نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر24)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر24)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

کینیڈا میں ہائی سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء کی
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نشست
(بتاریخ 24مئی 2013ء بمقام مسجد بیت النور کیلگری)

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے انگریزی ترجمہ سے ہوا۔
اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود کا منظوم کلام ؎

کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

خوش الحانی کے ساتھ پیش کیا گیا اور اس نظم کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔
…٭… ایک تعارفی ایڈریس کے بعد پہلی پریزینٹیشن Evolution (مخلوق کا ارتقاء) کے عنوان پر دی گئی جس میں قرآن کریم کی آیات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ قرآن کریم نے ہمیں پندرہ سو سال قبل بتا دیا ہے کہ زندگی کی تخلیق میں اور زندگی کی بقا میں پانی کی کس قدر اہمیت ہے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کی ابتدا کھنکنے والی مٹی سے ہوئی اور موجودہ سائنسی تحقیقات سے بھی یہی پتہ چلتا ہے۔
اس کے بعد Presenter نے تخلیق حیات کے ارتقائی دَور کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ مختلف مخلوقات کے بغور مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ مخلوقات محض اتفاق کا نتیجہ ہیں بلکہ ان کی تخلیق اور رہن سہن میں کامل صناعی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں موصوف نے شہد کی مکھی کی مثال کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔
…٭…اس کے بعد OSM and Infection Response کے عنوان پر Presentation دی گئی جس میں انسانی جسم میں پنہاں OSM کیمیکل کے بارہ میں بتایا۔ موصوف نے بتایاکہ وہ انفیکشن اور سوجن کے پیچھے موجود مختلف کیمیکلز کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے خاص طور پر OSM نامی کیمیکل پر تحقیق کی ہے۔ ان کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ واقعی OSM کا انفیکشن اور انفلیمیشن میں خاص کردار ہوتا ہے۔
پریزنٹیشن کے بعد حضور انور نے دریافت فرمایا کہ OSM میں’’ M‘‘ کس چیز کا قائمقام ہے۔ جس کے جواب میں موصوف نے عرض کیا کہ یہ غالباً جس وقت یہ کیمیکل دریافت ہوا تھا اس سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یعنی ریسرچ اس وقت ابتدائی مراحل میں ہے۔
…٭…بعدازاں Sleep Apnea یعنی رات کو سوتے ہوئے سانس لینے میں تکلیف کے موضوع پر لیکچر ہوا جس میں بتایا گیا کہ Sleep Apnea ایک ایسی حالت ہے جس میں مریض رات کو ٹھیک سو نہیں سکتا اور بہت مشکل سے سانس لیتا ہے۔ اس کی وجہ موٹاپا ہے اور جنوبی امریکہ میں تقریباً پندرہ ملین لوگ اس بیماری کا شکار ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں پندرہ ملین لوگ موٹاپے کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈاکٹر آجکل اسی فیلڈ میں تخصص کر رہے ہیں اور یہ بہت ہی فائدہ مند کاروبار بن گیا ہے۔
حضور انور نے فرمایا اس بیماری کی وجہ کیا ہے؟ جس پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک موٹاپا بھی ہے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا تو کیا اس بیماری میں ساری رات نیند ہی نہیں آتی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جسم تو سو جاتا ہے مگر اس حالت میں دماغ نہیں سو سکتا۔ جس کی وجہ سے سونے کے باوجود تھکاوٹ، ڈپریشن اور مزید مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے ڈرائیونگ حادثات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایسے مریضوں پر ڈرائیونگ کی پابندی لگائی جاتی ہے۔
حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کس طرح یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون اس بیماری میں گاڑی نہیں چلاسکتا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جس کسی میں اس مرض کی تشخیص ہو جائے اسے گاڑی چلانے سے روکا جاتا ہے۔ فی الحال یہ صوبائی درجہ پر ہورہا ہے اور جس کسی میں اس مرض کی تشخیص ہو جائے تو حکومتی اداروں کو مطلع کر دیا جاتا ہے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ جن کو یہ بیماری ہے کیا ان میں دل کی بیماری کے امکانات زیادہ ہیں۔ نیز حضور انور نے فرمایا کیا یہ بھی ریسرچ کی ہے کہ ان میں خدا کو ماننے والے کتنے ہیں اور نہ ماننے والے کتنے ہیں۔ یعنی یہ دیکھا جائے کہ مذہب پر عمل کرنے والے کتنے ہیں اور دہریہ، مذہب پر نہ عمل کرنے والے کتنے ہیں۔
اس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ دہریوں میں یہ بیماری لمبی اور دیر پا ہوتی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ دعویٰ ٹھیک ہے نا کہ

اَلَابِذِکْرِ اللّٰہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔

بس نمازیں پڑھو اور اللہ کو یاد کرو۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ خود بھی اپنے آپ کو پیش کریں۔

اَلَابِذِکْرِ اللّٰہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ

پر لیکچر دیں۔
حضور انور کے دریافت فرمانے پر موصوف نے بتایا کہ انہوں نے رومانیہ سے MBBS کیا ہوا ہے اور وہ امیر صاحب کینیڈا کی ہدایت پر ملک ایکواڈور اور بولیویا بھی گئے تھے تاکہ وہاں جائزہ لیا جاسکے کہ جماعت یہاں کیا طبی خدمات بجالاسکتی ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ سپیشلائز کرلیں تو ربوہ میں طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ بھی جائیں۔

طلباء کے ساتھ مجلس سوال و جواب

اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
…٭…ایک طالب علم نے سوال کیا کہ آجکل دنیا کا مالی نظام سود پر چلتا ہے تو ہم اسلام کی تعلیم کو کیسے نافذ کر سکتے ہیں؟
حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ: بات یہ ہے کہ جویہ سارا سسٹم ہے ایک لحاظ سے توسود پر مبنی ہے کہ بینک کسی کو قرضہ دیتا ہے اور پھر جب واپس لیتا ہے تو اس میں سود رکھاہوتا ہے۔ لیکن یہ جو موجودہ اقتصادی نظام ہے ، اس میں جب کاروبار خراب ہو جاتا ہے تو دیوالیہ کا اعلان کردیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ اپنا قرض واپس دینے کے ذمہ دار نہیں رہتے۔ اگر اثاثہ جات ہیں تو پیسہ واپس کر دیں گے۔ اگر اتنا سرمایہ نہیں ہے تو عدالت حکم دے دیتی ہے کہ قرضہ معاف ہو جائے۔ اس لئے یہ وہ نظام نہیں ہے جس طرح سود کا نظام ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ یہ جو بینکنگ کا نظام ہے اس میں کچھ چیزیں ایسی زیر و زبر ہو چکی ہیں اورسارا نظام ڈسٹرب ہو چکا ہے کہ اس کو کچھ کر نہیں سکتے۔ اس میں مزید اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس اجتہاد کے لئے کچھ عرصہ پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ میں نے بھی اس میں مزید کچھ لوگ ڈالے جو فائنانس کے ماہر ہیں۔ وہ کمیٹی ابھی اس پر غور ہی کر رہی ہے۔ ابھی تک ان کا جواب نہیں آیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پہلے یہ سارا نظام سود کا تھا کہ آپ نے قرضہ کسی سے لیا ہے اور قرضہ دینے والا اس کا سود کا ریٹ پہلے بڑھاتا ہے اور اس کی سمجھ ہی نہیں آتی کہ پہلے 10 فیصد سود ہے تو دو سال کے بعد 80 فیصد یا سو فیصد ہو جاتا ہے۔ اور پھر اگر آپ نہیں دے رہے تو بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر اتنا بڑھ جاتا ہے کہ جس نے قرض لیا ہوتا ہے اس کی استطاعت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس کو واپس کر سکے۔ اس لئے ایسا سود بالکل اور چیز ہے اوربینک کا سُود اور چیز ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:آپ نے گھر کی بات کی ہے کہ گھر خریدنا ہے۔ اگر آپ مارگیج [Mortgage] پر گھر لیتے ہیں اور اس گھر میں خود رہنا ہے تو وہ آپ کیلئے جائز ہے۔ لیکن ویسے اگر آپ کرائے کا گھر لیتے ہیں اور کرایہ مارگیج کے برابرہوتا ہے۔ تو وہ آپ کے لئے اس لئے جائز ہے کہ اس گھر میں رہتے ہوئے یہی سمجھیں کہ آپ بینک کوکرایہ دے رہے ہیں اور ساتھ اس جائیداد کے مالک بھی بن رہے ہیں۔ کیونکہ ایک اس کامخصوص حصہ آپ ڈاؤن پیمنٹ [down payment] کے طور پر آپ پہلے ہی دے چکے ہیں اور اپنی جائیداد بنتی چلی جا رہی ہے۔ اس حد تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر کاروبار کے لئے آپ real estate میں سرمایہ لگا رہے ہیں اور گھر بناتے ہیں اور کرایہ پر چڑھا دیتے ہیں تو یہ کاروبار ہے اور اس میں سود شامل ہے۔ اور ابھی تک جماعت میں یہی تعامل ہے کہ وہ جائز نہیں۔ اپنے رہنے کیلئے لے سکتے ہیں۔ اس صورت میں قرضہ واپس کرنا کرایہ کے متبادل ہوگا۔
حضورانورا یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: باقی کاروباروں میں تو آج کل سود اتنا زیادہ ہے کہ پھر تو آپ کپڑے بھی نہیں پہنیں گے، ٹائی بھی نہیں لگائیں گے، کھانا بھی نہیں کھائیں گے کیونکہ ہر کاروبار میں سود شامل ہو چکا ہے۔ تو ہر چیز میں بِلا واسطہ سود شامل ہے۔ اسی لئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔
…٭…ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ حضور جب اسکول میں تھے تو حضور کا پسندیدہ مضمون کون سا تھا؟
اس پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں تو پڑھائی میں اتنا اچھا نہیں تھا۔ بہر حال عملی طور پر مجھے زراعت پسند تھی، جو میں نے پڑھی تو نہیں لیکن آخر جب میں یونیورسٹی گیا تو میں نے deficiency courses کئے۔لیکن جتنا میں نے پڑھا تھا اس سے زیادہ میری عملی تعلیم تھی۔
…٭…ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ انسان نفسِ مطمئنہ کی حالت تک کیونکر پہنچ سکتا ہے اور اسے کیسے پتہ لگے گا کہ وہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : اگر آپ ہر وقت بے چین رہتے ہیں تو پتہ چل جائے گا کہ نفسِ مطمئنہ حاصل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کی دعاؤں کی طرف توجہ رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رہتی ہے۔ دنیا داری کی طرف توجہ زیادہ نہیں ہے اور اطمینان ہے تو سمجھیں آپ کا دل نفسِ مطمئنہ کی طرف جا رہا ہے۔ اوراگر ہر چیز کی بے چینی ہے اور بے اطمینانی ہو رہی ہے تو پھر دعا کریں اور استغفار کریں۔
ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف جو فلم آئی تھی تو اس کا ہمیں کیاجواب دینا چاہئے؟
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں پہلے ایک کہانی سناتا ہوں۔ کسی نے یوسف اور زلیخا کی لمبی چوڑی کہانی لکھی ہے۔ پوری ایک کتاب ہے۔ جس زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ورغلانے کی کوشش کی تھی اس کی کہانی ہے۔ اور ایک پنجابی میں لمبی چوڑی نظم کی صورت میں ہے۔ کسی نے یہ کہانی اردودان کے سامنے سنائی اور ساری رات وہ نظم پڑھتا رہا۔ اور وہ بندہ بڑے غور سے ساری رات سنتا رہا۔ تو جب صبح ہو ئی تو وہ اردو دان نظم پڑھنے والے سے پوچھتا ہے کہ زلّے خان آدمی تھا کہ عورت تھی۔یعنی اس نے زلیخا کو زلّے خان بنا دیا۔
حضورانور ایدہ اللہ اتعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تو آپ کو ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ کیا جواب دینا چاہئے۔ میں نے اس پر کئی خطبے دئیے، اس پر کئی پروگرام بنے، جماعت کو میں نے کہاکہ پمفلٹ تقسیم کریں، پیس کانفرنسز کریں ، سیرت پر کانفرنسز کریں ، سیمینارز کریں، AMSA (احمدیہ مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن)کو میں نے کہا کہ اپنی یونیورسٹیز میں سیمینار کریں، پچھلے دو سال سے میں بتارہا ہوں۔ابھی تک آپ کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا کریں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اپنے کالج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر پمفلٹ وغیرہ لے کر جائیں۔ وہاں طلباء کو دیں۔ پہلے خودبھی پڑھیں اور پھر جب کوئی بحث کرے تواسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کے متعلق بتائیں۔ میں جتنے لیکچرز دیتا ہوں ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا پہلو ضرور بیان کرتا ہوں۔ ابھی میں نے لاس اینجلیز امریکہ میں بھی ایڈریس کیا ہے اور میرا سارا لیکچر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت وہ ہے جو امن اور محبت اور پیار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں نے ان کو وہاں مثال دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ گزرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو گئے۔ ساتھ بیٹھے ہوئے صحابی نے کہا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ جا رہا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا یہودی انسان نہیں ہیں؟ تویہ انسانیت کی خدمت ہے۔
امن قائم کرنے کے لئے، لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے، Service of humanityکے لئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نبوت سے پہلے میرا حلف الفضول کاایک معاہدہ تھا جس میں لوگوں کی خدمت کیا کرتے تھے ، غریبوں کی ،ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کیاکرتے تھے۔ اگر اب بھی مجھے نبوت کے دعوے کے بعد کوئی بلائے چاہے کافرہی کوئی بلا رہا ہو یا کوئی بھی گروپ ہو تو میں اس میں ضرور شامل ہو جاؤں گا۔ پھر پرندوں پر آپ کا رحم ہے، انسانوں پر آپ کا رحم ہے، عورتوں پر رحم ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس لئے میں نے کہا تھا کہ Life of Muhammad جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ Introduction to the study of the Holy Quran کا جوآخری حصہ ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کے بارے میں بہت ساری چیزیں ہیں وہ پڑھیں۔ بہت بنیادی چیزیں ہیں، چھوٹی چھوٹی مختصر لکھی ہوئی ہیں۔ وہ انگریزی میں بھی لکھی ہوئی ہے اور اردو میں بھی۔ جس زبان میں پڑھ سکتے ہیں پڑھیں۔ اور لائف آف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر اسٹوڈنٹ کو پڑھنی چاہئے۔ اس کتاب کو آپ پڑھ لیں تو آپ کو سب سوالات کے جواب مل جائیں گے۔ اور پھر لوگوں سے debate کرتے ہوئے ان کو جواب بھی دیا کریں۔
…٭…ایک طالبِ علم نے سوال کیا کہ اسلام کا نام اس قدر بدنام ہو چکا ہے کہ ہم جب پمفلٹ بانٹنے جاتے ہیں تو وہ ہمارا نام سن کر کہ مسلمان اسلام کی تبلیغ کرنے آئے ہیں ہماری بات ہی نہیں سنتے۔
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: پہلے بتانے یا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم کون لوگ ہیں۔پمفلٹ کا ایسا جاذب قسم کا ٹائٹل بناؤ کہ وہ دیکھتے ہی آپ سے لے لیں۔ جب کھول کراندر پڑھیں تو اسلام کی اصل تعلیم یعنی امن کے پیغام کا پتہ لگ جائے۔ یا اسی طرح مختلف قسم کے ٹائٹل بنا سکتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: امریکہ والوں نے خون کے عطیات جمع کرنے کی ایک مہم چلائی جس میں انہوں نے پچھلے سال میں دس ہزار خون کے بیگ اکٹھے کئے۔ اوراس سال اُن کا ٹارگٹ 25 ہزار کا ہے۔ اور وہ سارے امریکہ میں for Life Muslim کے نام سے بڑے اچھی طرح جانے جاتے ہیں اور کچھ لوگ انکار بھی کرتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دوسرا آپ لوگوں کے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔آپ لوگوں کے میڈیا سے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ لوگوں سے بھی آپ کے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں تا کہ جماعتی سطح پر آپ کو Coverageملے۔ پھر اگر آپ یونیورسٹیز میں سیمینارز وغیرہ کرسکتے ہیں تو کریں۔ اپنا exposure زیادہ کریں۔ لوگوںکے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا بڑھائیں۔ انہیں اسلام کے بارے میں بتائیں۔
طالبِ علم نے عرض کی کہ ہم نے ایک پروگرام کیاتھا جس میں چھ سو کے قریب مہمان آئے تھے۔ اُن کو ہم نے کتاب Muhammad Life of دی تھی اوراس کے علاوہ سات World Peace Seminar منعقد کروائے تھے اور اُس میں مجموعی طورپر ٹوٹل آٹھ سو مہمان آئے تھے۔
حضورنے فرمایا کہ کینیڈا کی آبادی آٹھ سو تو نہیں بلکہ ملینز میں ہے۔اس لئے وسیع پیمانہ پر فلائرز کی تقسیم کا کام ہونا چاہئے۔پچھلے سال مختلف جگہوں پر خدام الاحمدیہ جرمنی نے تین لاکھ فلائرز تقسیم کئے ہیں۔ اس طرح آپ لوگ بھی اگر ہمت کرو تو ہوجائے گا۔
…٭…اسی طالب ِعلم نے ایک اور سوال کیا کہ کس عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ مکمل ہوجانا چاہئے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جب آپ میں اتنی عقل ہو کہ آپ اس کا احاطہ کر سکتے ہیں اور اسے سمجھ سکتے ہیں تو اس کو پڑھنا شروع کر دیں۔ اور آسان آسان کتابیں جو بعد کی ہیں وہ پہلے پڑھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جو1900ء سے پہلے کی کتابیں ہیں وہ ذرا مشکل ہیں۔ اردو تو آپ کو پڑھنی نہیں آتی۔ اوراگر اردو پڑھنی آتی ہے تب بھی وہ آپ کیلئے مشکل ہوں گی۔ ان ابتدائی کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنا بعض دفعہ مشکل ہوجاتاہے۔توجو1900ء کے بعد کی کتابیں ہیں ان کو پڑھیں۔ مثلاً حقیقۃالوحی ایک کتاب ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھا ہے کہ اس کو تین دفعہ پڑھو۔ ویسے تو ہر کتاب کا لکھا ہے کہ تین دفعہ پڑھو اگر پڑھ سکتے ہو لیکن حقیقۃ الوحی کے بارہ میں کہا ہے کہ اگراس کو یاد کر لو تو آپ ہر ایک کو جواب دے دو گے۔
…٭…ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ میں نے کمپیوٹر سائنس میں ڈپلومہ کر لیا ہے اب میں چاہتا ہوں کہ جماعت کی خدمت کروں؟
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ جماعت کی باقاعدہ خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ یا صرف پارٹ ٹائم خدمت کا وقت دینا چاہتے ہیں؟ تو اس طالبعلم نے عرض کیا کہ فی الحال پارٹ ٹائم، ٹریننگ کے لئے وقفِ عارضی کرنا چاہتا ہوں۔
اس پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ٹریننگ کے لئے تو آپ اپنے امیر صاحب کو لکھ کر دیں کہ اگر آپ سے کوئی کام لے سکتے ہیں تو لیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی طالب علم سے فرمایا کہ آپ کی نظر بچپن سے کمزور ہے تو کمپیوٹر میں کس طرح کام کرتے ہیں۔ طالبِ علم نے عرض کی کہ اسکرین ریڈر ہے جو مدد کرتا ہے۔
اس پرحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر فی الحال جماعت کے پاس کام نہیں ہے توآپ مزید تجربہ حاصل کریں۔ اور جب تعلیم فائنل ہو جائے تو بتائیں کہ مستقل کرسکتے ہیں یا نہیں؟
…٭…ایک اور طالبِ علم نے سوال کیا کہ حضور اسلام میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں مگر مرد کو غیرمسلموں میں شادی کرنے کی اجازت ہے مگر عورت کو نہیں ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ تو مرد ہیں آپ کو کیا گلہ ہے۔ بات یہ ہے کہ بعض ایسے مرد بھی ہوتے ہیں جو عورت کے اثر میں آجاتے ہیں اور ہلتے نہیں۔ میں ایسے مردوں کو جانتا ہوں۔ مثلًا ایک مرد ہے اس نے ایک شیعہ عورت سے شادی کی۔ وہ پاکستان میں پولیس آفیسر ہیں۔ بڑے اچھے عہدہ پہ ہیں لیکن اس شیعہ عورت نے ان کو اتنا دبایا ہے کہ وہ احمدیت ہی چھوڑ گئے۔تو اصل مقصد یہ ہے کہ اسلام نے جواجازت دی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا ہے کہ مردعورت کواپنے اثر میں لاسکتا ہے اور جو اولاد پیدا ہو گی اس کو اپنے زیرِ اثر رکھ کر احمدی رکھ سکتا ہے یا مسلمان رکھ سکتا ہے۔ اس لئے اگر مسلمان مرد غیر مذہب سے شادی کر لیتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر عورت کرے گی تو دوسرے گھر میں جا کر اسی رنگ میں ہو جائے گی پھراس مسلمان عورت کی جو اولاد اور نسل ہو گی وہ ضائع ہو جائے گی۔ یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے اجازت نہیں دی گئی۔
…٭…ایک اور طالبِ علم نے سوال کیا کہ جماعت کا شریعت لاء(Sharia Law) کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ: شریعہ لاء (Sharia Law) آپ نے کہاں نافذ کرنا ہے؟ سوال یہ ہے کہ یوکے کا جو ملک ہے وہ تو مسلمان ملک ہی نہیں ہے۔جو مسلمان ملک نہیں ہے وہاں زبردستی شریعہ لاء آپ کس طرح ٹھونس سکتے ہیں؟ وہاں تو Impose نہیں کر سکتے۔ دوسرا جو اُن کا لاء ہے، human rights کے قوانین ہیں تو وہ ہر بندے کو اس کے حقوق مل رہے ہیں اور انصاف مل رہاہے تو شریعہ لاء کے مسئلہ کو اُٹھانے کی ضرورت کیا ہے ؟ باقی یہ کہنا کہ انگلستان کے اندر رہتے ہوئے شریعہ لاء نافذ کیا جائے، سزادی جائے، چور کی سزا دی جائے یا قتل کی سزا دی جائے، تو ان کے ملکوں میں وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں۔ ہاں، اسلامی ملکوں میں شریعہ لاء استعمال کرنا ہے توکریں۔ لیکن وہاں پھر انصاف ہونا چاہئے۔ اب سعودی عرب میں کہتے ہیں کہ شریعہ لاء لاگو ہے۔ چور کے ہاتھ تو فورًا کاٹ دیتے ہیں۔ شریعت تو یہ کہتی ہے کہ عورت سے انصاف کرو۔ غریبوں کے حق ادا کرو۔اس کے باجود بھی وہاں سعودی عرب میں جو شاہ کا محل ہے اس کی ہر دیوار پر شاید ایک ایک فٹ کے اوپر، آدھا آدھا پاؤنڈ 24کیرٹ کا سونا چڑھا ہوگا۔ لیکن بعض عورتیں جو slums میں رہتی ہیں ان کوکھانا بھی نہیں ملتا۔ ایک طرف تو شریعت کا شور مچاتے ہیں اور ایک طرف انسانیت کے بنیادی حقوق بھی ادانہیں کرتے۔ شریعت لاء اگرنافذ کرنا چاہیں تو اسلامی ملک کر سکتے ہیں مگر اس شرط پر کہ وہ ہر جگہ انصاف بھی کر رہے ہوں۔ باقی ان ملکوں میں جہاں قانون ہر طرح کا انصاف کر رہا ہے اور کسی کے حقوق مارے نہیں جا رہے وہاں شریعہ لاء کا مسئلہ اۡٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاں تک مولویوں کا تعلق ہے تو مولوی تو شور مچاتے رہتے ہیں۔ یہ کون سا شریعہ لاء ہے کہ اچھے بھلے ایک فوجی کو چاقو مار مار کے مار دو اور پھر اللہ اکبر کے نعرے لگاؤ۔ وہ مارنے والا بعد میں آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان اور ناک کے بدلے ناک کے نعرے لگاتا رہا۔ تو اس بیچارے 25 سال کے لڑکے نے کس کا ناک کاٹا تھا یا کان کاٹا تھا؟ تو یہ لوگ شریعت کے نام پر شریعت کو بدنام کر رہے ہیں۔ یہ کونسی شریعت ہے؟ اس لئے ان ملکوں میں فی الحال کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب اسلامی حکومتیں آئیں گی، یا جب اسلامی حکومتیں انصاف پسند ہوں گی تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر شریعت لاگو کرتی ہیں تو ٹھیک ہے۔ ایک طرف جمہوریت کا شور مچاتے ہیں اور دوسری طرف شریعت لاء کا شور مچاتے ہیں۔ طالبان بھی تو شریعت لاء کے نام پر آئے تھے۔ وہاں افغانستان میں انہوں نے کیا کیا ؟ عورتوں پر ظلم کیا، لوگوں پر ظلم کیا اورانہوں نے اپنے گھرمال سے بھر لئے۔ ایمان توکہیں رہا نہیں۔
اس کے بعد حضورِ انور نے ازراہِ شفقت طلباء میں قلم تقسیم فرمائے اور طلباء سے مختلف امور کے بارے میں استفسار بھی فرماتے رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر24)

  1. ماشاء اللہ بہت اچھی کاوش ہے۔ اور وقت کی ضرورت ہے۔ اللہم تعالیٰ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین۔

    1. پسندیدگی کا بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو قبول فرمائے اور اس ویب سائٹ کے لئے خدمت کرنے والے ہر شخص کو بہترین جزاء عطا فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں