنMorris Sadiq کو بھی اس اشتعال انگیز فلم سے جوڑا گیا۔ خبررساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی تحقیق کے مطابق نکولا بیسلی نکولا کو مختلف نام استعمال کرنے کا جنون ہے اور اُس کے پاسپورٹ پر بھی مارک بیسلی یوسف نام درج ہے۔ پادری ٹیری جونز (جس نے قرآن کریم کا ایک نسخہ جلا کر اپنی اسلام دشمنی اور کمینگی کا اظہار کیا تھا)اُس نے بھی سام بیسائل سے ٹیلیفونک رابطہ کا اعتراف کیا۔
نکولا بیسلی نکولا کئی جرائم میں ملوّث رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں نکولا کو منشیات کے جرائم میں جیل جانا پڑا۔ اُس نے سوشل سیکیورٹی نمبر کے ہیر پھیر سے لاکھوں ڈالرز کا فراڈ بھی کیا۔ اُس کے قبضے سے سینکڑوں کریڈٹ اور ڈَیبِٹ کارڈ اور پانچ مختلف شناختی دستاویزات ملیں جس پر اُسے قید اور جرمانہ کی سزائیں بُھگتنا پڑیں۔ اُس پر 5سال تک کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ تک رسائی پر پابندی عائد رہی اور اس پابندی کی خلاف ورزی کی وجہ سے اُسے 2012ء میں حراست میں لیا گیا اور جج نے اُس کو ’’معاشرہ کے لیے خطرہ‘‘ قرار دیا۔ اس شاتم رسولؐ کی زندگی پر نظر ڈالنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کایہ شعر یادآتا ہے: ؎

طعنہ بر پاکاں ، نہ بر پاکاں بَوَدۡ
خود کُنی ثابت ، کہ ہستی فاجرے

یعنی اﷲتعالیٰ کے پاک اور مقبول انبیاء و مرسلین پر معترض ناقدین کے طعنے اطلاق نہیں پاتے۔ البتہ یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ایسے مخالفین خود فاسق و فاجر ہیں۔
’’قدیم مصر‘‘ پر بنائی جانے والی اس فلم میں یہ فراڈ کیا گیا کہ عربی میں ’’ڈَبِنگ‘‘ کرتے وقت اس کے مکالمات تبدیل کردیے گئے۔ جُون2012ء میں اس فلم کو YouTube پر ڈالا گیا۔ پھر اس محرّف و مبدّل ویڈیو کا عربی ترجمہ 11؍ستمبر2012ء کو ایک مصری ٹی وی ’’النّاس‘‘ پر ڈالا گیا۔ اس پر مصر اور لیبیا میں مشتعل مظاہرے شروع ہوئے جو کئی دوسرے مسلم ممالک میں پھیل گئے اور چند دنوں میں تیس لوگ مارے گئے جبکہ لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔
جون 2012ء میں اس فلم کا انگریزی ورشن ہالی وُڈ کے ایک سینما میں دکھایا گیا اور اس کی تشہیر ’’اُسامہ بن لادن کی معصومیت‘‘کے نام پر اُس کی تصویر کے ساتھ کی گئی۔ اس فلم کا دورانیہ ایک گھنٹہ تھا۔ جولائی میں اس فلم کے بعض حصّے ایک نئے نام “Innocence of Muslims” (مسلمانوں کی معصومیت) سے یُوٹیوب پر ڈالے گئے۔

شر انگیزفلم کااصل مقصد۔ اسلام دشمنی

دراصل بدخواہوں کے قرآن کریم اور آنحضور ﷺ کی ذاتِ اقدس پر سُوقیانہ حملوں کا سلسلہ ابتدائے اسلام سے جاری ہے۔ یہودیت، عیسائیت، ہندواِزم وغیرہ اسلام کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ دہریت کوئی مذہب نہیں مگر اس نے بھی اپنا وزن اسی پلڑے میں ڈال دیا۔ ’سیکولر‘ سوچ کے حامل لوگوں نے چند صدیاں قبل یورپ میں مسیحی چرچ کو سیاسی اقتدار سے بے دخل کردیا اور گہری منصوبہ بندی کے ساتھ، آزادیٔ اظہار کا سہارا لے کر، مذہب پر حملے اور انبیاء کا مذاق اُڑانا شروع کردیا۔ یہ لوگ اپنے پیغمبروں کورسماً سچا نبی ماننے کے باوجود بھی ان پر پھبتیاں کستے ہیں۔ یہ ظالم حضرت نبی کریم ﷺ کو خدا کا فرستادہ نہیں مانتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضورؐ کی توہین انبیائے سابق سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کی طرف سے شدید ردّعمل ہوتا ہے اِس پر اُنہیں اسلام کو مزید بدنام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ کی بدولت اس فتنہ کی زہرناکی میں بے حد و حساب اضافہ ہوا ہے۔
1897ء میں احمد شاہ فائق عیسائی نے ایک دلآزار کتاب ’’امہات المؤمنین‘‘ لکھی۔ 1927ء میںایک بدزبان پنڈت نے ’ایم اے چموپتی‘ کے قلمی نام سے دلآزار کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ لکھی۔ اس کے مندرجات سے مشتعل ہوکر غازی علم الدین نے اس کتاب کے پبلشر راج پال کو 1929ء میں قتل کردیا۔ پھر ایک میگزین ’’ورتمان‘‘ میں اس سے بھی زیادہ دلآزار مضمون شائع ہوا۔ 1988ء میں سلمان رشدی کے ناولThe Satanic Verses سے اشتعال پھیلا تو امام خمینی نے رُشدی کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ جاری کیا۔ پھر بنگلہ دیش کی مصنّفہ تسلیمہ نسرین نے 1994ء میں ناول ’’لجّا‘‘ لکھا۔ اس کے علاوہ متعصّب مسیحی منّاد اور مرتدین کی طرف سے ایسا زہریلا مواد تسلسل سے شائع ہورہا ہے۔ اشتعال انگیز کارٹون اور خاکے ایک نیا اضافہ ہیں۔ 2006ء میں ڈنمارک میں یہ خاکے شائع ہوئے جو یورپی ممالک کے کئی اخبارت نے بھی چھاپے۔… مگر “Innocence of Muslims” نامی ویڈیو ان سب سے بڑھ گئی ہے۔ مصری نژاد قبطی مسیحی نکولا محض ایک کذّاب اور پرلے درجے کا بددیانت شخص ہے۔ فلم میں دکھائے جانے والے بعض واقعات کے غلط ہونے پر قرآن مجید کی آیات گواہ ہیں۔ دیگر واقعات پر سیرت کی مستند کتب اور احادیث کی شہادت موجود ہے۔ اوسط درجے کے ذہین شخص سے بھی اس قسم کی رسوا کُن علمی لغزشیں سرزَد نہیں ہوسکتیں۔ چند مثالیں پیش ہیں:
1۔ حضرت حمزہؓ اور آنحضرت ﷺ کی ولادت اور رضاعت:
زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے سیاسی ماحول میں حلیف قبائل اور خاندانوں کے معاہدے، میثاق، حلف اور رشتے ناطے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے تھے۔ حضرت عبدالمطلب رئیس مکّہ نے اسی مقصد کے پیش نظر اپنے بیٹے حضرت عبداﷲ کی شادی خاندانِ بنوزہرہ میں آمنہ بنتِ وہب سے کی اور اس رشتہ داری کو مزید مضبوط بنانے کے لئے اسی موقع پر اپنی شادی حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن ہالہ بنت وہیب سے کرلی۔ جناب ہالہ کے ہاں حضرت حمزہ پیدا ہوئے اور حضرت آمنہ کے بطن سے حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ۔ ان دونوں بچوں کو ایک ہی خاتون ’ثوبیہ‘ نے دُودھ پلایا۔ چنانچہ یہ چچا اور بھتیجا ’رضاعی بھائی‘ بھی بن گئے۔ اس وجہ سے حضورﷺ کو حضرت حمزہؓ سے گہری محبت تھی جو اُن کے قبولِ اسلام اور پھر گرانقدر خدمات کی وجہ سے مزید گہری ہوتی چلی گئی۔ مگر بدبخت فلم ساز نے آنحضورﷺ کی ولادت کو نعوذباﷲمشکوک بنانے کے لیے یہ کذب بیانی کی ہے کہ حضرت حمزہ آنحضورﷺ سے6 سال قبل پیدا ہوئے۔
2۔ ورقہ بن نوفل اور قرآن مجید:
بعثتِ نبویؐ سے کچھ عرصہ قبل آنحضور ﷺ عبادت اور مراقبہ کے لئے غارِ حِرا تشریف لے جایا کرتے تھے۔ کُتبِ احادیث میں پہلی وحی کے نزول کا واقعہ تفصیل سے درج ہے۔ حضرت جبریلؑ نے حضورﷺ کو سورۃ العلق کی ابتدائی آیات دُہرانے کے لئے کہا۔ ’’اقراء‘‘ کا لفظ جناب روح الامین کو دو تین باردُہرانا پڑا۔ حضور نے جواب میں مَاأَنَابِقَارِیۡ کہا تو جبریلؑ نے سینے سے لگا کر کسی قدر بھینچا تو حضورؐ کی زبان پر وہ آیات جاری ہوگئیں۔ وحی الٰہی کے اس پہلے تجربے کے بعد حضورؐ گھر تشریف لائے اور اپنی زوجہ محترمہ، خدیجہؓ سے کمبل میں لپیٹنے کے لئے کہا اور اپنے تجربے کی تفصیل سنائی۔ حضرت خدیجہؓ نے تسلی دی اور کچھ دیر بعد اپنے عم زاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ انہوں نے حضور ﷺ سے محبت آمیز گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا کہ غارِ حِرا میں ظاہر ہونے والا وہی فرشتہ ’ناموس‘ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر ظاہر ہوا تھا۔ پھر حضورؐ کے منصبِ رسالت پر سرفراز ہونے کے حوالے سے قریش کی متوقع مخالفت کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں زندہ رہاتو آپ کی مدد کروں گا جب قوم آپ کو یہاں سے نکالے گی۔ بعض کتب میں یہ بھی درج ہے کہ ورقہ بن نوفل نے حضورؐ کی پیشانی کو چُوما اور اپنی محبت کا اظہار کیا۔ نکولاؔ نے ان واقعات کا اپنی فلم میں ذکر تک نہیں کیا البتہ حضرت خدیجہؓ کے کہنے پر ورقہ بن نوفل سے کہلوایا ہے کہ وہ حضور ﷺ کی تائید کے لئے قرآن کو مدوّن کریں گے اور اس مقصد کے لئے تورات اور انجیل سے استفادہ کریں گے۔ مگر فلم میں جلد ہی ورقہ بن نوفل کی وفات ہوگئی اور قرآن کریم کا ’’نسخہ‘‘ تیار کرنے کا مرحلہ نہ آیا۔
اکثر مستشرقین یہی اعتراض دُہراتے ہیں کہ قرآن مجید کو تورات و انجیل سے اخذ کیا گیا ہے۔ بعض ورقہ بن نوفل، عداس (حضرت یونسؑ کا پیروکار) یا سلمان فارسیؓ وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ بعض بعثتِ نبوی سے قبل شام کے تجارتی سفروں میں عیسائی راہبوں سے ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ دراصل قرآن کریم کی معجزانہ شان کے مقابلہ میں اُن کی پسپائی کا اعتراف ہے۔ کفّارِ مکہ بھی اسی طرح آیاتِ قرآنی سے مرعوب تھے اور آنحضورﷺ پر ساحر اور شاعر ہونے کا الزام لگاتے رہے مگر قرآن مجید کی ایک سورت کی مِثل بھی لانے سے قاصر رہے۔
3۔ حضرت زینب بنتِ جحش کی طلاق کا واقعہ:
اُمّ المومنین حضرت زینب بنتِ جحش حضور ﷺ کی پھوپھی اُمیمہ بنتِ عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔ ان کا بچپن اور بلوغت تک پہنچنے کا زمانہ حضورؐ کی آنکھوں کے سامنے گزرا۔ اسی طرح زیدؓ بن حارثہ کا بچپن اور شباب بھی حضورؐ کے گھر میں گزرا۔ زید حضورؐ کے متبنّٰی تھے اور اس وقت کے دستور کے مطابق ’’زید بن محمد‘‘ مشہور ہوئے۔ حضورؐ کی ہی تجویز اور تحریک پر حضرت زینبؓ سے ان کی تزویج ہوئی۔ حضرت زینبؓ کو زید بن حارثہ کے عربی النسل ہونے کے باوجود آزاد کردہ غلام ہونے کی وجہ سے شادی سے انقباض تھا مگر قرآنی آیت (الاحزاب:37) کے نزول کے بعد مان گئیں۔ مگر پھر زیدؓ کا اُن سے نباہ مشکل ہوگیا اور ایک سال کے بعد ہی دونوں کی راہیں جُدا ہوگئیں۔ جب حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورؐ نے اُنہیں سمجھایا اور ایسا کرنے سے باربار روکا۔ قرآن کریم کی آیت (الاحزاب: 38) اس پر گواہ ہے۔ دراصل حضورؐ اخوّت اور مساوات کے اسلامی تصور کو مضبوط کرنا چاہتے تھے اور اسی مقصد کے لئے خاندانِ رسالت سے یہ مثال پیش فرمائی تھی۔ 5ہجری میں حضرت زیدؓ نے طلاق دے دی۔ عدّت گزرنے کے بعد وحیِٔ الٰہی کے تحت حضورؐ نے حضرت زینبؓ سے نکاح کر لیا۔ بلکہ قرآنی آیت میں اس نکاح کو خدائی فعل قرار دیا گیا ہے۔ اسی بِنا پر حضرت زینبؓ کہا کرتی تھیں کہ اُن کا نکاح آسمان پر مُنعقد ہوا ہے۔ لیکن اس نکاح کے حوالہ سے ہر اسلام دشمن کتاب میں لازماً کچھ نہ کچھ لکھا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں بھی یہی تأثر دیا گیا ہے کہ حضورؐ زینبؓ کے حُسن پر فریفتہ ہوگئے اور زیدؓ نے اُنہیں طلاق دے کر حضورؐ کے لئے آسانی پیدا کردی۔ اس جھوٹے افسانے میں ذرا بھر صداقت نہیں۔ اگر حضورؐ چاہتے تو پہلے ہی زینبؓ سے نکاح کرسکتے تھے۔ عرب معاشرہ میں ’’بنتِ عم‘‘ سے نکاح نہایت پسندیدہ رشتہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر حضورؐ نے خود اُن کی شادی زید بن حارثہ سے کروائی۔ اور حضرت زینبؓ سے علیحدگی کے بعد حضرت زیدؓ کی شادی اُمّ ایمنؓ سے کروادی۔ اُن کے بطن سے اُسامہؓ پیدا ہوئے جن سے حضورؐ کو بہت محبت تھی۔ کُتبِ سیرت میں ہمیں یہ منظر نظر آتا ہے کہ حسنؓ، حسینؓ کے ساتھ اُسامہؓ بھی ایک کمبل میں لپٹے ہوئے حضورؐ کی گود میں بیٹھے کھیل رہے ہیں۔ زیدؓ بن حارثہ اسلامی لشکر کی کمان کرتے ہوئے جنگ موتہ میں شہید ہوگئے تو حضورؐنے 17 سالہ اُسامہ بن زیدؓ کو اسلامی لشکرکا سپہ سالار مقرر فرمایا اور اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ کی اوڑھنی کا پرچم اپنے ہاتھ سے تیار کرکے اُسامہؓ کو دیا۔ یہ کذّاب مفسد فلم ساز، اُن مقدس وجودوں کے تقویٰ ، تقدّس اور بلند مقام کو سمجھنے کی استعداد سے محروم ہیں۔
4۔ اُمّ المومنین صفیہ بنت ِحُیَیْ سے نکاح:
ہر مؤرّخ جانتا ہے کہ مدینہ اور خیبر کے یہود اسلام کے بدترین دشمن تھے جنہوں نے کفّار مکہ کو مسلمانوں کے خلاف جنگوں پر اُبھارا اور جنگِ خندق کے موقع پر مدینہ کے اندر سے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپنے کی منصوبہ بندی کی۔ دو یہود قبیلے پہلے ہی جلا وطن ہوچکے تھے۔ تیسرے کو اُن کے اپنے مقرر کیے ہوئے حَکَم نے سزا سنائی۔ اس کے بعد بھی سکون نہ ہوا اور خیبر کے یہود مزید سر گرم ہوگئے۔ خیبر میں ان کے متعدد مضبوط قلعے تھے جو 7ہجری میں جنگ خیبر میں مسلمانوں کے قبضے میں آگئے اور ان کے عمائدین جنگی معرکوں میں مارے گئے۔ اس وقت کے آئینِ جنگ کے مطابق عورتیں قیدی بنالی گئیں۔ خیبر کا سب سے مضبوط قلعہ قموص بھی اسی انجام کو پہنچا۔ قلعہ کا رئیس کنانہ بن الربیع جو حضرت صفیہؓ کا شوہر تھا مارا گیا۔ حضرت صفیہؓ اور ان کی کزن قیدی بنالی گئیں اور رواج کے مطابق قیدی اہل لشکر میں تقسیم ہوئے تو صفیہؓ دحیہ کلبی کے حصّہ میں آئیں۔ کسی نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ صفیہ دَدھیال اور ننھیال دونوں طرف سے یہود کے دو قبائل بنو نضیر اور بنوقریظہ کی شہزادی ہیں وہ حضورؐ کے لائق ہیں۔ ان کے لئے کنیز بن جانا بڑی ذلّت ہے۔ حضورؐ نے اُنہیں بلا کر آزاد کردیا اور کہا کہ اگر وہ اپنے لوگوں میں واپس خیبر جانا چاہتی ہیں تو ایسا کرلیں۔ اگر پسند کریں تو حضورؐ سے نکاح کرسکتی ہیں۔ حضرت صفیہؓ نے اپنی مرضی سے حضورؐ کے نکاح میں آنا پسند کیا ۔ حضورؐ سے نکاح کے بعد اُن کے قبیلے کے ریاستِ مدینہ سے خوشگوار تعلقات استوار ہوگئے اور یہود اپنی ریشہ دوانیوں سے دستکش ہوگئے۔یہاں تک کہ بعض یہود نے مدینہ میں بودوباش اختیار کرلی۔ نیز خیبر و فدک کے یہود سے بھی معاہدات ہوگئے اور امن کی فضا قائم ہوگئی۔
ان حقائق کے برعکس، اس ظالم فلمساز نے یہ منظر پیش کیا ہے کہ صفیہؓ کے شوہر کنانہ بن الربیع کو رسیوں میں جکڑ کر کسی ستون یا درخت سے باندھا گیا اور حضورؐ کے حکم پر اُسے صفیہؓ کے سامنے قتل کردیا گیا۔ حالانکہ مستند کتابوں میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ حضرت بلالؓ ،صفیہؓ اور قیدی عورتوں کو میدان جنگ سے گزار کر لے آئے جہاں اُن کے اعزہ و اقارب کی لاشیں پڑی تھیں۔ اس منظر کے باوجودحضرت صفیہؓ نے سکوت اور تحمل کا مظاہرہ فرمایا مگر دوسری عورتوں نے جزع فزع اور واویلا کیا۔ اس کاعلم ہونے پر حضورؐ نے جنابِ بلالؓ کو ان الفاظ میں سرزنش کی: ’’خدا نے تمہارے دل کو کب رحم کے جذبات سے محروم کردیا ہے کہ تم ان عورتوں کو میدانِ جنگ کے بیچ سے کیوں گزار کر لائے ہو!‘‘ جس مقدس رسولؐ کا قلبِ مُطہّر اتنا نرم اور حسّاس ہو وہ ہرگز کسی بیوی کے سامنے اُس کے شوہر کو رسیوں سے باندھ کر قتل نہیں کرواسکتا۔
حضورؐ کی ازواج کو ’’اُمّہات المومنین‘‘ قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اُن مقدس خواتینِ مبارکہ کی ذرا سی توہین بھی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ چونکہ اُمہات المومنین نے اُمّت کی تربیت و اصلاح کرنا تھی اس لئے حرم نبوی میں حضرت نبی کریمﷺ نے محبت ودلداری کے ساتھ ساتھ، اُمّہات المومنین کی تربیت و اصلاح پر بھی نظر رکھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ، حضرت حفصہؓ نے حضرت صفیہ کو ’یہود کی بیٹی‘ کہہ کر بلایا۔ حضرت صفیہؓ نے رو کر حضورؐ سے شکایت کی۔ حضورؐ نے صفیہؓ کی دلداری کرتے ہوئے فرمایا کہ ہارونؑ تمہارے باپ ہیں۔ موسیٰ ؑتمہارے چچا ہیں اور محمدرسول اﷲؐ تمہارے شوہر ہیں۔ ان میں ایسی کیا فضیلت ہے کہ تم سے حقارت سے پیش آئیں۔ اس کے بعد حضرت حفصہؓ کو نصیحت فرمائی کہ خُدا سے ڈرو!
ایک اور موقع پر حضرت عائشہؓ نے حضرت صفیہ ؓ کے قدو قامت کے متعلق کوئی جملہ کہا تو حضورﷺ کو یہ بات پسند نہ آئی اور حضورﷺ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اُسے سمندر میں ڈالا جائے اُسے بھی گدلا کردے‘‘۔ پس یہ گریہ اور ماتم کا مقام ہے کہ عقل کے اندھوں کو اس مقدس و مطہر ماحول میں جنسی لذّت کی تسکین کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

ناپاک فلم پر ردّ عمل کا تجزیہ

جس مسلمان نے بھی اس ناپاک فلم کو دیکھا اُس کے دل پر چھریاں چل گئیں۔ جس نے اس کا ذکر سُنا وہ تڑپ اُٹھا۔ احتجاج ریکارڈ کرانا ان کا حق تھا۔ افسوس کہ پُر امن احتجاج کی بجائے اکثر جگہ مظاہرین حدود سے تجاوز کرگئے اور قریباً 20 ملکوں میں 26لوگ مارے گئے۔ قاہرہ میں مشتعل مظاہرین امریکی سفارت خانہ کی دیواریں توڑ کر اندر داخل ہوگئے۔ لیبیا میں انصارالشریعہ کے جنگجوؤںنے امریکی سفیرChris Stevens اور تین دیگر سفارتکار قتل کردیے۔ پاکستان میں مشتعل مظاہرین نے 76بلین روپے کی نجی اور سرکاری املاک برباد کی۔ پولیس کی گاڑیاں نذرِ آتش کردیں، بنکوں اور ATM مشینوں کو توڑ کر لُوٹ مار کی، دکانوں کے شٹر توڑ کر جو کچھ ان ’عاشقانِ رسول‘ کے ہاتھ لگا ’تبرُّک‘ سمجھ کر لے اُڑے! کراچی میں 5 اور پشاور میں 2 سینما گھر اور ایک چرچ جلادیے گئے اور ان کا سامان ’مالِ غنیمت‘ قرار پایا۔ مرکزی وزیر غلام احمد بلور نے اس فلم کے فلمساز کو قتل کرنے والے کو ایک لاکھ ڈالر اپنی جیبِ خاص سے دینے کا اعلان کیا۔ نیز بعض علمائے سوء نے تیسری عالمگیر جنگ چھیڑنے اور ایٹم بم چلانے کی دھمکی بھی دی۔

آزادیٔ اظہار اور دوہرا معیار

نکولا کی اس ناپاک فلم کو مسلم ممالک کے مظاہرین نے ضبط کرنے اور فلم کو بنانے والوں کا محاسبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ میں مسلم لیڈروں نے توہینِ رسالت کی روک تھام کے لئے قانون سازی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ صدر اوبامہ اور امریکی حُکّام نے اس حوالہ سے امریکی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی اور صدر اوبامہ نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے اس فلم کی مذمّت کی۔ اسے ایک ظالمانہ اور گھٹیا فعل قرار دیا مگر ساتھ ہی کہا کہ آزادیٔ اظہار کے قانون کی وجہ سے اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اس لیے اس فلم پر نہ پابندی عائد کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اسے یوٹیوب سے نکالا جا سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی کم و بیش یہی صورتِ حال تھی بلکہ بعض مغربی ممالک ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے حوالے سے زیادہ جارحانہ پوزیشن رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس فلم کے بعد فرانس کے ایک رسالہ Charlie Hebdo نے حضرت نبی کریمﷺ کی توہین پر مشتمل نئے کارٹون شائع کیے اور اس کے ایڈیٹر نے ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ’’میں فرانس کے قانون کے ماتحت رہتا ہوں، قرآن کی شریعت کے ماتحت نہیں‘‘۔ ان خاکوں کے حوالہ سے فرانسیسی حکومت نے بھی جارحانہ پوزیشن اختیار کی اور کہا کہ یہاں کسی بین الاقوامی قانون کو لاگو نہیں کیا جائے گا کیونکہ دوسرے مذاہب کے احترام کی طرح، آزادیٔ اظہار اور سیکولرازم فرانس کے بنیادی اصول ہیں۔
محسوس یہی ہوتا ہے کہ ’آزادیٔ اظہار‘ کی برق صرف اسلام اور مسلمانوں پر گرتی ہے۔اسی قانون میں دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے لئے نرمی کی گنجائش نکال لی جاتی ہے۔ ’ہالوکاسٹ‘ کے سانحے پر ’ایمان‘ لانا تورات کا مطالبہ نہیں، مسلمان بھی اس کی مُذمّت کرتے ہیں۔ مگر یورپ اور امریکہ میں اس کا انکار یا اس کے بارہ میں شک و شبہ کا اظہار جُرم ہے جس کی سزا قید اور جُرمانہ ہے۔ مغربی میڈیا اور گوگل وغیرہ احتجاج اور دباؤ کے زیر اثر ’ناپسندیدہ‘ مواد ہٹا بھی لیتے ہیں۔ سطح سمندر پر چلنا حضرت عیسیٰ ؑکا ایک مشہور معجزہ ہے جس کا تین اناجیل میںذکر موجود ہے۔ (متی بات14آیات26 و 27، مرقس باب 6آیت 47، یوحنا باب 6آیت19)۔ جب ’’انرجی ڈرنک‘‘ کے ایک اشتہار میں حضرت عیسیٰؑ کو پانی پر چلتا دکھایا گیا جس میں اُن کا ساتھی کہہ رہا تھا کہ یہ اس لئے پانی پر چل رہے ہیں کہ انہوں نے فلاں شراب پی ہوئی ہے۔ اس پر شدید احتجاج ہوا اور اس دباؤ کے زیر اثر یہ اشتہار ہٹا لیا گیا۔ وہاں کسی نے آزادیٔ اِظہار کا نام تک نہیں لیا۔ حالانکہ نکولا کی اشتعال انگیز فلم کے مقابلے میں یہ اشتہار ایک معمولی چیز ہے۔ پھر ایک اور اشتہار میں ایک حاملہ راہبہ (Nun) کو آئس کریم کھاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ چونکہ ہر نن کو عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور عقیدتًا اُسے حضرت عیسیٰؑ کی روحانی منسوبہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس اشتہار پر بھی عیسائی دنیا میں احتجاج ہوا تو یہ اشتہار بھی واپس لے لیا گیا اور کسی نے آزادیٔ اِظہار کی دلیل نہیں دی۔ یہ ’آزاد‘ اور ’مہذب‘ مغربی دنیا کے دوہرے معیار کا المیہ ہے۔
امریکی قانون کے مطابق اگر کسی سینما یا تھیٹر میں لفظ ’Fire‘ بآواز بلند کہہ دیا جائے تو یہ ایک ایسا جُرم ہے جس پر پولیس حرکت میں آجاتی ہے۔ صرف اس بنا پر کہ یہ لفظ کہنے سے لوگ مضطرب ہوکر دوڑ پڑیں گے۔ مگر ایک ایسی ناپاک فلم کو آزادیٔ اِظہار کے نام پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس سے دنیا کے 56ممالک میں بسنے والے ڈیڑھ بلین مسلمانوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
امریکہ کا آئین 1787ء میں لکھا گیا۔ اس میں اب تک 27 ترامیم کی جاچکی ہیں۔ آخری ترمیم کی توثیق 7مئی 1992ء کو کی گئی۔ پہلی دس ترامیم، جن میں آزادیٔ اظہار کی ترمیم بھی شامل ہے، Bill of Rights کہلاتی ہیں۔ اگر عوامی نمائندے چاہیں تو انبیاء کی توہین کو جُرم قرار دیے جانے کی ترمیم کو بھی آئین کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ کی ہدایات

اس فلم سے متعلق عالمِ اسلام سے چند معتدل آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ مثلاً سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم نے کہا کہ احتجاج کے نام پر امریکی سفارت خانوں پر حملے غیر اسلامی فعل ہیں۔ مفکر جناب جاوید غامدی نے نصیحت کی کہ صبر کے ساتھ اس مسئلہ کا جائزہ لینا چاہیے اور امن کے دائرہ میں رہ کر احتجاج کرنا چاہیے ۔ تشدُّد اور قانون شکنی سے ہمارے دین اور ہمارے کاز کو نقصان پہنچے گا۔ ملائشیا کی 16غیرسرکاری تنظیموں کے ایک وفد نے امریکی سفارت خانے میں جاکر واضح کیا کہ اسلام کی یہ توہین ناقابلِ قبول ہے۔ اس موقع پر محبت رسولﷺ سے سرشار حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دل نے بڑے سوزوگداز سے اپنے خطبات میں اُمّت مسلمہ کو متوجہ کرتے ہوئے درج ذیل نصائح فرمائیں:
= صبر وتحمل کے ساتھ پُرامن احتجاج مسلمانوں کا حق ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لیے بغیر احتجاج کیا جائے۔
= حضرت نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر کثرت سے درود و سلام بھیجا جائے۔
= رسول کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے تعارف کے لیے سیرت نبویؐ کے موضوع پر لٹریچر کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی جائے۔ (حضورؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف ’’لائف آف محمد‘‘ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب’’سیرت خاتم النبیین ؐ‘‘ کا ذکر بھی فرمایا۔)
= سیرت النبی ﷺ پر کثرت سے جلسے، سیمینار اور انٹرفیتھ پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔
= مخالفین کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لیے اخبارات و رسائل میں تحقیقی مضامین اور اعتراضات کا ردّ لکھا جائے۔
= انٹر نیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ پر حضرت نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے مواد ڈالا جائے۔
اس کے علاوہ حضورانور ایدہ اﷲتعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں دنیا کے مشہور مفکرین، مصنفین اور لیڈروں کے اُن اقوال اور اقتباسات کو یکجا فرمایا جن میں آنحضور ﷺ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ نیز حضور نے احمدی وکلاء کو’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے قانون کا تنقیدی جائزہ لینے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جائزہ لیں کہ حضور ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ حضور نے مختلف ممالک کے احمدی وکلاء کے درمیان اس مواد کا تبادلہ کرکے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کا بھی ارشاد فرمایا ۔ نیز ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور نے مختلف ممالک کے اُن احمدیوں کو جو سیاستدانوں اور اربابِ حکومت کے قریب ہیں یہ ہدایت فرمائی کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لئے آزادیٔ اظہار کے قانون میں ترمیم و اصلاح کی گنجائش نکالنے کے لئے جدّوجہد کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں