حضرت منشی کرم علی صاحبؓ کاتب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جون 2007ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت منشی کرم علی صاحبؓ کاتب کے حالات شائع ہوئے ہیں۔
حضرت منشی کرم علی صاحبؓ ولد حاجی حکیم کرم الٰہی صاحب آف لمبانوالی ضلع گوجرانوالہ قریباً 1876ء میں پیدا ہوئے اور 1897ء میں قبول احمدیت کی توفیق پاکر سلسلہ کے ایک نہایت مفید اور نیک دل خادم ثابت ہوئے۔ حضورؑ کی تحریرات کی کتابت کا عظیم کام جن بزرگوں کے حصہ میں آیا ان خوش نصیب وجودوں میں آپؓ بھی شامل تھے۔ ’’کتاب البریہ ‘‘ سے ’’حقیقۃالوحی‘‘ تک حضورؑ کی تمام کتب میں سنگسازی کی سعادت آپؓ کو نصیب ہوئی۔ نیز حضورؑ کی متعدد کتب اور ریویو آف ریلیجنز اردو کے سالہا سال تک کاتب رہے۔ اس اعزاز کے علاوہ آپ حضورؑ کی بیشمار شفقتوں اور دعاؤں کے مورد ہوئے، آپ فرماتے ہیں:
’’حضرت اقدس کو میری سنگسازی کے ہنر پر بہت تعجب ہوا کرتا تھا کہ تم کس طرح الٹا لکھ لیتے ہو۔ ایک روز آپ نے فرمایا اگر پروف میں کوئی غلطی نہ ہوئی تو ہم آپ کو انعام دیں گے جب پروف آیا تو حضور نے ایک غلطی لگائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ تمہاری غلطی نہیں ہے اصل میں یہ مجھ سے ہی غلطی رہ گئی تھی اور ایک روپیہ انعام بھی مجھے دے دیا‘‘۔
حضرت حافظ عبد الرحیم صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ فرماتے ہیں کہ حضورؑ کی ایک کتاب کا کچھ حصہ میگزین پریس میں بھی چَھپ رہا تھا۔ ایک پروف لے کر حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا دوسرا پروف تیار ہوا؟ میں نے عرض کی کہ کرم علی سنگساز بیمار ہے اس لئے پروف تیار نہیں ہوسکا۔ حضورؑ نے فرمایا اس کو ابھی بُلا کر لاؤ۔ جب میں اُن کو بلا کر لایا تو حضورؑ نے فرمایا کہ منشی صاحب آپ بیمار ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں حضور! میں بیمار ہوں۔ آپؑ نے فرمایا: تم ہمارا پتھر ٹھیک کرو خدا تم کو شفا دے گا۔ شام کو جب میں نے منشی صاحبؓ سے حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بالکل تندرست ہوں۔
حضورؑکی تحریرات کی کتابت کرنے کی وجہ سے آپؓ حضورؑ کے خط سے خوب واقف تھے، حضرت سید نذیر حسین صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ بتاتے ہیں کہ حضورؑ نے جو فقرہ لکھا وہ کوئی نہ پڑھ سکا، آخر منشی صاحبؓ نے الفاظ پڑھ کر بتائے۔
حضرت بھائی عبد الرحمن صاحبؓ قادیانی حضورؑ کے اعجاز اور آپ کے صحابہ کی جاں نثاری کا ایک واقعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نماز مغرب کے بعد حضورؑ مسجد مبارک کی بالائی چھت پر رونق افروز تھے۔ اگلے روز مقدمہ کرم دین کی تاریخ پیشی تھی۔ انتظام سفر کے متعلق مشورے جاری تھے کہ اچانک حضورؑ نے منشی کرم دین صاحب کو یاد فرمایا۔ عرض کیا گیا کہ وہ تو گوجرانوالہ گئے ہوئے ہیں۔ فرمایا: ’’ ہمیں تو ان کی ضرورت ہے۔ کل کی پیشی میں ان کی شہادت کرانے کا خیال ہے‘‘۔ حاضرین نے عرض کیا حضور! عشاء کا وقت ہوگیا ہے، گاڑی کوئی جاتی نہیں وہ کل نہیں پہنچ سکتے، اگلی تاریخ پر ان کی شہادت ہوجائے گی۔ حضور پُرنور نے فرمایا: کوئی صورت ان کے آنے کی ممکن ہو تو بہتر ہے شاید حاکم پھر موقع نہ دے کیونکہ مخالفت پر تُلا ہوا ہے۔ مگر دوستوں نے پھر وہی عرض کیا جو پہلے کہہ چکے تھے۔ آخر تیسری مرتبہ جب حضرت نے شدّتِ ضرورت کا اظہار فرمایا تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے کھڑے ہوکر عرض کیا: حضور! منشی کرم علی صاحب پہنچ سکتے ہیں …۔ پھر حضورؑ کے پوچھنے پر عرض کیا کہ میں ابھی بٹالہ چلا جاؤں گا، وہاں سے یکّہ مل گیا تو بہتر ورنہ کوشش کروں گا کہ راتوں رات امرتسر پہنچ کر وہاں سے صبح کی نماز کے قریب لاہور اور گوجرانوالہ کو جانے والی گاڑی میں بیٹھ کر گوجرانوالہ آٹھ بجے پہنچ جاؤں اور اس طرح ان کو لے کر گورداسپور حاضر ہو جاؤں گا۔ میرا یہ بیان سن کر حضورؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: رات کا وقت ہے اکیلے جانا مناسب نہیں۔ میاں فتح محمد (سیال) آپ ساتھ چلے جائیں اور امرتسر سے لوٹ آئیں میاں عبد الرحمن آگے اکیلے چلے جائیں گے۔ ذرا ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔ حضورؑ نے واپس تشریف لاکر مٹھی بھر روپے میرے ہاتھ میں دئے اور فرمایا : جاؤ اللہ حافظ- ہم گورداسپور میں کل آپ کا انتظار کریں گے۔
ہم نے دست مبارک کو بوسہ دیا اور رخصت ہوئے۔ قادیان کا یکہ بان ہمیں بٹالہ لے جانے پر تیار نہ ہوا تو ہم بھاگتے ہوئے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ میں بٹالہ پہنچے۔ ایک یکہ بان جو امرتسر ہی کا تھا اتفاقاً مل گیا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر اُس کے ساتھ روانہ ہوئے۔ رات اندھیری اور علاقہ خطرناک تھا۔ عموماً چوری ڈاکہ کی وارداتیں ہوا کرتیں۔ راستہ میں دو جگہ خطرہ معلوم ہوا مگر ہم تینوں خدا کے فضل سے چوکس تھے۔ گھوڑا گاڑی خاصی تیز تھی ہم تک کوئی نہ پہنچ سکا اور ہم بخیریت وقت پر امرتسر سٹیشن پہنچ گئے۔ پھر مَیں لاہور سے ہوتا ہوا گوجرانوالہ پہنچا اور گاڑی سے اُتر کر دوڑتا ہوا شہر گیا۔ منشی صاحب کے پتہ پر پہنچا مگر جواب ملا کہ وہ فلاں جگہ چلے گئے ہیں۔ چنانچہ مارا مارا دوسرے پتہ پر پہنچا مگر افسوس منشی صاحب وہاں بھی نہ ملے۔ لَوٹ کر پہلے مکان پر آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر وہ لمبانوالی چلے گئے ہوں گے۔ وہاں جانے کے لئے وزیر آباد یا گکھڑ کو جانے والے کسی یکہ میں بیٹھ کر راہوالی کے برابر اتر جانا، وہاں سے سیدھا راستہ لمبانوالی کو جاتا ہے یہ مقام گوجرانوالہ سے براستہ سڑک چار میل ہوگا۔ میں یکوں کے اڈہ کو دوڑا۔ ایک یکہ سواریاں لے کر نکلا تھا کہ میں نے دوڑ کر اس سے کہا کہ فلاں جگہ تک مجھے بھی لے چلو۔ اس نے کہا کہ سواریاں پوری ہیں۔ میں نے کہا کہ گکھڑ کا کرایہ لے لو اور مَیں پٹڑی پر پیر ٹکا کر ہی گزارا کر لوں گا۔ پیسوں کے لالچ میں اس نے مجھے راہوالی تک پہنچایا۔ لیکن میری ایک بانس کی سوٹی اُس کو اتنی پسند آئی کہ دینے سے انکار کردیا۔ آخر مَیں نے اُس سوٹی کو قربان کرکے لمبانوالی کو دوڑ لگادی۔ گاؤں پہنچا تو منشی صاحب کا مکان دریافت کرکے آواز دی۔ منشی صاحب میری آواز پہچان کر ننگے سر اور ننگے پاؤں دروازہ پر آئے۔ میں نے جلدی میں مقصد بتایا اور وہ ایک منٹ سے بھی پہلے پگڑی جوتی اور ایک کپڑا لے کر نکل آئے اور ہم گوجرانوالہ سٹیشن کو دوڑنے لگے، خوب دوڑے اور ایک پگڈنڈی کے راستہ سے جب سٹیشن پر پہنچے تو گاڑی آگئی۔ جلدی سے ٹکٹ لے کر سوار ہوئے اور گورداسپور پہنچے جہاں حضورؑ ہمارے انتظار میں تھے۔ یہ معجزہ حضورؑ کا ہی تھا۔ اور حضورؑ تبسم فرماتے ہوئے جزاک اللہ جزاک اللہ فرماتے اور دعائیں دیتے رہے۔
غیر مبائعین کے ایک اعتراض کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی کتاب ’’حقیقۃالنبوّۃ‘‘ میں حضرت منشی صاحبؓ کی گواہی بھی درج فرمائی ہے ۔
تقسیم ملک کے بعد حضرت منشی صاحبؓ پاکستان آگئے اور 15 دسمبر 1952ء کوبعمر76سال وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ آپ کی وفات پر حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکملؓ نے لکھا: ایک وقت تھا کہ قادیان میں کوئی پریس تھا، نہ کاتب۔ حضرت مسیح موعودؑکو اپنے مسودات طبع کرانے کے لیے امرتسر جانا پڑتا۔ بعض اوقات پا پیادہ ہی چل پڑتے۔ آخر قادیان میں پریس دستی قائم ہوگیا۔ ابتداء میں حضرت پیر سراج الحق نعمانی، حضرت پیر منظور احمد صاحبان کتابت کی خدمات بجالاتے، اسی سلسلہ میں منشی کرم علی صاحب بھی آ پہنچے اور قادیان کے ہورہے۔ آپ کا خط بہت شستہ تھا۔ ریویو آف ریلیجنز اردو کی کتابت کرتے تھے، خط معکوس میں بھی قابل تعریف دسترس حاصل تھی جس سے سنگسازی کی مشکلات حل ہوگئیں۔ میں نے دیکھا کہ حقیقۃ الوحی چھاپنے والے مرزا اسماعیل بیگ حضور کے بچپن کے خادم تھے۔ پروف حضور نے ملاحظہ فرماکر واپس بھیجا تو قریباً آدھا صفحہ عبارت بڑھادی۔ منشی صاحب نے بلاتکلف پتھر پر الٹا لکھا چنانچہ جس خوبی سے یہ کام کیا گیا حقیقۃ الوحی کے صفحات سے فنّی واقفیت والے دیکھ کر داد دے سکتے ہیں۔ پھر حضورؑ کا منشاء تھا کہ چراغ الدین جمونی وغیرہ کی تحریروں کا عکس چھپے، لاہور سے فوٹو کرانے میں کئی دقتیں تھیں جلدی بھی تھی، منشی صاحب نے باریک کاغذ کاپی کے طور پر رنگ کے اسے اصل تحریر پر رکھ کر عکس لے لیا اور یوں بلا خرچ بہت جلد یہ کام بھی ہوگیا۔ منشی صاحب نے اپنے کئی شاگرد بھی تیار کیے۔ جب ریویو اردو کا چارج مجھے دیا گیا تو منشی صاحب کی نظر کمزور ہوچکی تھی اور ہاتھ مضبوط نہیں رہا تھا اس لیے جب ان کو معلوم ہوا کہ میں کتابت کا کچھ اَور انتظام کرنا چاہتا ہوں تو وہ دفتر میں آئے اور بچشم پُر آب کہا کہ ریویو کو میں نے ہی لکھنا شروع کیا تھا اب چند روز کی بات ہے یہ شرف مجھ سے نہ لیا جائے۔ چنانچہ وہی لکھتے رہے جب تک کہ لکھ سکے۔ آخر عمر میں ایک معمولی سی دوکان اپنے مکان ہی میں کرلی تھی اور قطعات بھی لکھتے تھے۔ اخیر تک اپنی وضع قطع کو قائم رکھا۔ پٹے رکھتے مایہ لگی ہوئی ہلکے رنگ کی پگڑی، گلے میں دوپٹہ، کرتہ، تہمد۔
منشی صاحب کا بڑا لڑکا رحمت اللہ چھ سات سال کی عمر میں ظہر کے وقت مسجد مبارک میں آیا تو انہوں نے حضور مسیح موعود سے عرض کیا کہ یہ میرا لڑکا ہے۔ رحمت اللہ نے خوش الحانی سے شعر پڑھا:

جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے

اور آخری فقرہ میں آگے بڑھ کر حضرت اقدسؑ کو ہاتھ لگایا، حضورؑ مسکرائے۔
منشی صاحبؓ نے دو ہونہار بیٹوں اور ایک پوتے کی وفات کے صدمات بڑے صبر سے برداشت کیے۔ ایک بیٹا مدرسہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھا اور بہت ذہین و جمیل تھا اور اپنے ہم عصر طلباء میں مقبول۔ اور پوتا بھی حضرت خلیفۃ المسیح کی تحریک پر چھوٹی سی عمر میں نیوی میں بھرتی کرادیا ہوا تھا کہ ناگہانی وفات پاگیا۔
ایک نو عمر مہاشہ یوگندر پال کو سعادت دارین قادیان لے آئی۔ محمد عمر نام پایا۔ ہندی سنسکرت میں کچھ شد ھ بدھ تھی اس میں امتحان پاس کیے۔ زبان سراسر ہندی تھی مگر توغل فی الدین اور صحبت علماء صالحین سے بہرہ اندوز ہوکر مولوی فاضل پاس کرلیا۔ منشی صاحب نے اپنی لڑکی امینہ کو اُن کے نکاح میں دے دیا۔ مولانا شیخ محمد عمر اب کامیاب مربی ہیں۔
حضرت منشی صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ 1889ء میں پیدا ہوئیں، 1908ء میں بیعت کی توفیق پائی اور 28 اپریل 1966ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں