محترم خان صاحب قاضی محمد رشید صاحب

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جنوری 2009ء میں محترمہ صالحہ قانتہ بھٹی صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم خانصاحب قاضی محمد رشید صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
خانصاحب قاضی محمد رشید صاحب 3؍ستمبر 1897ء کو موضع حاجی پورہ ضلع سیالکوٹ میں محترم حکیم مولوی محمد اعظم انصاری صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ چار بھائی اور دوبہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ محترم مولانا محمد سعید انصاری صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ آپ کے سب سے چھوٹے بھائی تھے۔
آپ نے پرائمری تک تعلیم موضع مُنڈی کرال ضلع گورداسپور میں حاصل کی۔ آپ کے والد چونکہ حکیم تھے اور اسی نسبت سے اُن کے حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ سے ذاتی تعلقات تھے اس لئے انہوں نے آپ کو مزید تعلیم کے لئے قادیان بھجوادیا جہاں آپ نے نویں تک تعلیم حاصل کی اور یہیں سے احمدیت آپ کے دل میں رچ بس گئی۔ اُن دنوں حضورؓ نوجوانوں کے لئے بعد نماز عصر درس القرآن دیا کرتے تھے۔ آپ کی رہائش چونکہ قریبی گاؤں ڈلّہ میں تھی اس لئے آپ درس میں تو شامل نہ ہوسکتے تاہم خوش قسمتی سے لکھائی خوشخط ہونے کی وجہ سے حضورؓ کے صاحبزادے اور آپ کے کلاس فیلو محترم میاں عبدالحئی صاحبؓ درس کے اپنے نوٹس آپ سے فیئر کروایا کرتے تھے اور اس طرح آپ بھی فائدہ اٹھالیتے۔ 1911ء میں آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔ ذہن بہت زرخیز تھا اور حضرت مسیح موعودؑ کا عربی قصیدہ مکمل حفظ تھا۔
نویں کلاس میں بیمار ہونے کے باعث میٹرک کا امتحان بعد میں پرائیویٹ طور پر پاس کیا۔ پھر محکمہ آرڈنینس میں بھرتی ہوگئے۔ فیروز پور (انڈیا) سے ملازمت کا آغاز کیا اور ترقی کرتے ہوئے سویلین گزٹیڈ افسر کے عہدہ پر ریٹائر ہوئے۔ آپ نے 1944ء میں ہی اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کردیا تھا لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے سروس مکمل کرنے کا ارشاد فرمایا۔ 1945ء میں برٹش گورنمنٹ نے آپ کو ’’خان صاحب‘‘ کا خطاب معہ تمغہ عطا کیا۔ اپنی ملازمت کے دوران آپ نے راولپنڈی ، کوئٹہ اور پونا (انڈیا) میں بطور امیر جماعت اور نوشہرہ میں بطور نائب امیر خدمات کی توفیق پائی۔ حضورؓ نے ایک موقع پر جلسہ سالانہ اور ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں اظہار خوشنودی فرمایا کہ: ’’راولپنڈی کا امیر ایک نوجوان کلرک ہے لیکن جماعت میں اس کا رعب (اور تعاون) اس قدر ہے کہ اگر وہ جماعت کو کہتا ہے کہ کھڑے ہوجاؤ تو سب کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب انہیں کہتا ہے کہ بیٹھ جاؤ تو سب کے سب بیٹھ جاتے ہیں۔ امیر ہوتو ایسا ہو۔‘‘
آپ 24دسمبر 1952ء کو نوشہرہ ضلع پشاور سے ریٹائر ہوئے تو ربوہ میں گھر بنوایا اور وکیل المال ثالث تحریک جدید کے طور پر کئی سال تک خدمت کی توفیق پائی۔ آپ 1/3حصہ کے موصی تھے اور وصیت نمبر 1535 تھا۔ دیگر چندوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں اپنے ساتھ باقی اہل و عیال، والدین اور ہمشیرہ کو بھی شامل کیا اور تادم آخر ان سب کی طرف سے چندہ ادا کرتے رہے۔ تنخواہ ملتی تو پہلے چندہ جات کی رقوم علیحدہ رکھ لیتے۔ آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی مکرمہ قانتہ شاہدہ صاحبہ (اہلیہ مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن) 1944ء میں پیدا ہوئیں تو اُن کی طرف سے بھی دس سال کا چندہ یکمشت ادا کرکے اُنہیں بھی دفتر اوّل میں شامل کرالیا۔
جنگ عظیم دوم کے دوران 1941ء میں آپ خرطوم (سوڈان) میں مقیم تھے تو کسی مخالف نے رپورٹ کردی کہ آپ ایک ایسے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو حکومت برطانیہ کے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔ یہ رپورٹ آپ کے انگریز افسر تک پہنچی تو اُس نے لکھا کہ ’’قاضی محمد رشید میرا ڈیوٹی کلرک ہے۔ اس کے متعلق میں اتنا جانتا ہوں کہ میں نے اپنی ساری سروس کے دوران جو میں نے ہندوستان میں کی ہے اس سے زیادہ پکا اور سچا مسلمان نہیں دیکھا‘‘۔
غالباً 1951ء میں نوشہرہ میں مخالفین نے جماعت کے خلاف ایک جلسہ منعقد کرنے کا پروگرام بنایا اور اشتعال انگیز اشتہارات شہر میں چسپاں کردیئے۔ جلسہ سے ایک روز قبل جماعت کے سرکردہ افراد حکام بالا سے بھی ملے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ شام کو محترم قاضی محمد رشید صاحب نے حالات دیکھ کر جماعت میں اطلاع کروائی کہ جس جگہ مخالفین جلسہ کرنا چاہتے ہیں، آج رات میں وہاں تہجد کی نماز پڑھوں گا۔ اگر دوست جماعت تہجد میں شریک ہونا چاہیں تورات دو بجے وہاں آجائیں۔ چنانچہ قریباً چالیس احباب نے آپ کی معیت میں نماز تہجد نہایت خشوع و خضوع سے ادا کی۔ اور اگلے روز صبح ہی حکومت کی طرف سے ہرقسم کے جلسہ جلوس پرپابندی عائد کردی گئی۔
1936ء میں کوئٹہ میں زلزلہ کے بعد حکومت بلوچستان نے تمام محکموں کے نام ایک حکم نامہ بھیجا جس میں تحریر تھا کہ کوئٹہ میں زلزلہ کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے حکومت کو مسلمانوں کے متعلق بہت فکر ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاں شرعی قانون موجود ہے اس لئے تشویش ہے کہ کوئی بے انصافی نہ ہوجائے۔ اس لئے کسی بہترین عالم کی ضرورت ہے جو نہ صرف شرعی قانون سے واقف ہو بلکہ حکومت کی اس اہم معاملہ میں صحیح رہنمائی بھی کرسکے۔ اس پر آپ کے کمانڈنگ آفیسر نے آپ کا نام پُرزور سفارش کے ساتھ پیش کیا اور آپ حکومت کی طرف سے اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے مقرر کردئیے گئے۔
کوئٹہ میں ایک بار جماعت کے جلسہ سیرۃ النبیؐ میں بہت سے غیر از جماعت پٹھان بھی شریک تھے۔ آپ کی تقریر کا اثر تھا کہ جلسہ ختم ہوا تو پٹھانوں نے انہیں گھیرلیا اور کوئی پائوں کو چھوتا کوئی گھٹنوں کو چھوتا اور تعویذ کی درخواست کرتا۔ تب آپ سمجھاتے کہ ہم تعویذ وغیرہ نہیں دیتے ہم تو صرف دعا کرتے ہیں۔
محترم خانصاحب کی خلافت سے وابستگی کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ جو مولانا نورالحق صاحب (ابوالمنیر) کے رشتہ کے لئے کئی احباب کو تحریک کرچکے تھے لیکن کوئی بات بن نہ سکی۔ اس پر حضورؓ نے آپ کی بیٹی کے ساتھ رشتہ از خود تجویز فرمایا اور مولوی صاحب سے فرمایا کہ اب میں آپ کے رشتہ کے لئے ایک ایسے شخص کو لکھوں گا جو انکار کرنا نہیں جانتا اور میرے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانا جانتا ہے۔ محترم خانصاحب اُس وقت بسلسلہ ملازمت سکندر آباد دکن میں مقیم تھے۔ حضور ؓ نے آپ کو رشتہ کے بارہ میں لکھا اور پوچھا کہ کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں؟ آپ نے جواباً عرض کیا کہ ’’میں نہ اس شخص کو جانتا ہوں اور نہ ہی مجھے جاننے کی کوئی ضرورت ہے۔ میں تو صرف اپنے مرشد کو جانتا ہوں۔‘‘
حضرت خانصاحب فدائی اور دعاگو بزرگ تھے۔ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ زندگی بھر دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار نہایت متوکل انسان تھے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ والدین کے نہایت فرمانبردار، رشتہ داروں سے صِلہ رحمی کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔
حضرت خانصاحب کی شادی حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالویؓ کی بڑی صاحبزادی حضرت امۃالحمید بیگم صاحبہؓ سے 1919ء میں ہوئی تھی۔ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی متبرک لسّی پینے کا اعزاز حاصل تھا۔ نیز لوائے احمدیت کے لئے سوت کات کر دھاگہ بنانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ آپ کا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے حج کے روز مسجد مبارک قادیان میں پڑھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو دس بچوں سے نوازا۔ ان میں سے ایک بچہ صغرسنی میں فوت ہوگیا اور ایک شادی شدہ 21سالہ بیٹی سوا سال کا بچہ چھوڑ کر داغِ مفارقت دے گئیں۔
حضرت خانصاحب نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھا۔ گھر میں دینی ماحول دیا۔ اعلیٰ تعلیم دلوائی اور آٹھ بچوں کی وصیت اپنی زندگی میں کروائی اور اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا کہ جب تمہاری عمر اٹھارہ سال ہوجائے تو پھر تم بھی وصیت کرلینا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ ہم جماعت کا بوجھ اُٹھانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں جماعت پر بوجھ ڈالنے کے لئے نہیں۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کے سب بیٹے واقف زندگی ہوں۔ چنانچہ مکرم مبارک احمد صاحب انصاری سابق پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ، مکرم رفیق احمد ثاقب صاحب سابق پرنسپل فضل عمر احمدیہ سیکنڈری سکول کانو نائیجیریا ، مکرم منیر احمد منیب صاحب سابق پرنسپل احمدیہ بشیر ہائی سکول کمپالہ (یوگنڈا) اور مکرم ڈاکٹر لئیق احمد انصاری صاحب آف گیمبیا (حال فضل عمر ہسپتال ربوہ) نے وقف کیا اور چاروں اس وقت بھی خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ اسی طرح آپ کے تین داماد محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب، مکرم لطف الرحمن شاکر صاحب اور مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب (امام مسجد فضل لندن) بھی واقف زندگی ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے دل میں حضرت خانصاحب کی ایسی قدر تھی کہ ایک بار فرمایا کہ ان کے گھر کا نام ’’بیت الوفا‘‘ ہونا چاہیے۔
آپ قرآن کریم کے عاشق تھے۔ کثرت سے پڑھتے اور پڑھاتے۔ آخر عمر میں چند دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر قرآن کے معانی پر غور کرتے تھے۔ آپ کو علمی ذوق بہت تھا۔ اُردو، انگریزی، پنجابی، عربی اور فارسی پرعبور حاصل تھا اور ان زبانوں میں بہت اچھی نظمیں بھی لکھیں۔ ایک نظم کے چند اشعار پیش ہیں:

حمد و ثنا اسی کو جو صنعتِ جہاں ہے
صنعت ہے اس کی ظاہر صانع مگر نِہاں ہے
ماضی کی تلخیاں سب تو نے بھلا دیں یا ربّ
ان کی بجائے برلب اک میٹھی داستاں ہے
اولاد پہلے دی پھر اولاد نافلہ دی
لبریز قلب میرا از شکر و امتناں ہے
تم سب کو پیارے بچو میری ہے یہ وصیت
اللہ کو یاد رکھنا مسلم کا یہ نشاں ہے
دنیا ہے ایک جیفہ اک مزبلہ کثیفہ
ہاں اک کنیف گندی جو جائے امتحاں ہے
اس سے نہ دل لگانا عقبیٰ کا گھر بنانا
دارالقرار وہ ہے جانا ہمیں جہاں ہے
کرتے رہو عبادت اللہ کی اطاعت
درآیہ مَاخَلَقۡتُ …جو غرض اِنس وجاں ہے
کچھ کہہ دیازباں سے باقی بھرا ہے دل میں
یا رب! تُو خوب جانے دل کی کہ رازداں ہے

مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اوّل تحریک جدید ربوہ کا بیان ہے کہ غالباً 1949ء میں بسلسلہ ملازمت مجھے نوشہرہ جانا پڑا۔ جمعہ کا دن آیا تو معلوم ہوا کہ قاضی محمد رشید صاحب کے دولت کدہ پر نماز ادا کی جائے گی۔ اس سے پہلے مجھے اُن سے کوئی تعارف نہ تھا۔ خطبہ جمعہ کے لئے جو آپ کھڑے ہوئے تو وضع قطع و خدوخال حرکت و سکون، غرضیکہ ہر جہت سے بزرگی اور تقویٰ کے آثار نمایاں طور پر نظر آئے۔ خطبہ کے لئے لب کشائی ہوئی تو ایک ایک لفظ دل میں اُتر تا گیا۔ کیا بلحاظ تلفظ اور کیا بلحاظ وسعتِ معانی۔ خطبہ کا مضمون بڑا دلنشین اور جامع تھا۔ او رمیں یہ معلوم کرکے حیران رہ گیا کہ خطیب ہمارے مرکزی علماء میں سے نہیں بلکہ ایک سرکاری محکمہ کے آفیسر تھے۔ لیکن عربی اُردو اور دینیات کا علم اتنا ٹھوس کہ کسی مسئلہ کی وضاحت کے وقت کوئی پہلو تِشنہ نہیں رہنے دیا جاتا۔
25؍فروری 1966ء بروز جمعہ حضرت خانصاحب نے 69 سال کی عمر میں سرگودھا کے ہسپتال میں وفات پائی۔ جنازہ ربوہ لایا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں تدفین عمل میں آئی۔
آپ کی وفات سے ایک رات قبل محترم صوفی بشارت الرحمن صاحب مرحوم نے خواب دیکھا کہ ایک کھلی جگہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا جنازہ حضرت مسیح موعودؑ پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب حضرت علامہ حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ سے بیان کی تو حضرت حافظ صاحبؓ نے فرمایا کہ آج کسی ایسے شخص کی وفات ہوگی جس کا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی طبیعت سے کچھ رنگ ملتا جلتا ہوگا۔ اسی اثناء میں حضرت خانصاحب کی وفات کی خبر بھی پہنچ گئی تو فرمایا کہ یہ ہے آپ کے خواب کی تعبیر!۔
حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحبؓ نے آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:’’میری موجودہ بیوی سے جو حضرت قاضی صاحب کی چھوٹی نسبتی بہن ہے۔ میری شادی 1930ء میں ہوئی تھی۔ اس وقت سے مجھے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ آپ خاموشی سے خدمت دین کرنے والے انسان تھے۔ راہِ خدا میں مال خرچ کرنا ان کا شعار تھا۔ تبلیغِ اسلام اپنے دائرہ میں خوب کرتے تھے۔ بہت تقویٰ شعار انسان تھے۔ صِلہ رحمی میں قاضی صاحب ایک نمونہ تھے۔ آپ کی زندگی ذکر الٰہی میں گزرتی تھی۔ اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کا بہت اہتمام فرماتے اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ انہیں اس پہلو سے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل رہی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں