مکرم شکیل احمد صدیقی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍جولائی 2005ء میں مکرمہ بشریٰ طیبہ صاحبہ اہلیہ مکرم شکیل احمد صدیقی صاحب مرحوم مربی سلسلہ کی اپنی شوہر کے متعلق یادوں پر مشتمل ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جسے مکرمہ شازیہ انجم صاحبہ نے مرتّب کیا ہے۔
مکرمہ بشریٰ طیبہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں ایم اے عربی کے فائنل ایئر میں تھی جب میرا رشتہ طے پاگیا اور یکم نومبر1998ء کو میں بیاہ کر لاہور چلی گئی۔ مکرم شکیل صاحب میری شادی سے پہلی بنائی ہوئی تصویر سے ہر لحاظ سے بہتر تھے۔ میں نے انہیں اپنی سوچوں سے بڑھ کر اچھا پایا۔ صرف پچیس دن بعد ہم دوالمیال چلے گئے جہاں اُن کی بطور مربی سلسلہ پہلی تقرری ہوئی تھی۔ یہاں ہم تقریباً ڈیڑھ سال رہے۔ اس دوران وہاں کی جماعت پر ایک مشکل وقت بھی آیا جب4 جولائی1997ء کو DSP نے احمدیوں کو مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے سے روک دیا۔ اس پر صدر جماعت نے فیصلہ کیا کہ نماز جمعہ گلی میں ہی ادا کی جائے گی۔ چنانچہ جولائی کے تپتے سورج کے نیچے مکرم شکیل صاحب نے خطبہ دیا۔
پھر شکیل صاحب فرنچ زبان سیکھنے کے لئے ربوہ آگئے اور ہم سال بھر والدین کے گھر رہے۔ میری صرف ایک چھوٹی بہن ہے اور بھائی کوئی نہیں۔ شکیل صاحب نے میرے والدین کو بیٹے کا پیار دیا۔ کبھی کسی کا دل نہ دکھاتے تھے، سب کو خوش رکھتے تھے۔

2001ء میں شکیل صاحب افریقہ کے لئے روانہ ہوئے تو آپ کے جانے کے بعد تیسرے دن ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں بیٹی عطا فرمائی جو واقفہ نو ہے۔ 29مارچ2002ء کو میں بھی افریقہ چلی گئی۔ واگاڈوگو میں دو تین دن گزار کر ہم درگو چلے گئے جہاں ان کی تقرری تھی۔ یہ بہت دشوار گزار راستہ تھا۔ پانچ چھ گھنٹے کا سفر تھا اور سارا راستہ کچا، وہاں سڑکیں نہ تھیں۔ اجنبی لوگ، اجنبی زبان، میں کچھ پریشان سی ہو گئی۔ لیکن شکیل صاحب نے جلد ہی میری پریشانی بھانپ لی اور بولے کہ دیکھو ابھی تو ہم میں ہمت ہے، ہم دین کی خدمت کر سکتے ہیں۔ یہاں رہ سکتے ہیں۔ 35,40 سال کی عمر کے بعد تو شائد ہم میں اتنی ہمت نہ ہو۔ 15 دن بعد ہی ان کی میٹنگ تھی۔ اور ایک ہفتہ بعد واپس آنا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں۔ مجھے بالکل اکیلے رہنے کی عادت نہ تھی اور پھر یہاں تو اور بھی مشکل تھا۔ لیکن شکیل صاحب نے کہا کہ میں نے تم کو ایسی عادت نہیں ڈالنی۔ اگر اب میں لے گیا تو تم ہر دفعہ ساتھ جانے کے لئے کہو گی اور یہ خوامخواہ جماعت پر بوجھ ہو گا۔اس لئے تم ابھی سے اپنے دل کو مضبوط کرو۔ آپ گھر میں ایک افریقی لڑکی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ ہفتہ میں نے بڑی مشکل سے گزارا۔ نہ اس لڑکی کو میری بات کی سمجھ آتی نہ مجھے اس کی۔ پھر میں اکیلے رہنے کی عادی ہوتی چلی گئی۔ اکثر شکیل صاحب ہفتہ بھر کے لئے دورہ پر چلے جاتے اور زیادہ تر موٹر سائیکل پر جاتے کہ جماعت کا زیادہ خرچ نہ ہو۔ کچے راستوں کی وجہ سے جب واپس آتے تو دھول سے مکمل اٹے ہوتے۔ لیکن نہا دھو کر کچھ آرام کرنے کی بجائے فوراً مشن چلے جاتے کہ میں پہلے حساب دے آؤں۔ اگر گاڑی پر ہوتے اور میں احمدی ڈرائیور کو اپنی خوشی سے کچھ پیسے دیدیتی تو اصرار کرکے اسے چندہ دینے کی بھی ترغیب دیتے۔ ڈرائیور اور اپنے ساتھی مربیان کا بہت خیال رکھتے۔
تقریباً سوا دو سال پہلے ان کی ٹرانسفر بوبوجلاسو ہو گئی تھی۔ یہاں بھی ان کے اخلاص کا وہی حال تھا۔ ان کو دین کے مقابل پر دنیا سے کوئی محبت نہ تھی۔ میں حیران ہو تی تھی کہ اللہ تعالیٰ کیسے ان کے سارے دنیوی کام سنوارتا چلا جاتا تھا۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ بوبو جلاسو کی اطلاع ملی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ہر وقت خدمت کے لئے مستعد اور تیار رہتے اور بڑھ چڑھ کر ہر پروگرام میں حصہ لیتے۔ حضور کے دورہ کے دوران مَیں بیمار تھی اور پیدائش کے وقت ہمارا بیٹا فوت ہوگیا تھا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے الیس اللہ کی انگوٹھی اور پرفیوم کا تبرک بھجوایااور شفایابی کے لئے دعا کی۔
افریقی لوگ بہت غریب تھے۔ ہمارے گھر میں لائٹ تھی۔ روزانہ رات کو مین گیٹ کی لائٹ کے نیچے افریقی غیر احمدی بچوں کو کرسیاں اور بنچ بچھا دیتے کہ یہاں سکول کا کام کرلو۔ خود بھی ساتھ بیٹھ جاتے اور مجھے آواز دیتے کہ فریج میں سے فلاں چیز لے آؤ۔ کبھی کہتے اتنی روٹیاں زائد پکا کر اور پلیٹ میں سالن ڈال کر لے آؤ۔ اور اکثر بیٹی کے ہاتھ سے ان بچوں کو چیز دلاتے کہ اسے بھی دینے کی عادت پڑے۔ ہمیشہ گھر میں کچھ ٹافیاں اور گفٹ وغیرہ رکھتے تھے۔ جو بھی افریقی ملنے آتا اسے ضرور تحفہ دیتے۔ ان کا ایمان تھا کہ تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے۔ پھر ان کی ایک خاص بات تھی کہ دورہ پر جاتے تو مقامی لوگوں کے ساتھ ہی اُن کے کھانے میں شامل ہوجاتے۔ خواہ کوئی چیز ناپسند بھی ہوتی تو اظہار نہ کرتے بلکہ ان کا دل رکھنے کو رغبت سے کھا لیتے تھے۔ دوروں کے دوران اپنا ذاتی خرچ بھی کر لیتے تھے۔ آپ خوش مزاج اور خوش بیاں تھے۔ حسن بیاں ایسا کہ سننے والاگرویدہ ہو جاتا۔
گزشتہ عید الاضحی کے چوتھے روز ظہر کی نماز پڑھا کر آئے تو تیز بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھر آکر کونین کی ڈرپ لگادی۔ افریقہ میں چونکہ ملیریا بہت ہوتا ہے اس لئے وہاں کا علاج کونین سے ہی شروع ہوتا ہے۔ لیکن شکیل صاحب کو آرام نہ آیا۔ میں نے کہا کہ ہسپتال چلتے ہیں لیکن نہیں مانے۔ جب ڈاکٹر صاحب نے کچھ ٹیسٹ لئے تو یرقان کا علاج شروع ہوا لیکن کونین کی زیادتی نے اپنا منفی اثر دکھا دیا تھا۔ ایک ہفتہ میں ہی بہت نڈھال ہوگئے تھے۔ امیر صاحب کو فون کیا کہ گاڑی بھیج دیں۔ رات کہنے لگے کہ مجھے کالی گاڑی لینے آئے گی۔ میں نے کہا کہ مشن کی ایسی تو کوئی گاڑی نہیں ہے۔ دوبارہ کہا کہ دیکھنا مجھے کالی گاڑی لینے آئے گی۔ اگلے روز گاڑی آگئی لیکن انہیں ایمبولینس میں ہسپتال بھیجا گیا۔ یہ پانچ گھنٹے کا سفر انہوں نے بڑی اذیت سے کاٹا۔ راستے میں ڈرپ لیک کر گئی پھر ڈرپ بند کردی گئی۔ مغرب کے وقت ہم ہسپتال پہنچے۔ میں نے حال پوچھا تو کہا کہ میں ٹھیک ہوں بس مجھے نیند آرہی ہے۔ پھر مَیں اور بچی مکرم امیر صاحب کے ہاں چلے گئے۔ اگلے دن صبح ساڑھے دس بجے ان کی وفات ہوگئی۔
میری ساس محترمہ فہمیدہ بشیر صاحبہ نے دو سال پہلے ایک خواب دیکھا جو مجھے سنایا تھا کہ تم افریقہ سے واپس آئی ہو، شکیل صاحب ساتھ نہیں، صرف ان کے کپڑے ہیں۔ میں بہت روتی ہوں اور ساتھ یہ شعر پڑھتی ہوں: پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں
ہم نے مارچ میں پاکستان آنا تھا لیکن شکیل صاحب کی قسمت میں شہادت کا رتبہ لکھا تھا کہ آنے سے ایک ماہ پہلے ان کی وفات ہو گئی۔ میں نے واپسی کا سفر کیسے کیا یہ بیان کرنا مشکل ہے۔ بس پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کی تسلی کے الفاظ کہ ’’ صبر کرنا ہے‘‘ اور آپ کی دعائیں تھیں کہ میں نے اتنا لمبا سفر اپنے شوہر کی میت کے ساتھ کر لیا۔
جس گاڑی میں جنازہ غانا پہنچا اس کا رنگ سیاہ تھا۔ دس گھنٹے کا مسلسل سفر تھا۔ محترم امیر صاحب اور مربیان کرام بھی ساتھ تھے۔ رات غانا میں ٹھہرے۔ اگلے دن دوبئی کیلئے روانہ ہوئے۔ دوبئی میں بارہ گھنٹے انتظارگاہ میں گزارے۔ پھر دوبئی سے اسلام آباد رات تین بجے پہنچے۔ صبح آٹھ بجے لاہور کی فلائٹ تھی۔ لاہور سے سیدھے دارالضیافت پہنچے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں