انٹرویو: امّ مسرور حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ مد ظلھا العالی

سہ ماہی ’’النساء‘‘ کینیڈا اپریل تا جون 2008ء میں حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ مد ظلھا العالی بنت حضرت مصلح موعودؓ کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جو آپ نے چند سال قبل MTA کیلئے ریکارڈ کروایا تھا۔ اس انٹرویو سے بعض دلچسپ تاریخی و تربیتی امور اختصار سے ہدیۂ قارئین کئے جارہے ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے انداز تربیت کے حوالہ سے حضرت سیدہ موصوفہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کا بچوں کی تربیت کا انداز ناصحانہ تھا۔ نصیحت کرتے ہوئے کبھی چہرے پر مسکراہٹ بھی آجاتی مگر نظروں سے نصیحت زبان کی نسبت زیادہ ہوتی۔ نظر اٹھا کر دیکھنا ہمیں اپنی غلطی سے آگاہ کر دیتا تھا۔ بچوں کو اسلامی آداب سکھاتے۔ ایک ہی دستر خوان پر بچے آپؓ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ اس لئے آہستہ سے کھانا شروع کرتے ہوئے بسم اﷲ اور بعد میں الحمدللہ پڑھتے تاکہ بچے بھی سن لیں اور اس پر عمل کریں۔ کھانے پر تاکید ہوتی کہ ہاتھ دھو کر، دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھائو۔ دوسروں کی پلیٹوں سے ہاتھ گزار کر کھانا نہ ڈالو۔ زیادہ کھانا پلیٹ میں ڈالنے سے روکتے۔ فرماتے اتنا ہی ڈالو جتنا کھا سکو اس طرح کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ اس تربیت کا یہ گہرا اثر ہے کہ ہم لوگ اپنی پلیٹوں میں کھانا نہیں چھوڑتے۔
بڑوں کے احترام کی طرف خاص توجہ دلواتے۔ کبھی بڑوں کے سامنے ننگے سر یا آستین چڑھوا کر جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ بڑوں کی مجلس میں بیٹھ کر اور پھر اٹھ کر جانے سے منع فرماتے کہ یہ تعظیم کے خلاف ہے۔ لڑکیوں کو مغرب کے بعد گھر سے نکلنے کی اجازت نہ تھی۔ حضرت امّاں جانؓ کے گھر جانے کی اِس صورت میں اجازت تھی کہ اپنی امّی کو اطلاع کرو۔ حضرت عَمّوںصاحب (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ) کا گھر ہمارے گھروں کو سیڑھیوں سے ملواتا تھا۔ وہاں بھی دن کے وقت اگر عَمّوں صاحب سے ملنے جانا ہو تو اجازت لے کر جانے کا حکم تھا۔
حضورؓ اکثر صبح کے ناشتے یا دوپہر کے کھانے پر بچوں کے سامنے حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے واقعات سناتے اور آپؑ کے مقام کا بھی آسان الفاظ میں، جو بچوں کو سمجھ آ جائے، ذکر کرتے۔ اسی طرح حضرت خلیفہ اوّلؓ کا بہت ذکر کرتے۔ استاد ہونے کے لحاظ سے بھی اور خلیفہ ہونے کے لحاظ سے بھی بہت احترام اور محبت سے یاد کرتے۔ اس سے یہ مطلوب تھا کہ بچوں کے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی محبت اور احترام اُن کے مقام کی وجہ سے پیدا ہو۔
لڑکوں کی نگرانی رکھتے کہ وہ نماز باجماعت کے لئے گئے ہیں یا نہیں۔ اگر کسی سے غفلت ہوجاتی تو اُس کی سرزنش ہوتی۔لڑکیوں کی بروقت نماز پڑھنے کی نگرانی کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ نماز مغرب کے بعد سارے گھروں کا چکر لگاتے۔ اِس کا یہ مقصد تھا کہ دیکھیں کہ لڑکوں نے نماز پڑھی ہے یا نہیں، بچے گھر پر ہیں یا باہر ہیں۔ لڑکوں کو بھی بعد نماز مغرب سوائے عشاء کی نماز اور مجلس عرفان کے باہر جانے کی اجازت نہ تھی۔ لڑکیوں کو بہت اکرام سے باتوں باتوں میں اُن کی غلطیوں پر سمجھاتے۔ لڑکے اگر بڑے ہوجاتے تو اُن کو لکھ کر یا مائوں کے ذریعے سے غلطیوں سے آگاہ کرتے اور آئندہ محتاط رہنے کی تلقین کرتے۔
پردہ کی بہت نگرانی کرتے تھے۔ میری ایک بہن برقعہ اوپر کر کے سڑک پار کر رہی تھی کہ اباجان نے دیکھ لیا اور دوسرے دن کہنے لگے کہ تم اگر ایک قدم اٹھاؤ گی تو دوسرے دس قدم اٹھائیں گے، تمہیں اس طرح نہیں جانا چاہئے تھا۔ حالانکہ اُس زمانہ میں وہ سڑک بالکل سنسان ہوتی تھی۔ نمازوں کے وقت کوئی اکا دکا نمازی اُدھر سے گزر جاتا۔
مجھے اباجان نے تیراکی، گھوڑے کی سواری اور نشانہ بازی بھی سکھائی۔ پارٹیشن کے وقت رتن باغ کی بات ہے کہ حضرت چھوٹی آپا بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل تھیں۔ اُن دنوں حضورؓ خود بھی بیمار تھے۔ ڈاکٹر نے آپؓ کو پاؤں دھونے سے منع کیا تھا مگر آپؓ وضو میں پاؤں دھوتے رہے اور اس وجہ سے تکلیف بڑھ گئی۔ پھر بچیوں کو بتلایا کہ مجھے ڈاکٹر نے پاؤں دھونے سے منع کیا تھا مگر میں اس خیال سے دھوتا رہا کہ کہیں تم کو پاؤں دھوئے بغیر وضو کی عادت نہ پڑ جائے۔ ابا جان کے سامنے اگر کوئی بچہ چھوٹی موٹی شرارت کرتا تو کن انکھیوں سے دیکھ کر مسکراتے رہتے۔ نقصان پر کبھی نہیں ڈانٹا بلکہ کہتے کہ بچہ ہے نقصان ہو بھی گیا تو کیا بات ہے۔
ایک بات کا میرے دل سے گہرا تعلق ہے۔ جب آپؓ درس دیتے وقت قرآن مجید کی تلاوت کررہے ہوتے تو میں روتی جاتی۔ یوں معلوم ہوتا کہ قرآن مجید کے الفاظ میرے دل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔
اپنی والدہ حضرت اُمّ ناصر صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضرت سیدہ موصوفہ نے بیان فرمایا کہ امی جان بچپن سے ہی صاف رہنے، سلیقہ سے کام کرنے اور جس جگہ سے چیز اٹھائی وہیں رکھنے کا کہتی رہتی تھیں۔ حضرت ابا جان کی باری کے دن کھانا پکانے میں صفائی کا جو خاص اہتمام ہوتا وہ بھی ہمارے سامنے تھا۔ اس طرح یہ تربیت بھی کی کہ کپڑے دھل کر آئیں تو پہلے مرمت کرو پھر بکسوں میں رکھو۔ رفو کرنا اور پیوند لگانا بھی میں نے امی جان سے ہی سیکھا تھا۔ آپؓ بڑی صابرہ و شاکرہ تھیں۔ تہجد گزار، نمازوں کو قائم کرنے والی قرآن مجید کی تلاوت کا شغف رکھتی تھیں۔ کئی مستورات کو اُنہوں نے قرآن مجید باترجمہ ختم کروایا۔
اباجان ہر ہفتے قرآن مجید کا جو درس عورتوں میں دیتے اس میں امی جان مجھے ساتھ لے کر جاتیں کیونکہ ان کو یہ خیال تھا کہ اگر میں ساتھ لے کر نہ گئی تو یہ جو عورتوں میں جانے سے گھبراتی ہے درس نہیں سنے گی۔
ابتدائی تعلیم کے حوالہ سے حضرت سیدہ موصوفہ نے فرمایا کہ استانی زینب صاحبہ نے قرآن مجید ختم کروایا اور اردو کی ابتدائی تعلیم دی۔ اس کے بعد لڑکیوں کے اسکول میں پانچویں تک پڑھا جس کی ہیڈمسٹریس استانی سکینۃ النساء اہلیہ قاضی اکمل صاحب تھیں۔ اُس کے بعد گھر میں پڑھائی ہوتی رہی۔
جماعتی کاموں کی ابتداء کے متعلق آپ نے بتایا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر دارالمسیح میں سب سے پہلے تقریباً دس سال کی عمر میں مَیں نے اور سیّدہ نصیرہ بیگم نے ایک کمرہ کی مہمان نوازی کی ہے۔ مہمان نواز کا کام مہمان کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا تھا۔ کھانے کا، پانی کا، روشنی کا یا اگر کوئی اور ضرورت ہوتی تو اُسے پورا کرنا۔ پھر اس کے بعد تین، چار کمروں کی مہمان نوازی سپرد کردی گئی۔ تین چار برس یہ کام کیا پھر منتظمہ روشنی، منتظمہ تقسیم کھانا، منتظمہ صفائی وغیرہ جو بھی کام سپرد کر دیا جاتا خوشی سے کرنے کو تیار تھی۔
سب سے مشکل کام صفائی کا تھا یعنی گندگی کی صفائی کروانا۔ خاص طور پر میری جیسی طبیعت کے لئے کراہت والا کام تھا مگر جب کام سپرد کیا گیا تو کرنا ہی پڑا۔ میں صبح کی نماز پڑھ کر اپنے آپ کو گرم کپڑوں میں لپیٹ کر نیچے اتر جاتی مگر وہاں جا کر جو صحن کی حالت دیکھتی تو ابکائیاں آنا شروع ہوجاتیں۔ جگہ جگہ بچوں کی غلاظت اور پھر کھانس کر تھوکی ہوئی گندگی پڑی ہوتی۔ اُس وقت کراہت کی وجہ سے میری آنکھوں میں پانی آجاتا مگر، قہرِدرویش برجان درویش، ذمہ داری تو ادا کرنی تھی۔ مہمانوں کو بہت سمجھاتی کہ اِس طرح گند نہ کریں، اتنی بڑی جگہ رفع حاجت کے لئے موجودہے بچوں کو وہاں لے جائیں مگر دیہاتی کہاں سنتے ہیں خاص طور پر ایک لڑکی کی۔ اس کے بعد شادی تک منتظمہ دارالمسیح رہی۔ شادی کے بعد پہلے سال نائبہ منتظمہ جلسہ گاہ کام کیا پھر منتظمہ نمائش، نائبہ منتظمہ اسٹیج کا بھی لمبا عرصہ کام کیا۔ معلوم نہیں منتظمہ اسٹیج کے طور پر نگران کی نظر مجھ پر ہی کیوں پڑتی تھی۔ لجنہ مرکزیہ کے بھی جلسہ ہوتے رہے کوئی نہ کوئی ڈیوٹی میرے سپرد کی جاتی رہی۔
لجنہ اماء اللہ کے کام کی ابتداء کے متعلق آپ فرماتی ہیں کہ لجنہ کے عہدیدار کی حیثیت سے کام شادی کے بعد کیا۔ شادی کے بعد مجھے دارالفضل، قادیان کا صدر منتخب کیا گیا تو اپنے علم اور استطاعت کے مطابق جتنا کام کر سکتی تھی کیا، پھر پارٹیشن ہوگئی۔ لاہور آکر ماڈل ٹاؤن میں تین چار ماہ بطور صدر کام کیا۔ پھر میں کراچی چلی گئی وہاں تقریباً چھ ماہ رہی۔ ماہ رمضان میں 10 روز تک درس بھی دیا۔ پھر حضرت اباجان کے پاس ایک ماہ کے لئے کوئٹہ چلی گئی۔
اس وقت ہمارے خاندان والے ربوہ کی کچی بیرکوں میں رہتے تھے میں نے ابّا جان کو لکھا کہ میرا کراچی میں جی نہیں لگتا ہے بلوا لیں۔ آپؓ نے بُلا لیا۔ کچی بیرکوں میں مجھے وہ سکون اور خوشی ہوئی جو کوٹھیوں میں نہیں ملتی۔ اپنے پیارے کچے کمروں میں سکون اور خوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے وہ دن اب بھی شدّت سے یاد آتے ہیں۔ کاش وہ لوٹ کر آ سکیں۔ جب لجنہ مقامی لجنہ مرکزیہ سے علیحدہ نہیں ہوئی تھی اُس وقت لجنہ مرکزیہ کی طرف سے منتظمہ صفائی حلقہ دارالصدر بھی نامزد کیا۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر صفائی کی تلقین کرتی۔ سلیقے سے چیز رکھنے کا طریقہ بتاتی۔
بحیثیت صدر لجنہ اپنے تجربہ سے متعلق آپ نے فرمایا: میں نے جتنا عرصہ لجنہ مقامی کا کام کیا ہے اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کی اُس حدیث (سَیِّدُالْقَوْمِ خَادِمُھُمْ) کے مطابق سمجھا ہے اور خدا کے فضل سے سب ممبرات نے تعاون بھی کیا۔ یہ تعاون صرف کام کا نہ تھا بلکہ اس میں وہ محبت بھی شامل تھی جو اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اﷲ تعالیٰ سے تھی۔ اُصول بھی بے شک ضروری چیز ہے مگر میں اُصولوں میں لچک پیدا کرنے کی قائل ہوں۔ اپنے ساتھ کام کرنے والی اپنا کُنبہ لگتی تھیں۔ ان میں بیٹھ کر مشورے وغیرہ کرنے یا ان کو کام کی ہدایات دینے میں دُونا مسرت ہوتی تھی۔ کبھی کسی حلقہ کی صدر یا شعبہ کی سیکرٹری کام میں سست ہوتی جیسا میں چاہتی ویسا کام نہ کرتی تو میں اس کے متعلق اُن سے بھی مشورہ مانگتی کہ آپ مجھے بتائیں کہ کس طرح آپ سے کام لیا جا ئے کہ جس سے کام کا معیار بلند ہو جس سے اُن کو شرمندگی بھی ہوتی اور خوشی بھی کہ اُن سے مشورہ لیا جا رہا ہے اور کام بھی ٹھیک ہو جاتا۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ کارکنات سے مسکراتے چہرے اور ہونٹوں سے بات کر کے اُن کے دلوں کو کام کے لئے تیارکیا جائے۔ میرے خیال میں غالباً یہی میرا طریقہ رہا ہے صدر کا لہجہ تھکا ہوا نہیں ہونا چاہیے۔
لجنہ کے کاموں میں بوقت ضرورت حضرت سیّدہ چھوٹی آپا سے رہنمائی حاصل کرتی رہی۔ اس کے علاوہ لجنہ کی ابتدائی ممبرات میں سب سے زیادہ رہنمائی سیّدہ ممانی جان (حضرت سیّدہ صالحہ بیگم صاحبہ حرم میر محمد اسحق صاحبؓ) سے ملی۔ اُنہوں نے مجھے اُبھارا اور کام کرنے کے لئے بُلاتی رہیں۔ سب سے زیادہ میں اُن سے متأثر رہی۔ اُن میں انانیت بالکل نہ تھی۔ دوسروں کو کام سکھانا، ہر مشکل کام میں رہنمائی کرنا، اور جب نتیجہ کا وقت آئے تو سکھلانے والے کا کوئی نام نہیں، دوسروں کے نام آگے کردیے جاتے۔ دن رات اَن تھک محنت کرنے والی خاتون تھیں۔ باوجود دائمی مریضہ ہونے کے سلسلہ کے کاموں میں اُن کی تکلیف حائل نہ تھی۔ اپنے نام کی طرح صالحہ بزرگ تھیں۔
قادیان کے عمومی ماحول کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سیدہ نے بیان فرمایا کہ قادیان میں عمومی ماحول بہت سادہ تھا۔ کپڑوں میں، رہن سہن میں، غریب سے غریب عورتیں گھر بہت ستھرا رکھتی تھیں ، سبزیاں وغیرہ لگا لیتی تھیں۔ چونکہ اکثر آبادی واقفین کی تھی اس لئے تھوڑی تنخواہ میں بہت اچھا رکھ رکھائو رکھتی تھیں۔
حضرت مصلح موعود ؓنے قادیان میں خواتین کی دینی اور دنیوی تعلیم کا خصوصی انتظام کروایا تھا۔ مَیں اس میں شامل تھی۔ اُس میں لڑکیوں کے پڑھنے والی سکول کا نام ’’مدرسۃ الخواتین‘‘ رکھا گیا تھا۔ اساتذہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ قرآن مجید اور تاریخ پڑھاتے تھے۔ حضرت سیّد ولی اﷲ شاہ صاحبؓ عربی اور حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ عربی ادب، باقی اساتذہ کے نام یاد نہیں رہے۔ مدرسۃ الخواتین کلاس بند ہو کر کچھ عرصہ بعد مولوی کلاس کھلوائی گئی جس میں صاحبزادی امۃ السلام بیگم بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بھی ہمارے ساتھ شامل تھیں اور وہ اُس امتحان میں پنجاب میں فرسٹ آئی تھیں۔
حضرت امّاں جان کی عادت تھی کہ صبح کی نماز و تلاوت اور ناشتہ کرنے کے بعد سیر کو نکل جاتیں۔ بعض واقف اور غریب خواتین کے گھروں میں جاکر دروازہ کھٹکھٹاتیں۔ جواب ملنے پر اندر تشریف لے جاتیں۔ حالات معلوم کرکے مشکلات اور پریشانیاں دُور کرنے کی کوشش کرتیں۔ گھر میں زیادہ وقت تسبیح و تحمید میں گزرتا یا نمازوں میں کبھی دن میں ایک دو بار باورچی خانے میں جا کر کھانے کی نگرانی کرتیں۔ کبھی خود بھی پکا لیتیں۔ ہم لڑکیوں سے اصلاحی ناولیں سنتیں اور ہماری اردو کی اصلاح کرتیں مثلاً ’’گودڑ ی کے لال‘‘۔
حضرت سیدہ موصوفہ کو سلائی و دستکاری میں خاص ملکہ حاصل ہے۔ آپ اس سلسلے میں بیان فرماتی ہیں کہ سلائی و دستکاری میں مجھے خاص ملکہ حاصل تو نہیں مگر یہ ہے کہ سلائی و دستکاری کا شوق رہا ہے۔ شادی سے پہلے کلیوں والے کپڑے اور فراک میں خود سیتی تھی۔ امی جان میرے سامنے لٹھے کے تھان رکھ دیا کرتی تھیں کہ اپنے بھائیوں کے پاجامے کاٹو اور سیو۔ اس سے ایک تو میرا ہاتھ صاف ہو گیا تھا دوسرے سلائی کرنے سے پیسوں کی بچت ہو تی تھی۔ سلیقے کی کئی قسمیں ہیں مثلاً سلائی کا سلیقہ ، کھانا پکانے کا سلیقہ جس طرح کھانا پکانے کے لئے سبزی کاٹی جائے تو کدّو اور شلجم کے چھلکے بھی کھانا پکانے کے کام آتے ہیںاس طرح پیاز کو سلیقے سے کاٹا جائے۔ کس طرح سلائی کے سلیقے میں کترنوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت مصلح موعود نے ہمیں دو مہینوں کے اندر 8 ہزار روئی کی صدری تیار کرنے کا حکم دیا۔ اس میں سب سے پہلا مرحلہ کٹائی کا تھا کیونکہ تھانوں کے تھان کٹ رہے تھے اس لئے بچا ہوا کپڑا کٹائی سے نکلا ہوا تقریباً من ڈیڑھ من ہو گیا تھا۔ میں نے کام کرنے والیوں سے کہا کہ جو اس کترنوں سے کام لے سکتی ہیں وہ ان کو لے جاسکتی ہیں پھر مجھے بتائیں کہ انہوں نے اس سے کیا کام لیا ہے۔ انہوں نے بڑی کترنوں کو جوڑ کر بڑی چادریں بنائیں بعض نے لحاف بنوائے۔ بعض نے روئی شامل کر کے دریاں بنوائیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک جدید کا اعلان فرمایا اور مطالبات رکھے تو اُن کے نتیجے میں قادیان کے احمدی گھرانوں میں ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں مثلاًسادہ لباس، سادہ رہن سہن وغیرہ کے متعلق فرماتی ہیں کہ: لباس فوراً سادہ کر دیا گیا۔ گوٹا کناری وغیرہ بند ہو گیا۔ پرانے گوٹا کناری والے کپڑے پہنے جاتے تھے لیکن نئے نہیں بنتے تھے۔ لیکن گھر سادہ اور صاف ہوتے تھے۔ صفائی میں کچھ خرچ نہ ہوتا تھا بلکہ صفائی گھر والے کے سلیقے کا اظہار کرتی تھی۔
میں نے اپنے گھروں میں شادیاں دیکھیں اُن میں رسم نہ دیکھی۔ سادہ ہی شادی ہوتی تھی۔ رونقیں وغیرہ نہیں ہوتی تھی جن میں خرچ ہو مثلاً کھانا یا چائے وغیرہ کا خاص اہتمام ہو۔ ہاں بچی کو تیار کر کے دلہن ضرور بنایا جاتا۔ بارات خاموشی سے دُعا پڑھتے ہوئے آتی اور دلہن کو لے کر رخصت ہو جاتی۔
اپنے بارہ میں حضرت سیدہ نے فرمایا کہ میں نے خدا کے فضل سے غالباً 12 سال کی عمر میں وصیت کی ہے حضرت ا بّا جان 10 روپے جیب خرچ دیتے تھے جس میں سے ایک روپیہ نکل جاتا تھا۔ کچھ زمین دیدی تھی اُس کی بھی وصیت دیتی تھی۔ وصیت کرنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کی عادت ہوجاتی ہے اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اﷲ کی راہ میں خرچ کریں۔
بطور صدر لجنہ مرکزیہ اور گھر کی ذمہ داری ادا کرنے میں توازن قائم رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: لجنہ کے کام میں وقت تو دیا مگر گھر کا کام بھی اُسی طرح کیا جس طرح گھر کی مالکہ کا فرض ہے۔ گھر کے کاموں میں کچھ نہ کچھ وقت تو خرچ ہوتا ہے مگر میں نے لجنہ کے کاموں کو متأثر نہ ہونے دیا۔ میری عادت ہمیشہ سے رہی کہ رات سونے سے پہلے اگلے دن کی کھانے کی پرچی لکھتی اور دن کے کاموں کے پروگرام بنالیتی تھی۔ اس سے کام کا بوجھ ہلکا ہو جاتا اور سوچنے کے لئے وقت دینے کی ضرورت نہ پڑتی‘‘۔
اللہ تعالیٰ اِس بابرکت وجود کو لمبی زندگی سے نوازے اور اِن کی خدمات دینیہ اور دعاؤں کو قبول فرماتا چلاجائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں