وقت کی اہمیت۔دینی و دنیاوی نقطۂ نگاہ سے

روزنامہ ’الفضل ربوہ ‘‘ 30جولائی 2012ء میں مکرم ندیم احمد فرخ صاحب کا وقت کی اہمیت کے حوالہ سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
وقت ضائع کرنا ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے کیونکہ جو وقت گزر جاتا ہے وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس انسانی خواہش کا ذکر فرماتا ہے کہ:(کیا ممکن ہے کہ) ہمیں پھر دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ہم جو کچھ (بُرے ) عمل کرتے تھے ان کی جگہ دوسرے (نیک) عمل کرنے لگ جائیں۔ (الاعراف 54:)
چنانچہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی

وقت کی قدر و قیمت سمجھنے اور پھر وقت کے ضیاع سے بچنے کا درس ہمیں اس بات سے ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ تُو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’عمر ایسی بے اعتبار اور زندگی ایسی ناپائیدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی۔ اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرے قدم اُٹھانے تک زندہ رہیں گے یا نہیں۔ پھر جب یہ حال ہے کہ موت کی گھڑی کا علم نہیں… تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کے لئے تیار رہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:’’یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب تر کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو!‘‘
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اپنے معمولاتِ دن بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ اور پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے، یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے۔ کوئی مشغول اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے، مجھے سخت ناگوار ہے۔ جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا، پینا اور سونا حرام کرلیتا ہوں جب تک وہ کام نہ ہو جائے۔ ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں۔ بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے۔‘‘
یہی حال حضورعلیہ السلام کے خلفاء کا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں:
’’وہ کیا بد قسمت انسان ہے جو اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ احمدی نوجوانوں کو اپنی عمر سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اپنی اس عمر کو اک نعمتِ عُظمیٰ سمجھو
بعد میں تاکہ تمہیں شکوۂ ایّام نہ ہو

ایک موقع پر فرمایا:
’’وقت نہایت قیمتی چیز ہے جو وقت کو استعمال کرے گا وہی جیتے گا اور جو ضائع کرے گا وہ ہارجائے گا۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
’’بیہودہ وقت ضائع کرنا روحانیت کو مارنے والی چیز ہے … ایسا نکمّا آدمی دنیا میں ایک تو بتاؤ جو خدا کا محبوب بن گیا ہو۔ بلکہ ایک ایسا انسان تو محبّ بھی نہیں بن سکتا کیونکہ خداتعالیٰ سے محبت بھی اسے نصیب ہو سکتی ہے جو وقت کی قدر جانتا ہو۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے منظوم کلام میں فرمایا ہے:

کام مشکل ہے بہت منزلِ مقصود ہے دُور
اے میرے اہل وفا سست کبھی گام نہ ہو
ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں
آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بد نام نہ ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ارشاد ہے:’’زندگی وقت کے ایک بامقصد مَصرف کا نام ہے۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’میرا جائزہ اور تجربہ یہ ہے کہ جب مصروف آدمی کے سپرد کام کئے جائیں تو وہ ہو جاتے ہیں۔ فارغ وقت والے آدمی کے سپرد کام کئے جائیں تو وہ نہیں ہوتے۔ کیونکہ فارغ وقت والا وہی ہوتا ہے جس کو اپنے وقت کی قیمت معلوم نہیں ہوتی اور وقت ضائع کرنا اس کی عادت بن چکا ہوتا ہے۔اس لئے اگر فارغ وقت آدمی کو پکڑنا ہے تو رفتہ رفتہ اسے مصروف رہنا سکھانا ہوگا اور اس کے لئے بعض دفعہ اس کے مطلب کی چیز اس کے سپرد کی جائے تو رفتہ رفتہ اس کام کی عادت پڑجاتی ہے۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد ہے:
’’اب سونے کا ٹائم ختم ہوچکا ہے اب تیز دوڑنے کا وقت ہے۔‘‘
مقولہ ہے کہ کچھ لوگ وقت کو ’استعمال‘ کرتے ہیں۔ کچھ ’خرچ‘ کرتے اور کئی لوگ اسے صرف ’گزارتے‘ ہیں۔ پس ’ہارڈ ورک‘ کی بجائے ’سمارٹ ورک‘ کا راستہ منتخب کریں یعنی مسلسل کئی گھنٹے کام کرنے کی بجائے تھوڑے وقت میں زیادہ کام۔ اسی طرح روز کا کام روز کیجئے۔ آج کا جو کام آپ آج نہیں کرتے اُسے ’کل‘ کرنے کے لئے دوگنا اور ’پرسوں‘ کرتے ہوئے تین گنا زیادہ وقت، صلاحیت اور قوت درکار ہوگی۔
کام کو ’آج‘ سے کرنے کی عادت ڈالیں۔ یعنی اگر فیصلہ کرلیں کہ یہ کام میرے لئے ضروری ہے تو اس کے آغاز کے لئے موزوں وقت کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہ رہیں بلکہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا قدم اسی وقت اٹھالیں۔
چونکہ وقت ایک انتہائی قیمتی سرمایہ ہے اس لئے کچھ لٹیروں کی ہر وقت آپ کے قیمتی سرمائے پر نظر رہتی ہے۔ ان سے اپنے سرمائے کو محفوظ رکھیں۔ مثلاً ٹی وی دیکھنا، کمپیوٹر اور ایسی ہی دوسری چیزوں سے ریلیکس ہوجانا۔ ترجیحات کے انتخاب میں ہم بہرحال آزاد ہیں۔
یاد رکھیں ہمیشہ وہی اقوام اور وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے وقت کے پابند ہوتے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کرتے ہیں۔ انہی کامیاب لوگوںمیں سے ایک چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب ہیں۔ چنانچہ محترم سید یاور علی صاحب اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب کہا کرتے تھے کہ ’’وقت کی پابندی ان کا ایسا اصول تھا کہ بِلامبالغہ چوہدری صاحب کو دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیاں درست کر لیا کرتے تھے۔ اُن کی زندگی میں وقت کی پابندی کا عنصر بڑا حیران کن تھا۔ ان کا زندگی گزارنے کا طریق بڑا نپاتلا اور طے تھا۔ دو باتیں ان کی زندگی میں بہت اہم تھیں، وقت اور دولت کی صحیح تقسیم۔ وہ اپنا وقت اس طرح تقسیم کرتے تھے کہ ان کا وقت ان کے اپنے لئے بہت کم ہوتا تھا۔ یوں کہئے کہ ان کے پاس دوسروں کے لئے وقت، ہر وقت نکل آتا تھا۔ جتنے بھی عظیم آدمی ہیں ان کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کی منصوبہ بندی بڑی احتیاط سے کرتے تھے اور وہ ایک دن میں عام آدمی کی نسبت بہت سے کام زیادہ کرسکتے تھے۔‘‘
ایک دفعہ حضرت چودھری صاحبؓ کو جسٹس انوارالحق صاحب سے لندن میں ملنا تھا۔ پونے آٹھ بجے کا وقت مقرر تھا۔ آپؓ کو مکرم چوہدری انور کاہلوں صاحب نے لے کر جانا تھا۔ آپؓ نے سات بجے ہی یاد دہانی کروانا شروع کردی اور جب ذرا تاخیر کا اندیشہ ہونے لگا تو آپؓ نے چوہدری صاحب موصوف کو مخاطب ہو کر کہا: وقت کی پابندی کے متعلق میری عمر بھر کی روایات تم مجھے لیٹ کروا کر توڑ دو گے۔ جناب جسٹس انوارالحق صاحب یہ واقعہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو منظم کیا ہوا تھا۔‘‘
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ) نے بیان کیا کہ ’’چوہدری صاحب دفتر میں سب سے پہلے پہنچتے تھے۔ اگر میٹنگ نوبجے رکھی ہوتی تو نو بجے سے ایک منٹ قبل ہی وہ مقررہ جگہ پر پہنچ جاتے۔‘‘
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’سعادتمند وہ ہے کہ جس نے وقت پایا اور پھر اُسے غفلت میں ضائع نہ کیا۔‘‘ (اعجاز المسیح)

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “وقت کی اہمیت۔دینی و دنیاوی نقطۂ نگاہ سے

  1. بہت خوبصورت مضمون ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرمائے۔ اک چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ حوالہ جات کی کمی ہے۔

    1. جو مضامین الفضل ڈائجسٹ میں شائع ہوتے ہیں وہ عموماً کسی تفصیلی مضمون کا خلاصہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اصل مضمون کا حوالہ اسی لیے دیا جاتا ہے تاکہ جو دوست تفصیل سے استفادہ کرنا چاہیں انہیں آسانی ہو۔ اصل مضمون میں حوالہ جات بھی موجود ہوتے ہیں اور حسب ضرورت بعض امور تکرار کے ساتھ بھی بیان ہوتے ہیں- تاہم خلاصہ تیار کرتے وقت یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ اصل مضمون کا کوئی نکتہ بیان سے باہر نہ رہ جائے اور لیکن زواید امور چھوڑ دیئے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں