حضرت مہاشہ محمد عمر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم و 2؍اگست 2001ء میں مکرمہ ثریاغازی صاحبہ نے اپنے والد حضرت مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل کے تفصیلی حالات قلمبند کئے ہیں۔

محترم مہاشہ محمد عمر صاحب

حضرت مہاشہ صاحب کا پیدائشی نام یوگندر پال ولد دھنی رام تھا۔ آپ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں دودھوچک میں 1907ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان کئی نسلوں سے جوتشی تھا، نیز کٹر ہندو برہمن تھا جہاں چھوت چھات سختی سے کی جاتی تھی۔ آپ اپنے والدین کی سب سے چھوٹی اولاد تھے۔ دو بھائی اور ایک بہن بڑے تھے۔ ابھی آپ چھوٹے ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ کے گاؤں میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، مسلمان بہت کمزور تھے۔
آٹھ سال کی عمر تک آپ نے گاؤں کے سکول میں تعلیم پائی۔ دوستی مسلمان بچوں کے ساتھ تھی اور آپ اُن کے گھروں میں بھی چلے جاتے تھے جو آپ کی والدہ کو پسند نہیں تھا چنانچہ آپ کے گھر آنے پر آپ کی والدہ آپ کو پاک کرنے کے لئے آٹے کا چھان مل کر نہلاتی تھیں۔ والدہ کے کہنے پر آپ توبہ کرتے لیکن یہ توبہ جلد ہی ٹوٹ جاتی۔ سکول میں ایک احمدی استاد تھے جو پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو احمدیت کے بارہ میں بھی بتایا کرتے تھے۔ اُن کی باتیں سن کر آپ کو ہندومت سے نفرت ہوتی چلی گئی حتی کہ آپ اپنی والدہ سے بتوں کو خدا بنانے کے بارہ میں بحث کرنے لگے۔ پھر آپ کو ہندومت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے کانگڑہ کے مذہبی سکول بھجوادیا گیا تاکہ آپ اپنے آبائی پیشہ کے مطابق پنڈت بن سکیں۔ وہاں آپ چھ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔
14؍سال کی عمر میں آپ اپنے ایک استاد اور چند لڑکوں کے ساتھ قادیان گئے۔ ایک ہفتہ وہاں ٹھہرے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے استاد کے سامنے ایک تجویز رکھی کہ وہ اپنے ہمراہ چند احمدی لڑکے کانگڑہ لے جائیں جنہیں سنسکرت کی تعلیم دیں اگر وہ لڑکے وید سے متأثر ہوکر ہندو ہونا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اسی طرح اتنے ہی ہندو لڑکے قادیان میں چھوڑ دیں جنہیں قرآن کریم کی تعلیم مَیں دوں گا۔ قرآن کریم کی تاثیر سے اگر وہ چاہیں تو احمدیت قبول کرلیں۔ ہر دو صورتوں میں طالبعلموں کا تمام خرچ ہم برداشت کریں گے۔
حضورؓ کی اس تجویز سے آپ کے دماغ میں وہی باتیں آنے لگیں جو اپنے گاؤں میں احمدی استاد سے سنی ہوئی تھیں۔ حضورؓ کا اپنے بچوں پر اعتماد آپ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا رہا۔ آپ سنسکرت کی ڈگری ’’وشارد‘‘ پاس کرچکے تھے۔ چنانچہ جلد ہی آپ نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ اگر حضورؓ کی وہ پیشکش ابھی تک قائم ہے تو ہم دو لڑکے قادیان آکر عربی پڑھنا چاہتے ہیں۔ حضورؓ کا جواب اثبات میں آیا تو دوسرا لڑکے نے جانے سے انکار کردیا لیکن آپ نے ہمت کی اور اکیلے ہی قادیان چلے گئے۔ حضورؓ نے آپ کے لئے ایک چوبارہ کرایہ پر لے لیا اور ایک ہندو لڑکا آپ کے لئے نوکر رکھ لیا۔ آپ نے عربی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ صرف چھ ماہ بعد آپ نے احمدی ہونے کا اعلان کردیا۔ جب آپ نے اپنے گاؤں جاکر یہ خبر سنائی تو آپ کے بھائیوں نے آپ کو لوہے کی سلاخ سے بہت مارا۔ اس پر آپ موقع پاکر گاؤں کے ایک مسلمان گھر میں جا چھپے جہاں آپ کی والدہ اپنی مامتا سے مجبور ہوکر آپ کو کھانا پہنچاتی رہیں۔ تین دن بعد کسی طرح آپ وہاں سے نکلے اور قادیان پہنچ گئے۔

محترم مہاشہ محمد عمر صاحب

قادیان میں حضورؓ نے آپ کو حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب کے سپرد کردیا۔ آپ کھانا بھی اُنہی کے ہاں سے کھاتے رہے اور کچھ ہی عرصہ میں تیاری کرکے مولوی فاضل پاس کرلیا اور زندگی وقف کردی۔ حضورؓ نے آپ سے بہت شفقت کا برتاؤ کیا اور آپ کا سارا خرچ ذاتی طور پر اٹھایا۔
آپ کی بہن سیالکوٹ میں بیاہی گئی تھیں۔ وہ آپ کی یاد میں رو رو کر اندھی ہوگئیں۔ ایک بار آپ اُسے ملنے گئے تو بہنوئی نے ملنے نہیں دیا۔ جب اُسے یہ معلوم ہوا تو صدمہ سے رونے لگی اور اس قدر ماتم کیا کہ بینائی ضائع ہوگئی۔ وہ آپ کا نام سن کر بے ہوش ہوجاتی۔ لیکن آپ دوبارہ کبھی اپنی والدہ اور بہن سے نہ مل سکے۔ آپ کے سب سے بڑے بھائی کا ایک بیٹا اور چھ بیٹیاں تھیں ۔ اُس بیٹے کی آگے اولاد نہیں ہوئی۔ آپ کے دوسرے بڑے بھائی کی منگنی آپ کے احمدی ہونے کے بعد ٹوٹ گئی اور پھر کہیں بھی اُس کی شادی نہیں ہوئی۔ اس طرح نسل صرف آپ کے ذریعہ ہی آگے چلی۔ آپ کی شادی محترمہ امیر بیگم صاحبہ بنت حضرت منشی کرم علی صاحبؓ (کاتب حضرت مسیح موعودؑ) کے ساتھ ہوئی۔ لڑکے اور لڑکی، دونوں کے ولی حضرت مصلح موعودؓ خود ہی تھے۔
حضرت مہاشہ صاحب بہت خاموش طبع تھے اور مطالعہ میں اکثر وقت صرف کرتے۔ بہت سادہ رہتے اور اپنی ذات کے لئے کبھی تکلّف نہ کرنے دیتے۔ کبھی بچوں کو نہیں ڈانٹا۔ اُن کی ناراضگی کا پتہ اُن کی خاموشی سے چلتا۔ احمدیت کے لئے بڑی غیرت تھی اور نظام جماعت کی پابندی سختی سے کرواتے۔ خلافت سے بے انتہا محبت تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت کو ہمیشہ یاد رکھا۔ یہ واقعہ روتے ہوئے سنایا کرتے تھے کہ ایک بار آپ نے حضورؓ کی خدمت میں لکھا کہ اتنے پیسوں کی فوری ضرورت ہے۔ اگرچہ حضورؓ ہی آپ کے اخراجات برداشت فرماتے تھے لیکن جب حضورؓ کی طرف سے اُس خط کا کوئی جواب آپ کو چند دن تک نہ ملا تو بہت پریشان ہوئے اور طبیعت میں کچھ ملال بھی پیدا ہوا۔ کچھ دن بعد حضورؓ نے راستہ کے ایک طرف بیٹھا ہوا آپ کو دیکھا تو اپنے راستہ سے ہٹ کر آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: میاں! مجھے تمہارا خط آج ہی ملا ہے اور مَیں تمہیں پیسے بھجوا آیا ہوں۔ یہ سن کر آپ کے آنسو بہ نکلے اور آپ حضورؓ کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔
1937ء میں آپ کو گردے کی تکلیف ہوئی تو حضورؓ نے حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب کے ہمراہ آپ کو کشمیر بھجوادیا۔ آپ تین ماہ کے علاج کے بعد صحتیاب ہوکر واپس آئے۔
آپ نے اپنی اہلیہ سے ہمیشہ احترام کا سلوک روا رکھا۔ ہمیشہ آپ کہہ کر مخاطب کرتے اور بچوں کو بھی والدہ سے اُسی احترام کا سلوک کرنے کی نصیحت کرتے رہتے جو ماں کا حق ہوتا ہے۔ اپنا کام ہمیشہ خود کرتے اور اگر کبھی کسی سے کروانا پڑتا تو بہت احسان مندی کا اظہار کرتے۔ نانا جان کی وفات کے بعد میری نانی قریباً پندرہ سال ہمارے ہاں مقیم رہیں۔ آپ نے ہمیشہ انہیں بہت عزت دی اور ہم سب کو اُن کے آرام کا خاص خیال رکھنے کی تلقین کرتے۔ ایک دن آپ نے نانی جان کو یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ منشی صاحب (نانا جان) کی وفات کے بعد میرے پاس کان میں پہننے کے لئے کوئی زیور نہیں۔ آپ نے محدود آمدنی کے باوجود انہیں سونے کی بالیاں بنواکر دیں۔
1952ء میں آپ کی تعیناتی بنگال میں کردی گئی۔ جب آپ بنگال میں مقیم تھے تو مَیں نے رو رو کر انہیں خط میں کسی صورتحال کے متعلق لکھا کہ دوسروں کے باپ یہاں موجود ہیں جو اُن کی سفارش کردیں گے لیکن آپ سینکڑوں میل دُور ہیں، میری سفارش کون کرے گا۔ آپ نے جواباً لکھا کہ مربیان کی اولادوں کا باپ خلیفہ وقت ہوتا ہے، مَیں دُور بیٹھا ہوں، تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا مگر تم حضرت مصلح موعودؓ کے پاس چلی جاؤ اور آئندہ بھی جب کبھی تمہیں میری کمی محسوس ہو تو حضورؓ کے پاس چلی جایا کرو۔ چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ حضورؓ نے مجھے تسلّی دی، مشورہ دیا اور دعا بھی کی اور میرا کام میری توقعات سے بڑھ کر احسن طریق سے انجام پذیر ہوا۔
آپ 1958ء میں بنگال سے واپس تشریف لائے۔ کچھ عرصہ بہاولپور اور سندھ میں بھی خدمت کی توفیق پائی پھر دوالمیال ضلع جہلم میں متعین ہوئے۔ 2؍ستمبر 1968ء کو 61 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں