انٹرویو: مکرم قریشی محمد عبداللہ صاحب

ہفت روزہ ’’سیرروحانی‘‘ 15 تا 21؍جون 2000ء کے شمارہ میں محترم قریشی محمد عبداللہ صاحب (آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ پاکستان) کا انٹرویو شائع ہوا ہے جو مکرم طاہر محمود مبشر صاحب اور راجہ برہان احمد طالع صاحب نے قلمبند کیا ہے۔
مکرم قریشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے آباء و اجداد سے ہی ہمارا وطن قادیان چلا آرہا ہے۔ مَیں اُس مکان میں پیدا ہوا جو مسجد اقصیٰ کے قریب سکھوں کی گلی میں واقع ہے۔ میرے والد حضرت میاں شیخ محمد قریشی صاحبؓ نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے بیعت کی۔ اُس وقت اُن کی عمر بارہ سال تھی۔ وہ قادیان کے ابتدائی ڈاکخانہ میں بطور پوسٹ مین ملازم تھے۔ 1934ء میں ریٹائرڈ ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ وفات کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ میرے دادا اور دادی بھی صحابہؓ میں شامل تھے۔ میری دادی حضرت عالم بی بی صاحبہؓ حضرت اماں جانؓ کی سہیلی تھیں اور ان کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتی تھیں۔ ایک دن جب آپؓ حضرت اماں جانؓ کے ساتھ رضائی سی رہی تھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ چند مہمان آئے ہیں، لنگر خانے میں اس وقت کھانا نہیں ہے۔ میری دادی صاحبہؓ نے عرض کیا کہ حضور! کافی دیر ہوئی، ملازمہ میرے لئے کھانا دے کر گئی تھی، مَیں کام میں مصروف تھی اس لئے مَیں نے نہیں کھایا۔ کھانا اُسی طرح طاقچہ میں پڑا ہے۔ چنانچہ حضورؑ وہ کھانا لے گئے اور مہمانوں کو کھلا کرواپس تشریف لائے تو فرمایا: آج تو عالم بی بی کے کھانے نے ہماری لاج رکھ لی۔ عالم بی بی تو بڑی صابر ہے۔
مَیں 15؍اکتوبر 1913ء کو پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم بھی قادیان میں ہی حاصل کی۔ 1940ء میں صدرانجمن احمدیہ کی ملازمت ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ میں اکاؤنٹنٹ کے طور پر شروع کی۔ پھر کئی محکموں میں کام کیا۔ دوران ملازمت انٹرمیڈیٹ اور 1971ء میں بی۔اے بھی کرلیا ۔ 1973ء سے صدرانجمن احمدیہ کا آڈیٹر چلا آرہا ہوں۔ اس کے علاوہ مجلس انصاراللہ پاکستان کا بھی آڈیٹر ہوں۔ قادیان کے زمانہ میں اپنے محلہ کا زعیم خدام الاحمدیہ اور صدر جماعت بھی رہا۔
22؍اگست 1947ء کی صبح مجھے محاسب مکرم مرزا عبدالغنی صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ہدایات لینے کا کہا۔ فجر کی نماز کے بعد مَیں سیدھا میاں صاحبؓ کے گھر چلاگیا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ ابھی لاہور جائیں۔ مَیں سیدھا دفتر پہنچا اور وہاں سے محلہ دارالحمد چلا گیا جہاں حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے بیٹے محمد احمد صاحب (جو پائلٹ تھے) اپنے چھوٹے جہاز کے ساتھ تیار کھڑے تھے۔ مَیں نے حضرت میاں صاحبؓ کی چٹ انہیں دکھائی اور جہاز میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر میں ہم لاہور پہنچ گئے۔ وہاں جاتے ہی کام شروع ہوگیا لوگ جماعت کی رقوم جمع کروانے لگے۔ چند روز بعد جودھامل بلڈنگ میں مجھے کمرہ مل گیا۔ پھر سٹاف بھی نیا بھرتی کرنا پڑا۔
مجھے حضرت مصلح موعودؓ کے ذاتی امور میں بھی آپؓ کا آڈیٹر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؓ اور حضور انور ایدہ اللہ کے زمانہ میں صدرانجمن کے آڈیٹر کے طور پر مَیں نے کئی ایسی صفات حسنہ دیکھی ہیں جو عام بندوں کی نگاہ میں نہیں۔ ان تینوں بزرگ خلفاء کو بچوں سے خصوصاً طلباء سے بہت پیار و محبت سے پیش آتے دیکھا، نادار مریضوں، بیوگان اور یتامیٰ کے لئے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ، کبھی کسی ضرورت مند کو اس در سے خالی جاتے نہیں دیکھا۔
1964ء یا 1965ء میں جب مَیں دفتر خزانہ کا ہیڈکیشیئر تھا تو ایک روز میرا ایک سو روپیہ کم ہوگیا۔ کچھ دنوں کے وقفہ سے دو تین بار ایسا ہی ہوا۔ میرے اسسٹنٹ نے بتایا کہ اُس کے بھی ایک سو روپے کم ہوگئے ہیں۔ مَیں سخت پریشانی میں دعا کرتا رہا کہ ایک دن زور سے آواز آئی کہ فلاں چور ہے۔ مَیں نے اسسٹنٹ سے پوچھا کہ کیا اُسے بھی کوئی آواز آئی ہے۔ اُس نے کہا: نہیں۔ مَیں سمجھ گیا کہ یہ خدائی آواز ہے۔ جس کا نام بتایا گیا تھا، بعد میں اُسے محتسب کے ذریعہ بلاکر دھمکایا گیا تو اُس نے جرم کا اقرار کرلیا۔
اسی طرح ایک دفعہ میرا ایک ہزار روپیہ گُم ہوگیا۔ مَیں صبح و شام دعا کرتا رہا۔ ایک دن حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی اُس وصیت کے مطابق دعا کی جو آپؓ نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بچوں کو کی تھی کہ جب کوئی مشکل وقت آپڑے تو شہر کے باہر کسی اونچی جگہ پر چڑھ کر دعا کرنا کہ اے نورالدین کے ربّ! نورالدین تجھے بہت پیارا تھا، تُو اُس کی دعاؤں کو قبول فرمالیتا تھا۔ مَیں اس مشکل میں مبتلا ہوگیا ہوں، اسے دُور فرما‘‘۔ مَیں نے روتے ہوئے دعا کی اور واپس گھر آگیا۔ اگلے ہی روز مجھے ایک ہزار روپیہ واپس مل گیا جو مَیں غلطی سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اکاؤنٹنٹ کو دے بیٹھا تھا۔
مَیں نے ساری زندگی کبھی کسی کام کو عار نہیں سمجھا۔ گزارہ کرنے کے لئے ٹیوشنیں بھی پڑھائیں۔ اپنے کچے گھر کو خود آہستہ آہستہ پکی اینٹیں منگواکر پکاکرلیا۔ خود چھتوں پر لپائی بھی کی، صحن کا فرش بھی ڈالا۔ بچوں کو تعلیم بھی دلوائی۔ میرا یہی پیغام دوسروں کے لئے بھی ہے کہ کبھی کسی کام کو کرنے میں عار نہ محسوس کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں