محترم مسعود احمد خان دہلوی صاحب کی خودنوشت ’’سفر حیات‘‘

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ ستمبر واکتوبر 2011ء میں فرخ سلطان محمود کے قلم سے کتاب ’’سفر حیات‘‘ پر تبصرہ شامل اشاعت ہے۔ یہ کتاب خودنوشت سوانح ہے جو ایک قادرالکلام اور منفرد طرز کے انشاء پرداز محترم مسعود احمد خانصاحب دہلوی کے قلم کا شاہکار ہے۔ سلیس اور رواں تحریر مصنف کی ذاتی شاندار زندگی کی عکاسی کرنے کے علاوہ جماعت احمدیہ کی تاریخ کے حوالہ سے بھی کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور قاری کی دلچسپی میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔
A5 سائز کے پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ مجلّد کتاب دلچسپ تحریر کے علاوہ ظاہری طور پر بھی دیدہ زیب ہے۔ اور یہ کہنا یقینا بجا ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے سے زندگی میں پیش آنے والے کئی روزمرّہ مسائل میں رہنمائی فراہم ہوسکتی ہے۔ اس کتاب سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
= 1920ء میں پیدا ہونے والے محترم مسعود احمد خان صاحب کی زندگی کا اہم ترین موڑ وہ تھا جب آپ نے دنیاوی ترقی کی دوڑ میں نمایاں سبقت حاصل کرنے کے باوجود اپنے والدمحترم کی خواہش پر لبّیک کہتے ہوئے اپنی زندگی وقف کرنے کی سعادت حاصل کی۔
= آپ لکھتے ہیں: 1936ء میں میٹرک کے امتحان میں شرکت کے لئے مَیں نے اپنا نام ’’مسعود احمد احمدی‘‘ درج کیا تو ٹیچر نے کہا کہ ذاتیں شناخت کا ذریعہ ہوتی ہیں اس لئے تم احمدی کی بجائے خان لکھو۔ مَیں نے کہا کہ میرا احمدی ہونا ہی میری شناخت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میٹرک کی سند کا نام ہر جگہ چلتا ہے اور اس طرح احمدی کا لفظ تمہارے نام کا مستقل جزو بن جائے گا اور احمدیوں کے خلاف تعصّب کی وجہ سے تمہیں ملازمت کے حصول میں دقّت ہوگی۔ مَیں نے کہا کہ رازق خدا ہے اور اُس نے جو رزق میرے لئے مقرر کرچھوڑا ہے وہ بہرحال مجھے مل کر رہے گا۔


میرے استاد نے میری بات کو میری نادانی پر محمول کیا اور اگلے روز میرے والد کو سکول بلاکر ساری بات اُن سے کہہ دی۔ والد صاحب نے فرمایا کہ یہ تو صحیح ہے کہ ہم احمدی ہیں لیکن ہر احمدی کے لئے ہرگز ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’احمدی‘‘ کا اضافہ کرے۔ لیکن چونکہ آپ نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ نام میں اس اضافہ سے ملازمت کے حصول میں دقّت پیش آسکتی ہے اس لئے اب مَیں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ مسعود احمد احمدی ہی نام درج کیا جائے۔ اس پر محترم استاد بہت حیران ہوئے اور فرمایا کہ واقعی آپ لوگوں کا ایمان بصیرت پر مبنی ہے اور مَیں اس میں مزاحم ہونے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
= سکول کی فضا مذہبی تعصّب سے پاک تھی البتہ عربی اور اردو کے استاد محترم مولوی عبدالخالق صاحب جو قادیان کے ہی رہنے والے تھے، احمدیت کی مخالفت کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیا کرتے تھے۔ جب مَیں اپنی بساط کے مطابق اُن کے اعتراض کا جواب دیتا تو ڈانٹ کر خاموش کرادیتے لیکن دوسرے طلباء سے یہ ضرور کہتے کہ چھوٹی عمر میں اپنے عقائد اور مسائل کا جتنا علم اس قادیانی کو ہے اتنا علم تم میں سے کسی کو نہیں، تم سب اس معاملہ میں کورے ہو۔
ویسے اُن کی طرف سے احمدیت کی مخالفت اپنی جگہ تھی لیکن مجھ پر بحیثیت شاگرد شفقت اپنی جگہ۔ ایک دفعہ مَیں نے اُن سے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں اُن کے اساتذہ کے بارہ میں دریافت کیا تو فرمانے لگے کہ آج تُو نے بہت ہی ٹیڑھا سوال کیا ہے، تُو مجھ سے اپنے بزرگوں کی تعریف کروانا چاہتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یوں تو سب اساتذہ ہی بہت لائق، شریف النفس اور ہمدرد تھے لیکن مولوی شیرعلی صاحب کا مجھ سمیت سارے طلباء ہی بہت احترام کرتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک روحانی انسان تھے۔ ہر وقت ذکرالٰہی میں مشغول رہتے۔ اوّل تو وہ سزا نہیں دیتے تھے لیکن اگر کسی طالبعلم کو سزا دینی ہی پڑتی تو وہ مٹھی بند کرکے اُسے بند انگلیوں کے رُخ پیٹھ پر آہستہ سے مُکّہ مارتے اور ساتھ ہی دھیمی آواز میں کہتے: اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ الَیْہِ۔ ان کی اس روحانی ادا کا ہم پر عجیب اثر ہوتا اور ہم پوری کوشش کرتے کہ ہم انہیں کوئی شکایت کا موقع نہ دیں۔
= ایک بار اردو پارک دہلی میں مجلس احرار کے جلسہ میں عطاء اللہ شاہ بخاری نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مرزا صاحب کی کوئی ایک پیشگوئی بھی پوری نہیں ہوئی۔ جب اِس دعویٰ کا ذکر کسی استاد نے سکول میں آکر کیا تو ایک غیراحمدی استاد محترم محمد ہاشم خانصاحب کہنے لگے کہ شاہ جی کی یہ بات درست نہیں ہے۔ مَیں نے لیکھرام کی ہلاکت کے متعلق مرزا صاحب کی پیشگوئی کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ مَیں علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی اور لیکھرام کی ہلاکت اور اسلام کی صداقت کو آشکارا کرنے کا موجب بنی۔
= ڈویژنل اکاؤنٹنٹ کی ٹریننگ کے لئے منتخب ہونے کے بعد مَیں بالکل ایک نئی دنیا میں آواردہوا جہاں رشوت کی اس قدر بھرمار تھی کہ کیشیئر ہر ٹھیکیدار کی لاکھوں کی رقم میں سے مخصوص حصہ وضع کرلیتا اور ساری رقم مہینہ کے آخر میں سارے سٹاف میں تقسیم کردی جاتی۔ اس کے علاوہ چپڑاسی اور خاکروب وغیرہ بھی ٹھیکیداروں کے پیچھے ہاتھ پھیلائے بھاگ رہے ہوتے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جس طرح قصائی کی دکان کے آگے کتّے زمین پر بیٹھے زبان نکالے چھیچھڑوں کے انتظار میں ہانپ رہے ہوتے ہیں۔ مجھے اس سارے منظر سے بے حد وحشت ہوئی اور مَیں لَاحَوْل پڑھتا رہتا۔ میرے وہاں جانے کے بعد پہلی بار جب رقم تقسیم ہونے لگی تو ایک بوڑھے کیشیئر دیوی لال (جو کٹّر آریہ تھا) نے کہا کہ نئے اکاؤنٹنٹ کے سامنے رشوت کا نام بھی نہ لینا، وہ احمدی ہے اور احمدی رشوت بالکل نہیں لیتے، اگر اُس کو رشوت کی رقم دی تو وہ ہم سب کو پھنسوا دے گا اور اپنے نقصان کی پرواہ نہیں کرے گا۔
ایک دن مجھے ایک نوآموز کلرک نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ اُس نے ایک ٹھیکیدار سے دس روپے لئے ہیں۔ وہ میری ناراضگی سے ڈر بھی رہا تھا۔ مَیں فوراً سمجھ گیا کہ اُس نے میرا نام لے کر یہ رقم اُس سے لی ہے۔ مَیں نے ٹھیکیدار کو بلاکر پوچھا کہ کیا کلرک نے میرا نام لے کر اُس سے رشوت لی ہے؟۔ اُس نے بتایا کہ اِس نے آپ کا نام لے کر روپے مانگے تھے جبکہ دیوی لال نے مجھے پہلے ہی بتادیا تھا کہ نئے اکاؤنٹنٹ احمدی ہیں اور انہیں کبھی رشوت دینے کی کوشش نہ کرنا۔ اس لئے جب کلرک نے دس روپے مانگے تو مَیں نے اسے کہا کہ تجھے پیسے چاہئیں تو تُو مجھ سے پیسے لے لے لیکن نئے اکاؤنٹنٹ کا نام نہ لے۔ سردارجی سے مَیں نے کہا کہ مَیں اِس سے دس روپے آپ کو واپس دلوادیتا ہوں تو وہ کہنے لگا کہ پھینکی ہوئی ہڈّی کتے کے منہ سے چھیننے کے لئے انسان کو خود بھی کتا بننا پڑتا ہے، چھوڑیں، اگر وہ حرام کھاتا ہے تو کھاتا پھرے۔ پھر مَیں نے اس ہندو کلرک کو خوب جھاڑ پلائی اور چار روپے اُسے دے کر تین تین روپے سیکشن کے چپڑاسیوں کو دلوائے۔
= مَیں کالج کے پہلے سال میں ہی تھا کہ مجھے اپنی والدہ محترمہ امۃالمغنی شمیم کی وفات کے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ غیرمعمولی طور پر ایک بہت ہی باصلاحیت خاتون تھیں جنہوں نے دہلی میں لجنہ اماء اللہ کے قیام کے ابتدائی سالوں میں اسے مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے اور فعّال بنانے میں نمایاں خدمت کی تھی۔
اُن کو باقاعدہ کسی سکول میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن انہوں نے زمانہ کے شرفاء کے گھرانوں کے رواج کے مطابق گھر پر اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اردو میں مضامین لکھنے کے علاوہ دینی نظمیں بھی کہہ لیا کرتی تھیں۔ موقع اور محل کی مناسبت سے مؤثر تقریر کرسکتی تھیں۔ گھرداری، سلیقہ شعاری اور تربیتِ اولاد کے اوصاف سے پوری طرح مزیّن تھیں۔ دوسروں کی خیرخواہ تھیں اور اپنے حسن سلوک کے ذریعہ خاندانی رشتوں کو مضبوط کرنے کے فن سے آگاہ تھیں۔
تربیت اولاد کے ضمن میں اُن کے کچھ بنیادی اصول تھے جن پر وہ سختی سے کاربند رہیں۔ پہلا اصول یہ تھا کہ وہ اعتدال سے ہٹے ہوئے بے جا لاڈ پیار کی شدید مخالف تھیں۔ اولاد سے انہیں بھی ہر ماں کی طرح شدید محبت تھی لیکن مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ مجھ سمیت اپنے کسی بچے کو گود میں لے کر چُوم چُوم کر ’’مَیں صدقہ جاؤں، واری جاؤں‘‘ وغیرہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کئے ہوں۔
دوسرا اصول یہ تھا کہ وہ بچوں کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آتیں اور اُن کی جملہ ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھتیں۔ لیکن اس بات کی شدید مخالف تھیں کہ محبت کے جذبہ سے مغلوب ہوکر بچے کی بے جا، ناواجب اور ناروا ضد کو پورا کیا جائے اور یہ سمجھ کر کہ بچہ بڑا ہوکر خود ٹھیک ہوجائے گا اس معاملہ میں تساہل سے کام لیا جائے۔
تیسرا اصول یہ تھا کہ وہ مار پیٹ سے کام لینے یا بچے کو بُرا بھلا کہنے اور کہے جانے کی شدید مخالف تھیں۔ اگر سمجھانے بجھانے سے نہ مانتا اور اپنی ناواجب ضد پر اَڑا رہتا تو وہ صرف ایک یہ سزا دینے کی قائل تھیں کہ اس کو اس وقت تک کھانانہ دیا جائے جب تک وہ اپنی ضد سے باز نہ آجائے۔ اپنے اس اصول پر سختی سے کاربند رہ کر اور بے جا نرمی نہ دکھاکر وہ ضدی سے ضدی بچے کو رام کرلیا کرتی تھیں۔
چوتھا اصول یہ تھا کہ وہ تمام بچوں کو ایک نظر سے دیکھا کرتی تھیں۔ اس بات کا تو وہ خاص خیال رکھا کرتی تھیں کہ چھوٹے بچے اپنے بڑے بہن بھائیوں کا ادب کریں لیکن وہ خود اُن کے ساتھ محبت پیار کے سلوک میں چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان کوئی تفریق روا نہ رکھتی تھیں تاکہ کسی بچے میں احساس کمتری پیدا نہ ہونے پائے۔ بچوں کے آپس کے جھگڑوں کا ایسا فیصلہ فرماتیں کہ جھگڑنے والے دونوں بچے اپنی اپنی جگہ خوش ہوجاتے۔
پانچواں اصول یہ تھا کہ بچوں کی خاطرخواہ تربیت کے لئے ماں باپ کا ایک دوسرے کے ساتھ مثالی سلوک ہونا ازبس ضروری ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ جو میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرہی نہیں سکتے۔ ہمارے والدین کا ایک دوسرے کے ساتھ سلوک اس درجہ مثالی تھا کہ دوسرے گھرانے اس ضمن میں ہمارے گھر کا بطور مثال تذکرہ کیا کرتے تھے۔
= 1940ء میں میری شادی کردی گئی۔ میری اہلیہ سلیمہ بیگم میری پھوپھی زاد تھیں اور رشتہ میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کی بھتیجی تھیں۔ اس شادی کا بظاہر کوئی امکان نہ تھا اس لئے کہ وہ مجھ سے عمر میں تین سال بڑی تھیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ کی تجویز سے یہ رشتہ طے ہوا۔شادی کو بمشکل دو سال ہی ہوئے تھے کہ حضرت والد صاحب نے اپنی ساری اولاد کو خدمت دین کے لئے وقف کر دیا۔ مَیں اُس وقت اکائونٹنٹ جنرل سنٹرل ریوینیوز کے دفتر میں ایک روشن مستقبل کا تانا بانا تیار کر رہا تھا۔ مَیں نے اپنے والد صاحب کے فیصلے کو دل سے قبول کیا لیکن اس بارہ میں اپنی بیوی سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا کیونکہ اس فیصلے سے میری ہی نہیں اُن کی زندگی بھی متأثر ہونی تھی۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں اور بہت نازونعمت میں پلی بڑھی تھیں۔ خطرہ تھا کہ اگر انہوں نے اس اقدام سے اتفاق نہ کیا تو بہت بد مزگی پیدا ہو گی اور نہ معلوم یہ عدم اتفاق کیا گُل کھلائے ۔لیکن جب میں نے اُن سے پوچھا تو انہوں نے بلا تأمّل کہا کہ اس نیک کام میں دیر نہ کریں، اگرچہ مَیں آسائش کی زندگی بسر کرنا چاہتی تھی لیکن آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ وقف کے بعد جو تنگی یا مشکل پیش آئی اُسے ہنسی خوشی برداشت کروں گی اور ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کروں گی جس کا پورا کرنا ہم دونوں کی استطاعت سے بالا ہو۔
وقف کے نتیجہ میں ہمارا مالی تنگی سے دو چار ہونا لازمی تھا لیکن خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میری یہ بندی اپنے عہد کو نبھانے میں کس قدر مستقل مزاج ہے مالی تنگی کے علاوہ اور کئی قسم کے امتحانوں میں سے اُسے گزارا۔ مثلاً پہلا امتحان تو یہی در پیش ہوا کہ زندگی وقف کرنے کے بعد قریباً تین سال بعد مجھے بلایا گیا جب مَیں ڈویژنل اکائونٹنٹ کی پُرکشش پوسٹ پر متعین ہونے کے مرحلہ تک جا پہنچا تھا۔ اُس وقت میرے قدموں میں وقتی طور پر خفیف سی ڈگمگاہٹ تو ضرور پیدا ہوئی لیکن بحمد اللہ تعالیٰ جلد ہی سنبھل گیا لیکن سلیمہ بیگم نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا کہ ہمیں جلد از جلد قادیان پہنچنے کی فکر کرنی چاہئے ۔
سلیمہ بیگم کو دوسرا ابتلاء اولاد کی بیماری ہی نہیں بلکہ بیمار اولاد کی شکل میں آیا۔ زندگی وقف کرنے سے قبل ہمارے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جو بہت پیاری بچی تھی لیکن زندگی وقف کرنے کے بعد اسے ایک لاعلاج مرض لاحق ہوگیا اور وہ معذور ہوتی چلی گئی ۔ پھر ایک بیٹی اَور پیدا ہوئی جوایک سال تک مختلف عوارض میں مبتلا رہ کر فوت ہو گئی۔ نظر یہی آ رہا تھا کہ آئندہ بھی ایسی ہی کمزور اولاد پیدا ہوگی۔ اس کے باوجود میری بیوی نے قادیان سے بلاوا آنے پر کہا کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں غربت کی زندگی اختیار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں وہ خو د ہمارے اخراجات کا کفیل ہوگااور وہ ہمیں صحت مند اولاد عطا کرنے پر بھی قادر ہے۔ میری بیوی نے وقف کا عہد نبھانے میں بہت خوشدلی سے میرا پورا ساتھ دیا۔ علاوہ مالی تنگی برداشت کرنے کے انہوں نے بیمار اولاد کے علاج اور تیمارداری میں بہت محنت اٹھائی اور ان کی صحت یابی کے لیے بہت رو رو کر دعائیں کیں۔ آخر اللہ تعالیٰ کا جوش رحم میں آیا اور ایک دائم المرض بیٹے سلمان احمد خاں کو معجزانہ طور پر شفا عطا ہوئی اور پھر مزید تین صحت مند بیٹے بھی عطا ہوئے۔ گو ایک بیٹا فوت بھی ہوا تاہم صبر کا دامن انہوں نے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
وقف کے بعد میری ڈیوٹی ایسی تھی کہ دن رات لکھنے پڑھنے میں مصروف رہنا پڑتا تھا اور اتنا وقت نہیں بچتا تھا کہ میں گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹاتا اور بیمار بچوں کے علاج معالجے اور تیمارداری میں حصہ لیتا ۔ یہ سارے کام انہوں نے تن تنہا سرانجام دیئے۔ اُن کی زندگی گھر داری، ہسپتال کے چکّروں، تیمارداری کی مشقتوں نیز دعائوں اور عبادتوں سے عبارت تھی۔ دنیا کی کسی دلچسپی یعنی سیروتفریح یا ضیافتوں اور شادیوں وغیرہ میں شرکت سے انہیں کوئی علاقہ نہ تھا۔ 43 سال تک معذور بیٹی کی خدمت کرتی رہیں۔


غرباء کے دکھ درد بانٹ کر خوش ہونا اور اسی میں راحت پانا اُن کی فطرت میں داخل تھا۔ دیہات کی غریب خواتین ان کے پاس کثرت سے آتیں۔ یہ اُن کے دکھ درد سنتیں اور استطاعت کے مطابق مدد کرتیں۔ غریب عورتیں چوری کے ڈر سے زیور یا رقم ان کے پاس رکھوا جاتیں۔ وہ اِن کی بہت حفاظت کرتیں اور مطالبہ پر فوراً لَوٹا دیتیں۔ ایسی ہی غریب عورتوں میں سے ایک بیوہ عورت راحمو نامی تھی۔ اُس کی تین بیٹیاں اورایک بیٹاتھا۔ وہ گولبازار میں پرچون کی دکانوں پر گندم صاف کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی تھی۔ میری بیوی نے اُسے کہہ رکھا تھا کہ وہ دوپہر کو ہمارے گھر آکر آرام کر لیا کرے۔ وہ اس قدر غریب اور مسکین تھی کہ اکثر دوپہر کو کھانے کے لئے اس کے پاس کچھ نہ ہوتا اور بھوکی ہی لیٹ رہتی۔ میری بیوی اُس کی حالت سے اندازہ لگا لیتیں اور روٹی پکا کر اُسے کھانا کھلاتیں۔ محنت کرکر کے اور بھوکی رہ رہ کر وہ بیمار رہنے لگی۔ میری بیوی نے اس کا ہسپتال میں بہت علاج کروایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکی۔ مرتے وقت اس نے وصیت کی کہ میری ربوہ والی بہن کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ میرے کفن دفن میں ضرور شریک ہو ۔ چنانچہ اطلاع ملنے پر میری اہلیہ اس کے گھر گئیں، حسب توفیق مدد کی اور پھر اُس کے بچوں کی اس وقت تک خبرگیری کرتی رہیں جب تک کہ وہ اپنے گھر بار کے نہ ہوگئے۔
میری بیوی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ پکی موحّد تھیں۔ اپنی بیمار اولاد کے علاج کے سلسلہ میں وہ دواؤں کے علاوہ بہت دعائیں کرتیں اور بزرگوں سے کرواتیں۔ وہ شافی مطلق صرف خدا تعالیٰ کو سمجھتیں۔ دیہاتی اَن پڑھ عورتیں اِن کے پاس کثرت سے آتیں اور اکثر اِن سے کہتیں کہ فلاں گائوں میں فلاں ولی کے مزارپر منّت مان تیرے بچے کو شفا ہو جائے گی۔ میری بیوی اُنہیں سمجھاتیں کہ یہ باتیں شرک ہیں، زندگی اور موت خدا کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو قریب المرگ کو بھی زندگی سے مالامال کر سکتا ہے۔ صرف اُسی سے دعا کرنی چاہئے، اسے منظور ہو گا تو میرے بچے کو ضرور شفا ہو جائے گی ۔ ایک دفعہ ایک عورت ازراہ ہمدردی کسی مزار کی مٹی لائی اور بہت منّت سماجت کی کہ اس مٹی کا لیپ اپنے بیمار بیٹے کے ماتھے پر کردے یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ میری بیوی نے کہا اِدھر کی دنیا اُدھر ہو جائے مَیں اس شرک کی ہر گز مرتکب نہیں ہوں گی۔ میرے بیٹے کو شفا عطا کرے گا تو صرف خدا عطا کرے گا ورنہ یہ خدا کی امانت ہے جب چاہے وہ واپس لے لے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور اس درد سے دعائیں کیں کہ بے حال ہوگئیں۔ آخر خواب میں دیکھا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں درود پڑھ پڑھ کر دَم کیا کرو بچہ صحت یاب ہوجائے گا۔ چنانچہ میری بیوی نے اس ہدایت پر بھی عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اُس بچے کو معجزانہ شفا عطا فرمائی۔ پھر اُسے کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یورپی بنک میں اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیا۔ بعد ازاں 43 سال کی عمر میں اُسے خدا نے اپنے پاس بلا لیا تو میری بیوی نے اُس کی وفات پر بھی کمال صبر کا نمونہ دکھایا۔
سلیمہ بیگم کی ایک خوبی جھوٹ سے شدید نفرت تھی۔ سچی اور حق بات کے اظہار سے وہ رُک نہیں سکتی تھیں اور جھوٹ کی تائید کرنا ان کے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔ چنانچہ کئی لوگ اُن سے ناراض ہوجاتے تھے لیکن سچ بولنے کے معاملہ میں انہوں نے کسی کی ناراضگی کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ 1953ء کے فسادات کے وقت جب کرشن نگر میں ہمارے گھر پر حملہ ہوا اور ہزاروں لوگ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے تو خاندان کے اکثر افراد صحن میں جمع ہوگئے۔ چھوٹے بچے بڑوں کی ٹانگوں سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے۔ ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ ہم سب کمال بے بسی کے عالم میں دعاؤں میں مصروف تھے۔ مکان کی بالائی منزل میں رہنے والوں نے اوپر سے پکار پکار کر التجا کی کہ تم وقتی طور پر محض زبان سے اپنے احمدی نہ ہونے کا اعلان کر دو تو تم سب کی جانیں بچ جائیں گی۔ ہم سب نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اُس وقت میری بیوی نے للکار کر کہا: یہ ایمان کا معاملہ ہے ایسی بات اپنی زبان سے پھر نہ کہیں، اپنی ہمدردی اپنے پاس رکھیں اور ہمیں مرجانے دیں۔ اور ساتھ ہی روتے اور بلکتے ہوئے بچوں کو مخاطب کرکے کہا: بچو مت روؤ۔ ہمارا خدا قادر خدا ہے، وہ قادر مطلق ہے، ہم مظلوم ہیں اور وہ ظالموں کے پنجہ سے ہمیں ضرور نجات دے گا۔ میری بیوی نے یہ الفاظ اس قدر گرجدار آواز میں کہے کہ بالائی منزل سے جھانکنے والوں اور باہر کھڑے حملہ آوروں نے بھی انہیں سنا اور وہ کسی قدر دھیمے پڑگئے۔ اُس لمحے ایک پہلوان نما بوڑھا بابا تولاؔ آگے آیا اور اس نے حملہ آوروں کو بہت لعن طعن کی اور کہا اوبے غیرتو! تمہیں عورتوں اور بچوں پر حملہ آور ہوتے ہوئے شرم نہیں آتی، خبردار کسی نے کسی عورت یا بچے کو ہاتھ بھی لگایا۔ دراصل ایک اعلیٰ افسر نے اُسے بھیجا تھا کہ وہ کسی طرح عورتوں اور بچوں کو نکال کر اُن کے گھر لے آئے وہ اور اُن کے بیٹے لائسنس یافتہ اسلحہ سے ان کی پوری حفاظت کریں گے۔ چنانچہ مکان کی عقبی دیوار کے ساتھ سیڑھی لگا کر وہ عورتوں اور بچوں اور دو مردوں کو وہاں سے نکال کر لے گیا اور انہیں اعلیٰ افسر کے مکان میں جس کے دروازوں پر لوہے کے مضبوط جنگلے لگے ہوئے تھے پہنچا دیا۔ اس کے بعد مجمع یہ کہتا ہوا منتشر ہوگیا کہ رات کو ہم مرزائی مکینوں کو موت کے گھاٹ اتار کر مکان کو آگ لگا دیں گے۔ لیکن رات سے پہلے پہلے شہر میں کرفیو لگ گیا اور حملہ آوروں کا منصوبہ خاک میں مل کر رہ گیا۔ دو روز بعد امن بحال ہونے پر بابا تولاؔ اپنی نگرانی میں ہمیں واپس لے آیا اور اردگرد کے تمام لوگوں سے کہا کہ یہ لوگ خدا کے بعد اب میری حفاظت میں ہیں۔ اگر کسی نے ان کی طرف ٹیڑھی نظر سے بھی دیکھا تو پھر مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔
میں اپنے ذاتی مشاہدہ کی بناء پر اعلیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ وہی واقفین زندگی وقف کے عہد کو نبھانے میں کامیاب ہوتے ہیں جن کی بیویاں اپنے عمل و کردار سے ثابت کر دکھاتی ہیں کہ وہ بھی اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ اپنی دنیوی ضروریات اور خواہشات کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں۔ میں متعدد ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ اپنی زندگیاں وقف کیں لیکن اپنی بیویوں کے عدم تعاون کی وجہ سے وہ وقف کو نبھانہ سکے اور اُن کی بیویوں نے انہیں پھر دنیا کمانے پر مجبور کر چھوڑا۔ انہوں نے پھر دنیا کمائی اور خوب کمائی لیکن وہ ایک دائمی خلش سے چھٹکارا نہ پاسکے۔
میری باصلاحیت اور قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھانے والی یہ اہلیہ 3؍مارچ 2005ء کو 88 سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں