خلفائے کرام سے متعلق ذاتی مشاہدات

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر 2008ء میں محترم چودھری محمد علی صاحب خلفائے کرام سے تعلقات کے حوالہ سے اپنی یادیں بیان فرماتے ہیں۔
محترم چودھری محمد علی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب ربوہ میں کالج بن رہا تھا تو اس وقت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ گرمی میں، دھوپ میں کھڑے ہوکر، مزدوروں میں رہ کر کام کی نگرانی کیا کرتے تھے۔

حضورؒ خلیفہ بننے سے پہلے کسی جلسہ میں شرکت کے لئے کراچی تشریف لے گئے تو واپس آکر بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ بندے کی چھوٹی چھوٹی بات کو بھی وہ قبول کرلیتا ہے۔ جس گاڑی پر میں گیا وہ اتنی تیز گاڑی چلاتا تھا کہ میں نے ارادہ کیا کہ واپسی پر اس کے ساتھ نہ آئوں گا۔ لیکن واپسی پر بھی وہی گاڑی تھی۔ چنانچہ اُس میں بیٹھ گئے لیکن وہ اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی۔ آخر ایک اَور گاڑی لائے کہ آپ اس میں بیٹھ جائیں۔ جب مَیں اُس میں بیٹھ گیا تو پہلے والی گاڑی بھی اسٹارٹ ہوگئی۔

چودھری محمد علی صاحب

خواجہ غلام صادق صاحب جو پنجاب یونیورسٹی کے صدر شعبہ فلسفہ تھے اور بعد میں وائس چانسلر ہوگئے تھے۔ حضرت میاں صاحب سے ان کا بہت محبت کا تعلق تھا۔ انہوں نے سنایا کہ ایک بار وہ ربوہ ٹورنامنٹ کے لئے آئے۔ واپسی ٹرین کے ذریعہ تھی۔ اُس وقت ربوہ میں تانگے ہی ہوتے تھے۔ تو وہ بھاگم بھاگ جب اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ بٹوا تو میرے کمرہ میں ہی چھوڑ آئے تھے۔ پھر کسی سے پیسے مانگ کر ٹکٹ لیا تو جاتے ہی انہیں ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ اس پر مجھے حضرت صاحب نے بھیجا کہ جاؤ جاکر اُن کی خیریت پوچھو۔ چنانچہ میں گیا۔ ہسپتال میں اُن سے ملا اور کہا کہ مجھے حضرت میاں صاحب نے بھیجا ہے انہوں نے ارشاد فرمایا کہ میں دعا کروں گا انشاء اللہ خداتعالیٰ صحت دے گا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے کہنے لگے کہ اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ مجھے صحت ہوجائے گی میں دعا کا قائل ہوں اور پھر انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک بار وہ تین چار دوستوں کے ہمراہ کار پر ربوہ سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے۔ جب سکھیکی پہنچے تو اڈّہ پر کار ذرا دیر کے لئے روکی لیکن وہ دوبارہ اسٹارٹ نہ ہوئی۔ اڈّہ پر کام کرنے والے بچے حضرت میاں صاحب کو جانتے تھے۔ آپؒ بچوں کو پیسے دیدیتے تھے تو وہ خوش ہو جاتے تھے۔ ہم وہاں بڑی پریشانی میں سب کھڑے تھے کہ عصر کے وقت ایک گاڑی نظر آئی جو ربوہ سے لاہور جارہی تھی۔ اُس میں آپؒ بیٹھے تھے۔ آپؒ نیچے اترے اور حالات معلوم کرکے کہا کہ میرے ساتھ تو مستورات ہیں ورنہ بعض کو میں اپنے ساتھ لے جاتا۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے تو یہ امریکہ کی بنی ہوئی کار بھی اُس کے قبضۂ قدرت میں ہے، آؤ دعا کریں کہ یہ اسٹارٹ ہوجائے۔ ہم یہ سن کر بڑے حیران ہوئے کہ کار کے لئے کیا دعا کریں گے مگر آپؒ نے وہاں کھڑے کھڑے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے تو شرم و شرمی ہم نے بھی ہاتھ اٹھا لئے۔ اڈے والے بچے اور نوجوان سب اکٹھے ہو گئے تماشہ دیکھنے کے لئے کہ کار کے لئے دعا ہو رہی ہے۔ دعا کے بعد حضورؒ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ ہم تھکے ہوئے تھے ہم بھی جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ کسی نے اس کے اسٹارٹ کا بٹن دبا دیا تو کار اسٹارٹ ہو گئی۔ بعض نے کہا کہ چلنا نہیں چاہئے کیونکہ اب تو اڈے پر کھڑے ہیں پھر جنگل میں جا کر کھڑے ہو گئے تو کیا ہوگا۔ میں نے کہا اب کار بند نہیں ہوگی اب یہ ہمیں پہنچا دے گی۔ چنانچہ جب ہم نے لاہور پہنچ کر راوی کراس کیا تو پھر گاڑی کھڑی ہوگئی۔
یہ واقعہ سناکر وہ کہنے لگے مجھے یقین ہے کہ مجھے صحت ہو جائے گی۔ چنانچہ وہ پھرٹھیک ہوگئے اور اس کے بعد پندرہ بیس سال تک زندہ رہے۔
قیام پاکستان کے بعد مجھے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ حضورؓ کی خدمت میں یہ پیغام پہنچادوں کہ پرنسپل کی طرف سے گزارش ہے کہ فی الحال کالج شروع نہ کیا جائے۔ جماعت جب سیٹل ہوجائے گی تو تب شروع کریں گے۔ چنانچہ میں نے جب حضورؓ کی خدمت میں یہ پیغام عرض کیا۔ حضورؓ نے پیغام سنا۔ کالج کمیٹی کے دیگر ممبران، حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ، حضرت درد صاحبؓ ، حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ جو کمیٹی کے صدر تھے، اِن سب نے بھی باری باری میری بات کی تائید کی۔ اس پر فرمایا: آپ کو کیا پیسوں کی فکر پڑی ہوئی ہے؟ یہ کالج چلے گا اور آج سے شروع ہونا چاہیے۔ پاکستان کی زمین پر آسمان کے نیچے جہاں جگہ ملتی ہے، آج سے شروع ہونا چاہیے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں